’لا نبی بعدی‘ حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالے
مارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
عض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےmuzaffertahir9
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے 73فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ انھی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ ؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواج مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں ۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھربھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلاد شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے ۔ جو امام حسین ؓ پر تبرہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں ۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کیے۔ آج کل نیچریوں کاایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیے ہیں ۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےmuzaffertahir9
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
پس جب کہ آخری دنوں کیلئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورپر ظاہر ہوچکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دوروں میں سے یہ آخری دور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور نیز خدا و تر ہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن وتر پیدا کئے ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الہٰیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب حجج الکرامہ میں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گزرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گزرا۔
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺmuzaffertahir9
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات تمام فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف اور ہر خیرو برکت کا مبدء ہے ۔ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی بے پناہ اور کبھی نہ ختم ہو نے والی عنایات پر زندہ گواہ ہے۔ سنّت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے ان افضال وبرکات اور فیوض وانعامات کو مختلف ذرائع سے دنیا میں ظاہر کرتا ہے۔ان بے شمار وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ہے۔ انبیائے کرام اس زمرۂ ابرار کے سرخیل ہو تے ہیں جو ایک طرف تو ہستی با ری تعالیٰ کے شاہد رؤیت ہو تے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے لیے ان کا وجو د خدا نما ہو تا ہے۔یہ روحانی کمال اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے مطابق ہر نبی کو حا صل ہو تا ہے۔چنانچہ اس میدان میں سب سے افضل، سب سے کامل اور سب سے بلند مرتبہ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا کیونکہ آپ انبیاءؑ کے سرتاج اور تمام مقدسوں اور مطہروں کا فخر ہیں ۔آپؐ اس کائنات عالم کی علّتِ غائی ہیں کیونکہ آپ ہی کی برکت سے حیطۂ کون ومکان کو خلعت تکوین سے نواز ا گیا۔
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہmuzaffertahir9
حضورﷺ عرب کی ایک بستی مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کے اکثر لوگ سخت مزاج اوروحشی صفت تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اورلوگوں کے دل پتھر تھے۔شراب خوری اور زناکاری اس سرزمین کا دستور تھا۔ گویا کہ ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر
تھا۔مگر یہ حلقہ ظلمت کدہ پھر نورِمحمدﷺ سے مستفیض ہوااورجہاں جہاں بادسموم کا تصور تھا وہاں رقص بہاراں کےجشن میں راحت آمیز ہوائیں اٹھکیلیاں کرنے لگیں۔
ہمارے آقا و مولا سید الرسل جناب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ محض انسانیت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے لفظ عَالَمسے ظاہر ہے یہ رحمت وسیع تھی اور ہر قسم کا جاندار، چرند پرند اس دائرہ ٔرحمت میں شامل تھا۔
لیکن افسوس کے وہ نبی جو رحمت بنا کر بھیجا گیااس کی ذاتِ اطہر پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے بار بار دہرایا جانے والا ایک اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نعوذ باللہ دنیا میں بد امنی، فساد اورقتل و غارت پھیلائی اور مخالفین پر تلوار اٹھائی جس سے خون کی ندیاں بہ نکلیں۔
لیکن اگر ہم قرآن کریم ، احادیث اور تاریخ کا صحیح رنگ میں مطالعہ کریں نیز اُس علم الکلام سے مستفیض ہوں جو اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں عطا فرمایا تو ہمیں اس کے بر عکس ایک ایسے نبیؐ کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جو نہ صرف اپنوں بلکہ پہلے اور آئندہ آنے والوں کے لیے بھی سراپا سلامتی و رحمت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرش کا خدا اور اس کے فرشتے اس پاک نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اورتا قیامت مومنین کو یہ تاکید کی گئی کہ وہ بھی اس رسول مقبولﷺ پر درود بھیجتے رہیں۔
حضرت مسیح موعودو مہدی معہودعلیہ السلام جو آنے والا تھا وہ یہی شخص ہے جس کے ...muzaffertahir9
حضرت مسیح موعودو مہدی معہود
علیہ السلام
یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے
جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے
’ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو ۔ وہ ملائک میں نہیں تھا ۔ نجوم میں نہیں تھا ۔ قمر میں نہیں تھا ۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا ۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا ۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا ۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا ۔ صرف انسان میں تھا ۔ یعنی انسان کامل میں ۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۶۰)
اپنے فارسی منظوم کلام میں اپنے معشوق سے عشق کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
(ازالہ اوہام صفحہ ۱۷۶)
آپ ﷺ کا عشق میرے وجود کے ہر رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور میں اپنے آپ سے خالی اور اس محبوب کے غم سے پر ہوں ۔
جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچہ آل محمدؐ است
(اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۴ء)
حضورؑ نے باربار اپنی ظلی نبوت کااعلان فرمایا ہے ۔ خاکسار یہاں بعض مزید مفید حوالے درج کرتاہے جن میں سے بعض آپؑ کی عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔یہ تحریرات مسئلہ نبوت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کی اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفی ﷺ سے حد درجہ محبت وفدائیت پر بھی روشن دلیل ہیں
نبی اللہ ، رسول ، محمد اور احمد- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اورگس...muzaffertahir9
’’خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمد مصطفی ﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمّد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمّد کی چیز محمّد کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ ‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۲۱۶)
اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بروزی صورت میں میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا ہے ۔ جبکہ صاحبِ بروز اور اصل محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ میرا نفس درمیان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک بروز ہے تو دوسرا صاحبِ بروز ۔ یعنی اصل تو محمد مصطفی ﷺ ہی ہیں۔ میری حیثیت تو محض بروزی ہے۔ پس اس میں نہ تو حضرت محمّد مصطفی ﷺ سے مقام ومرتبہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے نہ ہی بعینہ حضرت محمّد مصطفی ﷺ ہونے کا مفہوم ۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحبِ بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحبِ بروز میں سے نکلا ہوا ہو۔ ‘‘ (صفحہ ۲۱۳،ایضاً)
پس اس لحاظ سے بروز کا مقام صاحبِ بروز کے سامنے شاگرد یا بیٹے کا قرار پاتا ہے نہ یہ کہ وہ دونوں ہم مرتبہ اور ہم مقام ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اپنے اسی مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں فرمایا ہے
’’ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شاملِ حال ہے۔ یعنی محمّد مصطفی ﷺ ۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۱۱)
ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہےmuzaffertahir9
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے 73فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ انھی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ ؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواج مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو بُرا کہتے ہیں ۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں ۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اور پھربھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلاد شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے ۔ جو امام حسین ؓ پر تبرہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں ۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کیے۔ آج کل نیچریوں کاایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیے ہیں ۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہےmuzaffertahir9
محمدیؐ خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے
پس جب کہ آخری دنوں کیلئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورپر ظاہر ہوچکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دوروں میں سے یہ آخری دور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے۔ اس تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اور نیز خدا و تر ہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن وتر پیدا کئے ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الہٰیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب حجج الکرامہ میں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گزرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گزرا۔
shan e Khatam ul anbiya - شانِ خاتم الانبیاء ﷺmuzaffertahir9
