More Related Content
More from Noaman Akbar (20)
9002-12.docx
- 1. ANS 01
نہیںحاصل حیثیت سرکاری کو زبان اس چہ اگر ہے۔ زبان ثقافتی اور علمی،قومی کی پاکستان اردو
اردو ہے۔وسعت بڑی میں دامن کے اس اور ہے تاریخ اپنی کی اس ہے۔ زبان جامع بڑی یہ تاہم ہے
مطابق کے دوشمار اعداد کے یونیسکو ہے۔ ہوتا میں زبانوں بڑی کی دنیا بھی شمار کا زبان
طور عام
اور ہے زبان بڑی تیسری بعدیہ کے انگریزی اور چینی میں زبانوں والی جانے سمجھی اور بولی پر
دوسرے کے دنیا اور ہند و پاک برصغیر کیونکہ ۔ ہے زبان بڑیدوسری کی دنیا سے حیثیت کی رابطے
میں خطوں
۸۰
کرت استعمال سے حیثیت کی زبان کی رابطے اسے افراد زیادہ سے کروڑ
اردو ۔ ہیں ے
کے امریکہ اور افریقہ جنوبی ، بازاروں کے یورپ اور وسطی مشرق سے بندرگاہوں کی بعیدمشرق
یہ ہیں۔ جاتے مل والے سمجھنے اور بولنے اردو جگہ ہر یہاں ہے۔مقبول یکساں میں شہروں متعدد
ہے۔ ذریعہ دار جان کا اظہار اور اظہار جاندار ایک زبان
عا تو کو زبان اردو
شدہ تسلیم یہ ہے۔ جاتا کیا تسلیم زبانکی رابطے ہی سے صدی سولہویں پر طور م
کی زباناردو ہوئی۔ سے واسطے کے زبان فارسی میں مغلیہ عہد توسیع کی رابطے اس کہ ہے امر
عظیم دو جیسی فارسی اور عربی یہ ہے۔ حصہ کا بولیوںجدید اور قدیم کی برصغیر پورے میں ساخت
ب اور زبانوں
کی دنیا سے اعتبار کے صوتیات اور لغت ، والی بننے کر مل سے بولیوں تمام کی رصغیر
ہے۔ زبان ترین ممتاز سے لحاظ کے عام قبول اور بڑی سے سب
لسانیمعمولی غیر زبان یہ ہے۔ رکھتی مزاج االقوامی بین میں ساخت اپنی اور ہے زبانزندہ ایک اردو
ہ بنیادکی اس ہے۔ نام کا مفاہمت
بین گویا اردو ہے۔ گئی رکھی پر اشتراک کے زبانوں مختلف ی
ہے انجمن ایک کی زبانوںاالقوامی
۲
ہے االرض لسان ایک ۔
۳
و عام دروازے کے شرکت میں جس
عربی ، ترکی ًالمث زبانوں مختلف میں اردو ۔ ہیں ہوئے کھلے یکساں پر الفاظ کے زبان ہر خاص
، چینی ،اطالوی ،پرتگالی ، فارسی
ہندی بھاشایا اور بولیوں مقامی اور سنسکرت ،یونانی ، انگریزی
ہیں۔ گئے لیے سے
میں ان ہیں گئے ہو شامل میں الفاظ ذخیرۂ کے اردو راست براہ الفاظ جو سے زبانوں غیر
۴
۷۵۸۴ ،کے عربی الفاظ
۶۰۴۱
،کے فارسی الفاظ
۱۰۵
اور کے عبرانی الفاظ گیارہ ،کے ترکی الفاظ
س الفاظ سات
ایک اور ،سو پانچ کے انگریزی سے میں زبانوں یورپی کہ یہ مزید ہیں۔ کے زبان ریانی
ہسپانوی اور ، پرتگالی،فرانسیسی ، الطینی ،یونانی ، زبانوں یورپی مختلف جو ہیں ایسے ترپنسو
۔ ہیں گئے لیے مستعار سے زبانوں
سامی ، فیصد سواتین تناسب کا الفاظ دیسی اصل شامل میں اردو
الفاظ کے زبان ترکی اور ،فارسی ،
- 2. ًاتقریب
۲۵
لگایااندازہ سے جائزے اس ہے۔ صد فی ایک صرف تناسب کا الفاظ یورپی اور صد فی
یافارسی ،عربی صرف نہ میں اس ہے۔ زبان حامل کی مزاج االقوامی بین ایک اردو کہ ہے جاسکتا
ز ہر اور قوم ہر کی دنیا بلکہ ہیں الفاظ کے بولیوں مقامی
وجہ یہی ۔ ہیں شامل بیش و کم الفاظ کے بان
صورت بلکہ ،ہے نہیں مقلد کی زبانکسی وہ لیکن ہے رنگارنگی اور لچک میں مزاج کے اردو کہ ہے
ہے۔رکھتی حیثیت کی زبانمستقل اور الگ ایک اپنی سے اعتبار کے دونوں سیرت اور
سب کے سب وہ ہیںشامل میں اردو الفاظ جو کے زبانوں غیر
میں صورتوں اور معنوں صلی اپنے
اردو ۔ ہے گئی بدل نوعیت کی استعمال اور امال ،تلفظ،معنی کے الفاظ سے بہت بلکہ نہیںموجود
حیثیت جداگانہ اپنی سے لحاظ کے افادیت اور صناعی ،رعنائی اپنی باوجود کے ہونے زبان مخلوط
زدوسری کو سیرت اور مزاج ، ساخت اپنی نے اس ہے۔رکھتی
ظاہری ہی ان کیا۔ نہیں تابع کے بانوں
ہے۔ جاتی کی شمار میں زبانوں اہم کی دنیا یہ سے اعتبار کے محاسن اور خصوصیات ومعنوی
’’ جاتا کیا وضع نظام مربوط جو لیے کے النے تحریرمیں کوضبط کلمات اور آوازوں کی زبانکسی
ای نزدیک کے لسانیات علمائے ۔ ہیں کہتے الخط رسم اسے ہے
ضروری لیے کے الخط رسم اچھے ک
ادا پر طور واضح کو آواز اس جو ہو نشانمخصوص ایک لیے کے آواز ہر کی زبان میں اس کہ ہے
سہل سے لحاظ عملی اور نظر جاذب سے لحاظ کے صورت کی الخط رسم وہ دوسرے اور سکے کر
ہو
( ‘‘
۵ )
کرتا نمائندگیکی آوازوں مروج ساری کی زبان الخط رسم اردو
لحاظ کے بناوٹ حروف کے اردو ہے۔
پر بناء کی بناوٹ کی الفاظ اپنے زباناردو ۔ ہیں کم بہت سے اعتبار کے اشکال اور سادہ حددرجہ سے
ہے۔ زبان ترین آسان سے حوالے کے سیکھنے اور پڑھنے ، لکھنے میں مقابلہ کے زبان ہرکی دنیا
پناہ بے کی جذب و اخذ میں زباناردو عالوہ کے اس
اس ہے۔ زبان بالذات قائم ایک یہ ہے۔ صالحیت
مزاج کے اس لفظ وہ اگر ہے۔ لیتی لے الفاظ مطلب مفید سے زبانوںدوسری کہ ہے صالحیت یہ میں
لیتی بنا آہنگ ہم کو اس تو ہے نہیںآہنگ ہم اگر اور ہےدیتی رہنے توں کا جوں تو ہے آہنگ ہم کے
زب القلب وسیع میں مزاج اپنے اردو ہے۔
ہے۔ ان
کی سازی الفاظ کی اس انحصار کا ترقی کی زبانکسی ہے۔ گنجائش بھی کی سازی الفاظ میں اردو
اندازے ایک ۔ ہےموجود اتم بدرجہ صالحیت یہ میں اردو ۔ ہے ہوتا پر قوت کی برتنے انھیں اور اہلیت
تعد کی لفظوں والے ہونے استعمال پر طور عام میں زبان اردو وقت اس مطابق کے
