Qaid3. Slide Title
• Make Effective Presentations
• Using Awesome Backgrounds
• Engage your Audience
• Capture Audience Attention
پیدائش
خان محمد
14اگست1931ء
راولپنڈی،ہندوستان برطانوی
وفات 4جوالئی2015ء(83سال)
الہور،پاکستان ،پنجاب
نام قلمی حسین عبدہللا
پیشہ نگار افسانہ ،نگار ناول
زبان اردو،پنجابی،انگریزی
قومیت پاکستانی
نسل پٹھان
تعلیم ڈپلومہ ،سی ایس بی(انجینئرنگ کیمیکل)
مادرعلمی پنجاب جامعہیونیورسٹی ماسٹر میک ،کینیڈا
موضوع افسانہ،ناول
کام نمایاں نسلیں اداس
باگھ
نشیب
لوگ نادار
قید
اعزازات اہم انعام ادبی جی آدم
فن کمالادب
4. حسین عبدہللا
• جو ہیں سکتے جا لیے نام ایسے کئی میں نگاری ناول اردو
کے ناولوں شعوراپنے معاشرتی اور سماجی ، سیاسی گہرا
وہ پر بنیاد کی خصوصیت اسی اور ہیں کرتے پیش ذریعے
کرشن ،چند پریم میں ۔ان ہیں گئے ہو امر میں فکشن اردو
العین منظر،قرۃ ،حسن ہاشمی جمیلہ ،فضلی کریم فضل ،چندر
مستنصر اور فاروقی حمان الر شمس ،بیگ اطہر حیدر،مرزا
اس بھی نام کا حسین عبدہللا ہیں۔ ذکر ِلقاب نام تارڑکے حسینی
اپنے نے ہے،جنھوں ہوتا شامل میں نگاروں ناول کے قبیل
حقیقی بجائے کی سجانے ئنات کا الفطرت مافوق میں ناولوں
ناول متعدد کے کی۔ان پیش تصویر کی زندگی(نسلیں اداس
رات اور لوگ،قید ،نادار)آئے پر عام ِمنظر
5. ’قید‘‘کا حسین عبدہللا۱۹۸۹میں ہے۔جس ناول اہم ایک واال چھپنے میں
خواہش قیدنفسانی میں ناول ہے۔اس گیا کیا استعمال پر طور کے استعارے کو قیدات
آغاز کے ناول ہے۔ ہوئے لیے میں حصار اپنے کو ناول پورے ،جو ہے قید کی
میں نفسیات کی اس تو ہے دیکھتا کو جسموں عریاں جب بچہ سالہ نو ایک میں
تسکین کر پھیر ہاتھ پر جسموں کرننگے چل آگے ہلچل ہے۔یہ جاتی مچ ہلچل
جاتی ہو عادی کی کرنے حاصلہے۔عمربلوغت جب انسان میں دور ابتدائی کے
چھوٹی وہ ،ہے رہتا بپا ہیجان وقت ہر میں جذبات کے تواس ہے ہوتا پر منزل کی
جاتا ہو بھی خفا پر بات سی معمولی اور ہے لگتا اچھلنے سے خوشی پر بات سی
دیتے بیٹھنے نہیں سے چین اسے جذبات رقیق ہے۔یہ۔
6. ناول’’قید‘‘کردار تمام ًاتقریب کےہیجانا جنسیکا ت
علی،مراد،علی سلطانہ،سالمت شاہ،رضیہ ،فیروز علی کرامت ۔ ہیں شکار
مارے کے ہیجانات جنسی اور تی نفسیا سب کے سب اکرم چودھری محمداور
جو سروری مائی ہے۔ سکتا جا کہا بھی قید کی محبت کو ناول ہیں۔اس ہوئے
ہم وہ میں آخر کے ناول ۔ گئی لُر میں محبت تھی عورت حسین کی دور اپنے
لیتی رکھ قدم دوبارہ پر منزل کی جوانی کر ہو مائل جانب کی پرستی جنس
میں نتیجے کے جس ہے ہوتی شکار کا محبت کی شاہ فیروز سلطانہ ہے۔رضیہ
کر ہو مغلوب سے جذبات کے مامتا اور ہے دیتی جنم کو بچے حرامی ایک وہ