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات تمام فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف اور ہر خیرو برکت کا مبدء ہے ۔ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی بے پناہ اور کبھی نہ ختم ہو نے والی عنایات پر زندہ گواہ ہے۔ سنّت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے ان افضال وبرکات اور فیوض وانعامات کو مختلف ذرائع سے دنیا میں ظاہر کرتا ہے۔ان بے شمار وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ہے۔ انبیائے کرام اس زمرۂ ابرار کے سرخیل ہو تے ہیں جو ایک طرف تو ہستی با ری تعالیٰ کے شاہد رؤیت ہو تے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے لیے ان کا وجو د خدا نما ہو تا ہے۔یہ روحانی کمال اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے مطابق ہر نبی کو حا صل ہو تا ہے۔چنانچہ اس میدان میں سب سے افضل، سب سے کامل اور سب سے بلند مرتبہ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا کیونکہ آپ انبیاءؑ کے سرتاج اور تمام مقدسوں اور مطہروں کا فخر ہیں ۔آپؐ اس کائنات عالم کی علّتِ غائی ہیں کیونکہ آپ ہی کی برکت سے حیطۂ کون ومکان کو خلعت تکوین سے نواز ا گیا۔
بلادِ عرب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ کے احسانات کاتذکرہmuzaffertahir9
حضورﷺ عرب کی ایک بستی مکہ میں پیدا ہوئے جہاں کے اکثر لوگ سخت مزاج اوروحشی صفت تھے۔ وہ کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی زمین سنگلاخ تھی اورلوگوں کے دل پتھر تھے۔شراب خوری اور زناکاری اس سرزمین کا دستور تھا۔ گویا کہ ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا ہواسمندر
تھا۔مگر یہ حلقہ ظلمت کدہ پھر نورِمحمدﷺ سے مستفیض ہوااورجہاں جہاں بادسموم کا تصور تھا وہاں رقص بہاراں کےجشن میں راحت آمیز ہوائیں اٹھکیلیاں کرنے لگیں۔
ہمارے آقا و مولا سید الرسل جناب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو خدا تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی رحمت کا دائرہ محض انسانیت تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جیسا کہ عربی زبان کے لفظ عَالَمسے ظاہر ہے یہ رحمت وسیع تھی اور ہر قسم کا جاندار، چرند پرند اس دائرہ ٔرحمت میں شامل تھا۔
لیکن افسوس کے وہ نبی جو رحمت بنا کر بھیجا گیااس کی ذاتِ اطہر پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے بار بار دہرایا جانے والا ایک اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نعوذ باللہ دنیا میں بد امنی، فساد اورقتل و غارت پھیلائی اور مخالفین پر تلوار اٹھائی جس سے خون کی ندیاں بہ نکلیں۔
لیکن اگر ہم قرآن کریم ، احادیث اور تاریخ کا صحیح رنگ میں مطالعہ کریں نیز اُس علم الکلام سے مستفیض ہوں جو اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں عطا فرمایا تو ہمیں اس کے بر عکس ایک ایسے نبیؐ کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جو نہ صرف اپنوں بلکہ پہلے اور آئندہ آنے والوں کے لیے بھی سراپا سلامتی و رحمت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عرش کا خدا اور اس کے فرشتے اس پاک نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اورتا قیامت مومنین کو یہ تاکید کی گئی کہ وہ بھی اس رسول مقبولﷺ پر درود بھیجتے رہیں۔
حضرت مسیح موعودو مہدی معہودعلیہ السلام جو آنے والا تھا وہ یہی شخص ہے جس کے ...muzaffertahir9
حضرت مسیح موعودو مہدی معہود
علیہ السلام
یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے
جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے
’ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا تھا۔ یعنی انسان کامل کو ۔ وہ ملائک میں نہیں تھا ۔ نجوم میں نہیں تھا ۔ قمر میں نہیں تھا ۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا ۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا ۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا ۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا ۔ صرف انسان میں تھا ۔ یعنی انسان کامل میں ۔ جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۶۰)
اپنے فارسی منظوم کلام میں اپنے معشوق سے عشق کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
(ازالہ اوہام صفحہ ۱۷۶)
آپ ﷺ کا عشق میرے وجود کے ہر رگ و ریشہ میں سرایت کرچکا ہے اور میں اپنے آپ سے خالی اور اس محبوب کے غم سے پر ہوں ۔
جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچہ آل محمدؐ است
(اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۴ء)
حضورؑ نے باربار اپنی ظلی نبوت کااعلان فرمایا ہے ۔ خاکسار یہاں بعض مزید مفید حوالے درج کرتاہے جن میں سے بعض آپؑ کی عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔یہ تحریرات مسئلہ نبوت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کی اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفی ﷺ سے حد درجہ محبت وفدائیت پر بھی روشن دلیل ہیں
نبی اللہ ، رسول ، محمد اور احمد- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اورگس...muzaffertahir9
’’خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمد مصطفی ﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمّد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمّد کی چیز محمّد کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ ‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۲۱۶)
اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بروزی صورت میں میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا ہے ۔ جبکہ صاحبِ بروز اور اصل محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ میرا نفس درمیان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک بروز ہے تو دوسرا صاحبِ بروز ۔ یعنی اصل تو محمد مصطفی ﷺ ہی ہیں۔ میری حیثیت تو محض بروزی ہے۔ پس اس میں نہ تو حضرت محمّد مصطفی ﷺ سے مقام ومرتبہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے نہ ہی بعینہ حضرت محمّد مصطفی ﷺ ہونے کا مفہوم ۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحبِ بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحبِ بروز میں سے نکلا ہوا ہو۔ ‘‘ (صفحہ ۲۱۳،ایضاً)
پس اس لحاظ سے بروز کا مقام صاحبِ بروز کے سامنے شاگرد یا بیٹے کا قرار پاتا ہے نہ یہ کہ وہ دونوں ہم مرتبہ اور ہم مقام ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اپنے اسی مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں فرمایا ہے
’’ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شاملِ حال ہے۔ یعنی محمّد مصطفی ﷺ ۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۱۱)
O Messenger! Convey to the people what has been revealed to thee from thy Lordmuzaffertahir9
O Messenger! Convey to the people what has been revealed to thee from thy Lord; and if thou do it not, thou hast not conveyed His Message at all. And Allah will protect thee from men. Surely, Allah guides not the disbelieving people. [5:68]
اے رسول! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے۔ اور اگر توُ نے ایسا نہ کیا تو گویا توُ نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ یقیناً اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
’’ نبی اور اُس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت اِلی اللہ الخیر ہوتی ہے۔ وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے۔
نیز فرمایا کہ ’’ عمل کے لئے ایک اور بات کی ضرورت ہے اُس وقت تک انسان کے اندر کسی کام کے کرنے کے لئے جوش اور شوق پیدا نہیں ہوتا جب تک اسے اس کی حقیقت اور حکمت سمجھ میں نہ آجائے۔
خلافت کے بنیادی معنی جانشینی کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں نبی کے جانشین کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کے لیے بھی خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا کیونکہ وہ الٰہی صفات اختیار کرنے کےلحاظ سے روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ جانشین ہوتے ہیں جن کو خلافت، نبوت عطا کی جاتی ہے۔
مذہب اور نبوت و خلافت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں جیسی خلافت مسلمانوں کو بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا بشرطیکہ وہ ایمان اور اعمال صالحہ بجالاتے رہیں۔ ف
دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
آپ نے اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر دعا کی تاثیرات دنیا کے سامنے پیش کیں اور فرمایا :
’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہاہوں کہ دعاؤں کی تاثیرآب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیساکہ دعا ہے‘‘۔ (برکات الدعا ، روحانی خزائن مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ء جلد ۶ صفحہ ۱۱)
مسلم امہ کے لئے دعا
کہ اے میرے رب!، میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری گریہ زاری سن میں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کے شفیع جس کی شفاعت قبول کی جائے گی کے واسطے تجھ سے عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال لے آ اور دوری کے دشت سے اپنے حضور لے آ۔ اے میرے رب ان پر رحم کر جو جو مجھ پر لعنت کرتے ہیں اور جو میرے ھاتھ کاٹتے ہیں ۔ اس قوم کو ہلاکت سے بچا اور اپنی ہدایت کو ان کے دلوں میں داخل فرما اور ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما اور ان کو بخش دے اور ان کو عافیت فرما اور ان کی اصلاح فرما اور ان کو پاک فرما۔ اور ان کو ایسی آنکھیں عطا فرما جن سے وہ دیکھ سکیں ۔ ایسے کان عطا فرما جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگزر فرما کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب! حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ اور آپ کے بلند مقام کے صدقے اور ان کے صدقے جو راتوں کو قیام کرتے اور صبح کے وقت جنگ کرتے ہیں اور ان سواریوں کے صدقے جو (رضا کی) خاطر راتوں کا سفر کرنے کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ان سفروں کے صدقے جو اُم القریٰ کی طرف کئے جاتے ہیں ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کے سامان فرما ۔ اور ان کی آنکھیں کھول اور ان کے دلوں کو منور فرما ۔ اور انھیں وہ کچھ سمجھا دے جو تونے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کے تریق سکھا اور جو کچھ گزر چکا اس سے در گزر فرما۔ ہماری آخری دعا یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو بلند آسمانوں کا رب ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر
مختصر اور قابل عمل احادیث کا بیان
Practical teachings of Prophet Muhammad (pbuh) pertaining to day to day affairs Only those sayings of the Prophet (pbuh) have been included that are short, comprehensive and easy to follow, both individually and collectively.