سے الکھ تیناد
اور کسی ًاغالب عالوہ کے انگریزی ذخیرہ بڑا اتنا کا الفاظ ہے۔عالوہ کے ان الفاظ اصطالحی ہے۔ زیادہ
اصالحات سے حیثیت اس اور ہے زبان حامل کی مزاج االقوامی بین چونکہ اور ہے۔ نہیں میں زبان
ہے۔سکتی کر استفادہ یکساںسے کوششوں عالمیکی سازی
زبان اردو
رکھتی بھی پہلو ثقافتی اور تہذیبی ایک اندر اپنے عالوہ کے افادیت اور مفاہمت لسانی اپنی
وسعت میں اردو ۔ ہے زبان باثروت بڑی سے اعتبار کے سرمائے دینی اور ادبی ، علمی اپنے یہ ہے۔
دینو اور دینی ہے۔بھی عمیق ہی اتنی ہے وسیع جتنی یہ ہے۔موجود طاقت پناہ بے کی پذیری
علوم ی
ہماری زبان اردو ۔ ہے اندازہ بے گنجائش کی اس بھی پھر ہے۔ ہوئے سموئے اندر اپنے کو فنون و
لیکن ہے عمر کم یہ اگرچہ میں مقابلے کے زبانوںقدیم کی دنیا ۔ ہے دار آےئنہ کی ثقافت و تہذیب
زباناردو ہے۔ بھاری پر زبانوںسینکڑوں پلہ کا اس سے حیثیت لسانی اور ادبی
و تہذیب ہماری میں
جانشین کا قوم یافتہ ترقی اور متمدن ایک کو آپ اپنے ہم بدولت کی اس ہے۔ محفوظ تاریخ کی ثقافت
ہیں۔ کرتے خیال
کے مشرق نہ ہے اجنبی لیے کے مغرب وہ نہ لیے اس ہے رکھتی مزاج االقوامی بین چونکہ اردو
- 3. ہی واقف سے زباناردو سے صدیوں کئی لوگ کے یورپ لیے۔
قدر گراں میں زبان اس نے انہوں اور ں
زبان اردو میں ممالک مختلف کے دنیا عالوہ کے یورپ ہیں۔ چھوڑے یادگار بھی کارنامے ادبی و علمی
تخلیقات کی زبانوںمتعدد بھی میں اردو طرح اسی ۔ ہے رہا ہو کام میں زبانوں کئی پر تراجم کے ادب و
لیکن ، ہیں رہے ہو اور ہوئے تراجم کے
کے زبانوں غیر کہ ہے کی امر اس ضرورت وقت اس
جائے ڈھاال میں قالب کے اردو زیادہ سے زیادہ کو مضامین و کتب فنی و علمی اور سائنسی ،تکنیکی
ان اور زبانوں پر ملکوں مختلف میں ضر حا عصر جاسکے۔ کیا پوراکو تقاضوں کے دور جدید تاکہ
ممکن سے آسانی رسائی تک خزانوں ادبی کے
کے ادب و زبان ساتھ ساتھ کے گزرنے وقت ہے۔
ایک اور ہیں آسکتے قریب مزید کے دوسرے ایک لوگ والے رہنے کے عالقوں مختلف ذریعے
مزید میں شناخت کی دوسرے ایک ے حوالوں تہذیبی کر سمجھ کو سرمائے واادبی لسانی کے دوسرے
ہے۔ سکتا ہو اضافہ
مختلف یہ ۔ ہے سفیر کی محبت زبان اردو
عقائدسے مختلف ، والے رکھنے تعلق سے دھاروں ذہنی
سطح کی چال بول اور ہے زبان تصنیفی و تخلیقی کی گروہوں بڑے حامل کے مزاجوں مختلف ، وابستہ
ثبوت کا زندگی اپنی میں گھروں اور بازاروں ، کوچوں ،گلیوں کی وہاں میں ممالک التعداد کے دنیا پر
ا پرسطح عالمی اور ہے رہی دے
ہے۔ رہی کر پیداوسعت میں اثر حلقہ پنے
کو اہمیت کی اس اور تحفظ کے زباناردو تاہم ہے۔ زبان جامع ایک اردو کہ نہیںشک میں اس اگرچہ
عمل الئحہ لیے کے اس اور چائیے کرنا غور سے سنجیدگی پر نکات چند ہمیں لیے کے کروانے تسلیم
زب ملکی غیر کہ یہاول چائیے۔ جانا کیا مرتب
میں قالب اردوکے کو فنون و علومسائنسی کے انوں
تاکہ چائیے ہونی حاصل سرپرستی کی حکومت کو اردو دوئم ہے۔ ضرورت اہم کی وقت جو جائے ڈھاال
کے دشمنی اردو عالوہ کے ہو۔اس قائم وقار کا اس اور سکے ہوواضح اہمیت کی اس پرسطح عالمی
ہے۔ ضروری سدباب کا رجحان اور روئیے
O "ردوُا ِ
اخبار " ادا کردار اہم میں ترقی اور ترویج، خدمت کی اردو جو ہے رسالہ منفرد کا زبان اردو
ادبی ممتاز کے ملک سے لحاظ کے تخلیقات ادبی اور علمی، تحقیقی اپنے شمارہ کاہر ہے۔اس کررہا
ہے۔فروری ہوتا پلہ ہم کے جرائد
۲۰۱۲
تار ،نفسیات ،سائنس ،لسانیات ،ادب شمارہ کا ء
ترجمے اور یخ
سردار سید، انواراحمد ڈاکٹر ہے۔ کاگلدستہ تخلیقات کی کاروں قلم نامور کے پاکستانمشتمل پر فن کے
نصرا ڈاکٹر ،زہرا عظمت ،ازہر رفیعمحمد ،صدیقی سحر،پیرزادہ احمد
ﷲ
اسحاق محمد، ناصر
قمرالدی ،خانم ارشد ڈاکٹر ،چودھری زکریا ،تنظیم عائشہ،ناصر آغا ڈاکٹر،نقوی
غالممیاں،خورشید ن
کی پیرزادہ ٰ
نبلی اور احمد منیر،سرور غالم ڈاکٹر ،زیدی عباس ّنیر،دین علم غازی،عباسیرسول
سفر کا انحصاری خود "ابتدائیہ کا احمد سردار ہیں۔سید تحسین قابل تحریریں " کے زبانقومی
ا عوام ،زباناردو " مضمون کے صدیقی سحر ہے۔ خبری خوش لیے کے عاشقوں
کے سینٹ ور
ارکان
‘‘
"،ہے نہیں کو اردو،ہے الحق خطرہ کا مرنے کے زبانوں ہزار پانچ وقت اس "جملہ ایک کا
" مضمون تحقیقی کا ازہر رفیعہے۔محمد بھاری پر صفحات کئی شاید سے اعتبار کے افزائی امید اپنی
گے ہوں ختم کب سال پندرہ :زبان اردو !" چا پڑھنا کو پاکستانیشعور ہرذی
کے مطالعہ کے ہئے۔اس
لئے کے ضمیر زندہ ہر شاید کرنا کردار اپنا میں ترقی اور ترویج کی اس، اہمیت کی زبانقومی بعد
سے پاکستان سرورکے غالم ڈاکٹر ارضیات ِ
ماہر مقیم میں امریکہ نے زہراء جائے۔عظمت ہو ضروری
اور ٹیکنالوجیجدید، وسائل معدنی میں پاکستان اور لگاؤ جذباتی
حوالے کے تعلیم سائنسی ارضیاتی
نصرا ہیں۔ڈاکٹر کیے پیش خیاالت سے
ﷲ
نے ناصر خان " کے اردو سے زبان اور دھرتی سرائیکی
میں ترویج اور تخلیق ، بناوٹ کی زبان اردو اور تاریخکی اردوزبان اور سرائیکی میں "رشتے
- 4. نقوی اسحاق محمد ہیں۔سید کیے تالششواہد کے کردار کے سرائیکی
