SlideShare a Scribd company logo
1 of 10
قرآن کی آیت ہے “جَائَ الحَقُّ وَزَھَقّ الْبَاطِلْ اِنّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا” سچ آگیااور جھوٹ بھاگ گیا 
کیونکہ جھوٹ کو بھاگنا ہی ہوتا ہي… ہم نے پرسوں ہی گزارش کردی تھی کہ اب ریفرنس 
میں باقی کیا رہ گیا ہے فیصلہ جو ہوگا سب جانتے ہیں …دنیا کے سات عجائبات میں سے 
کوئی بھی پاکستان میں نہیں لیکن جتنے عجوبے ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اُن کا شمار 
کیا جائے تو شاید ہمارا نمبر پہلا ہو۔کبھی آپ نے سنا بھی نہیں ہوگا کہ کسی ملک کا قاضی 
القضاۃ، منصفِ اعلیٰ، چیف جسٹس خود انصاف حاصل کرنے کیلئے اپنی ہی عدالت 
میں کوئی ساڑھے تین ماہ دھکے کھاتے رہے لیکن شاید قوم کی توبہ قبول ہوئی اللہ کو 
پاکستان کی حالت پر رحم آگیا اور اس نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے وہ کام 
لیا کہ ان کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ ایک اور عجوبہ ہوگیا، ایک نئی سپریم کورٹ کا جنم 
ہوا، کوئی توقع بھی کرسکتا تھا کہ ہماری عدالت عظمیٰ اس طرح اپنا حکم صادر کرے گی۔ 
کرے گی۔ وکلاء برادری ان کیخلاف ریفرنس پر شروع ہونے والی تاریخ کو Assert اس طرح 
قرار دے رہی تھی اور ایسا ہی ہوا کہ سپریم کورٹ نے پہلی Defining moment لمَحۂِِ فیصل 
کو، جسٹس منیر، جسٹس انوار الحق Kelson theory ، بار، جی ہاں پہلی بار نظریۂِِ ضرورت کو 
اور جسٹس ارشاد حسن خان کی قبیل کے لوگوں کو ان کے فیصلوں سمیت دفن کردیا اور 
ایسا فیصلہ کیا کہ اُس کے سارے پرانے گناہ، ساری پرانی خطائیں معاف ہوگئیں 
صُبح پُھوٹی تو آسماں پہ تِرے 
رنگِ رُخسار کی پُھوار گ ری 
رات چھائی تو رُوئے عَالم پر 
تیری زُلفوں کی آبشار گِری 
عربی کا محاورہ ہے “اَالَِّنتِظارَ اَشَدّ مِنَ المَوتْ ” کہ انتظار کی سختی موت سے بھی زیادہ ہوتی 
ہے۔ قوم چار ماہ سے انتظار کررہی تھی، لیکن انتظار کے آخری چار گھنٹے جتنے اعصاب 
شکن تھے اور جتنے طویل لگے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا 
کِتنا بے کار تَمنّا کا سفر ہوتا ہے 
کل کی اُمِّید پہ ہر آج بَسر ہوتا ہے 
قوم اگرچہ پہلے ہی فیصلہ سنا چکی اور اِسی فیصلے کی منتظر تھی لیکن جب 31 رکنی 
عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے چند سطروں پر مشتمل 
فیصلہ سنایا تو وہ جہاں قوم کی امیدوں کے بالکل عین مطابق وہاں حکمرانوں کی توقعات 
کے بالکل برعکس نکلا ان کو یقین ہی نہیں آسکتا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ ایسا بھی 
کرسکتی۔ کسی آمر کو طوق ڈال سکتی اور اُس کے فیصلے کو کالعدم قرار بھی دے سکتی 
ہے۔ بقول اقبا ل 
ہمارا نَرم رَو قاصد پیامِ زندگی لَّیا 
خبر دیتی تھیں جِن کو بِجلیاں وہ بے خبر نکلے 
کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ فوج اور عدلیہ کا مقابلہ ہے، کچھ کہہ رہے تھے کہ ان کی زبان 
بند ہے، کچھ سرکاری گواہ تیار کررہے تھے، کچھ نے جھوٹے بیان حلفی داخل کئے، کچھ کی 
