1. سَہ اقسام معنٰی کے اعتبار سے کلمہ کی تین قسمیں ہیں اسم ، فعل، حرف
انہی کو سہ اقسام کہتے ہیں ۔
اسم کی تعریف:
اسم کا معنے نشانی یا بلندی ہے ، اس سے مراد وہ کلمہ ہے جو دوسرے کلمے سے ملے بغیر اپنا معنی پر دلالت
کرے اور ماضی ، حال ، مستقبل میں سے کوئی زمانہ اس میں نہ پایا جائے ۔ جیسے کُرسِیٌ ) کرسی ( ف ر س )
گھوڑا( ورد ۃ ) گلاب کا پھول (
فعل کی تعریف ) : کام کرنا (
یہ وہ کلمہ ہے جو دوسرے کلمہ کے ساتھ ملے بغیر اپنے معنی پر دلالت کرے اور تینوں میں سے کوئی ایک زمانہ
اس میں پایا جائے جیسے ع لِ م ) اس نے جان لیا ( ی عل مُ ) وہ جانتا ہے یا جانے گا (
حرف کی تعریف: حرف ) طرف یا کنارہ ( یہ وہ کلمہ ہے جو اپنے معنی پر ظاہر کرنے میں دوسرے کلمہ ) اسم یا
فعل ( کا محتاج ہو جیسے ب )ساتھ( مِ ن )سے( الٰی )تک (
نوٹ :
اسم ، فعل ، اور حرف تینوں کی اکھٹی مثال یہ ہے ۔
ا ن ز ل اللہُ مِ ن السَّ ماءِ ماءً ) اللہ تعالٰی نے آسمان سے پانی برسایا ( ، و ضعتُ الق ل م فی الدّرجِ ) میں نے دراز میں قلم رکھا
)
اصل کے اعتبار سے اسم کی اقسام:
اسم کی تین اقسام ہیں : مصدر ، مشتق ، جامد
1۔ ۔ ۔ مصدر) نکلنے کی جگہ (
وہ اسم ہے کہ جو کسی کام کے ہونے پر دلالت کرے اور اس سے افعال اور اسماء مشتقہ بنائے جائیں اور اس کے
ترجمہ کے آخر میں ‘‘ نا ‘‘ اور فارسی میں ‘‘ د ن ‘‘ یا ‘‘ ت ن ‘‘ آئے ، جیسے ، ن صرٌ ) مدد کرنا ( شُربٌ ) پینا( ۔
2۔ ۔ ۔ مشتق) نکالا ہوا ( وہ اسم ہے جو مصدر سے اس طرح نکلے کہ اس کے اصلی حروف اور معنی باقی رہیں ،
صرف اس کی شکل نئی بن جائے جیسے مٹی سے برتن اور سونے اور چاندی سے زیورات بنائے جاتے ہیں جیسے
ع الِمٌ ) جاننے والا ( معلُومٌ ) جانا ہوا ( ۔ یہ لفظ عِلمٌ سے نکلے ہیں ۔
اس کی سات قسمیں ہیں ۔ 1 اسم فاعل ، 2 اسم مفعول ، 3 صفت مشبّہہ ، 4 اسم تفعیل ، 5 اسم مبالغہ ، 6 اسم آلہ ، 7
اسم ظرف ۔
3۔ ۔ ۔ جامد ) منجمد (
یہ وہ اسم ہے جو کسی دوسرے کلمہ سے نہ نکلا ہو اور نہ مصدر ہو جیسے ا لغُب ارُ ) گرد ( ا لغ صنُ )ٹہنی( زھ رۃ )
پھول کی ٹہنی(
شش اقسام کا بیان -:
شش اقسام سے مراد کلمہ کی وہ اقسام ہیں جو مادہ کے اعتبار سے ہوتی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
1- ثلاثی مجرد
2- ثلاثی مزید فیہ
3- رباعی مجرّد
4- رباعی مزید فیہ
5- خماسی مجرّد
6- خماسی مزید فیہ
ابتدائی طور پر مادہ کے اعتبار سے کلمہ تین طرح کا ہوتا ہے :
1- ثلاثی ) سہ حرفی( وہ کلمہ جس میں تین حروف اصلیہ ہوں جیسے ، ع لِ م ، ق ل مٌ
2- رباعی) چہار حرفی ( جس کلمہ کے چار حروف اصلیہ ہوں جیسے د ح ر ج ) اس نے لڑھکایا ( جعف ر ) کسی
شخص کا نام (
3- خماسی ) پانچ حرفی ( جس کلمہ کے پانچ حروف اصلیہ ہوں جیسے س ف ر جلٌ ) بہیدانہ (
مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں :
1ثلاثی مجرّد : جس میں تین حروف اصلیہ ہوں اور کوئی حرف زائد نہ ہو جیسے ز منٌ ، ک رُ م ۔ :