نے " میں زبان انگریزی
رواج کا ناموں دعوت " ت و تعجب پر اداروں اور لوگوں لکھے پڑھے ایسے میں
�
أسف
کا
اظہار
کیا
ہے
جو
قومی
زبان
کو
نظرانداز
کر
کے
غیر
ملکی
زبان
میں
دعوت
نامے
تیار
کرتے
ہیں۔
ایسے
رویے
ہم
سب
کے
لیے
المیے
کی
حیثیت
رکھتے
ہیں۔ڈاکٹر
آغاناصر
نے
بلوچستان
میں
اردو
شاعری
کے
درخشاں
مستقبل
کے
امکانات
کا
احاطہ
کیا
ہے۔
زکریا
ڈیوڈ ڈاکٹر مستشرق کے زبان اردو نےچوہدری
استوار رشتہ دلی سے زبانقومی اپنی ہم اگر کہ ہے دیا عندیہ ہوئے کرتے بیان کہانی کی میتھیوز
"ہے۔ سکتی کر ایک بھی کو لوگوں اربوں کے دنیا بلکہ نہیں ہی کو پاکستان ِوفاق صرف یہ تو کریں
یادداشتیں دو جنم ایک " ارش ڈاکٹر میں
"ہے؟ کیا جستجو " بیتیوں آپ دو کی حسین انتظار نے خانم د
دھواں کا چراغوں "اور " کیا تبصرہ حاصل سیر پر ان ہوئے دیتے قرار کتھا پریمکی ان کو
اسدا اور شیرازی حافظ نےخورشید ہے۔قمرالدین
ﷲ
کا غنائیت شعری اور بیان ِ
انداز کے غالب خان
ہے کیا موازنہ جامع مگر مختصر ایک
اردو مقام وہی ہے حاصل مقام جو کو حافظ میں شاعری ۔فارسی
ہے۔ کا غالب میں شاعری " اے الہور، الہور " اور رفتہ ِعظمت کی الہور نےقاسمی الحق عطاء میں
کرنالی عاصی ڈاکٹر نے عباسیرسول غالم میاں ہے۔ کیا ذکر کا ترقیجدید لیہ حا( ِخراج کو )مرحوم
ا ہوئے کرتے پیش عقیدت
ا کے الفاظ نے دین علم غازیہے۔پروفیسر کیا احاطہ کا فکروفن کے ن
کے " جنگل شدہ گم "ہے۔ کی کاوش فریب دل کی کرنے تالش منظر ِ
پس نفسیاتی کا انحطاط خالقی
خوب کا افسانے ایک کے جوھینزوجینسن ادیب یافتہ انعام نوبل نے زیدی عباس ّنیر سے عنوان
طب پر جس ہے کیا ترجمہ صورت
کی ٹوئین مارک نے سرور غالم ڈاکٹر ہے۔ ہوتا گمان کا ہونے زاد ع
عالوہ کے ہے۔اس کیا کام عمدہ کے کر پیش میں جملوں کوچند علمیت اور قابلیت ، ذہانت تر تمام
کتابوں نئی ،غزلیات ،خاکہ کا لکھنویعاشق ، مضمون مفصل پر کارناموں ادبی کے آبادی ملیح جوش
ت پر ان اور تعارف کا
لیے کے قارئین کے ادب اردو ّہحص تصویری اور خبریں ادبی ،یں یاد ، بصرے
ہے تحفہ
ANS 02
جس نے داغ
’
اردو
‘
میں ادوار مختلف بلکہ تھی نہ اردو سے ہمیشہ وہ ہے نازکیا پر
’
اردو
‘
نسبت کی ہندوستان پہلے سے ۔سب ہے رہا جاتا کیا موسوم سے ناموں مختلف کو
اسے سے
’
ہندوی
‘
گی کہا
تک چٹرجی کمار سنیی ڈاکٹر کر لے سے شیرانی محمود حافظ ۔ ا
نام کا اس بھی میں تصنیفات ادبی اور لغات قدیم ہیں۔ متفق پر بات اس محققین لسانی
’
ہندی
‘
یا
’
ہندوی
‘
لیے اسی ہے۔
۸۱۲
میں ھ
’
بدر خاں قاضی
‘
کر لے سے
۱۷۴۲
میں
’
آرزو خاں الدین سراج
‘
نے نویسیوں لغات قدیم سبھی تک
کو زبان کی ہندوستان
’
ہندی
‘
یا
’
ہندوی
‘
اسے بھی میں اقوال یا تحریریں کی کرام ء صوفیا بعض ہے لکھا
’
ہندی
‘
یا
’
ہندوی
‘
ہے۔ گیا کہا
’
(وفات دہلوی چراغ نصیرالدین خواجہ
۷۵۲
ٰ
یحیی الدین شرف،)ھ
(وفات منیری
۷۷۲
)ھ
‘
ر او
’
سمنانی(وفات گیر جہاں اشرف
۸۰۸
نے ـوغیرہ )ھ
’
ہندی
‘
یا
’
ہن
دوی
‘
ہیں لکھتے فاروقی الرحمن ہے۔شمس کیا استعمال :
’’ کو زبان اسی میں زمانے ہیں۔پرانے کہتے اردو ہم آج کو زبان جس
سے تربیت اسیًاتقریب نام یہ اور گیا۔ کہا ریختہ پھر اور،دکنی،گجری،دہلوی،ہندی،ہندوی
ہے۔ کیا درج انھیں نے میں سے ترتیب جس آئے میں استعمال
‘‘
۲
- 5. اثر میر
(پیدایش
۵۹،۱۷۵۸
۔وفات
۱۷۹۴
)
مثنوی اپنی نے
’
خیال و خواب
‘
اپنی میں ابتدا کی
کو زبان
’
ہندوی
‘
ہے دیا قرار :
ہیں سو ہندوی ، ہیں سو فارسی
ہیں سو مثنوی ِاشعار باقی
۳
بھی میں تصانیف ادبی کی کرام صوفیاء دیگر کے عہد اس
’
ہندی
‘
یا
’
ہندوی
‘
ہی کا
ہے۔ ہوا استعمال
’
شمس میراجی شاہ
العشاق
(‘
وفات
۱۴۹۶
)
،
’
جانم الدین برہان شاہ
‘
(وفات
۱۵۸۲
)
(زٹلی جعفر اور
۱۷۱۳
۔
۱۶۵۷
)
ہی ساتھ کے
’
ی بیجاپور عبدل
‘
کتاب کی
’
ابراہیم
(نامہ
۱۶۰۳
‘)
کی وجہی مال،
’
(رس سب
۱۶۳۵
‘)
کی فضلیـ اور،
’
(مجلس دہ
۱۷۲۳
‘)
وغیرہ
کانام اردو میں سب
’
ہندوی
‘
ہے۔
’ ہندوی
‘
دوسرامق کا بعداردو کے
نام بول
’
ریختہ
‘
میں ۔لغت ہے
’
ریختہ
‘
معنی متعدد کے
گری و پریشان،کرنا موزوں اور ڈھالنا میں سانچے نئے ،کرنا واختراح ایجاد،بننا َََالمث ہیں
ہیں لکھتے آزاد محمدحسین موالنا میں حیات وغیرہ۔آب چیز پڑی:
’’ چون،مٹی،اینٹ کو دیوار جیسے ہے کیا ریختہ اسے نے زبانوں مختلف
وغیرہ سفیدی،ا
چیز۔ پریشان پڑی، گری ہیں معنی کے ریختہ کہ یہ یا ہیں کرتے پختہ
‘‘
۴
اور راگوں مقامی ہوایعنی میں معنی الگ بالکل استعمال کا ریختہ میں شروعات لیکن
کو اس آئی میں وجود اختراع جو میں موسیقی ہندوستانی کر مال کو فارسی
’
ریختہ
‘
گیا کہا
مختلف لیے اسی ۔
ریختہ بھی اردو َََۃاستعار پر بنا کی امتزاج کے بولیوں اور زبانوں
کہالئی۔
لیے کے زبان
’
ریختہ
‘
یہ مگر ہوا استعمال بار پہلی َََاغالب میں عہد کے اکبر شہنشاہ
لیے کے کاوشوں نثری یا زبان والی جانی تھا۔بولی محدود تک شاعری صرف استعمال
’
ہندی
‘
رہا۔اس ہوتا استعمال ہی کا
قدیم بعض کہ کیوں تھی موسیقی َََاغالب بھی وجہ کی
میں سلسلے اس ہے۔ ملتا امتزاج لطف پر کا ہندوی اور فارسی میں غزلوں