"آج کے دن میں نے تمہاے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کردی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کرلیا ہے ۔" (المائدہ 5:4)
اس آیت کریمہ کو پیش کرکے غیر احمدی حضرات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بطور دین کامل کردیا گیا ہے اور نعمت تمام ہونے کا مطلب ہے کہ نبوت ختم ہوگئی ہے۔ یہ استدلال سورہ یوسف کی مندرجہ ذیل آیت سے غلط ثابت ہوتا ہے۔
"اور اسی طرح تیرا رب تجھے (اپنے لئے) چن لےگا اور تجھے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا علم سکھادیگا اور اپنی نعمت تجھ پر تمام کریگا اور آل یعقوب پر بھی جیسا کہ اس نے اسے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق پر پہلے تمام کیا تھا۔ یقیناً تیرا رب دائمی علم رکھنے والا (اور) حکمت والا ہے۔" (سورہ یوسف 12:7)
ریاست مدینہ کے بانی حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ظلم، بربریت اور تعصبات کی دنیا میںمبعوث ہوکر عدل واحسان، مذہبی رواداری اور حریتِ ضمیر ومذہب کی بھی ایسی اعلیٰ تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور اعلان کیاکہ
‘‘دین میں کوئی جبر نہیں۔’’ (سورۃالبقرۃ:257)
نیزفرمایا‘‘جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔’’(سورۃالکہف:30)
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات
جماعتِ احمدیہ کے پیش کردہ جوابات اپنے اندر دلائل اور سچّائی کا ناقابلِ ردّ، ٹھوس علمی مواد رکھتے ہیں۔اس لئے آج تک اُن جوابات کے ردّ کی استطاعت کسی کو نہیں ملی۔ یہ محض ایک دعوٰی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت خود معاندینِ احمدیّت کا لٹریچر مہیّا کرتا ہے۔ اس لٹریچر میں اُن جوابات کے ردّ کی بجائے پھر اُنہیں پِٹے ہوئے اعتراضات ہی کو دوبارہ یا بار بارپیش کر دیا جاتا ہے۔ معترضین کی یہ روِش ان کی دلائل کے لحاظ سے بے بضاعتی اور علمی شکست خوردگی کی نمایاں دلیل ہے۔
اُن کے شکست خوردہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت اور جماعتِ احمدیّہ کے دلائل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ان کا جہاں بس چلتا ہے وہ جماعتِ احمدیّہ کے لٹریچر پر پابندیاں لگوانے اور اسے بین کرانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جماعتِ احمدیّہ کے لٹریچر کی اشاعت ان کے جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کی قلعی کھولنے والا ہے۔
معترضین کے شکست خوردہ ہونے اورجماعتِ احمدیّہ کے جوابات کے ناقابلِ ردّ ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ مخالفینِ احمدیّت اپنے اعتراضات کو علمِ کلام کے مسلّمہ اصولوں پر مبنی دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد معیاروں پر استوار کر کے اشتعال انگیزی اور دشنام طرازی سے آلودہ کر کے پیش کرتے ہیں۔جیسا کہ احمدیّت کے ایک مخالف مصنّف، ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب نے جماعتِ احمدیّہ کے خلاف اپنی ایک تصنیف میں یہ اعتراف کیا کہ
’’ آج تک احمدیّت پر جس قدر لٹریچر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے، اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ۔ ایسے دشنام آلودہ لٹریچر کو کون پڑھے اور مغلّظات کون سنے۔‘‘ (’’ حرفِ محرمانہ ( احمدیّت پر ایک نظر) ‘‘ صفحہ۱۱، ۱۲ ۔مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔ لاہور )
مختلف دعاوی اور ناموں پر اعتراض
جس نے مہدی ء کی تکذیب کی اس نے کفر کیا
مسیح موعود ء پر ایمان نہ لانے والے ...؟
آنحضرت ﷺ نے اپنے مسیح و مہدی کے بارہ میں فرمایا تھا
اذا رایتموہ فبایعوہ۔( ابنِ ماجہ۔ کتاب الفتن باب خروج المہدی)
کہ تم جب بھی اس کو پاؤ تو اس کی بیعت میں داخل ہو جانا
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan SaeediAbul Meezab
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan Saeedi
اس کتاب میں: ہندوستان میں وھابیت اور انگریز فائنانسنگ کا ظہور
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی علمی اور عملی حالت
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کے شرمناک مسائل
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی گستاخیاں
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) اور مرزا غلام احمد قادیانی
Ghair Moqallideen (naam nihad Ahle Hadees) ki Ilmi or Amali Halat
Hindostan main Wahabiyyat or Angrazi Financing ka zahoor
British Financing in India and the Sect of Ahl e Hadees (Ghair Moqallid)
آسمانی عدالت میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے استغاثہ پر ایک صدی مکمل ہوگئیmuzaffertahir9
آسمانی عدالت میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے استغاثہ پر ایک صدی مکمل ہوگئی
۱۸۹۹ء کو سلسلہ عا لیہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ منفرد عظمت حا صل ہے کہ اس سال مہدی مو عود سید نا حضرت مسیح مو عودؑ نے یک طرفہ بد دعا شائع کرکے ربّ ذ وا لجلال اوربا دشاہو ں کے با دشاہ کی آسما نی عدا لت میں استغا ثہ دا ئر کیا جس پرایک صدی مکمل ہو چکی ہے ۔ اس استغاثہ کا پس منظر یہ تھا کہ حضور نے ۱۸۹۶ء کے آ خر میں خدا تعالیٰ کے حکم سے مکفّر و مکذّب علما ء اورسجا دہ نشینو ں کے نا م ’’اشتہار مبا ہلہ ‘‘ شا ئع فرما یا جو ۲۷ صفحا ت پرمشتمل تھا۔ حضرت اقدس نے اشتہار کے آ غا ز میں تحریر فرمایا:
’’اللہ جلشانہ قرآ ن شریف میں فرماتا ہے ۔ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِ بُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُ کُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّا ب ۔
یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھو ٹ اس پرپڑے گا۔ اورا گریہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے ۔خدا ایسے شخص کو فتح اور کا میا بی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذا ب ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐ پر...muzaffertahir9
ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔
میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب’ افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات از قبیلِ مسمریزم تھےmuzaffertahir9
راشد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی ایک تحریر کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے ۔
بغض وعناد میں یہ معترض اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری عبارت بھی نہیں پڑھ سکا۔ اور نہ یہ سوچ سکا ہے کہ مسمریزم وغیرہ کے عمل کو شریعتِ اسلامیہ میں مکروہ سمجھا جاتا ہے لیکن پہلی شریعتوں میں ایسا نہیں تھا۔
امام مہدی کی مخالفت ہی صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
عالمِ اسلام کے عظیم سائنسدان کو خراجِ تحسینmuzaffertahir9
عالمِ اسلام کے عظیم سائنسدان کو خراجِ تحسین
عالمِ اسلام کا عظیم سائنسدان اور مملکت پاکستان کا قابل فخر فرزند، دنیائے سائنس کے افق پر نصف صدی سے زائد روشن رہنے کے بعد آج سے ٹھیک ایک سال قبل ۲۱؍ نومبر ۱۹۹۶ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ (کل من علیھا فان)۔
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم و مغفور کی روشن اور تابناک حیات کے ۷۰ سال بعض پہلوؤں سے نہایت کڑوا سچ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دنیا بھر کے اہل علم افراد، سیاسی راہنماؤں اور اسلامی قائدین کی طرف سے جس طرح آپ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’عقل کی روشنی کے اعتبار سے ڈاکٹر عبدالسلام کی فضیلت ساری دنیا میں مسلم ہے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۹؍نومبر ۹۶ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمائے۔
محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے قدموں پر دنیا بھر کی ۳۶ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں نچھاور کیں ، آپ کی قابلیت کے اعتراف میں ۲۰ سے زائد بین الاقوامی میڈل اور انعامات پیش کئے گئے اور آپ کی خدمات کے پیشِ نظر ۲۴ سے زائد اکیڈیمیوں اور سوسائٹیوں نے آپ کی فیلوشپ اپنے لئے قابلِ فخر سمجھی۔ ان سارے اعزازات کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منفرد مقام کا حامل کوئی اور مسلمان سائنسدان کہیں اور دکھائی نہیں دے گا۔ اگرچہ ارضِ پاکستان کے بعض تنگ نظروں اور متعصب سوچ رکھنے والوں نے اپنے ہی وطن کو اس جوہر قابل کے بھرپوراستفادے سے محروم کردیا۔ چنانچہ جب سائنس کے میدان میں تحقیق و ترقیات کے ولولہ انگیز پروگرام اپنے خوابوں میں سجائے ہوئے نوجوان ڈاکٹر عبدالسلام یورپ کے شاندار تعلیمی ریکارڈ اپنی چھاتی پر سجاکر اپنے وطن پہنچا تو اہالیانِ وطن اور ارباب اقتدار کی طرف سے اس کی شایانِ شان پذیرائی تو درکنار ۔۔۔ اسے ہر پہلو سے مایوس کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ اس ال