اور محمد علی ، ہے۔مراد دیتی کر قتل کو اکرم چودھری اور محمد ،علی مراد
شکار کا ہیجان جنسی پہلے سے ہونے قتل ہاتھوں کے رضیہ اکرم چودھری
سے آسانی کو ان اور ہے اٹھاتی سلطانہ رضیہ فائدہ پور بھر کا جس ہیں ہوتے
ہے ہوجاتی کامیاب میں کرنے قتل۔
7. شاہ فیروز اور علی کرامت
کہ ہے کرتا خواہش بارہا علی کرامت ۔ ہیں مائل جانب کی سلطانہ رضیہ دونوں
ہوتی نہیں نصیب کامیابی اسے لیکن دیکھے بغیر کے نقاب کو اس وہ۔
باآلہے جاتا ہو بردار دست سے محبت اپنی میں دوستی کی شاہ فیروز خروہ
ہو فیل میں امتحان ماہی سہ کے سال دوسرے کر ہو شکار کا پسندی تساہل اور
میں دل کے سُا باوجود کے اس لیکن ہے ہوتا چکا ترک محبت اپنی ہے۔وہ جاتا
دیکھ ہی چہرہ کا عورت اس بار ایک وہ کاش کہ ہے رہتی ہوتی پیدا خواہش
جذب سا معلوم نا ایک کا حسد لیے کے شاہ فیروز دفعہ بعض خواہش یہی سکتا۔ہ
تھی۔ بنتی بھی باعث کا رکھنے
8. کردار کا علی کرامت
• شکل ایک کی طلبی ایذا جنسی حسد کہ ہے خیال کا ماہرین کے جنسیات
ایک کا ناول حوالے ہے۔اس کردار کا علی کرامت شکار کا جس ہے
ہو مالحظہ اقتباس:
’’جگہ کی شاہ کوفیروز آپ اپنے تو ہوتا میں گمان وہ جب کبھار کبھی
زیر کے پردوں کے سلطانہ رضیہ وہ میں حالت اس پھر اور پاتا پہ
عالم اس کرتا۔ کوشش کی کرنے معلوم اسرار کے ہوااس رینگتا زیر
بیچ بیچ کے پردوں روشن کبھی اور اندھیرے کبھی تک دیر وہ میں
ہوتا۔ چکا ہو سیر نیم تو نکلتا جب اور رہتا گھومتا‘‘
9. اول’’قید‘‘استعارہ کا قید کی استحصال
• اول’’قید‘‘ہے۔جاگی آتا سامنے بھی کر بن استعارہ کا قید کی استحصالر
جا بے کا ان کر رکھ میں قید اپنی کو عوام دار سرمایہ اور دار
جب اور چاہیں طرح جس وڈیرے اور جاگیردار ۔ ہیں کرتے استحصال
رہیں رہتے کرتے فیصلے کے قسمت کی عوام غریب اور مجبور چاہیں
والی پانے فروغ ہمرکاب کے آمریت فوجی اور جاگیرداری میں ۔ناول
گیا بنایا موضوع پر طور ص خا قیدکو کی آدمی عام میں مریدی پیری
اشرف خالد ہے۔ڈاکٹر(ناول اردو میں صغیر ِبر)کہ ہے کہنا کا’’ہوس
کس مرشد اور ،پیر سائیں نہاد نام اثریہ ِزیر کے اقتدار ِہوس زراور
سارے میں آڑ کی ٹوٹکوں ٹونے مذہبی طرح کس اور طریقت طرح
ہیں۔ ہوئے کیے قید میں اثر حلقۂ اپنے کو معاشرے‘‘
10. اشرف خالد ڈاکٹر(اردو میں صغیر ِبرناول)
• ’’کس مرشد اور ،پیر سائیں نہاد نام اثریہ ِزیر کے اقتدار ِہوس زراور ہوس
معاشرے سارے میں آڑ کی ٹوٹکوں ٹونے مذہبی طرح کس اور طریقت طرح
ہیں۔ ہوئے کیے قید میں اثر حلقۂ اپنے کو‘‘صاحب پیر میں دور اس کے ج آ
سے تن وقت کے ہیں۔سماع رہے کر نمائندگی کی دونوں تصوف اور مذہب