’
امیر
خسرو
‘
پائی شہرت خصوصی نے :
کیس ڈارے پہ مکھ اور پہ سیج سووے گوری
چوندیس بھئی سانج آپنے گھر خسرو چل
۵
ہے مشہور بہت غزل یہ کی ان اور:
زحال
بتیاں بنائے نیناں دورائے تغافل مکن مسکیں
چھتیاں لگائے لیہوکاہے نہ،جاں اے ندارم ہجراں تاب کہ
کوتاہ عمر چو وصلت روز و زلف چوں دراز ہجراں ِشبان
رتیاں اندھیری کاٹوں توکیسی دیکھوں نہ میں جو کوں پیا سکھی
تسکیں ببرو فریبم بصد جادو چشم دو ازدل یکایک
جو ہے پڑی کسے
بتیاں ہماری کوں پی پیارے سناوے جا
آخر بگشتم مہ آں زمہر حیراں ذرہ چو سوزاں شمع چو
پتیاں بھیجیں نہ آویں آپ نہ چینا انگ نینانہ نیند نہ
خسرو فریب مارا داد کہ دلبر ِلوصا ِروز بحق
کھتیاں کی پیا پاوں جاے جو راکھوں وراے منکے سپیت
۶
- 6. گوئی ریختہ نے سعدی بعد کے خسروں
تک مصحفی کیا۔ پیدا نام میں
’
ہندوی
‘
اور
’
ریختہ
‘
ہیں کہتے مصحفی ۔چنانچہ تھے مستعمل لیے کے شاعری اردو دونوں:
رکھ پہ طاق کو فارسی مصحفی
روا کا ہندوی ِاشعار ہے اب
۷
کا مصحفی ہے کم ریختہ کیا
کی فارسی میں اس ہے آتی بو
تو یوں
’
ریختہ
‘
شاعری کی قسم خاص ایک اصطالح کی
کچھ لیکن تھا مستعمل لیے کے
ی شاعر نے شعراء قدیم گیا۔بیشتر ہو مقبول لیے کے شاعری تمام لفظ کا ریختہ بعد عرصہ
تقی میر ،قتیل مرزا،قائم،حاتم شاہ کیا۔چنانچہ استعمال لفظ کا ریختہ لیے کے زبان اردو یا
کال کے سبھی تک وقت کے غالب مرزا سے جرأت سوزاور ،مصحفی ،سودا ،میر
یہ میں م
غالب بقول جانا۔ مترادف کا شاعری اسے نے سبھی اور ہے ملتا لفظ:
غالب ہو نہیں استاد تمھیں کے ریختہ
تھا بھی میر کوئی میں زمانے اگلے ہیں کہتے
تذکرہ اپنے نے ’میر الشعراء نکاۃ
‘
لکھا یوں میں :
’’ فقیر کچھ جو میں تمام ہوتاہے۔ان کا قسم کئی ریختہ کہ ہو معلوم
لکھا وہ ہے معلوم کو
خسرو امیر حضرت چنانچہ ہندی۔ ایک اور فارسی مصرع ایک کا اس کہ وہ ہے۔پہال رہا جا
اور ہندی مصرع دھا کاآ اس کہ وہ دوسرا ہے۔ گیا دیا لکھ قطعہ ایک سے الرحمتہ علیہ
دیا لکھ شعر کا ان گیا کیا میں کتاب ذکر کا جن معزموسوی میر چنانچہ،فارسی آدھا
ہے۔ت
ہے۔ قبیح یہ اور ہیں جاتے کیے استعمال فعل کے فارسی میں جس وہ یسرا
‘‘
۸
تک عہد میرکے تقی میر کر لے سے سراج اور ولی
’
ریختہ
‘
ایک لیے کے شاعری لفظ کا
ولی بقول تھا۔ چکا ہو مقبول میں انداز مخصوص:
بولے ریختہ جب میں تعریف کی حسن تجھ ولی
ّسح سوں دل و جان کوں اس تب سنے
آکر عجم ِان
۹
تک زمانے اس
’
زبان
‘
لیے کے
’
ہندی
‘
لیے کے شاعری اورمخصوص لفظ کا
’
ریختہ
‘
لفظ کا
ہیں لکھتے فاروقی الرحمن شمس رہا۔ ہوتا استعمال:
’’ میں شمال
’
ریختہ
‘
اور
’
ہندی
‘
تھے۔یہ مقبول یکساں سے حیثیت کی نام کے زبان ہماری،
سے صدی انیسویں رہی۔وسط تک صدی اٹھارویں حالت
حیثیت کے نام کے زبان
سے
’
ہندی
‘
کو
’
ریختہ
‘
کہ ہوگا نہ غلط تو جائے کہا یہ لگی۔بلکہ جانے دی ترجیح پر
ہمیشہًاتقریب کو زبان کی چال بول میں صدی انیسویں
’
ہندی
‘
کہ جب،تھا جاتا کہا ہی
میں صدی اٹھارویں
’
ریختہ
‘
کرتے استعمال تکلف بے لیے کے زبان کی چال بول کو
تھے۔
‘‘
۱۰
لفظ لیے کے زبان ہماری بعد کے ریختہ
’
اردو
‘
ہوا۔اردو شروع استعمال کا
’
ترکی
‘
کا زبان
چھاونی۔ یا لشکر ہے مطلب کا اس اور ہے لفظ
’
شیرانی محمود فظ حا
‘
کے اردو لفظ نے
شیرانی ہے۔بقول دیا کر وسیع بہت ہ دائرا کا تحقیقات لیے:
’’ ہ ملتا میں شکلوں مختلف میں ترکی اصل لفظ یہ
اور اردا ،اردہ ،اوردہ ،اوردا یعنی ے
اس عالوہ کے ہیں۔اس لشکر حصۂ پڑاونیزلشکرو اور لشکر،فرودگاہ معنی کے جس اردو
- 7. ہوتا بھی پر قلعے و شاہی سرائے محل و محل،گاہ حرم،لشکر،بازار،خیمہ استعمال کا
ہے۔
۱۱
ـ نے بابر شہنشاہ استعمال کا لفظ اردو پہلے سے سب میں ہندوستان
’
تزک
بابری
‘
کیا میں
ٹکسال لشکری کی اکبر کہ جب تھا۔ کہتا اردو بھی کو ٹکسال اپنی بابر شیرانی بقول ہے۔
’
قرین ظفر اردو
‘
یا
’
قرین ظفر اردوئے
‘
پر موقعوں خال خال اور
’
اردو
‘
کہالتی بھی
عہد کے اکبر شیرانی بقول ۔ تھا مروج میں عہد کے اکبر معلی اردو لیے کے تھی۔لشکر
لف یہ میں
اردوئے، معلی ئے اردو،علیہا اردو نے شیرانی چنانچہ تھا۔ چکا ہو مقبول ظ
گنوائی تراکیب جیسی بزرگ اردوئے اور عالی اردوئے ،ظفرین اردو ،حضرت اردو، لشکر
ہے۔
لفظ
’
اردو
‘
میں معنی کے ن زبا تک ابھی مگر تھا چکا ہو رائج میں صورتوں مختلف اپنی
ہوتاتھابل نہیں استعمال کا اس
نام کا زبان اس تک وقت کے جہانگیر کہ
’
ہندوی
‘
تھا۔ ہی
(وفات شاہجہاں
۱۶۶۶
)
سلسلے کیا۔اس تجویز نام کا معلی اردوئے لیے شہرکے اپنے نے
کا امن میر میں
’
بہار و غ با
‘
ہے غور قابل بیان یہ میں :
’’ سے تب بنایا دارالخالفت اپنا کو شہر اور فرمایا جشن کر ہو خوش نے بادشاہ تب
ش
اور )ہے کہالتا شہر نیا یہ اور پراناشہر وہ،ہے ُدیج یّلد ہوا(اگرچہ ر مشہو آباد اہجہان
دیا۔ خطاب ٰ
معلے اردوئے کو بازار کے وہاں
‘‘
۱۲
لیکن تھا مروج ہی استعمال کا ریختہ لیے کے شاعری بھی وقت اس
’
معلی اردوئے
‘
کی
نکا (میر تقی میر بہرحال تھی۔ چکی پا وجود اصطالح مخصوص
،الشعراء ت
۱۷۵۲
)
قائم اور
،نکات (مخزن