ارشاد نبوی کے مطابق قائم جماعت احمدیہ کا نظام اور معاندین احمدیت کا الم انگیز...muzaffertahir9
’’میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔جن کو میرا خدا جو میر ے ساتھ ہے میر ے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اورمیری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اتر ے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوران کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں‘‘۔
جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔
O Messenger! Convey to the people what has been revealed to thee from thy Lordmuzaffertahir9
O Messenger! Convey to the people what has been revealed to thee from thy Lord; and if thou do it not, thou hast not conveyed His Message at all. And Allah will protect thee from men. Surely, Allah guides not the disbelieving people. [5:68]
اے رسول! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے۔ اور اگر توُ نے ایسا نہ کیا تو گویا توُ نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔ یقیناً اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
’’ نبی اور اُس کے جانشین خلیفہ کا پہلا کام تبلیغ الحق اور دعوت اِلی اللہ الخیر ہوتی ہے۔ وہ سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ اور اپنی دعوت کو دلائل اور نشانات کے ذریعہ مضبوط کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ وہ تبلیغ کرتا ہے۔
نیز فرمایا کہ ’’ عمل کے لئے ایک اور بات کی ضرورت ہے اُس وقت تک انسان کے اندر کسی کام کے کرنے کے لئے جوش اور شوق پیدا نہیں ہوتا جب تک اسے اس کی حقیقت اور حکمت سمجھ میں نہ آجائے۔
خلافت کے بنیادی معنی جانشینی کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں نبی کے جانشین کے لیے خلیفہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے نبیوں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کے لیے بھی خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا کیونکہ وہ الٰہی صفات اختیار کرنے کےلحاظ سے روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ جانشین ہوتے ہیں جن کو خلافت، نبوت عطا کی جاتی ہے۔
مذہب اور نبوت و خلافت کا تصور لازم و ملزوم ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں جیسی خلافت مسلمانوں کو بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا بشرطیکہ وہ ایمان اور اعمال صالحہ بجالاتے رہیں۔ ف
دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
آپ نے اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر دعا کی تاثیرات دنیا کے سامنے پیش کیں اور فرمایا :
’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہاہوں کہ دعاؤں کی تاثیرآب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیساکہ دعا ہے‘‘۔ (برکات الدعا ، روحانی خزائن مطبوعہ لندن ۱۹۸۴ء جلد ۶ صفحہ ۱۱)
مسلم امہ کے لئے دعا
کہ اے میرے رب!، میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری گریہ زاری سن میں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کے شفیع جس کی شفاعت قبول کی جائے گی کے واسطے تجھ سے عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال لے آ اور دوری کے دشت سے اپنے حضور لے آ۔ اے میرے رب ان پر رحم کر جو جو مجھ پر لعنت کرتے ہیں اور جو میرے ھاتھ کاٹتے ہیں ۔ اس قوم کو ہلاکت سے بچا اور اپنی ہدایت کو ان کے دلوں میں داخل فرما اور ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما اور ان کو بخش دے اور ان کو عافیت فرما اور ان کی اصلاح فرما اور ان کو پاک فرما۔ اور ان کو ایسی آنکھیں عطا فرما جن سے وہ دیکھ سکیں ۔ ایسے کان عطا فرما جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ سمجھ سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں ان سے درگزر فرما کیونکہ وہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب! حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ اور آپ کے بلند مقام کے صدقے اور ان کے صدقے جو راتوں کو قیام کرتے اور صبح کے وقت جنگ کرتے ہیں اور ان سواریوں کے صدقے جو (رضا کی) خاطر راتوں کا سفر کرنے کے لئے تیار کی جاتی ہیں اور ان سفروں کے صدقے جو اُم القریٰ کی طرف کئے جاتے ہیں ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کے سامان فرما ۔ اور ان کی آنکھیں کھول اور ان کے دلوں کو منور فرما ۔ اور انھیں وہ کچھ سمجھا دے جو تونے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کے تریق سکھا اور جو کچھ گزر چکا اس سے در گزر فرما۔ ہماری آخری دعا یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو بلند آسمانوں کا رب ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر
مختصر اور قابل عمل احادیث کا بیان
Practical teachings of Prophet Muhammad (pbuh) pertaining to day to day affairs Only those sayings of the Prophet (pbuh) have been included that are short, comprehensive and easy to follow, both individually and collectively.
"آج کے دن میں نے تمہاے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کردی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کرلیا ہے ۔" (المائدہ 5:4)
اس آیت کریمہ کو پیش کرکے غیر احمدی حضرات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بطور دین کامل کردیا گیا ہے اور نعمت تمام ہونے کا مطلب ہے کہ نبوت ختم ہوگئی ہے۔ یہ استدلال سورہ یوسف کی مندرجہ ذیل آیت سے غلط ثابت ہوتا ہے۔
"اور اسی طرح تیرا رب تجھے (اپنے لئے) چن لےگا اور تجھے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کا علم سکھادیگا اور اپنی نعمت تجھ پر تمام کریگا اور آل یعقوب پر بھی جیسا کہ اس نے اسے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق پر پہلے تمام کیا تھا۔ یقیناً تیرا رب دائمی علم رکھنے والا (اور) حکمت والا ہے۔" (سورہ یوسف 12:7)
ریاست مدینہ کے بانی حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ظلم، بربریت اور تعصبات کی دنیا میںمبعوث ہوکر عدل واحسان، مذہبی رواداری اور حریتِ ضمیر ومذہب کی بھی ایسی اعلیٰ تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور اعلان کیاکہ
‘‘دین میں کوئی جبر نہیں۔’’ (سورۃالبقرۃ:257)
نیزفرمایا‘‘جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔’’(سورۃالکہف:30)
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات
جماعتِ احمدیہ کے پیش کردہ جوابات اپنے اندر دلائل اور سچّائی کا ناقابلِ ردّ، ٹھوس علمی مواد رکھتے ہیں۔اس لئے آج تک اُن جوابات کے ردّ کی استطاعت کسی کو نہیں ملی۔ یہ محض ایک دعوٰی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس کا ثبوت خود معاندینِ احمدیّت کا لٹریچر مہیّا کرتا ہے۔ اس لٹریچر میں اُن جوابات کے ردّ کی بجائے پھر اُنہیں پِٹے ہوئے اعتراضات ہی کو دوبارہ یا بار بارپیش کر دیا جاتا ہے۔ معترضین کی یہ روِش ان کی دلائل کے لحاظ سے بے بضاعتی اور علمی شکست خوردگی کی نمایاں دلیل ہے۔
اُن کے شکست خوردہ ہونے کا کھلا کھلا ثبوت اور جماعتِ احمدیّہ کے دلائل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ان کا جہاں بس چلتا ہے وہ جماعتِ احمدیّہ کے لٹریچر پر پابندیاں لگوانے اور اسے بین کرانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جماعتِ احمدیّہ کے لٹریچر کی اشاعت ان کے جھوٹے اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کی قلعی کھولنے والا ہے۔
معترضین کے شکست خوردہ ہونے اورجماعتِ احمدیّہ کے جوابات کے ناقابلِ ردّ ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ مخالفینِ احمدیّت اپنے اعتراضات کو علمِ کلام کے مسلّمہ اصولوں پر مبنی دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی بجائے اپنے خود ساختہ، بے بنیاد معیاروں پر استوار کر کے اشتعال انگیزی اور دشنام طرازی سے آلودہ کر کے پیش کرتے ہیں۔جیسا کہ احمدیّت کے ایک مخالف مصنّف، ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب نے جماعتِ احمدیّہ کے خلاف اپنی ایک تصنیف میں یہ اعتراف کیا کہ
’’ آج تک احمدیّت پر جس قدر لٹریچر علمائے اسلام نے پیش کیا ہے، اس میں دلائل کم تھے اور گالیاں زیادہ۔ ایسے دشنام آلودہ لٹریچر کو کون پڑھے اور مغلّظات کون سنے۔‘‘ (’’ حرفِ محرمانہ ( احمدیّت پر ایک نظر) ‘‘ صفحہ۱۱، ۱۲ ۔مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔ لاہور )
مختلف دعاوی اور ناموں پر اعتراض
