The Holy Qurr'an and Promised Messiah (AS)muzaffertahir9
"تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ " (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)
آج ساری امت مسلمہ غیرمعمولی افتراق ، انتشار اور غربت و افلاس اور ذہنی و فکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کے لئے اور اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآ ن کریم میں آئی ہے کہ ’’ تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتی‘‘ کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں ۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کسمپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آ جاتی تھی اور اب نہیں آ رہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوند ی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سور ہ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:
آمدِ مسیح موعود ء ۔ نزول یا رجوع؟
انصر رضا
دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول ‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع ‘‘ کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریم ؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع ‘‘ کی بجائے ’’نزول ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔
ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر پھر اُسی مقام پر آنے کو رجوع یعنی واپسی کہنے کے قاعدہ کا ثبوت یوں تو عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی لاتعداد مثالوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن اسی نوعیت کی ایک مثال سے یہ بات نہ صرف زبان و بیان کے قواعد اور اُن کے استعمال بلکہ دینی پہلو سے بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے رب
سورۃ آل عمران کی آیت سے وفات مسیح کا ثبوت
ترجمہ : اور محمد نہیں ہیں مگر ایک رسول۔ یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکرگزاروں کو جزا دے گا۔
The Holy Qurr'an and Promised Messiah (AS)muzaffertahir9
"تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ " (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)
آج ساری امت مسلمہ غیرمعمولی افتراق ، انتشار اور غربت و افلاس اور ذہنی و فکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کے لئے اور اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآ ن کریم میں آئی ہے کہ ’’ تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتی‘‘ کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں ۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کسمپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آ جاتی تھی اور اب نہیں آ رہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوند ی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سور ہ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:
آمدِ مسیح موعود ء ۔ نزول یا رجوع؟
انصر رضا
دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول ‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع ‘‘ کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریم ؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع ‘‘ کی بجائے ’’نزول ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔
ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر پھر اُسی مقام پر آنے کو رجوع یعنی واپسی کہنے کے قاعدہ کا ثبوت یوں تو عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی لاتعداد مثالوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن اسی نوعیت کی ایک مثال سے یہ بات نہ صرف زبان و بیان کے قواعد اور اُن کے استعمال بلکہ دینی پہلو سے بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے رب
سورۃ آل عمران کی آیت سے وفات مسیح کا ثبوت
ترجمہ : اور محمد نہیں ہیں مگر ایک رسول۔ یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکرگزاروں کو جزا دے گا۔
حضرت بانی ٔسلسلہ عالیہ احمدیہ جس شدّت، عقیدت اور معرفتِ تامّہ کے ساتھ خاتم الانبیاء و الاَصفیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکو خاتم النّبیّن یقین کرتے تھے اس کا اندازہ خود آپ ؑ کی تحریرات کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں’’
فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اور انس و جن میں اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔
ارشاد نبوی کے مطابق قائم جماعت احمدیہ کا نظام اور معاندین احمدیت کا الم انگیز...muzaffertahir9
’’میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔جن کو میرا خدا جو میر ے ساتھ ہے میر ے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اورمیری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اتر ے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوران کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں‘‘۔
اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے وعدہ کیاہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے۔
کائنات کے چھوٹے سے ذرّہ ، ایٹم کو لیجئے یا بڑے سے بڑے کسی اور جسم کو، جس کا بھی سینہ چاک کریں وہاں ایک دھڑکتا ہوا دل، ایک مرکز پائیں گے جو اس ذرّہ یا اس جسم کی ہر حرکت اور سکون کا محور ہوگا ۔ اسی طرح عالم صغیر ہو یا عالم کبیر، ہر ایک عالم میں قدرت کا یہی قانون کارفرما نظر آ تا ہے ۔ عالم صغیر یعنی انسان کے تمام اعضاء اور اعصاب اور رگ و ریشے اس کے دل کے ایک ایک اشارہ پر حرکت کرتے ہیں ۔ تو عالم کبیر میں موجود تمام سیارے اور ستارے اپنا ایک مرکز رکھتے ہیں ۔ کچھ سیارے ملکر ایک نظام بناتے ہیں جن کا مرکز ایک سورج ہو تا ہے ۔ اور اسی قسم کے چند نظام ملکر ایک گلیکسی بناتے ہیں اور کائنات میں موجود اس قسم کی بے شمار گلیکسیز ہیں جو ایک بڑا مرکز رکھتی ہیں اور اپنے اپنے محور پر حرکت کررہی ہیں۔
کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ سے لیکر بڑی سے بڑی گلیکسی تک میں جو یہ وحدت ہے یہ جہاں ہمیں خداتعالیٰ کی توحید کی طرف توجہ دلاتی ہے وہاں اس میں بنی نوع انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے ایک شاندار سبق بھی پنہاں ہے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام ، کوئی بھی کارو بار مرکزیت کے بغیر نامکمل ہے ، معاشرہ میں مل جل کر رہنے کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس میں ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جسے ہرِ فرد اپنے اوپر مسلّط کرے ۔ اسی پر نو ع انسانی کے نظام کی کامیابی کا مدار ہوگا ۔ اسی پر اس کی ترقی کا انحصار ہوگا ۔
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےmuzaffertahir9
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
پس جب کہ آخری دنوں کیلئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورپر ظاہر ہوچکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دوروں میں سے یہ آخری دور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور نیز خدا و تر ہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن وتر پیدا کئے ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الہٰیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب حجج الکرامہ میں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گزرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گزرا۔
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺmuzaffertahir9
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات تمام فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف اور ہر خیرو برکت کا مبدء ہے ۔ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی بے پناہ اور کبھی نہ ختم ہو نے والی عنایات پر زندہ گواہ ہے۔ سنّت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے ان افضال وبرکات اور فیوض وانعامات کو مختلف ذرائع سے دنیا میں ظاہر کرتا ہے۔ان بے شمار وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ہے۔ انبیائے کرام اس زمرۂ ابرار کے سرخیل ہو تے ہیں جو ایک طرف تو ہستی با ری تعالیٰ کے شاہد رؤیت ہو تے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے لیے ان کا وجو د خدا نما ہو تا ہے۔یہ روحانی کمال اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے مطابق ہر نبی کو حا صل ہو تا ہے۔چنانچہ اس میدان میں سب سے افضل، سب سے کامل اور سب سے بلند مرتبہ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا کیونکہ آپ انبیاءؑ کے سرتاج اور تمام مقدسوں اور مطہروں کا فخر ہیں ۔آپؐ اس کائنات عالم کی علّتِ غائی ہیں کیونکہ آپ ہی کی برکت سے حیطۂ کون ومکان کو خلعت تکوین سے نواز ا گیا۔
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےmuzaffertahir9
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے 73فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ انھی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ ؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواج مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں ۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھربھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلاد شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے ۔ جو امام حسین ؓ پر تبرہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں ۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کیے۔ آج کل نیچریوں کاایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیے ہیں ۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
کیا مہدی علیہ السلام آئیں گے ؟ یا آچکے؟ Kia mahdi as aaein ge؟muzaffertahir9
رسول اللہ ﷺ کی تاکیدی وصیت
’’ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘۔
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اسی شدید ضرورت کے زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اور خدا تعالیٰ نے 1894ء میں آسمان پر چاند اور سورج گرہن لگا کر آپ کی صداقت کی فیصلہ کن گواہی دے دی ۔ آج آپ کا پانچواں جانشین دنیا بھر کو توحید حقیقی کی طرف بلا رہا ہے ۔ کوئی ہے جو خدا کی آواز کو قبول کرے ؟
’لا نبی بعدی‘ حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالے
مارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
عض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات از قبیلِ مسمریزم تھےmuzaffertahir9
راشد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی ایک تحریر کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے ۔
بغض وعناد میں یہ معترض اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری عبارت بھی نہیں پڑھ سکا۔ اور نہ یہ سوچ سکا ہے کہ مسمریزم وغیرہ کے عمل کو شریعتِ اسلامیہ میں مکروہ سمجھا جاتا ہے لیکن پہلی شریعتوں میں ایسا نہیں تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ ...muzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول
اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں’’قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں۔
’’باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈاکہ مارنے کی سعی ناکام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں۔‘‘
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسبِ ذیل دلیل دیتے ہیں۔(نقل بمطابق اصل )
’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔ مثلاً
* محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۰۷)
* انا اعطینک الکوثر (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۵)
* انک لعلی خلق عظیم (روحانی خزائن ملفوظات جلد ۱ص ۱۴۱)
* وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۶)
*وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین(روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۱)
* یس والقرآن الحکیم (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۱۰)
* سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)‘‘