لیکن گئے ٹھُا سے دنیا آشناحضرات سے لذت کی کیفیت والی نکلنے جان
خدا ایک صرف کو انسان نے مذہب ہے۔جس جاری بھی پھر قوالی پہ مزاروں
کو پاؤں کے پیر کارزندہ پیرو کے اس ،کی تلقین کی جھکنے سامنے کے
نے خدا جس ہیں۔ کرتے سجدے کو قبروں کی پیر مردہ اور ہیں دیتے بوسے
کے مانگنے مرادیں اپنی بندے کے دیا،اس قرار گناہ معافی ِلناقاب کو شرک
ہیں آتے نظر کرتے تالش سہارے کے پیروں مردہ زندہ لیے
11. سلسلے رحم بے کے نظام خانقاہی اور داری جاگیر
• بے کے نظام خانقاہی اور داری جاگیر اس میں ناول اس نے حسین عبدہللا
سیاست کا پیر اور دار ہے۔جاگیر کیا جتن کا کرنے نقاب بے کو سلسلے رحم
اس کہ ہے ضروری لیے اس آنا میں اقتدار اور جیتنا ،انتخاب لینا حصہ میں
استعمال کا اداروں انتظامی اور ہیں کرتے وسیع کو اختیارات اپنے وہ طرح
کی جن ہیں ہوتے اختیارات وہ ہیں۔یہی کرتے تحفظ کا دات مفا اپنے کے کر
ں لوگو میں ہیں۔جن کرتے ادا کردار کا پرست سر میں عالقے اپنے وہ بدولت
اپنے کروانااور آزاد کو لوگوں سے چنگل کے پولیس ،دلوانا مالزمتیں کو
سرپرستانہ اس میں ہیں۔ملک ہوتی ،شامل وغیرہ دلوانا سزائیں کو مخالفین
کے اس اور حکومت میں دلوں کے لوگوں کہ ہے نکال یہ نتیجہ کا نظام
کا وزیروں اور پیروں جگہ کی اوراس ہے گیا ہو ختم احترام کا اداروں
ہے گیا بیٹھ میں دلوں کے عوام احترام
12. فیروز جب ہے کرتا آزمائی طالع میں سیاست کاکردارپہلے علی ۔کرامت
کی شاہی افسر وہ تو پاتی بن نہیں بات کی اس میں موجودگی کی شاہ
پاتا بن نہیں افسر بڑا بہت کوئی جب وہاں لیکن ہے ہوتا متوجہ طرف
معنوں صحیح علی ہے۔سالمت جاتا ہو ملتفت جانب کی مریدی توپیری
باپ کے اس جسے ہے آتا سامنے کر بن استعارہ کا نظام خانقاہی میں
پایا کر نہیں میں زندگی اپنی وہ جو کہ ہے دی تربیت پر انداز اس نے
کا تکمیل کی خواہشات سودہ آ نا تمام گا۔ دکھائے کر بیٹا کا سُا وہ اب
اور استعارہ کا استحصال مذہبی ، استعارہ کا کشش جنسی ،استعارہ
کا خانقاہی پہ سر جو ہے کردار کا علی سالمت استعارہ کا قوت سیاسی
ہے۔ سمجھتا شاہ باد کا ٰوسطی عہد کو خود کر پہن تاج
13. استعارہ کا قید کی پات ذات
• ناولذاتاپنی کردار کا علی ۔سالمت ہے بھی استعارہ کا قید کی پات
کا محبت سے لڑکی نامی نسرین کی رکھوال موضع میں نوجوانی
زمیندار کے درجے درمیانے ایک کے رکھوال ۔نسرین ہے ہوتا شکار
ر ایک تھا۔ نہیں لکھا پڑھا اتنا کوئی بھی باپ کا تھی۔اس بیٹی کیوز
والد کے اس جو گئی پھیل میں گاؤں پورے خبر کی محبت کی دونوں
حرکت یہ کی بیٹے کے اس ،تھی ناک تشویش انتہائی لیے کے
علی کرامت تھی۔پیر سکتی بن باعث کا زوال کے سلسلے کرامتیہ
ک سمجھانے اسے آیا۔اور پیش سے درشتی بار پہلی سے بیٹے اپنےی