۱۷۵۷
)
الرحمن ہے۔شمس لکھا ہی مطابق کے محاورہ کو معلی اردوئے نے
ہیں لکھتے فاروقی:
’’ لفظ پر طور کے نام کے زبان ہماری
’
اردو
‘
کے آخر ربع کے صدی اٹھارویں استعمال کا
زندگی لفظ(اردو)کی اس پر طور کے نام کے ملتا۔زبان نہیں پہلے
ًاغالب
’
معالئے اردو زبان
آباد شاہجہاں
‘
،تھی مراد اس اور ہوئی شروع میں شکل کی
’
شہر کے آباد شاہجہاں
زبان۔ کی معلی معلی؍دربار معلی؍قلعہ
‘‘
۱۳
یہ آہستہ سکی۔اورآہستہ ہو نہ عام مگر تھی خوبصورت تو یوں اصطالح کی معلی اردو
صرف کر ہو مختصر فقرہ
’
اردو
‘
پہلے ر او گیا رہ
’
اردو
‘
لیے کے آباد شاہجہاں استعمال کا
مگر ہوا
۱۷۸۰
لفظ لیے کے زبان تک
’
اردو
‘
لگا۔ ہونے استعمال کا
(ابراہیم گلزار تذکرہ
۱۷۸۴
)
(مصحفی از ہندی تذکرہ اور
۱۷۹۴
)
اردو لیے کے زبان بھی میں
پہلے گلکرسٹ ڈاکٹر میں مصنفین مغربی شیرانی محمود حافظ ہے۔بقول ہوا استعمال لفظ کا
شخ
تالیف انگریزی اپنی جو ہیں ص
’
ہندوستان زبان قواعد
(‘
۱۷۹۶
)
استعمال کا اردو میں
ہیں۔ کرتے
ANS 03
مخصوص کوئی ساتھ کے سرعت انتہائی ہی نہ اور چڑھتی نہیں پروان رات ں راتو زبان بھیکوئی
۔ ہے لیتی اپنا شکل مخصوص کوئی ساتھ کے ضرورت سماجی تو زبان بلکہ ہے لیتی اپنا خدوخال
تر تیزکو منازل ارتقائی کی زبان انقالبات سماجی اور سیاسی بڑے بڑے مطابق کے لسانیات ماہرین
کا شکل کی زبانکسی میں زمانے خاص کسی جب نزدیک کے ان ہیں۔ ہوتے گار مدد بہت میں کرنے
- 8. کس کی ارتقاء زبان میں زمانے اس کہ ہے ہوتا یہ صرف اور صرف مطلب کا اس تو ہے جاتا کیا ذکر
۔ ہے جاتا رکھا نظر مد اصول یہی سے حوالے کے ارتقاء اور پیدائش کی اردو ذا ٰلہتھی۔ پر منزل
ماہرین اور ادب اہل میں ادوار مختلف نظریات متضاد اور مختلف متعلق سے ابتداء کی زبان اردو
کیا منقسم سے حوالوں جغرافیائی مختلف نےاساتذہ و ماہرین کو نظریات ان کیے۔ بیان نے لسانیات
ہوا پر مقام ایک کسی سے میں مقامات ذیل درج آغاز کا اردو نزدیک کے ان ہے۔:
اردو میں دہلی ۔۱
اردو میں دکن ۔۲
اردو میں سندھ ۔۳
اردو میں پنجاب ۔۴
طرح اسی ہے ہوتی بٹی میں تقسیم خاندانی اور قبیلوں ،گروہوں قوموں مختلف انسانی ِنسل طرح جس
نے لسانیات ماہرین کہ اگرچہ ہیں۔ہوئی بٹی میں قبیلوں اور کنبوں ،خاندانوں مختلف بھی زبانیں تمام
ہیں یہ جو ہیں حامل کے اہمیت خاندان بڑے تین تاہم ہیں گنوائے خاندان سے بہت کے زبانوں:
ہیں۔ شامل زبانیں عربی اور عبرانی میں جس خاندان سامی ۔۱
ہے۔ ذکر قابل ترکی زبان ترین اہم کی جس خاندان منگول ۔۲
بر میں خاندان اس ہے جاتا سمجھا خاندان ترین اہم اور بڑا سے سب کا زبانوں جسے خاندان آریائی ۔۳
فارسی اور یونانی،فرانسیسی ،جرمن ،انگریزی ،زبانیں اکثر والی جانے بولی میں ہند و پاک صغیر
سامی اور ترکی میں زبان اس کہ گو ہے سے خاندان آریائی بھی تعلق کا اردو ہیں۔ ذکر قابل زبانیں
ہیں۔ شامل بھی الفاظ کے زبانوں
وطن آبائی کا لوگوں ان نزدیک کے مورخین (بعضقوم آریائی سے ایشیا وسط پہلے سال ہزاروں
کے قوم اپنی پھر یا سے وجہ کی آفت یا حادثے قدرتی بڑے کسی )تھا وطن کا ؑ ابراہیم حضرت
اور برصغیر ایران کر چھوڑ کو وطن اصلی اپنے بعد کے حکم کے بدری وطن سے طرف کی سرداروں
اور تھیں آباد میں برصغیراقوام دراوڑی اور کول وقت اس بسی۔ جا میں عالقوںدوسرے کئی کے دنیا
قوم چاالک اور مکار ، بہادر ، جنگجو بہت آریائی ہیں۔ جاتی سمجھی نسل آبائی کی برصغیر اقوام یہی
حصوں شمالی خود اور دیا دھکیل طرف کی ہندجنوبی کر بھگا مار کو آبادی مقامی اس نے انہوں تھی۔
کو قوم مفتوح جبکہ کہالئیں وغیرہ برہمن جیسے خاندان معزز کے ہندوؤں قوم فاتح لیا۔ جما قبضہ پر
کیا۔ تقسیم میں درجوں بدتر کے قبیل اسی اور شودر
ان نمونے ترین قدیم کے جس گی ہو بولتی زبان مشترکہ ایکًایقین میں وطن آبائی اپنے قوم آریائی یہی
اس کی ویدوں چارہے۔ تعدادکی ان اور ہیں کہتے وید جنہیں ہیں ملتے میں کتابوں مذہبی مقدس کی
صرف کو زبان اس زبان مقدس ‘‘یعنی ہیٰال ’’زبان ہیںمعنی کے جس ہے۔ جاتا کہا سنسکرت کو زبان
کے سنسکرت لیے کے چال بول عام تاہم گیا الیا استعمال زیر تحت کے صورت تحریری صرف اور
سنسکرت طرف ایک طرح اس ہیں۔ کے خودرو معنی کے جس گیا دیا رواج کو پراکرت میں مقابلے
کانوں کے اس تو لیتا سن اچھوت کوئی کو زبان اس اگر ٹھہری۔ زبان تحریری اور مذہبی کی ہندوؤں
ہو۔محدود تک برہمنوںہندو محض زبان یہ سے وجہ کی جس جاتا دیا ڈال سیسہ ہوا پگھال میں
کی جس تھا نام کا بولیوںعوامی مختلف پراکرت طرف دوسری جبکہ تھے۔ امانتدار کے مذہب جو گئی
اور ماگدھی ، مہاراشٹری میں جن تھیں چکی پا رواج میں عالقوں مختلف کے ہندوستان صورتیں کئی
اسی اور ہےمسیح قبل ۱۰۰۰ سے مسیح قبل ۵۰۰ ترقی کی پراکرتوں ہیں۔ ذکر قابل بھرنش پُا
ہوا۔حاصل کوعروج پراکرتوں جبکہ زوال کو سنسکرت میں عرصے
- 9. یوں اور بڑھا رسوخ اثرو کا مسلمانوں میں برصغیر بعد کے حملے پرسندھ کے قاسم بنمحمد
پر بناکی وجوہات انہی گیا۔ چال پھیلتا میں سندھ اثر کا زبان عربی اور معاشرت تہذیب کی مسلمانوں