جس نے مہدی ء کی تکذیب کی اس نے کفر کیا
مسیح موعود ء پر ایمان نہ لانے والے ...؟
آنحضرت ﷺ نے اپنے مسیح و مہدی کے بارہ میں فرمایا تھا
اذا رایتموہ فبایعوہ۔( ابنِ ماجہ۔ کتاب الفتن باب خروج المہدی)
کہ تم جب بھی اس کو پاؤ تو اس کی بیعت میں داخل ہو جانا
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan SaeediAbul Meezab
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan Saeedi
اس کتاب میں: ہندوستان میں وھابیت اور انگریز فائنانسنگ کا ظہور
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی علمی اور عملی حالت
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کے شرمناک مسائل
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی گستاخیاں
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) اور مرزا غلام احمد قادیانی
Ghair Moqallideen (naam nihad Ahle Hadees) ki Ilmi or Amali Halat
Hindostan main Wahabiyyat or Angrazi Financing ka zahoor
British Financing in India and the Sect of Ahl e Hadees (Ghair Moqallid)
آسمانی عدالت میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے استغاثہ پر ایک صدی مکمل ہوگئیmuzaffertahir9
آسمانی عدالت میں حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے استغاثہ پر ایک صدی مکمل ہوگئی
۱۸۹۹ء کو سلسلہ عا لیہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ منفرد عظمت حا صل ہے کہ اس سال مہدی مو عود سید نا حضرت مسیح مو عودؑ نے یک طرفہ بد دعا شائع کرکے ربّ ذ وا لجلال اوربا دشاہو ں کے با دشاہ کی آسما نی عدا لت میں استغا ثہ دا ئر کیا جس پرایک صدی مکمل ہو چکی ہے ۔ اس استغاثہ کا پس منظر یہ تھا کہ حضور نے ۱۸۹۶ء کے آ خر میں خدا تعالیٰ کے حکم سے مکفّر و مکذّب علما ء اورسجا دہ نشینو ں کے نا م ’’اشتہار مبا ہلہ ‘‘ شا ئع فرما یا جو ۲۷ صفحا ت پرمشتمل تھا۔ حضرت اقدس نے اشتہار کے آ غا ز میں تحریر فرمایا:
’’اللہ جلشانہ قرآ ن شریف میں فرماتا ہے ۔ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِ بُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُصِبْکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ یَعِدُ کُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّا ب ۔
یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھو ٹ اس پرپڑے گا۔ اورا گریہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے ۔خدا ایسے شخص کو فتح اور کا میا بی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذا ب ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐ پر...muzaffertahir9
ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔
میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب’ افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات از قبیلِ مسمریزم تھےmuzaffertahir9
راشد علی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کی ایک تحریر کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے ۔
بغض وعناد میں یہ معترض اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوری عبارت بھی نہیں پڑھ سکا۔ اور نہ یہ سوچ سکا ہے کہ مسمریزم وغیرہ کے عمل کو شریعتِ اسلامیہ میں مکروہ سمجھا جاتا ہے لیکن پہلی شریعتوں میں ایسا نہیں تھا۔
امام مہدی کی مخالفت ہی صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
عالمِ اسلام کے عظیم سائنسدان کو خراجِ تحسینmuzaffertahir9
عالمِ اسلام کے عظیم سائنسدان کو خراجِ تحسین
عالمِ اسلام کا عظیم سائنسدان اور مملکت پاکستان کا قابل فخر فرزند، دنیائے سائنس کے افق پر نصف صدی سے زائد روشن رہنے کے بعد آج سے ٹھیک ایک سال قبل ۲۱؍ نومبر ۱۹۹۶ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ (کل من علیھا فان)۔
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم و مغفور کی روشن اور تابناک حیات کے ۷۰ سال بعض پہلوؤں سے نہایت کڑوا سچ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دنیا بھر کے اہل علم افراد، سیاسی راہنماؤں اور اسلامی قائدین کی طرف سے جس طرح آپ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’عقل کی روشنی کے اعتبار سے ڈاکٹر عبدالسلام کی فضیلت ساری دنیا میں مسلم ہے‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۹؍نومبر ۹۶ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمائے۔
محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے قدموں پر دنیا بھر کی ۳۶ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں نچھاور کیں ، آپ کی قابلیت کے اعتراف میں ۲۰ سے زائد بین الاقوامی میڈل اور انعامات پیش کئے گئے اور آپ کی خدمات کے پیشِ نظر ۲۴ سے زائد اکیڈیمیوں اور سوسائٹیوں نے آپ کی فیلوشپ اپنے لئے قابلِ فخر سمجھی۔ ان سارے اعزازات کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منفرد مقام کا حامل کوئی اور مسلمان سائنسدان کہیں اور دکھائی نہیں دے گا۔ اگرچہ ارضِ پاکستان کے بعض تنگ نظروں اور متعصب سوچ رکھنے والوں نے اپنے ہی وطن کو اس جوہر قابل کے بھرپوراستفادے سے محروم کردیا۔ چنانچہ جب سائنس کے میدان میں تحقیق و ترقیات کے ولولہ انگیز پروگرام اپنے خوابوں میں سجائے ہوئے نوجوان ڈاکٹر عبدالسلام یورپ کے شاندار تعلیمی ریکارڈ اپنی چھاتی پر سجاکر اپنے وطن پہنچا تو اہالیانِ وطن اور ارباب اقتدار کی طرف سے اس کی شایانِ شان پذیرائی تو درکنار ۔۔۔ اسے ہر پہلو سے مایوس کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ اس ال
ارشاد نبوی کے مطابق قائم جماعت احمدیہ کا نظام اور معاندین احمدیت کا الم انگیز...muzaffertahir9
’’میں آسمان سے اترا ہوں ان پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔جن کو میرا خدا جو میر ے ساتھ ہے میر ے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اورمیری قلم لکھنے سے رکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اتر ے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اوران کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں‘‘۔
جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کے مدعی ہیں کہ آپ وہی مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کے متعلق قرآن کریم ،احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان اُمت میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور آپؑ نے اپنا وہی مقام بیان فرمایا ہے جو ان پیش خبریوں میں آنے والے مسیح اور مہدی کا بیان کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ آپ کو آپ کے جملہ دعاوی میں سچا جانتی ہے۔ اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان و علماءامت کی روشنی میں آنے والے مہدی اور مسیح کے مقام کی وضاحت کر دی جائے
مسیح و مہدی کا مقام اور قرآن شریف
قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت نمبر۳،۴ 62:3 میں آنحضرت ﷺکی دو بعثتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپکی پہلی بعثت عرب کے امیّوں میں ہوئی اور دوسری بعثت وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوا بِھِم کے مطابق آخرین میں مقدر تھی جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺسے یہ دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں جن میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہو گی۔ اس پر آنحضرت ﷺنے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔
مسیح اور مہدی کا مقام اور علماءو بزرگان امت
حضرت محمد ابن سیرینؒ: (۳۳ ھ تا ۱۱۰ھ)
آپ امام مہدی کے بارہ میں فرماتے ہیں:۔
”اس اُمت میں ایک خلیفہ ہو گا جو حضرت ابوبکر اور عمر سے بہتر ہو گا۔ کہاگیا کیا ان دونوں سے بہتر ہو گا۔ انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ بعض انبیاءسے بھی افضل ہو“
(جحج الکرامہ صفحہ۳۸۶ ۔ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہاں بھوپال)
حضرت امام باقر علیہ السلام: (۵۱ھ تا ۱۱۴ھ)
”جب امام مہدی آئے گا تو یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم ؑ اور اسمعٰیل ؑ کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیمؑ اور اسمعٰیل ؑ ہوں۔ اور اگر تم میں سے کوئی موسیٰؑ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰؑ اور یوشع ہوں۔ اور اگر تم میں سے کوئی عیسیٰ ؑاور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ عیسیٰ ؑاور شمعون میں
