Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
13. ôóíêö ch(íàò m;n) íàò ó; õýðýâ n=1 áîë õýðýâ m ‡ 0 and m 1 =0 áîë y:=1 ýñâýë y:=0 ýñâýë ó:ch(m,n-1) õýðýâ m=t n
14. áîë ó:1+ y ýñâýë õýðýâ m > t n áîë y:=y+ ch(m-t n , n) áóö(y); m òºãðºãèéí t1 äýâñãýðýýð çàäàëæ ÷àäàõ ýñýõèéã øàëãàõäàà äàâõàð m ‡ 0 íºõöëèéã ýíä äàâõàð øàëãàæ áàéãàà þì.