نے مسلمان پہلے دن جس تھیہوگئی شروع سے دن اسی ابتداء کی اردو کہ ہے خیال کا افراد بعض
فارسی الفاظ عربی میں اردو تو ایک کیونکہ ہے نہیں درست مفروضہ یہ مگر تھا رکھاقدم میں سندھ
آئے سے وجہ کی وسیلے کے فارسی وہ ہیں اثرات عربی جو میں زباناردو کہ یہدوسرا ہیں کم سے
اور حملوں کے غوریمحمد الدین شہاب سلطان ،غزنویمحمود سلطان میں الفاظ دوسرے گویا ہیں۔
بدولت کی )ء۱۰۳۶( سلطنت اسالمی پہلیکردہ قائم میں برصغیر کی ایبک الدین قطب ازاں بعد
زبانیں کی مسلمانوں ترکی اور فارسی وقت اس گیا۔ پھیل تک دہلی اور پنجاب ، سندھ اثر کا مسلمانوں
مقامی یہ ساتھ کے گزرنے وقت تھے۔ کرتے بوال پراکرتیں عالقائی اپنی اپنی لوگ مقامی جبکہ تھیں
اور فارسی ،عربی میں بولیوں مقامی اپنی کرتے کرتے معاشرت و کاروبار ،سہن رہن ، دین لین افراد
ازاں بعد کو زباناسی لگے۔ کہنے ہندی یا ہندوی ازاں بعد جسے رہے کرتے شامل الفاظ کے ترکی
باقی ہی ‘‘’’اردو لفظ محض جب آگیا بھی وہ وقت ایک اور گیا دیا نام کا معلی اردوئے پھر اور ریختہ
گیا۔ رہ
اردو میں ھ سند
علمبردار کے نظریے اس ندوی سلمان سید ہوئی۔ سے سندھ ابتداء کی اردو نزدیک کے ماہرین چند
تک عرصے کچھ تو کیا حملہ پر سندھ میں ء۷۱۲ نے قاسم بنمحمد جب کہ ہیں فرماتے اور ہیں
رہاجول میل ساتھ کے افراد مقامی کا ان میں دور اس اور رہے پذیر قیام پر مقام اس فاتحین مسلمان
مقامی نے مسلمانوں تھی۔شکل ترین ابتدائی کی اردو وہ ہوئی پذیروجود زبانجو سے ربط اس اور
یاد بات یہ یہاں ہوگئے۔ تر تیزعوامل لسانی و تہذیبی اور دی پھونک روح نئی میں زندگی معاشرتی
اور جنگجو والے بولنے عربی اور فارسی میں فوج فاتح کی قاسم بن محمد کہ ہے قابل کے رکھنے
ہیں فرماتے ندوی سلمان سید تھے۔شامل سپاہی:
’’ اردو آج ہم کو جس کہ ہے یہی قیاس قرین لیے اس ،ہیں پہنچے میں سندھ پہلے سے سب مسلمان
لے سے ملتان میں زمانے اس حد کی جس گا ہو ہوا تیار میں سندھ وادی اس ٰ
ہیولی کا اس ،ہیں کہتے
اور یافتہ ترقیکی بولیوں انہی اردو موجودہ تھی۔ ہوئی پھیلی تک حل سوا کے ٹھٹھہ اور بھکر کر
فارسی و عربی میں بولیوں انہی آغاز کا اس ہیں کہتے اردو ہم آج کو جس یعنی ہےشکل شدہ اصالح
کر مل ، ہیں کہتے دہلوی کو جس ،سے بولیکی دہلی دارالسلطنت کر چل آگے اور ہوا سے میل کے
گئی‘‘۔ بن زبان معیاری
(’’۳۳ ،۳۱ ‘‘صفحہ سلیمانی ِ
)نقوش
ہیں فرماتے کر چل آگے ندوی ہوئے کرتے بیان لباب لب کا نظریے اپنے:
’’ہے‘‘۔گہوارہ پہال کا زبانمتحدہ ہماری وادی کی سندھ
ہیں لکھتے ‘‘میں اردو میں ’’پنجاب کتاب اپنی شیرانی محمود حافظ:
’’ سے زبانوں مختلف کی ایران لیے کے اغراض سرکاری و سیاسی تو کیا فتح ایران جب نے عربوں
فارس خطہ اسے سے غلطی ہم اگرچہ تھی جاتی بولی میں ایران مشرقی زبان یہ لیا۔ چن کو زبان ایک
یہی بھی تویہاں ہوگئے قابض پر پنجاب و سندھ مسلمان جب طرح اسی ۔ ہیں کرتے منسوب طرف کی
ہوگئی‘‘۔محسوس ضرورت
(۴۸ صفحہ اردو میں )پنجاب
ہیں لکھتے میں الفاظ مدلل راشدی الدین حسام سید حامل کے نظریے اسی:
- 10. ’’تمدنی اور حکومت ، آمد میں ہندوستان کی مسلمانوں جو ہے زبان مشترک وہ کی مسلم ہندو اردو
ہو شامل میں زبان ہندی الفاظ ہا ہزار کے زبانوںاسالمی کہ آئی میں وجود طرح اس بدولت کی روابط
موجودہ اپنی کو اردو شبہ بال لگے۔ بولنے اور سمجھنے انہیں ،مسلمان یا ہوں ہند اہل اور گئے
لیکن پڑا گزرنا سے مراحل و مدارج مختلف اور ہوئی صرف مدت بہت میں کرنے اختیار شکل معیاری
مسلمان کہ ہے حقیقت مہّمسل بھی یہ تو ہے مّمسل ہوا بیان وپرُا جو سبب وہ کا آنے میں وجود کے اس
ارتباط سے زبانوں ہندی کا فارسی پھر اور عربی زبان کی ان یہیں اور آئے میں سندھ پہلے سے سب
ہے۔سندھ مولد اصل کا اردو کہ ہے امر یقینی اور واضح ایک یہ ذا ٰلہ ہوا۔شروع اختالط ‘‘و
(’’ کراچی ‘‘’’اردو رسالہ ‘‘سندھ مولد اصل کا زبان اردو )
آتی نظر میں سندھ ہمیں شکل ابتدائی کی اردو کہ ہے نظریہ یہیبھی کا ماہرین اور سے بہت الغرض
غوری بعد کے غزنویمحمود ئی۔ ہو شروع بننا اثر زیر کے ان پھر اور آوروں حملہ عرب کہ جو ہے
کے تک میرٹھ اور پنجاب ، سندھ اور ہوئےآور حملہ پر برصغیر جب ایبک الدین قطبًاخصوص اور
کا سلطنت عظیم اس کو الہور تورکھی بنیادکی حکومت مستحکم ایک کر ہو قابض پر عالقےوسیع
الدین قطب اور رہی کرتی استوار خدوخال اپنے زبان نئی یہ تکء۱۱۸۲ سے ء۱۰۳۶ بنایا۔ تخت پایہ
کا ارتباط و اختالط مابین کے زبانوں رمقامی او زبان والی ہونے پذیر وقوع نئی اس میں عہد کے ایبک
،پنجاب تو دیا کر منتقل دہلی سے الہور کو دارالحکومت نے التمش میں ء۱۲۱۰ گیا۔ تا ہو تر تیز عمل
کا زبان اس ۔یوں گئی ہو قائم بھی پردہلی اہل حکمرانی کی زبان جلی ملی اس کی سندھ اور ملتان
نئی اس سے وجہ کی جس پڑا سے بولیوںسی بہت والی جانے بولی میں اطراف کے دہلی واسطہ
۔ بخشی صورت نئی ایک کے کر متاثر سے شدت کو صورت و شکل کی اردو زبان
اردو میں دہلی
(بیٹیکی بھاشا برج )اردو
زبان اس ہی دہلی اور ہوئی پیدا میں دہلی زبان یہ کہ ہے یہ رائے ایک میں بارے کے آغاز کے اردو