اللہ تعالیٰ نے جب آنحضرتﷺ کے اخلاق عالیہ کی تعریف میں ’’اِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم‘‘ فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں فرمایا: ’’بُعِثْتُ لاُتْمِم مَکَارِمَ الاَخلاَق‘‘ کہ میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اخلاق عالیہ کی تکمیل کروں ۔ چنانچہ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے جہاں آپ نے اپنے اسوہ حسنہ اور نیک نمونہ سے اخلاق فاضلہ قوم میں پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی وہاں آپ نے ان بنیادی امور کی بھی نشان دہی کی جو انسان کو گناہوں کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیتے ہیں او ر اخلاق فاسدہ سے بچاؤ کے لئے دعائیں بھی سکھائیں تا ان دعاؤں کے ذریعہ لوگ اللہ کی رحمت کو جوش میں لا کر اپنی پیدائش کے مقصد کو پورا کر سکیں۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی کا پیغامmuzaffertahir9
ضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557)
قرآن مجید سے وفات مسیح کا واضح ثبوت
نزول یا رجوع ؟ کیا حضرت عیسیٰ ؑ واپس آئیں گے ؟
کیا تمام اہل کتاب حضرت عیسیؑ پر ایمان لے آئیں گے ؟
مولانا ابوالکلام آزاد اور وفاتِ مسیح
نام نہاد علماء کی علمی موت کا ثبوت
ترجمہ: جب اللہ نے کہا اے عیسٰی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا۔ اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہو ں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان اُن باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’واضح ہو کہ قرآن شریف کی نصوص بیّنہ اسی بات پر بصراحت دلالت کررہی ہیں کہ مسیح اپنے اُسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتاہے
یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَتِہاب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ پہلے لکھا ہے اور رَافِعُکَ بعد ا س کے بیان فرمایا ہےجس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد ازوفات ہؤا۔اورپھراَور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔ اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہورؔ تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو اُن لوگوں کی رعیّت اورماتحت کردیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اورآج تک صدہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے۔ ایسے معنے تو با لبداہت فاسد ہ�
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کے مدعی ہیں کہ آپ وہی مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کے متعلق قرآن کریم ،احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان اُمت میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور آپؑ نے اپنا وہی مقام بیان فرمایا ہے جو ان پیش خبریوں میں آنے والے مسیح اور مہدی کا بیان کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ آپ کو آپ کے جملہ دعاوی میں سچا جانتی ہے۔ اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان و علماءامت کی روشنی میں آنے والے مہدی اور مسیح کے مقام کی وضاحت کر دی جائے۔
مسیح و مہدی کا مقام اور قرآن شریف
قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت نمبر۳،۴ 62:3 میں آنحضرت ﷺکی دو بعثتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپکی پہلی بعثت عرب کے امیّوں میں ہوئی اور دوسری بعثت وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوا بِھِم کے مطابق آخرین میں مقدر تھی جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺسے یہ دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں جن میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہو گی۔ اس پر آنحضرت ﷺنے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔
لَوکَانَ الِایمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالُہ رَجُلُ اَورِجَالُ مِن ھٰوُلَآئِ (بخاری کتاب التفسیر سورة الجمعہ)
اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا گیا تو ایک فارسی الاصل شخص یا اشخاص اس ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔
The Holy Qurr'an and Promised Messiah (AS)muzaffertahir9
"تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ " (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)
امت ؐمحمدیہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم میں مسیح موعود کی علاماتmuzaffertahir9
امت ؐمحمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کی علامات
آخری زمانہ میں جہاں فرقہ بندی، فتنہ و فساد، دجالوں و کذابوں کے ظہور اور ان کے ذریعہ ہونے والی تباہی و بربادی کی خبر دی گئی ہے وہاں اس امت مرحومہ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے عیسیٰ بن مریم جیسے عظیم الشان وجود کے نجات دہندہ بن کر ظاہر ہونے کی بھی بشارت دی گئی ہے جسے امام مہدی کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :۔
لا المھدی الا عیسی بن مریم (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)
یعنی عیسیٰ ہی مہدی ہوں گے۔ اس آنے والے موعود کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر اس کی علامات و نشانات، ظہور کا مقام اور ملک تک بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا اجمالی تذکرہ پیش ہے۔
This book proves from the books of Shia religion that the foundation of Shia religion was laid by an enemy of Islam. This religion did not come from the Messenger of God, nor did it come from the twelve Imams. The true religion is the Ahl e Sunnah and the Jamaat, all other religions are invalid.
Karamaat e sultan syed ashraf jahangeer simnani kichhauchha sharif (1)Aale Rasool Ahmad
Book’s Name: Karamaat e sultan syed ashraf jahangeer simnani kichhauchha sharif (1)
Support to Uploaded by: Aale Rasool Ahmad Katihari
Uploaded By: Gulam Murtaza Nagpuri
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضmuzaffertahir9
امّتِ محمدیہ کے کئی بزرگوں ( جیسا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ،صوفی بزرگ شیخ عبد العزیز ،مشہور صوفی و ادیب خواجہ حسن نظامی ،حضرت شاہ محمد حسین صابری ) نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کا تعین بھی کردیا تھا جو کہ چودھویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعویٰ سے قبل پوری ہونی تھیں، پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مسیح اور مہدی کا انتظار ہو رہا تھا۔ عوام سے لے کر علماء تک سبھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، بلاتفریق امت محمدیہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر احادیث مبارکہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺنے امتِ محمدیہ کا کھینچا وہ من وعن پورا ہو رہا تھا۔ مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ،ہزاروں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے اور اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا تھا۔مسجدیں دھرم شالہ بنا دی گئی تھیں۔ایسے حالات میں خدا تعا لیٰ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قا دیا ن سے ایک جوا ں مرد کو کھڑا کیا جوہر یک رنگ میں سرکارِ دوعالم ﷺکی پیشگو ئیو ں کا مصدا ق تھا۔
یہ مبارک ہستی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کی غرض یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ک
‘‘ مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔
اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔’’
عالمِ اسلام کا عظیم سائنسدان اور مملکت پاکستان کا قابل فخر فرزند، دنیائے سائنس کے افق پر نصف صدی سے زائد روشن رہنے کے بعد ۲۱؍ نومبر ۱۹۹۶ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ (کل من علیھا فان)۔
محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم و مغفور کی روشن اور تابناک حیات کے ۷۰ سال بعض پہلوؤں سے نہایت کڑوا سچ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دنیا بھر کے اہل علم افراد، سیاسی راہنماؤں اور اسلامی قائدین کی طرف سے جس طرح آپ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’عقل کی روشنی کے اعتبار سے ڈاکٹر عبدالسلام کی فضیلت ساری دنیا میں مسلم ہے‘‘۔
احادیث میں بیان فرمودہ ان مذکورہ بالا اصطلاحات کی جو توجیہات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائیں
احادیث میں بیان فرمودہ ان مذکورہ بالا اصطلاحات کی جو توجیہات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائیں ۔ راشد علی نے ان کو مورد اعتراض ٹھہرائے ہوئے اس طرح درج کیا ہے۔
"Khar-e-Dajjal is the railway train, dabbatul ard is Muslim religious scholars and Dajjal is the christian priests etc."(Beware...)