جب انسان بغض وعناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ ’’ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ‘‘ ایک جھوٹا اور کذّاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت وسلوک کی پاک راہوں کوگندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی �
Sarkar Kalan Syed Mukhtar Ashraf Ashrafi Kichhauchhawi Numbar Aale Rasool Ahmad
Ghausul Waqt Makhdoomul Mashaikh Huzoor Sarkar e Kalan Syed Muhammad Mukhtar Ashraf Ashrafi Al Jilani RadiAllah Anh Ke Naam se Mansoob “Sarkar e Kalan Numbar” Aap Ki Khidmat Me Hazir Hai Lihaza Aap Khud Padhen aur Dosron ko Share Karen…
Kitab: Sarkar Kalan Numbar
Chief Editor: Syed Muhammad Ashraf Kichhauchhawi
Published: Simna Press Lucknow
Scanned: Aale Rasool Ahmad
Contact: 7317380929
Email: aalerasoolahmad@gmail.com
حضرت بانی ٔسلسلہ عالیہ احمدیہ جس شدّت، عقیدت اور معرفتِ تامّہ کے ساتھ خاتم الانبیاء و الاَصفیاء حضرت محمد مصطفی ﷺکو خاتم النّبیّن یقین کرتے تھے اس کا اندازہ خود آپ ؑ کی تحریرات کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں’’
فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اور انس و جن میں اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔
ارشاد نبوی کے مطابق قائم جماعت احمدیہ کا نظام اور معاندین احمدیت کا الم انگیز...muzaffertahir9
’’میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔جن کو میرا خدا جو میر ے ساتھ ہے میر ے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اورمیری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اتر ے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوران کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں‘‘۔
اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے وعدہ کیاہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے۔
کائنات کے چھوٹے سے ذرّہ ، ایٹم کو لیجئے یا بڑے سے بڑے کسی اور جسم کو، جس کا بھی سینہ چاک کریں وہاں ایک دھڑکتا ہوا دل، ایک مرکز پائیں گے جو اس ذرّہ یا اس جسم کی ہر حرکت اور سکون کا محور ہوگا ۔ اسی طرح عالم صغیر ہو یا عالم کبیر، ہر ایک عالم میں قدرت کا یہی قانون کارفرما نظر آ تا ہے ۔ عالم صغیر یعنی انسان کے تمام اعضاء اور اعصاب اور رگ و ریشے اس کے دل کے ایک ایک اشارہ پر حرکت کرتے ہیں ۔ تو عالم کبیر میں موجود تمام سیارے اور ستارے اپنا ایک مرکز رکھتے ہیں ۔ کچھ سیارے ملکر ایک نظام بناتے ہیں جن کا مرکز ایک سورج ہو تا ہے ۔ اور اسی قسم کے چند نظام ملکر ایک گلیکسی بناتے ہیں اور کائنات میں موجود اس قسم کی بے شمار گلیکسیز ہیں جو ایک بڑا مرکز رکھتی ہیں اور اپنے اپنے محور پر حرکت کررہی ہیں۔
کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ سے لیکر بڑی سے بڑی گلیکسی تک میں جو یہ وحدت ہے یہ جہاں ہمیں خداتعالیٰ کی توحید کی طرف توجہ دلاتی ہے وہاں اس میں بنی نوع انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے ایک شاندار سبق بھی پنہاں ہے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام ، کوئی بھی کارو بار مرکزیت کے بغیر نامکمل ہے ، معاشرہ میں مل جل کر رہنے کے لئے ایک نظام کی ضرورت ہے جس میں ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جسے ہرِ فرد اپنے اوپر مسلّط کرے ۔ اسی پر نو ع انسانی کے نظام کی کامیابی کا مدار ہوگا ۔ اسی پر اس کی ترقی کا انحصار ہوگا ۔
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےmuzaffertahir9
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
پس جب کہ آخری دنوں کیلئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورپر ظاہر ہوچکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دوروں میں سے یہ آخری دور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور نیز خدا و تر ہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن وتر پیدا کئے ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الہٰیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب حجج الکرامہ میں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گزرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گزرا۔
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺmuzaffertahir9
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات تمام فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف اور ہر خیرو برکت کا مبدء ہے ۔ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی بے پناہ اور کبھی نہ ختم ہو نے والی عنایات پر زندہ گواہ ہے۔ سنّت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے ان افضال وبرکات اور فیوض وانعامات کو مختلف ذرائع سے دنیا میں ظاہر کرتا ہے۔ان بے شمار وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ہے۔ انبیائے کرام اس زمرۂ ابرار کے سرخیل ہو تے ہیں جو ایک طرف تو ہستی با ری تعالیٰ کے شاہد رؤیت ہو تے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے لیے ان کا وجو د خدا نما ہو تا ہے۔یہ روحانی کمال اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے مطابق ہر نبی کو حا صل ہو تا ہے۔چنانچہ اس میدان میں سب سے افضل، سب سے کامل اور سب سے بلند مرتبہ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا کیونکہ آپ انبیاءؑ کے سرتاج اور تمام مقدسوں اور مطہروں کا فخر ہیں ۔آپؐ اس کائنات عالم کی علّتِ غائی ہیں کیونکہ آپ ہی کی برکت سے حیطۂ کون ومکان کو خلعت تکوین سے نواز ا گیا۔
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےmuzaffertahir9
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے 73فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ انھی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ ؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواج مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں ۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھربھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلاد شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے ۔ جو امام حسین ؓ پر تبرہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں ۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کیے۔ آج کل نیچریوں کاایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیے ہیں ۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