،آزاد حسین محمد موالنا ، خان احمد سید سر میں محققین حامل کے رائے اس ہے۔بھومی جنم کی
ہیں۔ اہم وغیرہ میرامن اور سبزواری شوکت ڈاکٹر
ہیں فرماتے دہلوی میرامن:
’’ فیض اور قدردانی اقوام سب سے ملکوں کے طرف چاروں تب بیٹھے پر تخت بادشاہ اکبر جب
اور گویائی کی ایک ہر لیکن ہوئیں جمع آکر میں حضور کے ان کر سن کی الثانی خاندان اس رسانی
کرنے جواب و سوال ،سلف سودا ، دین لین میں آپس اور سے ہونے اکھٹے تھی۔ جدی جدی بولی
‘‘۔ہوئی مقرر کی اردو زبان ایک کیلئے
فرمایا ہوئے کرتے کشائی قلم متعلق کے ابتداء کی اردو بھی نے خان احمد سید سر:
’’ کے وکالء کے ملکوں سب اور کیا سلطنت ِانتظام نے اس اور ہوا شاہ باد جہاں شاہ الدین شہاب جب
نام کا اس آباد شاہجہان اور بنایا قلعہ اور کیا آباد سے سرے نئے کو دلی اور دیا حکم کا رہنے حاضر
کا ایک ہر ۔ تھی ا جد گفتار کی ایک ہر ہوا۔ مجمع کا لوگوں کے ملکوں تمام میں شہر وقت اس رکھا۔
تین کے زبان کی اس لفظ دو کا اپنی لفظ ایک ناچار کرتے معاملہ میں آپس جب تھا۔ نراال ڈھنگ رنگ
کہ پائی ترکیبایسی نے زبان اس رفتہ رفتہ لیتے۔ سلف سودا اور بولتے کر مال کے زبان کی دوسرے
ہوگئی‘‘۔ زبان نئی ایک بخود خود یہ
ہیں رقمطراز میں حیات آب آزاد حسین محمد موالنا ہوئے کرتے تائید کی نظریے اسی:
’’ محبت اور شوق کس کو زبان اس تھے۔ لگے سمجھنے زبان اپنی کو زبان کی یہیں اب بھی مسلمان
- 11. ، گے ہوں آجاتے پر زبان کی ان لفظ کے عربی ،فارسی کے ہندوؤں نسبت یہ شاید تھے۔ بولتے سے
کی یہاں اور نیضعف ترکی فارسی بروز روز ہی اتنا ،گیا ہوتا زیادہ استقالل اور سہنا رہنا یہاں جتنا اور
،پرتھا عروج عین آفتاب کا تیموری اقبال کہ میں زمانہ کے شاہجہاں رفتہ رفتہ ہوگا۔ پکڑا زور نے زبان
رہنے وہاں تر زیادہ دولت ارکان اور بادشاہ ہوئی۔ دارالخالفہ دلی نئی کر ہو تعمیر پناہ شہر اور شہر
جگہ ایک آدمی کے شہر شہر اور ملک ملک وغیرہ جارُت اور حرفہ اہل ،قلم اہل اور سیف اہل ،لگے
بولتے زیادہ الفاظ جلے ملے میں دربار اور شاہی ئے اردو ہیں۔ کہتے کو لشکراردو میں ترکی ہوئے۔
گیا۔ ہو اردو نام کا بولی کی وہاں ‘‘تھے۔
کی تاریخ ہم اگر لیکن ہوا سے دہلی آغاز کا زبان اردو کہ ضرہیںُم اکابرین و اساتذہ باالدرج اگرچہ
سے آگرہ میں ء۱۶۴۷شاہجہان کیونکہ گا پائے قرار باطل نظریہ یہ تو کریں گردانی صفحہ کی کتابوں
اردوئے برس اسیًایقین سے روکی اکابرین باالمذکورہ ذا ٰلہ ہوا۔ افروز جلوہ پر شاہی مسند اور آیا دہلی
کرتے ترقی سے سرعت انتہائی نے زبان اس اور ہوگیگئی رکھی بنیاد سنگ کی اردو یعنی معلی
درست کو نظریے اس اگر ۔ کرلی اختیار شکل علمی و ادبی نےبولی ایک بعد عرصے ہی کچھ ہوئے
مانا شاعر کا زبان کس کو شعراء کے پہلے سے شاہجہان کہ ہے ہوتا پیداسوال یہ تو جائے لیا مان
کی اردو ہی کو دہلی جو اساتذہ و ماہرین تماموہ کہ گا ہو نہ جا بے تو جائے کہا یہ لیے اس جائے؟
ٰ
اعلی اور شاعر ،اظّفل ،انشاپرداز ،طرز اصحاب جگہ اپنی اپنی وہ ہیں ضرُم پر ماننے پیدائش جائے
کی تحقیق نے احباب تمام ان کیونکہ تھے نہ ہرگز لسانیات ماہرین مگر ہیں سکتے ہو تو مصنف
کیا۔ قائم نظریہ یہ کر لے سہارا کا تخیل بجائے
برجکو اردو تحت کے جس ہے رہا جاتا سراہا میں محافل ادبی و علمی تک مدت کافی مفروضہ یہ تاہم
ہے۔ رہا جاتا کہا بیٹی کی بھاشا
اردو میں دکن
نے ہاشمی الدین نصیر ہوئے رکھتے خاطر ملحوظ کو واقعات و حاالت لسانی اور تاریخی کے دکن
کی۔ شائع کتاب ایک سے نام کے ‘‘اردو میں ’’دکن میں ء۱۹۲۳
’’ہیں رقمطراز صاحب ہاشمی ‘‘میں اردو میں دکن:
’’ کے وقت تقاضائے اور لی کر قائم حکومت اپنی میں ہندوستان نے پٹھانوں میں صدی بارہویں
کے معامالت دوسرے اور فروخت و خرید ، دین لین ، چیت بات درمیان کے قوموں اجنبی دو ان بموجب
اور ترقی اسے سے فتوحات کی تیمور پڑی۔ بنیاد کی زبان مرکب اور ایک لیے کے تفہیم و افہام
نےہندوؤں ۔ تھی فارسی تک وقت اس زبانکی مسلمانوں کہ چاہئے رکھنا لحاظ یہ لیکن ہوا استحکام
چند نے اس اب تھا گیا دیا دبا میں زمین محض بیج کا جس اردو اور کی کوشش میں سیکھنے فارسی
نےمراسم روزانہ اور وضبط ربط کے مسلمانوں ہندو میں زمانے کے تیمور کیا۔ حاصل قد کا فٹ
کا دکن جب ہیں۔ کرتے یاد سے لفظ کے دکنی آج جسے ڈالی بنیاد کی زبان ایک بھی میں ہندجنوبی
نتیجہوہی سے جول میل کے آپس بھی یہاں تو ہوگیا شامل میں دہلی سلطنت کر ہو فتح حصہ کچھ
نے تغلقمحمد جب بعد کے اس ہوا۔ رواج کا اردو یہاں طرح اس تھا۔ ہوا میں ہند شمالی جو ہوا رونما
مگر گئی ہومروج اردو پر طور عام اور ہوئی ترقی اور میں اس تو دیا قرار تخت یہ اپنایا کو آباد دولت
نہیںشک کوئی میں اس ہوئی۔ مشہور سے نام کے دکھنی زبان وہی یہاں خالف بر کے ہند شمالی
کا اردو یادکنی کہ ہے ہوتا ظاہر سے اس غرضتھی۔مروج دکھنی یا اردو میں دکن میں ھ۷۰۰کہ
۔‘‘تھی چکی ہو ابتداء کی اس پہلے بہت سے اس بلکہ نہیں یادگارکی دور کے شاہجہان آغاز
- 12. ANS 04
کچھ اور مجاور والے بنانے حلقہ گرد ارد کے اس یا میں مزاروں تک قبل عرصے کچھ سے اب