ترجمہ:۔خرِ دجّال سے مراد ریل گاڑی ، دآبّۃ الارض سے مراد مسلمان مذہبی علماء اور دجّال سے مرد عیسائی منّاد ہیں۔
گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان امور کی غلط توجیہات کی ہیں لہذایہ قابلِ اعتراض ہیں۔
اگر راشد علی کو ان توجیہات پر اعتراض ہے یا اس کے نزدیک یہ توجیہات درست نہیں ہیں تو اسے چاہئے تھا کہ ان کو دلائل کے ذریعہ ردّ کرتا اور اپنی توجیہات بھی پیش کرتا تا کہ قارئین اس کی جہالت کا اندازہ تو لگاتے۔
خرِّ دجّال
دجّال کے گدھے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ جب ہم اس گدھے کی تفصیلی نشانیوں کے بارہ میں جستجو کرتے ہیں تو احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ’’یخرج الدجال علی حمار اقمر ما بین اذنیہ سبعون باعاً ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال ۔ الفصل الثالث ۔ مطبوعہ دینی کتب خانہ اردو بازار لاہور)
Religious Torrance of Hazrat Muhammad PBU- رسول اللہ ﷺ کی مذہبی رواداریmuzaffertahir9
مذہبی رواداری یہ ہے کہ اختلاف مذہب و رائے کے باوجوددوسروںکےلیےبرداشت کا نمونہ دکھانا، ان کے مذہبی عقائدو اقدار کالحاظ رکھنا، تحقیر کارویہ اختیار نہ کرنا اور نہ ہی ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا۔اسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اعلیٰ انسانی برتاؤکامفہوم بھی مذہبی رواداری میں شامل ہے۔
دیگر مذاہب میں مذہبی رواداری کا تصور اسلام کےبالمقابل تقریباً ناپید ہے۔ چنانچہ بائبل میں استثناء باب7آیات1تا6میں اس بات کا ذکر ملتاہے کہ جب یہود کسی قوم پر فتح حاصل کریں تو مفتوح قوم کوبالکل نابودکردیں، اُن کے ساتھ کوئی عہد نہ کریں اورنہ ہی اُن پررحم کریں۔اسی طرح اُن سے رشتہ کرنے کی ممانعت ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو ڈھا دینے کاحکم ہے۔
اس کے با لمقابل اسلام رواداری ،امن اور احترام انسانیت کامذہب ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ملّت انسانی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق میں یکساں حیثیت کا حامل ہے۔
اسلامی ریاست کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں ،بلاتفریق عقیدہ اپنے مذہبی معاملات میں مکمل طورپر آزاد ہیں اوران کےمذہبی معاملات کے بارہ میں ان پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں۔
صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از احادیثmuzaffertahir9
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کوجو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور پنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے ۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں ۔‘‘
’رسول کریم ؐ نے مسیح موعود کے زمانے کے بعض فلکی حالات بھی بیان فرمائے ہیں ۔مثلاً یہ کہ اس وقت سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں خاص تاریخوں میں گرہن لگے گا اور اس علامت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب سے زمین وآسمان پیدا ہوئے ہیں یہ دونوں علامتیں کسی اور نبی کی تصدیق کے لئے ظاہر نہیں ہوئیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔
الٰہی جماعتوں پر قربانیوں کے بعد نصرت الٰہی کا نزولmuzaffertahir9
خدا تعالیٰ کے محبوبوں، مقربوں اور مقدسوں کو ہمیشہ امتحان اور ابتلا میں ڈالا جاتا ہے تا کہ دنیا پر ثابت ہو کہ ہر قسم کے مصائب اور مشکلات کے باوجود وہ اپنے دعویٔ محبت الٰہی میں کیسے ثابت قدم نکلے اور مصائب کے زلزلے اور حوادث کی آندھیاں اور قوموں کا ہنسی مذاق کرنا اور دنیا کی ان سے سخت کراہت ان کے پائے استقلال میں ذرّہ برابربھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔
صادق آں باشد که ایام بلا
مےگزارد با محبت با وفا
Khatm e-nubuwwat ختم نبوت ۔ قرآنی آیات کی روشنی میںmuzaffertahir9
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی و معہود ؑ، بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبییّن نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت ،یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوّت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرتِ تامّ سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اِس چشمہ سے سیراب ہوں۔ ‘‘ (ملفوظات۔ جلد اول ۔صفحہ ۳۴۲)
جماعت احمدیہ مسلمہ کے خلاف نشر ہونے والے دو پروگرامز پر تبصرہmuzaffertahir9
کچھ روز قبل میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا ایک قومی کمیشن بنایا جائے اور احمدیوں کو بھی اس کمیشن میں نمائندگی دی جائے۔ اس خبر کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سلسلہ میں احمدیوں کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا تھا کہ انہیں اس کمیشن میں شامل کیا جائے۔ جماعت احمدیہ کا موقف اس حوالے سے بڑا واضح ہے اور سینکڑوں مرتبہ بیان کیا جا چکا ہے۔
یہ قدم خود ذمہ دار افراد اور کابینہ کے بعض اراکین کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا۔ لیکن یہ خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ پورے ملک میں ایک ناقابل فہم شور شرابے کا آغاز ہو گیا۔ پہلے تو وزیر برائے مذہبی امور پیرنورالحق قادری صاحب نے بیان دیا کہ اس پر بحث ہوئی تھی لیکن ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئین پاکستان کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں۔ پھر چودھری شجاعت حسین صاحب، سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی صاحب، اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ صاحب نے کہا کہ خواہ مخواہ پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔ پھر وفاقی وزیرعلی محمد خان صاحب کی طرف سے ایک مختلف بیانیہ سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب نے تو اس تجویزکی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ جب تک قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے اس وقت تک وہ کسی کمیشن کا رکن نہیں بن سکتے۔ اس کے بعد مختلف چینلز نے اس بارے میں پروگرام کرنے شروع کیے۔ اور حسب سابق ان پروگراموں میں کوئی ٹھوس علمی یا قانونی بات کرنے کی بجائے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بلا کر انہیں اسی طرح لڑایا گیا جس طرح کسی زمانے میں پنجاب کے دیہات میں مرغوں کی لڑائی کے مقابلے کرائے جاتے تھے۔ اس مضمون میں اس بارے میں صرف اُن دو پراگراموں پر تبصرہ کیا جائے گا جو ندیم ملک لائیو کے نام سے سماء نام کے چینل پر5 ؍اور6؍مئی 2020ء کو نشر ہوئے۔ان دو پروگراموں کے میزبان ندیم ملک صاحب تھے اورتحریک انصاف کے صداقت عباسی صاحب، وفاقی وزیرعلی محمد خان صاحب، پیپلز پارٹی کی پلوشہ صاحبہ، اورمسلم لیگ ن کے طلال چودھری صاحب ان پروگراموں میں شامل ہوئے۔تفصیلات بیان کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون کا مقصد کسی سیاسی بحث میں الجھنا یا کسی سیاسی جماعت پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم پاکستان کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس مضمون میں صرف ان امور کی نشاندہی کی جائے گی۔
شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؑ کی دعاؤں کا بیانmuzaffertahir9
‘‘دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِیہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں ۔اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے …
‘‘اے ربّ العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کرسکتا تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بےغایت مجھ پر احسان ہیں ۔میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔میرے دل میں اپنی خالص محبّت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما ۔اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہوجائے۔میں تیری وَجْہِ کَرِیْم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔رحم فرما ۔اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ۔ثمّ آمین’’
ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہےmuzaffertahir9
خلافت ایک ایسی حقیقت ہے جو اقوامِ عالم کو مساوات اور جمہوریت کی فلسفیانہ بحثوں سے نکال کر انتخاب کے میدان میں لا کھڑا کرتی ہے ۔ پھر تائید الٰہی اور نصرتِ خداوندی منتخب فرد کو اپنے حصار میں لے کر خلیفۃ اللہ اور ہر صاحب ایمان کا محبوب،آقا و مطاع بنا دیتی ہے ۔
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعدبھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں) muzaffertahir9
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی توہین کی سزاکا اختیار کئی مصالح کے باعث اس دنیا میں کسی انسان کو نہیں دیا اسی طرح اپنے رسول کی توہین کی سزا کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے
تعزیرات پاکستان کے مطابق نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی اور توہین رسالت کی سزا عمر قید یا موت ہوسکتی تھی۔ 1992ء میں شرعی عدالت کے اس فیصلہ کی بنا پر کہ توہینِ رسالت کی سزا صرف موت ہی ہوسکتی ہے عمر قید کے الفاظ دفعہ 295Cسے حذف کر دیے گئے اور موجودہ ملکی قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے۔
دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا مقصد بھی مفاد عامہ اور قیام امن ہی بتایا گیا تھا مگرگذشتہ سالوں کے تلخ تجربات کے بعد ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس قانون سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس قانون کو فتنہ ، فساد اورظلم کا ذریعہ بنایا گیاہے۔ بالخصوص کمزور اور اقلیتی گروہ اس کی زد میں آئے اور ذاتی عناد کی بنا پر توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات درج کروانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ رجحان روکنے کے لیے ایک اَور قانون متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر غلط مقدمہ درج کروانے والے پر بھی گرفت کی جاسکے ۔ یہ تو اندرونی ملکی صورتِ حال ہے۔
Head of ahmadiyya muslim community delivers historic address at unesco headqu...muzaffertahir9
Hazrat Mirza Masroor Ahmad calls for respect and tolerance between people of different faiths and beliefs
• His Holiness stresses importance of education for girls
• Caliph says access to education is key to world peace
• His Holiness says Holy Quran inspires Muslims towards intellectual advancement and the pursuit of knowledge
• His Holiness says that there is no contradiction between science and religion
The World Head of the Ahmadiyya Muslim Community, the Fifth Khalifa (Caliph), His Holiness, Hazrat Mirza Masroor Ahmad delivered an historic keynote address on 8th October 2019 at the United Nations Educational, Scientific, and Cultural Organisation (UNESCO) Headquarters in Paris.