2ثلاثی مزید فیہ : جس میں تین حروف اصلیہ کے علاوہ کوئی حرف زائد بھی ہو جیسے زمانٌ ، ا ک ر م ، ان میں الف :
2. زائد ہے ۔
3رباعی مجرّد : جس میں صرف چار حروف اصلیہ ہوں جیسے د ح ر ج ، ث عل بٌ ) لومڑ ( :
4رباعی مزید فیہ : جس میں چار حروف اصلیہ کے علاوہ کوئی حرف زائد بھی ہو جیسے ت د ح ر ج ) لڑھکا ( قِندِ :
یلٌ ) شمع( ۔ ان میں ت اور ی زائد ہیں ۔
5خماسی مجرّد : جس میں پانچ حروف اصلیہ ہوں جیسے س ف ر جلٌ :
6خماسی مزید فیہ : جس میں پانچ حروف اصلیہ کے علاوہ کوئی حرف زائد بھی ہو جیسے خند رِیسٌ ) پرانی شراب :
( اس میں ی زائد ہے ۔
نوٹ -: مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ اسم کی چھ اقسام بنتی ہیں جن کو شش 6 اقسام کہتے ہیں اور
فعل کی صرف چار اقسام ہیں کیونکہ خماسی سے فعل کے صیغے نہیں بنتے ۔
حرف اصلی اور زائد کا فرق-:
جو حرف کلمہ کے تمام تغیرات میں قائم رہے وہ اصلی ، اور جو ایک ہی مادہ کے مختلف صیغوں میں قائم نہ رہے
وہ زائد ہوتا ہے جیسے ع لِ م ، ی عل مُ ، ع الِمٌ اور معلُومٌ ان میں ع ، ل ، اور م حروف اصلیہ ہیں اور ی الف اور واؤ زائدہ
ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔
فعل کی تقسیم کے کئی اعتبار ہیں-:
زمانہ کے اعتبار سے اس کی تین قسمیں ہیں ۔
1۔ ماضی
2۔ مضارع
3۔ امر
1۔ ماضی) -: گذرا ہوا( ماضی وہ فعل ہے جو کسی کام کے گزشتہ زمانہ میں واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے
جیسے ن ص ر ) اس نے مدد کی ( ، ع لِ م ) اس نے جان لیا ( ۔
2۔ مضارع -:وہ فعل ہے جو کسی کام کے زمانہ حال یا مستقبل میں واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے جیسے ی نصُرُ ) وہ
مدد کرتا ہے یا کرے گا ( ، ی ذھ بُ ) وہ جاتا ہے یا جائے گا (
3۔ امر) -:حکم دینا ( وہ فعل ہے جس کے ساتھ کسی کو زمانہ مستقبل میں کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے یا کسی سے
کام کرانے کی خواہش کی جاتی ہے جیسے انُصُر ) تو مدد کر ( ، لِی نصُر ) چاہئیے کہ وہ مدد کرے (
نوٹ!!!!!!!!!
نہی) روکنا( وہ فعل ہے جس کے ساتھ کسی کو زمانہ مستقبل میں کام کرنے سے روکا جاتا ہے جیسے لا ت نصُر ) تو
مدد مت کر (
نہی کوئی مستقل فعل نہیں بلکہ دو حقیقت وہ فعل مضارع ہے جس سے پہلے لائے نہی لگایا جاتا ہے جس کی وجہ
سے مضارع سے آخری حرف پر جزم آ جاتی ہے جیسے لا ت نصُر لا ی نصُر
-: نسبت کے اعتبار سے فعل کی تقسیم
۔ معروف اس لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں - 1 ۔
- مجہول ۔ 2
طالب ) ش رِ ب التٌ لَِمِیذُ مآ ءً وہ فعل ہے جس کا فاعل معلوم ہو اور اس کی نسبت فاعل کی طرف ہو جیسے -: معروف
زید گیا ( ۔ ) ذ ھ ب زیدٌ ( علم نے پانی پیا
‘‘ نائب فاعل‘‘ وہ فعل ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو اور اس میں فعل کی نسبت مفعول کی طرف ہو اسے مجہول ۔ 2
( پانی پیا گیا ) شُرِ ب مآءٌ کہتے ہیں جیسے
فعل ماضی کا بیان!