سے وجہ کی، ہیں کرتے کام کا نسینکنے روٹیا اپنی کر دے فریب کو عوام جو لوگوں ایسے
اب جو تھی نہیں میں نگاہ میری عزت وہ کی خانقاہوں
ہے بنی
-
بلکہ نہیں بات سنائی سنی کوئی یہ
موجود میں پور خضر کے کلکتہ وہ، تھے ماموں کے رشتے ایک میرے کہ ہے مشاہدہ ذاتی
’
سید
کےمزار بابا
‘
تھے کرتے بیٹھا میں داالن سے چھوٹے ایک قریب کے
-
لیکن،روز توہر ویسے
کرتی ہوا بھیڑ بہت پاس سٓا کے ان ًاخصوص کو جمعرات
–
کے ان
،ہوتے میں تعداد خاصی مرید
چال پاس کے ان تو چاہتا جی کو کھانے مٹھائیاں کی طرح مختلف اور اچھا کچھ ہمیں جب میں بچپن
لے کچھ لیے کے اس جا،ہے یآا بھانجا میرا کہ کرتے اشارہ کو لوگوں موجود وہاں وہ پھر اور جاتا
آ
-
س میں دل اورہم اٹھاتا کیتلی کی چائے اور اٹھتا کوئی
پھر اور ئیٓا شامت کی اس جٓا کہ لیتے وچ
چارے بے اس چیز ہر کی دنیا کہ لگتا ایسا تو ہوتا شروع سلسلہ کا فرمائش جو دیگرے بعد یکے
نہیں یا بھی ہیں پیسے پاس کے اس نہیں پتا اور گے لیں منگوا سے
–
اندر کے اس اٹھتا بھی جو
فرمائش ہر اور دیتا دکھائی خوف زیادہ سے احترام
پر
’
بابا جی
‘
خریٓا یہ شاید کہ کہتا ایسے
ہو فرمائش
-
لگتا وقت زیادہ سے معمول میں نےٓا کے اس اور جاتا وہ
-
سے کسی پہلے وہ شاید
کرتا پوری فرمائشیں کی بابا میں بعد لیتا قرض
-
سے ان نے میں تو ہوا احساس کا اس مجھے جب
کرتے کیوں ایسا پٓا ماموں کہ لیا کر دریافت دن ایک
مٓا تو کہ مال یہ صرف پر طور کے جواب ؟ ہیں
گیا نہیں پاس کے ان کبھی پھر میں بعد کے دن اس ہے؟ رہا گن کیوں پیڑ ، کھا
-
تجربے ساتھ ساتھ کے مشاہدے کے لوگوں میں جن، ملے کو سننے مزید قصے طرح اس میں بعد
تھے ہوتے شامل بھی
-
ثقاف و تہذیب اورہندوستانی داں تاریخ اہم ایک
والے رکھنے نظر پرگہری ت
یہ بلکہ گیا ہو یقین صرف نہ پر اس بعد کے مطالعے کے تحریر کی مجیب محمد وفیسر پر دانشور
بابا کو خود اور مجاور والے مینبیٹھنے اوردرگاہوں مزاروں اور گئی کر گھر میں دل میرے بات
گئی ہو کم میں نظر میری عزت کی لوگوں والے کہالنے
-
نقل اور اصلی
بیش و کم شناخت کی ی
انھوں کہ کا نورانی خوشتر جناب ہوں گزار شکر میں لیکن ،لگی ہونے معلوم سے میں ناممکنات
لکھوں مقالہ میں کہ کیا جبر پر مجھ بظاہر نے
-
سے وجہ کی ہونے نہ میالن بہت سے موضوع
ن میں بعد کے تقاضے کے بار بار اور اسرار مسلسل لیکن ،رہا ٹالتا انھیں میں
ے
موضوع اس
کیا شروع پڑھنا پرکچھ
-
کوشش کی کرنے مطالعہ کا اس اور کی حاصل کتابیں چند سے الئبریری
- 13. کی
-
یآا نہیں نظر ہوتا حل معاملہ بھی سے اس
-
دوبارہ کو کتاب اس کی عبدالحق مولوی میں خرٓا
تھی رہی مطالعہ زیر میں زمانے کے اسکول کیاجو ارادہ کا پڑھنے
-
ا کہ تھا ارادہ
سمجھ کچھ ور
جائینگی ہو نشیں ذہن مزید باتیں چند کی زمانے ابتدائی کے ادب تو یآا بھی نہ میں
-
ن میں جب
ے
کتاب کی عبدالحق مولوی
’
کام کا کرام صوفیائے میں نشونما ابتدائی کی اردو
‘
ک شروع پڑھنا کو
یا
معنی جہان نئے ایک بلکہ ہوئیں شروع کھلنی گتھیاں صرف نہ میری گویا تو
ہون روشناس سے
ے
لگا
-
از سے نمونے یا نظریات متعلق سے ابتدا کی زبان اردو صرف نہ سے مطالعے کے کتاب اس
میں بارے کے جن مال موقع کا ہونے متعارف بھی سے کرام ئے صوفیا ان بلکہ ،ہوئی گاہیٓا نو سر
ہے لکھا تحت کے نظریے لسانی میں کتاب سی چھوٹی اس نے عبدالحق مولوی
-
یہاں
مناسب یہ
لی کر گفتگو تھوڑی پر اس، کیا صاف کو دھول پڑی پر ذہن میرے نے نکات جن کہ ہے ہوتا معلوم
جائے
-
کہ دیکھیں ہی میں الفاظ کے عبدالحق مولوی
’’
صوفی
‘‘
کے اس اور ہیں کو کس کہتے
:ہیں ہوتے کیا مقاصد
’’
صوفی
’
صوف
‘
می عالم اخالقی اور مذہبی وہ ،سے صفا یا ہو مشتق سے
حیثیت خاص ایک ں
ہے رکھتا
-
ہے جاتا پایا میں مذہب ہر اور قوم ہر اور ہے نیاز بے سے ملت و ملک وہ
-
قسم ایک وہ
کے اس اور رکھتا نہیں روا ،ہیں کردیتی مردہ کو دلوں جو ، کو داری ظاہر و رسم جو ہے باغی کا
ہے۔ کرتا بلند بغاوت علم خالف
‘‘
بیٹھ میں بچپن میں ذہن میرے بات جو
تھاکہ دیا بنا پختہ اسے نے مطالعے کے بعد اور تھی گئی
کہ جب ،ہیں کرتے پوری فرمائشیں کی ان لوگ سے خوف کے مولویوں یا بابا جیسے ان یا ماموں
کے خدمت اور سے دل کریں بھی جو لیے کے ان اور کریں احترام کا ان لوگ کہ چاہیے یہ تو ہونا
کریں سے جذبے
-
جو اسالم جانب دوسری
پھیال سے مالئمیت و نرمی اور کرم و رحم
-
مسلمانوں
سے منبر بھی جب میں بارے کے اس ،پایا قرار مذہب بہترین کا دنیا پوری سے سلوک حسن کے
ہے جاتی کی بات کی دہشت اور خوف اکثر تو ہے ہوتی تقریر
-
کے طرح مختلف کو مسلمانوں
کہ جب،ہے جاتا دالیا خوف کا پریشانیوں اور عذابوں
کے کےعذاب گاروں گناہ کہ ہیں واقف سب ہم
ہے کیا وعدہ بھی کا دینے اکرام و انعام کو بندوں نیک نے خدا ساتھ
-
مثبت ہمیشہ تو نے اسالم
ہے رہی ہو بات برخالف کے اس اب کہ ہے کیوں ایسا پھر، ہے دیا زور پر کام اور باتوں
-
بھی یہاں
ٓا سامنے معاملہ کا داری دین اور داری دنیا
ہے تا
-
نیاز بے سے دنیا ایک اور مولوی دار دنیا ایک
ہے تآا میں سمجھ فرق کا صوفی
-
:دیکھیں الفاظ ہی کے عبدالحق مولوی