کیا مہدی علیہ السلام آئیں گے ؟ یا آچکے؟ Kia mahdi as aaein ge؟muzaffertahir9
رسول اللہ ﷺ کی تاکیدی وصیت
’’ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘۔
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اسی شدید ضرورت کے زمانہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اور خدا تعالیٰ نے 1894ء میں آسمان پر چاند اور سورج گرہن لگا کر آپ کی صداقت کی فیصلہ کن گواہی دے دی ۔ آج آپ کا پانچواں جانشین دنیا بھر کو توحید حقیقی کی طرف بلا رہا ہے ۔ کوئی ہے جو خدا کی آواز کو قبول کرے ؟
’لا نبی بعدی‘ حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالے
مارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
عض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات از قبیلِ مسمریزم تھےmuzaffertahir9
راشد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی ایک تحریر کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے ۔
بغض وعناد میں یہ معترض اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری عبارت بھی نہیں پڑھ سکا۔ اور نہ یہ سوچ سکا ہے کہ مسمریزم وغیرہ کے عمل کو شریعتِ اسلامیہ میں مکروہ سمجھا جاتا ہے لیکن پہلی شریعتوں میں ایسا نہیں تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ ...muzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول
اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں’’قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں۔
’’باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈاکہ مارنے کی سعی ناکام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں۔‘‘
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسبِ ذیل دلیل دیتے ہیں۔(نقل بمطابق اصل )
’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔ مثلاً
* محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۰۷)
* انا اعطینک الکوثر (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۵)
* انک لعلی خلق عظیم (روحانی خزائن ملفوظات جلد ۱ص ۱۴۱)
* وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۶)
*وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین(روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۱)
* یس والقرآن الحکیم (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۱۰)
* سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)‘‘
جب انسان بغض وعناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ ’’ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ‘‘ ایک جھوٹا اور کذّاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت وسلوک کی پاک راہوں کوگندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی �
Sarkar Kalan Syed Mukhtar Ashraf Ashrafi Kichhauchhawi Numbar Aale Rasool Ahmad
Ghausul Waqt Makhdoomul Mashaikh Huzoor Sarkar e Kalan Syed Muhammad Mukhtar Ashraf Ashrafi Al Jilani RadiAllah Anh Ke Naam se Mansoob “Sarkar e Kalan Numbar” Aap Ki Khidmat Me Hazir Hai Lihaza Aap Khud Padhen aur Dosron ko Share Karen…
Kitab: Sarkar Kalan Numbar
Chief Editor: Syed Muhammad Ashraf Kichhauchhawi
Published: Simna Press Lucknow
Scanned: Aale Rasool Ahmad
Contact: 7317380929
Email: aalerasoolahmad@gmail.com
Normas de control escolar relativas a la inscripción, reinscripción, acreditación, promoción, regularización y certificación en la educación básica 2013-2014
Cómo hacer un sitio Web fácil, rápido y en forma económica con WordpressPablo Capurro
Presentación de Nahuel Vercellino, Timple.M, sobre la creación de sitios con tecnología Wordpress. Templates, sitios customizados, CMS, gestión de contenidos directa, accesibilidad, indexación, responsivo, etc.
As gerações BB|X|Y|Z - Comportamento do ConsumidorDaniel Caldas
Este traballho da matéria de Comportamento do Consumidor teve como principal objetivo discutir um pouco sobre as gerações Baby Boomer, X, Y e Z.
Não há um final conclusivo, pois o desenvolvimento das gerações nunca pára, mas procuramos ressaltar tópicos importantes sobre cada geração.
Presentación realizada por Pedro Panigazzi sobre la Creatividad Digital, los niveles de comunicación, estrategia y objetivos de las marcas ante una nueva realidad.
Clínica de Marketing Digital Facultad de Diseño y Comunicación, Universidad de Palermo, mayo de 2010.
Conferência de 2013 (17 e 18 de maio)
ACORN-REDECOM é uma rede acadêmica interdisciplinar de centros de pesquisa * que visa o avanço do conhecimento sobre os impactos sociais, econômicos e políticos das Tecnologias da Informação e da Comunicação (TIC) nas Américas. A rede estimula a pesquisa e o diálogo entre pesquisadores do continente americano com a finalidade de análise da política e dos marcos normativos próprios à regulação das TIC, bem como de seus impactos sobre o desenvolvimento dos países e regiões do continente.
Prazos finais:
• Resumos: 25 de novembro de 2012
• Notificação de aceitação: 17 de janeiro de 2013
• Trabalhos completos: 1º de abril de 2013
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐ پر...muzaffertahir9
ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔
میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے
دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
This book is the first from the series of the books which will be released one after the other to 'expose' the most dangerous Dajali Fitna of the current times "Dawate-Islami" or "Dawate-Ilyasi".