فعل ماضی کی دو قسمیں ہیں ۔
1۔ ماضی معروف
2۔ ماضی مجہول
ماضی معروف ! وہ فعل ہے جس کی نسبت زمانہ ماضی میں فاعل کی طرف ہو اور یہ ثلاثی مجرد سے مصدر کے
فاء کلمہ کو فتح ) زبر ( ، عین کلمہ کو کبھی فتحہ ، کبھی کسرہ ) ز یر( اور کبھی ضمہ )پیش( دینے اور لام کلمہ کو
3. تنوین کی جگہ فتحہ لگانے سے بنتا ہے جیسے:
ن صرٌ سے ن ص ر ،شُربٌ سے شِر ب،ش رفٌ سے ش رُ ف،
اس طرح ماضی معروف کے تین وزن ف ع ل ، ف عِ ل اور ف عُ ل آتے ہیں ، ہر ایک کی گردان الگ الگ ذکر کی جاتی ہے
!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ف ع ل )بفتحہء عین ( کی گردان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکر غائب
واحد: ف ع ل ) اس ایک مرد نے کیا(
مؤنث : ف ع لا ) ان دو مردوں نے کیا(
جمع : ف ع لُوا ) ان سب مردوں نے کیا(
مؤنث غائب
واحد : ف ع ل ت ) اس ایک عورت نے کیا (
مؤنث : ف ع ل ت ا ) ان دو عورتوں نے کیا (
جمع : ف ع ل ن ) ان سب عورتوں نے کیا (
مذکر مخاطب
(تو ایک مرد نے کیا ) ف ع ل ت : واحد
(تم دو مردوں نے کیا ) ف ع لت ما : مؤنث
(تم سب مردوں نے کیا ) ف ع لتمُ : جمع
مؤنث مخاطب
(تو ایک عورت نے کیا ) ف ع لتِ : واحد
(تم دو عورتوں نے کیا ) ف ع لت ما : مؤنث
(تم سب عورتوں نے کیا ) ف ع لتنُِّ : جمع
مذکر مؤنث متکلم
(میں ایک مرد یا عورت نے کیا ) ف ع لتُ : واحد
4. (ہم دو مردوں یا دو عورتوں یا سب مردو یا سب عورتو نے کیا ) ف ع لن ا: جمع
! نوٹ
ماضی کے صیغہ واحد مذکر کے ساتھ ضمائر مرفوعہ متصلہ ) الف تثنیہ ، واؤجمع ، ن ، ت ، تمُا ،تمُ ، تِ ، تمُا، تنُِّ
، تُ ، ن ا ، لگائی جاتی ہیں اور فعل کا صیغہ بدلتا رہتا ہے جیسے مذکورہ گردان سے ظاہر ہے اور یہی ضمیریں اس
فعل کا فاعل بنتی ہیں البتہ واحد مؤنث غائب کے صیغہ کے ساتھ ت ساکنہ لگادیتے ہیں جو علامت تانیث ہوتی ہے
جیسے : ف ع ل ت میں ت ضمیر ساکنہ ہے ۔
! درج ذیل مصادر سے ف ع ل کے وزن پر ماضی معروف کی گردان آتیں ہیں
۔ (۔ ف تحٌ ) کھولنا ( 2۔ ن صرٌ ) مدد کرنا( 3۔ ط لبٌ ) مانگنا( 4۔ غ سلٌ ) دھونا( 5۔ ضربٌ ) مارنا( 6۔ منعٌ ) روکنا 1
ماضی مجہول کا بیان!
یہ وہ فعل ہے جس کی نسبت زمانہ ماضی میں مفعول بہ کی طرف کی جاتی ہے ، اس مفعول کو نائب فاعل کہتے ہیں
جیسے سُمِ ع کِت ابٌ ) کتاب سنی گئی ( ثلاثی مجرد افعال سے اس طرح بنتا ہے ۔
بنانے کا طریقہ!
یہ ماضی معروف سے بنتا ہے اس طرح کہ ماضی معروف کے فاء کلمہ کو ضمّہ ، عین کلمہ کو کسرہ دیا جاتا ہے
اور لام کلمہ اپنی حالت پر رہتا ہے جیسے ن ص ر سے نُصِ ر ) وہ مدد کیا گیا( ، ش ر ب سے شُرِ ب ) وہ پیا گیا ( اور ف ت ح
سے فُتِ ح ) وہ کھولا گیا (۔
نوٹ!
فعل مجہول فعل متعّدی سے بنتا ہے فعل لازم سے نہیں بن سکتا کیونکہ فعل مجہول کی نسبت مفعول کی طرف کی
جاتی ہے اور لازم فعل کا مفعول نہیں ہوتا ۔ اگر لازم فعل سے فعل مجہول بنانا مقصود ہو تو مذکورہ قاعدے کے
مطابق فعل معروف سے مجہول بنا کر نائب فاعل سے پہلے حرف جر ‘‘ب‘‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے ذ ھ ب )
وہ گیا ( سے ذُھِ ب بِہ ، د خ ل سے دُخِ ل بِہ ۔
نائب فاعل کے بدلنے کے ساتھ فعل کا صیغہ تبدیل نہیں ہوتا ہمیشہ ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسے گردان سے ظاہر
ہوگا ۔
فعل مجہول کی گردان!
جیسے ف ع ل سے فُعِ ل
مذکر غائب!
واحد فُعِ ل ) وہ ایک مرد کیا گیا(
تثنیہ فُعِلا
جمع فُعِلُوا
مؤنث غائب!
واحد فُعِل ت ) وہ ایک عورت کی گئی(
تثنیہ فُعِل ت ا
جمع فُعِل ن
! مذکر مخاطب
فُعِل ت واحد
فُعِلت ما تثنیہ
فُعِلتمُ جمع
! مؤنث مخاطب
5. فُعِلتِ واحد
فُعِلت ما تثنیہ
فُعِلتنُِّ جمع
مذکر و مؤنث متکلّم
فُعِلتُ
فُعِلن ا
درج ذیل مصادر فعل متعّدی کے ہیں ، ان سے مذکورہ قاعدے کے مطابق گردانیں کی جاسکتی ہیں ۔
ن صرٌ ، ف تحٌ ، س معٌ ، شُربٌ ، ف ھمٌ ، ضربٌ ، عِلمٌ
فعل مضارع کا بیان
اس کی دو قسمیں ہیں ۔
مضارع معروف ۔ مضارع مجہول
مضارع معروف !