کی۔ کوشش
تعلق سے قوم ارائیں گھرانہ کا نسرین کہ بتایا کو بیٹے نے انہوں
کا ٹکر کی ان کہ تھا نہ قابل اس بھی طور ،کسی عالوہ کے رکھنے
اس نے علی سالمت اگر کہ دی دھمکی جائے،اور سمجھا گھرانہ
ہاں کے پھوپھی اپنی سندھ آباد حیدر اسے تووہ رکھا جاری کو حرکت
گے۔ دیکھیں نہ شکل کی اس کبھی اور گے دیں بھیج‘‘
14. اقدار کی معاشرے مردانہ
• برقرار میں دنیا تک جب روایتیں اور اخالقیات نہاد نام کی سماج
کی گی۔اس رہے میں گرفت کی مرد راست ِہبرا عورت گی رہیں
تصرف کے مرودوں خیاالت و ،نزاکت،جذبات حسن ،خواہشات جبلی
سے اس طرح کی شے جان بے ایک مرد کہ گے۔کیوں رہیں میں
مرضی اپنی اور ہے میں ملکیت ذاتی کی مرد وہ ہے۔ آیا کرتا سلوک
استعمال کو خواہشات اپنی اور جسم جذبات،اپنے جنسی اپنے سے
جاتا سمجھا جوتی کی پاؤں اسے میں سماج سکتی۔جاگیرداری کر نہیں
ہے۔
کے حکمرانی کی مرد اور ہیں روایتی کردار نسائی بیشتر کے ناول
کا نسرین یا ہو کردار کا سروری مائی ہیں۔وہ جاتے مان ہار سامنے
سماجی کر دبا کو احساسات و جذبات اپنے ساتھ کے وقت سب کردار
ایساہے کردار ایک میں ہیں۔ناول لیتے کر سمجھوتہ ساتھ کے اقدار
ہے۔ توڑتا کو بندیوں حد تمام ان جو
15. سلطانہ رضیہ
• کردار ہے۔اس توڑتا کو بندیوں حد تمام ان جو ایساہے کردار ایک میں ناول
ہے۔وہ دکھایا سے زاویے منفرد ایک کو زندگی نے حسین عبدہللا ذریعے کے
مردانہ ہے،لیکن رکھتی تعلق سے گھرانے روایتی کے درجے درمیانے ایک
اور مرتبے کے عورت ہے۔وہ کرتی بغاوت سے اقدار کردہ قائم کی معاشرے
ہونے ساتھ کے عورت اور ہے رکھتی شعور کا حیثیت معاشرتی کی اس
معاشی کو عورت نے مرد کہ ہے جانتی ہے۔وہ احتجاج سراپا پر ظلم والے
محدود تک دیواری چار کی گھر کراسے رکھ باہر سے میدانوں سماجی اور
گرمی سر میں میدانوں معاشرتی اور ،معاشی سماجی مرد کہ جب ہے دیا کر
اورمعاشرتی خیاالت ،سائنسی دانش و علم سے وجہ کی کردار عملی کے
سے میدانوں تمام ان کو عورت برعکس کے اس ہے۔ گیا ہو واقف سے علوم
ہے۔رضیہ گیا دیا بنا فقیر کا لکیر اور پڑھ ،ان جاہل کو ان کے کر فارغ
برابر کے مرد کو پرخود بوتے بل کے محنت اور صالحیتوں اپنی سلطانہ
وہ ہے۔ مالک کی ارادوں باجودمضبوط کے ہونے سن کم وہ ہے۔ چاہتی النا
سمجھتی نہیں تر کم سے مرد میں صورت بھی کسی کو عورت:
16. سلطانہ رضیہ
• ’کرتے سپرد کے خدا کو خاکی ِدجس ایک کر باندھ صفیں لوگ ۔۔۔آپ
، ہیں کرتی پیدا کو زندگی کر گزر سے کنی جان جو ہم ۔ ہیں
کرتی بین ہیں،اور ہوتی کھڑی کو طرف ایک طرح کی تماشائیوں
ہیں۔‘‘
(قید:۱۰۱)
ہو۔ مالحظہ بیان اور ایک کا رضیہ میں سلسلے اسی