Please must read these books to save your iman and decide with your IMAN & ISHQ, and see how these people are destroying Ahle-Sunnat.
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
بد کرداراسلام فروش پاکستنی ملا انگریز کا خود کاشتہ پودا muzaffertahir9
اصل یہ ہے جھوٹی تعریف اور سچی خوشامد پر مبنی نظم ونثر کی صورت میں کاسۂ گدائی جو مسلمان لیڈروں نے انگریز کے آگے پھیلایا۔
یہ تو تم لوگوں کا کردار رہا ہے کہ ایک طرف حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے اس کی خوشامدیں کر کر کے اس کے آگے کاسۂ گدائی پھیلاتے رہے اور دوسری طرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جب خدا تعالیٰ کے مامور کے سامنے ناکام ونامراد رہے تو حکومت وقت کو ان کے خلاف بھڑکانے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ شکایتیں کرنے لگے۔ تمہاری ان شکایتوں اور پرانگیخت کارروائیوں پر اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے ایک سچی اور حق بات کی تو تم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے طوق اتار کر ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے۔ پس یہ ہے تمہاری شکل اور یہ ہے تمہارا کردار ، جو تمہارے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
امام مہدی کی مخالفت ہی صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضmuzaffertahir9
امّتِ محمدیہ کے کئی بزرگوں ( جیسا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ،صوفی بزرگ شیخ عبد العزیز ،مشہور صوفی و ادیب خواجہ حسن نظامی ،حضرت شاہ محمد حسین صابری ) نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کا تعین بھی کردیا تھا جو کہ چودھویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعویٰ سے قبل پوری ہونی تھیں، پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مسیح اور مہدی کا انتظار ہو رہا تھا۔ عوام سے لے کر علماء تک سبھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، بلاتفریق امت محمدیہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر احادیث مبارکہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺنے امتِ محمدیہ کا کھینچا وہ من وعن پورا ہو رہا تھا۔ مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ،ہزاروں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے اور اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا تھا۔مسجدیں دھرم شالہ بنا دی گئی تھیں۔ایسے حالات میں خدا تعا لیٰ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قا دیا ن سے ایک جوا ں مرد کو کھڑا کیا جوہر یک رنگ میں سرکارِ دوعالم ﷺکی پیشگو ئیو ں کا مصدا ق تھا۔
یہ مبارک ہستی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کی غرض یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ک
‘‘ مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔
اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔’’
Jamaat Ahmadiyya Muslim ka Introduction - جماعت احمدیہ مسلم کا مختصر تعارفmuzaffertahir9
’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں، اس کا لاکھواں حصہ بھی دُوسرے لوگ نہیں مانتے۔ اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وُہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے، مگر اُس کی حقیقت سے بے خبرہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتاہے اوراس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ بجزان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں‘‘۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ الٰہی نصرت کے نشانوں سے اس طرح بھری پڑی ہے کہ گویا ان کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے ۔ دنیا کاکوئی خطہ نہیں جو ان نشانات سے خالی ہو ۔ خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے صدق و اخلاص او ر وفا کاتعلق رکھنے والے تمام احمدی ان نشانوں کے گواہ ہیں ۔ صرف ذاتی اور انفرادی طورپر یامقامی اور ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ساری جماعت احمدیہ عالمگیر کے ساتھ خدا تعالیٰ کاجو خاص فضل اور احسان کا غیر معمولی سلوک ہے اور اس کی نصرت کے جو نشان موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہیں ان کااحاطہ تو درکنار ان کا تصور بھی کسی انسان کے بس میں نہیں۔
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں) muzaffertahir9
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی توہین کی سزاکا اختیار کئی مصالح کے باعث اس دنیا میں کسی انسان کو نہیں دیا اسی طرح اپنے رسول کی توہین کی سزا کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے
تعزیرات پاکستان کے مطابق نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی اور توہین رسالت کی سزا عمر قید یا موت ہوسکتی تھی۔ 1992ء میں شرعی عدالت کے اس فیصلہ کی بنا پر کہ توہینِ رسالت کی سزا صرف موت ہی ہوسکتی ہے عمر قید کے الفاظ دفعہ 295Cسے حذف کر دیے گئے اور موجودہ ملکی قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے۔
دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا مقصد بھی مفاد عامہ اور قیام امن ہی بتایا گیا تھا مگرگذشتہ سالوں کے تلخ تجربات کے بعد ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس قانون سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس قانون کو فتنہ ، فساد اورظلم کا ذریعہ بنایا گیاہے۔ بالخصوص کمزور اور اقلیتی گروہ اس کی زد میں آئے اور ذاتی عناد کی بنا پر توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات درج کروانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ رجحان روکنے کے لیے ایک اَور قانون متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر غلط مقدمہ درج کروانے والے پر بھی گرفت کی جاسکے ۔ یہ تو اندرونی ملکی صورتِ حال ہے۔