وہ فعل ہے جس کے واقع ہونے کی نسبت زمانہ حال یا مستقبل میں فاعل کی طرف کیجاتی ہے جیسے ، ی ر حمُ
)وہ مہربانی کرتا ہے یا کرے گا(۔
بنانے کا طریقہ :
یہ فعل ماضی معروف سے بنتا ہے اس طرح کہ ماضی معروف کے شروع میں حروف ا ت ی ن ) ا،ت،ی،ن( میں سے
ایک لگاتے ہیں ، ماضی کا پہلا حرف ساکن ہوجاتا ہے ،عین کلمہ پر فتحہ ،ضمّہ ،کسرہ تینوں حرکتیں آتی ہیں اور
لام کلمہ پر رفع آتا ہے جیسے :ف ع ل سے ی فع لُ ، جل س سے ی جلِسُ ،ش رُ ف سے ی شرُفُ ۔
نوٹ :
حروف اتین کو حروف مضارع اور علامت مضارع بھی کہتےہیں ۔
تفصیل حسب ذیل ہے-:
1۔ ی :
مضارع کے چار صیغوں سے پہلے آتی ہے ،تین مذکر غائب کے اور ایک جمع مؤنث غائب کا۔
2۔ ت:
آٹھ صیغوں سے پہلے آتی ہے ،دو )واحد ،تثنیہ ( مؤنث غائب کے اور چھ مذکّر اور مؤنث مخاطب کے ۔
3۔الف:
واحد متکلم کے ایک صیغہ سے پہلے آتا ہے ۔
4۔ ن:
جمع متکلم کے ایک صیغہ سے پہلے آتا ہے ۔
اعراب!!!
فعل مضارع ،اسم فاعل کےساتھ مشابہ ہونے کی وجہ سے معرب ہوتا ہے اور جب اس پر نصب اور جزم دینے والے
حروف داخل نہ ہوں تو یہ مرفوع ہوتا ہے ،تفصیل یہ ہے-:
1۔ پانچ صیغے )واحد مذکر غائب ، واحد مؤنث غائب ، واحد مذکر مخاطب ، واحد متکلم ، جمع متکلم ( مرفوع ہوتے
ہیں ۔
2۔ چار تثنیوں کے آخر میں نون مکسور اور جمع مذکر غائب ومخاطب اور واحد مؤنث مخاطب کے آخر میں نون
مفتوح آتا ہے اس کو نون اعرابی کہتے ہیں ۔ نون اعرابی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ واحد مذکر غائب کے رفع کے
عوض آتا ہے ۔
3۔ دو صیغوں )جمع مؤنث غائب اور جمع مؤنث مخاطب( کے آخر میں بھی نون مفتوح ہوتا ہے ،یہ نون ضمیر فاعل
ہے ،اسے نون ضمیر یا نون نسوہ کہتے ہیں اور یہ کسی حالت میں بھی مضارع کے آخر سے نہیں گرتا۔
ثلاثی مجرد فعل مضارع معروف مثبت کی گردان )ف ع ل ی فع لُ (۔
6. مذکر غائب
واحد : ی فع لُ ) وہ کرتا ہے یا کریگا(
تثنیہ : ی فع لانِ
جمع : ی فع لُو ن
مؤنث غائب
واحد : ت فع لُ ) وہ کرتی ہے یا کریگی(
تثنیہ : ت فع لانِ
جمع : ی فع ل ن
مذکر مخاطب
( تو کرتا ہے یا کریگا) ت فع لُ : واحد
ت فع لانِ : تثنیہ
ت فع لُو ن : جمع
مؤنث مخاطب
ت فع لِی ن : واحد
ت فع لانِ : تثنیہ
ت فع ل ن : جمع
متکّلم
(میں ایک مرد یا ایک عورت کرتا ہوں یا کرونگا) ا فع لُ
(ہم دو مرد دوعورتیں ،سب مرد یا سب عورتیں کرتے ہیں یا کرینگے) ن فع لُ
1ی فعِلُ کے وزن پرجیسے ) ض ر ب سے ی ضرِبُ( وہ مارتا ہے یا مارے گا( )
مذکر غائب
واحد : ی ضِربُ
تثنیہ : ی ضِرب انِ
جمع :ی ضربُو ن
مؤنث غائب
واحد : ت ضرِبُ
تثنیہ : ت ضربانِ
جمع : ی ضرب ن
مذکر مخاطب
ت ضربُ : واحد
ت ضربانِ : تثنیہ
7. تضربُو ن :جمع
مؤنث مخاطب
ت ضربی ن : واحد
ت ضربانِ : تثنیہ
ت ضرب ن : جمع
مذکّر مؤنث متکلّم
ا ضربُ
ن ضربُ
مضارع مجہول کا بیان!
مضارع مجہول وہ فعل ہے جس کے واقع ہونے کی نسبت زمانہ حال یا مستقبل میں مفعول بہ کی طرف کی جاتی
ہے، مفعول کو نائب فاعل بھی کہتے ہیں جیسے پانی پیا جاتا ہے ،کھانا کھایا جاتا ہے ،
اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ فعل مضارع معروف ثلاثی مجرد سے بنتا ہے اس طرح کہ علامت مضارع
یعنی حروف ا ت ی ن ) ا ، ت ، ی ، ن( کو ضمّہ اور عین کلمہ کو فتحہ دیا جاتا ہےاور لام کلمہ اپنی حالت پر قائم رہتا
ہے ی فع لُ سے یُفع لُ ) کیا جاتا ہے یا کیا جائے گا( ۔ ی نصُرُ سے یُن صرُ ) مدد کیا جاتا ہے یا کیا جائے گا (
گردان درج ذیل ہے!