’’ت جائے لگا ہاتھ کوئی ہیں۔ ہوتی پیدا کر لے کمتری ِاحساس لوگ ہمو
نکلتے بال پہ منہ کے ہیں۔مردوں دیکھتی طرف کی منہ کے دوسروں
آئے گُا بال ایک پر منہ ہمارے ہیں۔ دکھاتے کو دنیا سے فخر تو ہیں
شرم تو ہیں نکلتی چھاتیاں ہماریاں ،ہیں لیتی جھکا سر سے توشرم
جاتی جھک سے توشرم ہے ہوتا جاری خون ہیں۔ لیتی جھکا سر سے
سے اس نکلتیں۔ نہیں باہر سے شرم تو ہے گزرتی رات کی ہیں۔شادی
ہے؟ ہوتی کیا غربت بڑی‘‘
(قید:۱۰۱)
17. سلطانہ رضیہ
• ہے۔ نہیں لڑکی زدہ خوف مانندکوئی کی لڑکیوں عام سلطانہ رضیہ
عورت کی آج حسین عبدہللا جو ہیں موجود صفات تمام وہ میں اس
وقار اور غیرت نسوانی کی طرح ایک میں ہیں۔اس چاہتے دیکھنا میں
صالحیت کی شناسی وقت اور بوجھ سوجھ میں اس ہے۔ احساس کا
اور کرتی بغاوت سے اقدار پٹی گھسی کی معاشرے وہ ۔ ہے موجود
نہیں خوفزدہ بھی سے موت ہے۔وہ لیتا جنم المیہ کا اس سے اسی
جرم ِاعتراف صرف نہ بعد کے کرنے قتل کو لوگوں تین اور ہوتی
اپیل کی رحم لیے کے ہونے بری سے موت سزائے بلکہ ہے کرتی
ک کسی اور ہے لیتی کر قبول پھندا کا پھانسی وہ کرتی۔ نہیں بھیے
جھکاتی۔ناول نہیں سر سامنے’’قید‘‘زندہ اور متحرک ایک یہ کا
کسی لیکن ہے کرتی برداشت اکیال کو آزمائشوں تمام جو ہے کردار
کرتی۔ نہیں قبول سہارا کا
18. • کرداروں کے نگاروں ناول تمام ان کردار کا رضیہ
عورت نے جنھوں ہے کردار منفرد اور مختلف سے
کی کوشش کی کرنے پینٹ میں انداز مخصوص کو
کی احمد نذیر ڈپٹی وہ ہے۔’اکبری‘رسوا ہادی ،مرزا
کی’ادا امراؤجان‘کی شہاب ہللا ،قدرت’دلشاد‘راجندر
کی بیدی سنگھ’رانی‘کی صدیقی ،شوکت’سلطانہ
‘کی مفتی ،ممتاز’شہزاد‘کی اورقراۃالعین’دیپالی
سرکار‘اپنی جو ہے کردار گیا کیا تخلیق کر ہٹ سے
کے آج مملو سے ہمت جذبہ اور توانائیوں تر تمام
ہے۔ نمونہ ایک لیے کے عورت کی معاشرے
سلطانہ رضیہ
19. ان تک انجام سے آغازکہےبیانیے
• ناول کا حسین عبدہللا’’قید‘‘پہلوؤں سماجی اور معاشرتی مختلف
ہوت پیدا جب ہے۔انسان التا سامنے کے قارئین میں انداز کواستعاراتیا
میں مجبوریوں چھُک وہ وہیں ہیں اختیارات پاس کے اس جہاں تو ہے
بنی موضوع کا ناول اس قید کی مجبوریوں ان ہوتاہے۔ ہوا گھرا بھی
پر عام ِمنظر نے نگار ناول ذریعے کے استعاروں متنوع جسے ہے
قید کی محبت ، قید کی ہیجان ہے۔جنسی کی کوشش کامیاب کی النے
سیاسی اور ہونا میں قید کی مرد کا عورت ، قید کی اقدار ،سماجی
کی پیروں کی عوام ،قید کی عوام پسے میں مجبوریوں سماجی اور
جو ہیں استعارات ایسے ۔۔۔۔۔۔،یہ قید کی تقدیس ضروری غیر’’قید‘‘کو
ناول پورے قید ہیں۔ التے سامنے پر طور کے ناول استعاراتی ایک
کہے ان تک انجام سے آغاز میںUnsaid پر طور کے بیانیے
ہے۔ موجود