از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ الثانی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مجھ سے بمبئی ریڈیو والوں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں انہیں بتاؤں کہ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں؟ جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناءپر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ جو مذہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کر سکتا ہے وہ سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے۔ کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے۔ اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں۔ اس دعویٰ کو دو طرح ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کر لیں۔ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں۔
اوّل:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے، دعا، اس کا اثر، قضاءو قدر اور اس کا دائرہ، عبادت اور اس کی ضرورت، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت،
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزولmuzaffertahir9
خدا تعالیٰ کے محبوبوں، مقربوں اور مقدسوں کو ہمیشہ امتحان اور ابتلا میں ڈالا جاتا ہے تا کہ دنیا پر ثابت ہو کہ ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ اپنے دعویٔ محبت الٰہی میں کیسے ثابت قدم نکلے اور مصائب کے زلزلے اور حوادث کی آندھیاں اور قوموں کا ہنسی مذاق کرنا اور دنیا کی ان سے سخت کراہت ان کے پائے استقلال میں ذرّہ برابربھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔
صادق آں باشد که ایام بلا
مےگزارد با محبت با وفا
خلافت کے بنیادی معنی جانشینی کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں نبی کے جانشین کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کے لیے بھی خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا کیونکہ وہ الٰہی صفات اختیار کرنے کےلحاظ سے روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ جانشین ہوتے ہیں جن کو خلافت، نبوت عطا کی جاتی ہے۔
مذہب اور نبوت و خلافت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں جیسی خلافت مسلمانوں کو بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا بشرطیکہ وہ ایمان اور اعمال صالحہ بجالاتے رہیں۔ ف
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میںmuzaffertahir9
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی و معہود ؑ، بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبییّن نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت ،یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوّت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرتِ تامّ سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اِس چشمہ سے سیراب ہوں۔ ‘‘ (ملفوظات۔ جلد اول ۔صفحہ ۳۴۲)
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہmuzaffertahir9
کچھ روز قبل میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا ایک قومی کمیشن بنایا جائے اور احمدیوں کو بھی اس کمیشن میں نمائندگی دی جائے۔ اس خبر کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سلسلہ میں احمدیوں کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا کہ انہیں اس کمیشن میں شامل کیا جائے۔ جماعت احمدیہ کا موقف اس حوالے سے بڑا واضح ہے اور سینکڑوں مرتبہ بیان کیا جا چکا ہے۔
یہ قدم خود ذمہ دار افراد اور کابینہ کے بعض اراکین کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا۔ لیکن یہ خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک میں ایک ناقابل فہم شور شرابے کا آغاز ہو گیا۔ پہلے تو وزیر برائے مذہبی امور پیرنورالحق قادری صاحب نے بیان دیا کہ اس پر بحث ہوئی تھی لیکن ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئین پاکستان کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں۔ پھر چودھری شجاعت حسین صاحب، سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی صاحب، اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ صاحب نے کہا کہ خواہ مخواہ پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔ پھر وفاقی وزیرعلی محمد خان صاحب کی طرف سے ایک مختلف بیانیہ سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب نے تو اس تجویزکی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ جب تک قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے اس وقت تک وہ کسی کمیشن کا رکن نہیں بن سکتے۔ اس کے بعد مختلف چینلز نے اس بارے میں پروگرام کرنے شروع کیے۔ اور حسب سابق ان پروگراموں میں کوئی ٹھوس علمی یا قانونی بات کرنے کی بجائے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بلا کر انہیں اسی طرح لڑایا گیا جس طرح کسی زمانے میں پنجاب کے دیہات میں مرغوں کی لڑائی کے مقابلے کرائے جاتے تھے۔ اس مضمون میں اس بارے میں صرف اُن دو پراگراموں پر تبصرہ کیا جائے گا جو ندیم ملک لائیو کے نام سے سماء نام کے چینل پر5 ؍اور6؍مئی 2020ء کو نشر ہوئے۔ان دو پروگراموں کے میزبان ندیم ملک صاحب تھے اورتحریک انصاف کے صداقت عباسی صاحب، وفاقی وزیرعلی محمد خان صاحب، پیپلز پارٹی کی پلوشہ صاحبہ، اورمسلم لیگ ن کے طلال چودھری صاحب ان پروگراموں میں شامل ہوئے۔تفصیلات بیان کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی سیاسی بحث میں الجھنا یا کسی سیاسی جماعت پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس مضمون میں صرف ان امور کی نشاندہی کی جائے گی۔
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیانmuzaffertahir9
‘‘دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِیہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں ۔اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے …
‘‘اے ربّ العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کرسکتا تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بےغایت مجھ پر احسان ہیں ۔میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔میرے دل میں اپنی خالص محبّت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما ۔اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہوجائے۔میں تیری وَجْہِ کَرِیْم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔رحم فرما ۔اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ۔ثمّ آمین’’
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہmuzaffertahir9
حضورﷺ عرب کی ایک بستی مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کے اکثر لوگ سخت مزاج اوروحشی صفت تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اورلوگوں کے دل پتھر تھے۔شراب خوری اور زناکاری اس سرزمین کا دستور تھا۔ گویا کہ ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر
تھا۔مگر یہ حلقہ ظلمت کدہ پھر نورِمحمدﷺ سے مستفیض ہوااورجہاں جہاں بادسموم کا تصور تھا وہاں رقص بہاراں کےجشن میں راحت آمیز ہوائیں اٹھکیلیاں کرنے لگیں۔
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہےmuzaffertahir9
خلافت ایک ایسی حقیقت ہے جو اقوامِ عالم کو مساوات اور جمہوریت کی فلسفیانہ بحثوں سے نکال کر انتخاب کے میدان میں لا کھڑا کرتی ہے ۔ پھر تائید الٰہی اور نصرتِ خداوندی منتخب فرد کو اپنے حصار میں لے کر خلیفۃ اللہ اور ہر صاحب ایمان کا محبوب،آقا و مطاع بنا دیتی ہے ۔
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعدبھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
ہمارے آقا و مولا سید الرسل جناب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ محض انسانیت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے لفظ عَالَمسے ظاہر ہے یہ رحمت وسیع تھی اور ہر قسم کا جاندار، چرند پرند اس دائرہ ٔرحمت میں شامل تھا۔
لیکن افسوس کے وہ نبی جو رحمت بنا کر بھیجا گیااس کی ذاتِ اطہر پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے بار بار دہرایا جانے والا ایک اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نعوذ باللہ دنیا میں بد امنی، فساد اورقتل و غارت پھیلائی اور مخالفین پر تلوار اٹھائی جس سے خون کی ندیاں بہ نکلیں۔
لیکن اگر ہم قرآن کریم ، احادیث اور تاریخ کا صحیح رنگ میں مطالعہ کریں نیز اُس علم الکلام سے مستفیض ہوں جو اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں عطا فرمایا تو ہمیں اس کے بر عکس ایک ایسے نبیؐ کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جو نہ صرف اپنوں بلکہ پہلے اور آئندہ آنے والوں کے لیے بھی سراپا سلامتی و رحمت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرش کا خدا اور اس کے فرشتے اس پاک نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اورتا قیامت مومنین کو یہ تاکید کی گئی کہ وہ بھی اس رسول مقبولﷺ پر درود بھیجتے رہیں۔
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداریmuzaffertahir9
مذہبی رواداری یہ ہے کہ اختلاف مذہب و رائے کے باوجوددوسروںکےلیےبرداشت کا نمونہ دکھانا، ان کے مذہبی عقائدو اقدار کالحاظ رکھنا، تحقیر کارویہ اختیار نہ کرنا اور نہ ہی ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا۔اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اعلیٰ انسانی برتاؤکامفہوم بھی مذہبی رواداری میں شامل ہے۔
دیگر مذاہب میں مذہبی رواداری کا تصور اسلام کےبالمقابل تقریباً ناپید ہے۔ چنانچہ بائبل میں استثناء باب7آیات1تا6میں اس بات کا ذکر ملتاہے کہ جب یہود کسی قوم پر فتح حاصل کریں تو مفتوح قوم کوبالکل نابودکردیں، اُن کے ساتھ کوئی عہد نہ کریں اورنہ ہی اُن پررحم کریں۔اسی طرح اُن سے رشتہ کرنے کی ممانعت ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو ڈھا دینے کاحکم ہے۔
اس کے با لمقابل اسلام رواداری ،امن اور احترام انسانیت کامذہب ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ملّت انسانی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق میں یکساں حیثیت کا حامل ہے۔
اسلامی ریاست کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں ،بلاتفریق عقیدہ اپنے مذہبی معاملات میں مکمل طورپر آزاد ہیں اوران کےمذہبی معاملات کے بارہ میں ان پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں۔
ریاست مدینہ کے بانی حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ظلم، بربریت اور تعصبات کی دنیا میںمبعوث ہوکر عدل واحسان، مذہبی رواداری اور حریتِ ضمیر ومذہب کی بھی ایسی اعلیٰ تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور اعلان کیاکہ
‘‘دین میں کوئی جبر نہیں۔’’ (سورۃالبقرۃ:257)
نیزفرمایا‘‘جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔’’(سورۃالکہف:30)
Head of ahmadiyya muslim community delivers historic address at unesco headqu...muzaffertahir9
Hazrat Mirza Masroor Ahmad calls for respect and tolerance between people of different faiths and beliefs
• His Holiness stresses importance of education for girls
• Caliph says access to education is key to world peace
• His Holiness says Holy Quran inspires Muslims towards intellectual advancement and the pursuit of knowledge
• His Holiness says that there is no contradiction between science and religion
The World Head of the Ahmadiyya Muslim Community, the Fifth Khalifa (Caliph), His Holiness, Hazrat Mirza Masroor Ahmad delivered an historic keynote address on 8th October 2019 at the United Nations Educational, Scientific, and Cultural Organisation (UNESCO) Headquarters in Paris.