یُفع لُ
یُفع لانِ
یُفع لُو ن
تفُع لُ
تفُع لانِ
یُفع ل ن
8. تفُع لُ
تفُع لانِ
تفُع لُو ن
تفُع لِی ن
تفُع لانِ
تفُع ل ن
افُع لُ
نُفع لُ
تغیّرات مضارع کا بیان
مضارع کا صیغہ زمانہ تغیّرات )تبدیلیاں ( سے مراد مضارع کے صیغہ میں لفظی اور معنوی تبدیلیاں ہیں کیونکہ
حال اور مستقبل دونوں میں مشترک ہوتا ہے ۔
، اس کے پانچ صیغے مرفوع ہوتے ہیں 2
، سات صیغوں کے آخر میں نون اعرابی ہوتا ہے ۔ 3
، جمع مؤنث غائب اور جمع مؤنث مخاطب کے آخر میں نون ضمیری ہوتا ہے مگر اس سے پہلے بعض حروف 4
کے داخل ہونے سے اس کے لفظوں اور معنوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے ، اس تبدیلی کو تغیرات مضارع
-: ، تفصیل حسب ذیل ہے کہتےہیں
نوٹ : مضارع پر داخل ہونے والے حروف اس میں دو قسم کی تبدیلی پیدا کرتے ہیں ۔
، معنوی 2، اور معنوی 1
معنوی تبدیلی ۔
وہ حروف جو صرف مضارع کے معنوں میں تبدیلی کرتے ہیں ۔ چار ہیں ۔
، لام مفتوح 2، س 3، س و ف 4، لا 1
اِ (وہ البتہّ کھولتا ہے ) ل ی فت حُ یہ مضارع پر آتا ہے اور اسے زمانہ حال کے ساتھ خاص کردیتا ہے جیسے : ل مفتوح
بے شک وہ مجھے غم میں ڈالتا ہے (۔ ) نِّی ل ی حزُنُنِی
وہ ابھی جان لے گا (۔ ) س ی عل مُ یہ مضارع کو مستقبل قریب کے ساتھ خاص کردیتا ہے جیسے : س
وہ تھوڑی دیر میں جان لیں گے ) س و ف ی عل مُو ن یہ مضارع کو مستقبل بعید کے ساتھ خاص کردیتا ہے جیسے : س و ف
( ۔
وہ داخل نہیں ہوگا(۔ ) لا ی د خُلُ یہ مضارع کو مستقبل منفی کے معنوں میں کردیتا ہے جیسے : لا
: لفظی و معنوی تبدیلی
: تین قسم کے حروف مضارع میں لفظی و معنوی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں
، حروف نواصب 2، حروف جوازم 3، نون تاکید 1
پہلی دو قسمیں تنہا اور نون تاکید دوسرے حرف کے ساتھ مل کر تبدیلی کرتا ہے ۔
۔ ا ن ، ل ن ،ک ی ، اِذ ن نصب دینے والے حروف ( یہ حروف تعداد میں چار ہیں ، ) : حروف نواصب
! لفظی تبدیلی
9. -: حروف ناصبہ درج ذیل لفظی تبدیلی کرتے ہیں
۔ ل ن یِّنصُ ر ، ل ن ت نصُ ر ۔ یہ حروف مضارع کے پانچ مرفوع صیغوں کو نصب دیتے ہیں جیسے 1
ل ن یِّنصُ را ، ل ن یِّنصُرُوا ۔ ، سات صیغوں کے آخر سے نون اعرابی گرادیتے ہیں جیسے 2
۔ ل ن یِّفع ل ن ، نون ضمیری میں کچھ عمل نہیں کرتے جیسے 3
، اگر مضارع کے آخر میں حرف علّت )و ، ا ، ی(ہو تو ان کو نہیں گراتے البتہ اگر و ، ی ہو تو نصب ظاہر ہوتی 4
ل ن یِّدعُ و ، ل ن یِّرمِ ی ، ل ن یِّر ضٰی۔ ہے اور اگر آخر میں ا ہو تو نصب تقدیری ہوتی ہے جیسے
: معنوی تبدیلی
-: معنوی تبدیلی حسب ذیل ہیں
یہ مضارع کو مصدر کے معنٰی میں کر دیتا ہے اور مستقبل کے ساتھ خاص کردیتا ہے اس ا ن کو ا ن : (ا ن )کہ ، 1
مصدر اس کا میری مدد کرنا ( اس ا ن اور فعل کے مجموعہ کو ) ا ن یِّنصُ رنِی مصدریہ کہتے ہیں ۔ جیسے
کہتے ہیں ۔ مُؤوِّل
یہ مضارع میں نفی کی تاکید کا معنی پیدا کردیتا ہے اور اسے مستقبل کے ساتھ خاص کردیتا : ( ل ن )ہرگز نہیں ، 2
(۔۔۔۔۔۔۔)وہ ہرگز میری مدد نہیں کریگا ل ن ینصُرنی ہے ، اس کو نفی تاکید ب لن کہتے ہیں جیسے
یہ مضارع کو مستقبل کے ساتھ خاص کردیتا ہے اور اس کا ماقبل اس کے مابعد کا سبب ہوتا ہے : (ک ی )تاکہ ، 3
( میں اسلام لایا تا کہ جنت میں داخل ہوں) ا سل متُ ک ی ا دخُ ل ال جنۃ جیسے
یہ مضارع کو مستقبل کے ساتھ خاص کردیتا ہے اور اس کا مابعد کسی سوال کا جواب ہوتا ہے : (اِذ ن ) پھر یا تب ، 4
تو اسلام لا ،تب جنت میں داخل ہوگا (۔ )ا سلِم اِذ ن ت دخُ ل ال جنِّ ۃ جیسے