A Message of Peace – A Word of Warning
by Hazrat Mirza Nasir Ahmad, Khalifatul Masih III(rh)
Hazrat Mirza Nasir Ahmad(rh) – Khalifatul Masih III (the third successor of The Promised Messiah), in the capacity of Khalifatul Masih, on his first visit to some countries of Europe and Africa delivered a public lecture on 28 July 1967 at the Wandsworth Town Hall, London. It was later published under the title A Message of Peace and a Word of Warning and is being presented here again.
In this lecture Huzur introduces the Founder of the Ahmadiyya Muslim Community and the Movement itself and after mentioning the purpose of coming of the Promised Messiah (as), he concludes his lecture with the wording of The Promised Messiah(as)
‘O Europe, you are not safe and O Asia, you too, are not immune. And O dwellers of Islands, no false gods shall come to your rescue. I see cities fall and settlements laid waste. The One and the Only God kept silent for long. Heinous deeds were done before His eyes and He said nothing. But now He shall reveal His face in majesty and awe. Let him who has ears hear that the time is not far. I have done my best to bring all under the protection of God, but it was destined that what was written should come to pass. Truly do I say, that the turn of this land, too, is approaching fast. The times of Noah shall reappear before your eyes and your own eyes will be witnesses to the calamity that overtook the cities of Lot. But God is slow in His wrath. Repent that you may be shown mercy! He who does not fear Him is dead not alive.’
Majestic Writings of the Promised Messiah
by Hazrat Mirza Tahir Ahmad, Khalifatul Masih IV(rh)
In view of some renowned Muslim scholars
Part 13 of a Review of the Pakistani Government’s “White Paper”: Qadiyaniyyat – A Grave Threat to Islam
Murder in the Name of Allah
by Hazrat Mirza Tahir Ahmad, Khalifatul Masih IV(rh)
Murder in the Name of Allah is the first translation into English of Mazhab Ke Nam Per Khoon, a re-affirmation of the basic tenets of Islam.
Hardly a day passes on which an Islamic event does not make headlines. The president of a Muslim country is assassinated by the supporters of Muslim brotherhood; a European journalist is taken hostage by Islamic Jihad; a Pan-American aircraft is hijacked by another Muslim group; American university professors are taken into custody by Hezbullah; Two passenger carrying airplanes were slammed in to world trade center. The glare of ‘Islamic’ revolution in Iran is reflected through the flares of every gulf oil refinery.
This book is a reminder that the purpose of any religion is the spread of peace, tolerance and understanding. It argues that the meaning of Islam—submission to the will of God—has been steadily corrupted by minority elements in the community. Instead of spreading peace, the religion has been abused by fanatics and made an excuse for violence and the spread of terror, both inside and outside the faith.
In confirming the true spirit of Islam, it makes the point to followers of all religions that the future of mankind depends on the intrinsic values of love, tolerance, and freedom of conscience and of belief.
THE REMINISCENCES OF SIR MUHAMMAD ZAFRULLA KHANmuzaffertahir9
The Reminiscences of Zafrulla Khan
by Sir Muhammad Zafrulla Khan, (ra)
Interviews by Prof. Wilcox and Prof. Embree of Columbia University
Introduction by Prof. Pervez Perwazi
This is what M.M. Ahmad, a former Executive Director and Vice-President of the World Bank, as well as former Deputy Chairman of the Planning Commission of Pakistan, has written about Sir Zafrulla Khan in another context:
“Zafrulla Khan walked through the loftiest corridors of world power with ease, grace and dignity and left his indelible mark on whatever he touched. Few personalities of his age combined and contributed both to worldly assignments of enormous delicacy and critical importance and at the same time never neglected to the Creator and devoted services to Islam and the Muslim world….
Giants like Zafrulla are not born everyday. They adorn humanity and ignite a brilliant light which illuminates the paths of many and invites and directs them to follow.”
The Message of Islam
by Sir Muhammad Zafrulla Khan, (ra)
This short booklet is a brief overview of the life of Prophet Muhammad, may peace and blessings of Allah be upon him, with emphasis on some salient features of his message and practice.
It is meant to help the reader become better informed about Islam, which boasts more than a billion of the world population as its adherents. Better understanding will promote greater admiration and interest in its teachings.
Muhammad Zafrulla Khan (1893-1985), the author of this book, was internationally acclaimed jurist, diplomat and theologian. He was the first Foreign Minister of Pakistan (1947-1954). He was elected President to the 17th session of the United Nations General Assembly (1962-63). He served as a Judge of the International Court of Justice at the Hague in 1954, as its Vice President between 1958-61 and as its President from 1970-73. He is the author of many other books on related topics.
Islam and Human Rights
by Sir Muhammad Zafrulla Khan, (ra)
This concisely written text presents the teachings of Islam and their distinct superiority over various Articles that make up the Declaration of Human Rights adopted by the General Assembly of the United Nations and universally acclaimed as the greater charter of freedom.
The author explains how 1400 years ago, Islam emancipated the poor and oppressed and gave the world the basic prescription for the respect and value of all human beings irrespective of class, colour or creed. Those instructions contained in the Holy Qur’an remain as relevant today as they were at the time that it was revealed. However, with the passage of time, some parts of Muslim society neglected Qur’anic teachings with an inevitable decline in moral standards. The author however concludes on an optimistic note that the revival of Islam is happening and with it a close adherence to the values laid out in the Holy Qur’an.
Woman in Islam
by Sir Muhammad Zafrulla Khan, (ra)
In many societies, a woman is still regarded as a second-class citizen and deprived of various basic rights enjoyed by the male population. Deeply resenting this discrimination, they have championed a fight to obtain for themselves an equal status which unfortunately to date eludes them in the more modern Western states. Whereas the pendulum has swung to the extremes and has opened the way to licentiousness in the modern society, the West has often regarded Islamic women as being backward in a male-dominated world.
On the contrary, Islam was the first religion formally to grant the women a status never known before. The Holy Quran, the sacred scripture of Islam, contains hundreds of teachings, which apply both to men and women alike. The moral, spiritual and economic equality of men and women as propagated by Islam is unquestionable. The specific verses of the Holy Quran, which address themselves to men or women, deal with either their physical differences or the role they each have to play in safeguarding the moral fibre of the society Islam envisages.
This short booklet, largely based on the original Quranic teachings, deals with the rights enjoyed by Muslim women, the diversity of their functions as Islam sees it, the concepts of marriage, divorce and polygamy and how social and moral values are preserved in Islam. I am particularly grateful to Muhammad Zafrulla Khan for writing a treatise on a subject so misunderstood by the West.
The Messiah Has Come
In 1835, Mirza Ghulam Ahmadas was born in the unknown village of Qadian, India. In 1889, he founded the Ahmadiyya Muslim Community. By the end of his life he had hundreds of thousands of followers. Today, his peaceful community numbers in the many millions, and grows at a remarkable rate each year. Its adherents hail from every faith, nation, and walk of life.
Among his followers are Nobel Prize winners, United Nations Director-Generals, and celebrated authors, artists, and leaders of nations. They all claimed that by following Ahmad they achieved something no longer seen in the contemporary world — a genuine, two-way connection with our Creator; spiritual enlightenment in our age of darkness.