A Message of Peace – A Word of Warning
by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul Masih III(rh)
Hazrat Mirza Nasir Ahmad(rh) – Khalifatul Masih III (the third successor of The Promised Messiah), in the capacity of Khalifatul Masih, on his first visit to some countries of Europe and Africa delivered a public lecture on 28 July 1967 at the Wandsworth Town Hall, London. It was later published under the title A Message of Peace and a Word of Warning and is being presented here again.
In this lecture Huzur introduces the Founder of the Ahmadiyya Muslim Community and the Movement itself and after mentioning the purpose of coming of the Promised Messiah (as), he concludes his lecture with the wording of The Promised Messiah(as)
‘O Europe, you are not safe and O Asia, you too, are not immune. And O dwellers of Islands, no false gods shall come to your rescue. I see cities fall and settlements laid waste. The One and the Only God kept silent for long. Heinous deeds were done before His eyes and He said nothing. But now He shall reveal His face in majesty and awe. Let him who has ears hear that the time is not far. I have done my best to bring all under the protection of God, but it was destined that what was written should come to pass. Truly do I say, that the turn of this land, too, is approaching fast. The times of Noah shall reappear before your eyes and your own eyes will be witnesses to the calamity that overtook the cities of Lot. But God is slow in His wrath. Repent that you may be shown mercy! He who does not fear Him is dead not alive.’
Majestic Writings of the Promised Messiah
by Hazrat Mirza Tahir Ahmad, Khalifatul Masih IV(rh)
In view of some renowned Muslim scholars
Part 13 of a Review of the Pakistani Government’s “White Paper”: Qadiyaniyyat – A Grave Threat to Islam
Murder in the Name of Allah
by Hazrat Mirza Tahir Ahmad, Khalifatul Masih IV(rh)
Murder in the Name of Allah is the first translation into English of Mazhab Ke Nam Per Khoon, a re-affirmation of the basic tenets of Islam.
Hardly a day passes on which an Islamic event does not make headlines. The president of a Muslim country is assassinated by the supporters of Muslim brotherhood; a European journalist is taken hostage by Islamic Jihad; a Pan-American aircraft is hijacked by another Muslim group; American university professors are taken into custody by Hezbullah; Two passenger carrying airplanes were slammed in to world trade center. The glare of ‘Islamic’ revolution in Iran is reflected through the flares of every gulf oil refinery.
This book is a reminder that the purpose of any religion is the spread of peace, tolerance and understanding. It argues that the meaning of Islam—submission to the will of God—has been steadily corrupted by minority elements in the community. Instead of spreading peace, the religion has been abused by fanatics and made an excuse for violence and the spread of terror, both inside and outside the faith.
In confirming the true spirit of Islam, it makes the point to followers of all religions that the future of mankind depends on the intrinsic values of love, tolerance, and freedom of conscience and of belief.
THE REMINISCENCES OF SIR MUHAMMAD ZAFRULLA KHANmuzaffertahir9
The Reminiscences of Zafrulla Khan
by Sir Muhammad Zafrulla Khan, (ra)
Interviews by Prof. Wilcox and Prof. Embree of Columbia University
Introduction by Prof. Pervez Perwazi
This is what M.M. Ahmad, a former Executive Director and Vice-President of the World Bank, as well as former Deputy Chairman of the Planning Commission of Pakistan, has written about Sir Zafrulla Khan in another context:
“Zafrulla Khan walked through the loftiest corridors of world power with ease, grace and dignity and left his indelible mark on whatever he touched. Few personalities of his age combined and contributed both to worldly assignments of enormous delicacy and critical importance and at the same time never neglected to the Creator and devoted services to Islam and the Muslim world….
Giants like Zafrulla are not born everyday. They adorn humanity and ignite a brilliant light which illuminates the paths of many and invites and directs them to follow.”