( حروف جوازم ) جزم دینے والے حروف
: ان سے مراد وہ حروف ہیں جو مضارع کے آخر کو جزم دیتے ہیں اور یہ پانچ حروف ہیں
۔ ل م ، ل مِّا ، لام امر ، لا نہی ، اِن شرطیہ
یہ حروف مضارع پر داخل ہو کر دو قسم کی تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔
، لفظی 2، معنوی 1
-: حروف جازمہ سے درج ذیل لفظی تبدیلیاں آتی ہیں : لفظی تبدیلی
- ل م ت فع ل ، ل م ی فع ل ، یہ مضارع کے پانچ صیغوں کو جزم دیتے ہیں جیسے 1
ل م ی فع لا ، ل م ی فع لُوا ، سات صیغوں کے آخر سے نون اعرابی گرادیتے ہیں جیسے 2
۔ ل م ی فع ل ن ،ل م ت فع ل ن ، نون ضمیری میں کچھ عمل نہیں کرتے جیسے 3
ی دعُو سے ل م ی دعُ ۔ی رمِی ، اگر وہ واحد کے صیغے کے آخر میں حرف علّت ہو تو اسے بھی گرا دیتے ہیں جیسے 4
- سے ل م ی رمِ ۔ی رضٰی سے ل م ی ر ض
معنوی تبدیلی
-: حسب ذیل ہے
ل م کہا جاتا ہے جیسے نفی جحد ب ل م ؛ یہ مضارع کو ماضی منفی کے معنٰی میں کردیتا ہے اور اسے ، لم 1
انہوں نے مدد نہ کی(۔) ی نصُرُوا
اس نے ابھی ) ل مِّا ی نصُر ؛یہ بھی مضارع کو ماضی منفی کے معنٰے میں کردیتا ہے جیسے( ل مِّا )ابھی تک نہیں ، 2
تک مدد نہیں کی(۔
ل م اورل مِّا دونوں مضارع کو ماضی منفی کے معنٰی میں کرتے ہیں مگر ان کی نفی میں فرق یہ ہے ل مِّا کی نفی ! نوٹ
ل مِّا ی نصُر )اس نے ابھی تک مدد نہیں تمام زمانہ ماضی کو ،گفتگو کرنے کے زمانہ تک شامل ہوتی ہے جیسے
۔(ل م ی نصُر کا معنی ہوگا )اس نے مدد نہ کی جبکہ ل م کی نفی تمام ماضی کو شامل نہیں ہوتی جیسے (کی
: ،لام امر 3
یہ لام مکسور ہوتا ہے ، یہ فعل مضارع پر داخل ہو کر اسکو زمانہ مستقبل میں کسی کام کی طلب کے کے معنی میں
چاہئے کہ وہ داخل ہو ( اور اگر اس لام سے پہلے واؤ یا ) لِی دخُل ،( چاہئے کہ وہ مدد کرے) لِی نصُر کردیتا ہے جیسے
چاہئے کہ وہ داخل ہو ،اور اگر اس لام سے پہلے واؤ یا ف آجائے ) ولی دخُل ف آجائے تو لام ساکن ہو جاتا ہے جیسے
۔ ولی دخُل ،ف لی نصُ ر تو لام ساکن ہو جاتا ہے جیسے
تو ) لا ت نصُر یہ مضارع کو زمانہ مستقبل میں کسی کام کے ترک کرنے کے معنٰی میں کردیتا ہے جیسے : لا ن ھی ، 4
10. وہ مدد نہ مرے (۔) ،لا ی نصُر ( مدد مت کر
!(اِن شرطیہ )اگر ، 5
یہ فعل مضارع کے دو صیغوں پر داخل ہوتا ہے دونوں کے آخر کو جزم دیتا ہے ، ان کو مستقبل کے ساتھ خاص
ان کردیتا ہے ،پہلا فعل دوسرے فعل کا سبب ہوتا ہے ،پہلے فعل کو شرط اور دوسرے کو جزاء کہتے ہیں جیسے
اگر تو مدد کریگا تو میں مدد کرونگا ۔ تنصُر انصُر
! نون تاکید کا بیان
! تعریف
یہ نون مضارع کے آخر میں آتا ہے اور اس کے آنے سے مضارع سے پہلے لام مفتوح یا امِّا آجاتا ہے ،یہ اس کے
معنٰی میں تاکید پیدا کرتا ہے ،اور اسے زمانہ مستقبل کےساتھ خاص کردیتا ہے اور اس کے آنے سے مضارع کے
اس ی فع لُ سے ل ی فع ل نِّ ) وہ ضرور کرے گا(، اِمِّا ی بلُغ نِّ )وہ ضرور پہنچے گا(۔ آخری حرف پر فتحہ آجاتا ہے جیسے
۔ نون ثقیلہ جو مشدّد ہوتا ہے ، 2 نون 1 کو مضارع مؤکّد بلام تاکید و نون تاکید کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں
خفیفہ جو ساکن ہوتا ہے۔
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
! نون ثقیلہ کے احکام
، یہ نون مشدّد ہوتا ہے ۔ 1
، مضارع کے چودہ صیغوں کے آخر میں آتا ہے ،سات صیغوں کے آخر سے نون اعرابی گرا دیا جاتا ہے 2
ل ی فع لانِّ جیسے
ی فع لُو ن سے ل ی فع لُنِّ۔ ، جمع مذکّر غائب اور جمع مذکّر مخاطب کے آخر سے واؤ جمع بھی گر جاتی ہے جیسے 3
۔ ل ت فع لِنِّ ، واحد مؤنث مخاطب کے آخر سے ی بھی گرجاتی ہے جیسے 4
، جمع مؤنث غائب اور جمع مؤنث مخاطب کے نون ضمیری کے پیچھے اور نون ثقیلہ سے پہلے الف ساکن کا 5
اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ نون ضمیری اور نون ثقیلہ کے جمع ہونے سے ثقل واقع نہ ہو کیونکہ نون ثقیلہ دو نُونوں کے
۔ ل ی فع لن انِّ قائم مقام ہوتا ہے جیسے
، اگر صیغہ واحد کے آخر میں حرف علّت واؤ یا ی ہو تو وہ قائم رہتے ہیں جیسے ل یدعُ ونِّ ، ل ی ر مِی نِّ ، اگر آخر میں 6
۔ ی رضٰی سے ل ی ر ضی نِّ حرف علّت الف ہو تو ی میں تبدیل ہوجاتا ہے جیسے
! نون ثقیلہ کے ماقبل کا اعراب
،مرفوع پانچ صیغوں میں نون ثقیلہ کا ماقبل مفتوح ہوتا ہے ۔ 1
، چھ صیغوں )چار تثنیہ ، اور جمع مؤنث غائب اور جمع مؤنث مخاطب ( کے آخر میں نون ثقیلہ سے پہلے الف 2
ساکن ہوتا ہے ۔
، جمع مذکّر غائب اور جمع مذکّر مخاطب میں اس کا ماقبل مضموم اور واحد مؤنث مخاطب میں مکسور ہوتا ہے ۔ 3
نوٹ ! اگر نون ثقیلہ سے قبل الف ہو تو خود نون ثقیلہ مکسور ہوتا ہے اور باقی صیغوں میں مفتوح ۔
!مضارع مؤکّد بلام تاکید و نون ثقیلہ معروف کی گردان
ل ی فع ل نِّ
ل ی فع لانِ
ل ی فع لُنِّ
ل ت فع ل نِّ
ل ت فع لانِّ
ل ی فع لن انِ
ل ت فع ل نِّ
ل ت فع لانِّ
ل ت فع لُنِّ
ل ت فع لِنِّ
ل ت فع لانِّ
11. ل ت فع لن انِ
لا فع ل نِّ
ل ن فع ل نِّ
!مضارع مؤکّد بلام تاکید و نون ثقیلہ مجہول کی گردان
ل یُفع ل نِّ
ل یُفع لانِ
ل یُفع لُنِّ
ل تفُع ل نِّ
ل تفُع لانِّ
ل یُفع لن انِ
ل تفُع ل نِّ
ل تفُع لانِّ
ل تفُع لُنِّ
ل تفُع لِنِّ
ل تفُع لانِّ
ل تفُع لن انِ
لاُ فع ل نِّ
ل نُفع ل نِّ
! نون خفیفہ کے احکام
یہ نون مضارع کے ان صیغوں کے آخر میں آتا ہے جن میں نون ثقیلہ سے پہلے الف ساکن نہیں ہوتا کیونکہ نون
خفیفہ بھی ساکن اور الف بھی ساکن اور دو ساکنوں کا اجتماع جائز نہیں ، باقی تمام احکام میں یہ نون ثقیلہ جیسا ہوتا
ہے وہ آٹھ صیغے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔
! نون خفیفہ معروف کی گردان
ل ی فع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل ی فع لُن
ل ت فع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل ت فع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل ت فع لُن
ل ت فع لِن
12. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لا فع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل ن فع ل ن
تثنیہ اور جمع مؤنث کے صیغے نہیں آئینگے ۔
! نون خفیفہ مجہول کی گردان
ل یُفع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل یُفع لُن
ل تُفع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل تُفع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل تُفع لُن
ل تُفع لِن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاُ فع ل ن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ل نُفع ل ن
! نوٹ
ہے وہ یہ ہیں ۔ واجب یا جائز وہ افعال جن کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کے ساتھ مؤکّد کرنا
، فعل مضارع جب جواب قسم ہو ،مستقبل کے معنے پردلالت کرتا ہو ،لام تاکید اور مضارع کے درمیان فاصلہ نہ 1
واللہ ل ی نصُ رنّ الک ر یمُ ال مظ لُو م ، واللہ لا ہو ،مثبت ہو منفی نہ ہو تو اسے نون تاکید سے مؤکّد کرنا واجب ہے جیسے
۔ نصُ رنِّ ال مظلُو م
اِمِّا ، جب فعل مضارع سے پہلے ما ، اِن شرطیہ میں مدغم ہوکر داخل ہوتو مضارع کی تاکید جائز ہے جیسے 2
۔ تسُ افِ رنِّ یا اِمِّا تسُ افِر
، جب فعل مضارع سے پہلے لام امر ،لائے نہی ، حرف استفہام ،عرض تخضیض اور حرف تمنّی میں سے کوئی 3
13. وغیرہ ۔ لِی ر ح منِّ یا لِی ر حم آجائے تو تاکید جائز ہے جیسے
۔ انُصُ رنِّ یا انُصُر ، امر حاضر کی تاکید بھی نون ثقیلہ سے جائز ہے جیسے 4
، عموما فعل ماضی کو نون تاکید سے مؤکّد نہیں کیا جاتا مگر کبھی اس کی تاکید بھی آنا ثابت ہے جیسے حدیث 5
۔ اس مثال میں ا د رک نِّ ف اِمِّا ا د رک نِّ مِنکُمُ الدِّجِّالُ پاک میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے
اصل میں ا د ر ک تھا ۔
فعل امر کی بحث
!!! تعریف
فعل امر وہ فعل ہے جس کے ساتھ کسی کو زمانہ مستقبل میں کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے یا مستقبل میں اس سے
کام کرنیکی خواہش کی جاتی ہے جیسے انُصُر ) تو مدد کر( لِی نصُر )چاہئے کہ وہ مدد کرے ( امر معروف کی دو
قسمیں ہیں ۔
، امر حاضر معروف 1
، امر غائب ومتکلّم معروف 2
! امر حاضر معروف
امر حاضر معروف کے چھ صیغے ہوتے ہیں جو مضارع حاضر معروف کے چھ صیغوں سے بنتے ہیں بنانے کا
طریقہ حسب ذیل ہے ۔
، علامت مضارع کو حذف کردیں اور پھر دیکھیں اگر علامت مضارع کا مابعد متحرّک ہے تو آخر کو جزم دیں 1
۔ جیسے ت ھبُ سے ھ ب ، ت عِدُ سے عِد ، ت زِنُ سے ز ن
، اگر علامت مضارع کا مابعد ساکن ہو تو ابتدا میں ہمزہ وصلی لگا دیں اور آخر کو جزم دیں اور عین کلمہ کو 2
دیکھیں اگر مضموم ہو تو ہمزہ وصلی مضموم ہوگا جیسے ت نصُرُ سے انُصُر اور اگر عین کلمہ مکسور یا مفتوح ہو تو
ہمزہ وصلی مکسور ہوگا جیسے ت س معُ سے اِس مع ،ت عر فُ سے اِعر ف ۔
، واحد مؤنث مخاطب ،تثنیہ اور جمع کے صیغوں 3
نون اعرابی گر جاتا ہے جیسے ت س مع انِ سے اِس مع ا ، ت نصُرو ن سے انُصُروا ۔
، نون ضمیری اپنی حالت پر قائم رہتا ہے جیسے ت نصُر ن سے انُصُر ن ۔ 4
، اگر مضارع کے واحد کے صیغے کے آخر میں حرف علت ہو تو گر جاتا ہے جیسے ت دعُو سے ادُعُ ، ت رضٰ ی 5
سے اِر ض ،ت رمِی سے اِرمِ ۔
امر غائب و متکلّم معروف ۔
امر غائب ومتکلّم معروف کے آٹھ صیغے ہوتے ہیں ،بنانے کا طریقہ یہ ہے ،
مضارع غائب و متکلّم معروف کے آٹھ صیغوں کے پہلے لام امر لگانے اور آخری حرف کو جزم دینے سے بنتا ہے
جیسے ی نصُرُ سے لِی نصُر ، ا نصُرُ سے لانصُر ۔
واحد کے صیغوں کے آخر میں حرف علت ہوتو وہ بھی گرجاتا ہے جیسے ی دعُو سے لِی دعُ ، ی رمِی سے لِی رمِ ۔
، نون اعرابی گرجاتا ہے ۔ 3
، نون ضمیری اپنی حالت پر قائم رہتا ہے ۔ 4
امر مجہول
امر مجہول کے چودہ صیغے ہوتے ہیں اور مضارع مجہول سے پہلے لام امر لگانے سے بن جاتے ہیں جیسے
یُن صرُ سے لِیُن صر ، تنُ صرُ سے لِتنُ صر ۔
نون تاکید ۔
امر مجہول ہو یا معروف اس کے آخر میں نون تاکید ثقیلہ اور خفیفہ لاحق ہوتے ہیں جیسے انُصُر سے انُصُ ر نَّ ،
لِی نصُر سے لِی نصُ رنَّ وغیرہ ۔
نوٹ ۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ معلوم ہوا کہ امر حاضر معروف کے پہلے لام مکسور نہیں ہوتا جبکہ امر غائب و متکلّم
معروف اور امر مجہول کے پہلے لام مکسور آتا ہے ۔
کوفیوں کے نزدیک امر حاضر معروف ہو یا امر غائب ومتکلّم اس کے پہلے لفظا یا تقدیرا لام امر کا ہونا ضروری
ہے جیسے اللہ تعالٰی فرماتا ہے ولِت ف رحُ وا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے لِتاخُذُوا م صا فَّکُم
)اپنی صفوں کو لازم پکڑو (۔