زبانیں گز گز لمبی ہوگئیں ، کچھ نے عدالت کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ کچھ نے 
دباؤ کا ہر ہتھکنڈا اپنایا، کچھ نے ججوں سے خُفیہ ملاقاتیں کیں ، کچھ نے علانیہ، لیکن 
ساری تدبیریں اُلٹی ہوگئیں ۔ حکمرانوں کے حوصلے کا اندازہ ان کے وکیلوں سے کیا 
جاسکتا ہے کہ فیصلہ سننے کا یارا بھی نہ تھا۔ سیانے لوگ ہیں جانتے تھے کہ ان کے پاس 
کرنے کو کوئی کیس ہے ہی نہیں ۔ سو فیس کھری کی اور عدالت سے بھاگ لئے، Argue 
سازشوں کے ذریعے، بند کمروں میں ، پردے کے پیچھے، سرگوشیاں کرکے، ڈرا دھمکا کر، 
پی سی او جاری کرکے، ججوں کو حلف سے محروم کرکے فیصلے لینا ایک بات ہے اور کھلی 
عدالت میں میرٹ پر انصاف حاصل کرنا بالکل دوسری، سَیدّ شریف الدین پیرزادہ اور ان 
Expose جیسے وکلائ، قانون دان چاہے جتنے بڑے ہوں ان کی اخلاقیات پہلی بار اس طرح 
ہوئیں کہ آئندہ شاید یہ پیشہ ہی چھوڑ دیں ۔
جسٹس خلیل الرحمان رمدے کو سلام، 31 رکنی عدالت عظمیٰ کے سارے ججوں کو سلام، 
اختلاف کرنے والوں کو بھی سلام، پوری سپریم کورٹ کو سلام، پوری وکلاء برادری کو سلام 
اور پوری قوم کو سلام کہ انہوں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔ قوم کو نیا جذبہ دیا ہے، روشنی کی 
نئی کرن دکھائی ہے، امید کی نئی شمع روشن کی ہے اور پاکستان کو ایک نئے راستے پر 
ڈال دیا ہے۔ آزادی کے راستے پر، جمہوریت کے راستے پر، عدل کے راستے پر، انصاف کے 
راستے پر، اسلام کے راستے پر اور آئین کی حکمرانی کے راستے پر۔ اب توقع بندھ گئی ہے 
کہ ملک آمریت سے آزاد ہوگا، فرد واحد ہماری قسمتوں کے فیصلے نہیں کریں گے اور 
یہاں پر وہی کچھ ہوگا جوہمارا آئین کہتا ہے جوہمارا قانون کہتا ہے 
روشن کہیں ، بہار کے اِمکاں ہوئے تو ہیں 
گُلشن میں چَاک، چند گریباں ہوئے تو ہیں 
اب بھی خزاں کا راج ہے، لیکن کہیں کہیں 
گوشے رَہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں 
ٹھہری ہوئی ہے شَب کی سیاہی وَہیں مگر 
کُچھ کُچھ سَحر کے رَنگ پَر اَفشاں ہوئے تو ہیں 
اِن میں لَہو جلا ہو، ہمارا کہ جان و دل 
محفل میں کُچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں 
اَہلِ قَفس کی، صُبح چَمن میں کُھلے گی آنکھ 
بَادِ صَبا سے وَعدہ و پَیماں ہوئے تو ہیں 
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ایک درویش منش انسان ہیں ۔ انسانی حقوق کے حوالے 
سے ان کے فیصلے پہلے ہی کافی شہرت پا چکے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو سیاسی 
انصاف بھی دیا جائے … کہ قوم نے ایک فرد کیلئے نہیں ایک ادارے کیلئے اور سب سے بڑھ 
کر اپنی ناآسودہ خواہشات کیلئے، اپنے کچلے ہوئے جذبوں کیلئے، اپنے سلب شدہ حقوق 
کیلئے تحریک چلائی ہي… چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کی بحالی پر بہت بہت 
مبارکباد۔ لیکن اصل مبارکباد کے وہ مستحق تب ہوں گے جب وہ اس قوم کی حالت 
بدلیں گے کہ قوم نے ان سے وہ توقعات لگائی ہیں کہ اس سے پہلے شاید قائداعظ م اور 
اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے لگائی تھیں ۔ یہ فیصلہ اگرچہ کسی فرد کی فتح یا 
شکست نہیں کہا جانا چاہئے لیکن اسے عدلیہ کی فتح اور آمریت کی شکست کہنے 
میں تو کوئی حرج نہیں ۔ چیف جسٹس نے اپنے دَورِ ابتلاء میں مزید جان لیا ہوگا کہ ریاستی 
قوت، جی نہیں فوجی قوت جب مَن مَانی پر آتی ہے تو کسی کو معاف نہیں کرتی، چیف 
جسٹس کو بھی نہیں … ہم نہیں کہتے کہ وہ کسی سے انتقام لیں لیکن اگر انہوں نے 
جابروں اور ظالموں سے قوم کا بدلہ نہ لیا تو پھر قوم کی ان سے بھی لڑائی ہوگی کہ یہ جو 
پرچم لہرایا گیا ہے وہ افتخار محمد چودھری کے گھر پر نہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے 
گھر پر لہرایا گیا ہے، آمروں کی قبر پر لہرایا گیا ہے اور قوم کی توقعات کے روشن مینار پر 
لہرایا گیا ہے۔ افتخار محمد چودھری کا ایک دَورِ ابتلاء ختم ہوا لیکن نئے امتحان کا آغاز ہوگیا اور 
یہ امتحان پہلے امتحان سے کہیں زیادہ سخت ہے 
اک اور دَریا کا سَامنا تھا مُنیر مُجھ کو 
جو ایک دَریا کے پَار اُترا تو میں نے دیکھا 
وہ ہمیشہ دُعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں سرخرو کرے تو اللہ نے ان کو سرخرو کردیا لیکن اب 
قوم کی سرخروئی ان کے ہاتھ میں ہے اور سب سے آخر میں توصیف کے چند شعر 
چودھری اعتزاز احسن کیلئے کہ بڑے وکیل تو وہ پہلے ہی تھے لیکن انسانی حقوق کے اتنے 
بڑے چیمپئن اور اتنے بڑے انسان کہ اپنے پیشے اور سیاسی کارکنوں کیلئے ان کی 
شخصیت ہمیشہ مشعل راہ ہوگی۔ انہوں نے دل کے ساتھ جس طرح عقل کو بھی پاسبان 
رکھا، نہ غصے میں آئے، نہ طیش میں ، جذبات کو چھپایا نہ جذبات کو حاوی ہونے دیا ایک 
نئی تاریخ لکھی اور عدالتی آزادی کی تحریک کے سرخیل ثابت ہوئے۔ یہ اشعار فیض احمد
فیض نے اپنے خلاف مقدمہ کے دوران صفائی کے وکیل سَیدّ حسین شہید سہروردی کے لئے 
لکھے تھے لیکن آج کے دور میں کوئی اعتزاز احسن سے زیادہ ان کا مستحق نہیں 
کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂِ تقریر 
گویا سر بَاطل پہ چمکنے لگی شمشیر 
وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا 
واں سینۂِِ اَغیار میں پَیوست ہُوئے تِیر 
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، رَوانی بھی سَکُوں بھی 
تَاثِیر کا کیا کہئے، ہے تَاثِیر سی تَاثِیر 
اِعجاز اُسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی 
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر 
اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ 
ہر ایک جگہ مَکروریا کی ہُوئی تشہیر 
روشن ہُوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے 
پیشانیِٔ اعدأِ پہ سیاہی ہُوئی تحریر 
آخر کو سرفراز ہُوا کرتے ہیں اَحرار 
آخر کو گِرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر 
ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جَم و دارا 
ہر عہد میں دیوارِ سِتم ہوتی ہے تَسخیر 
ہر دَور میں مَلعُون شَقاوَت ہے شِمر کی 
ہر عہد میں مَسعُود ہے قربانیِٔ شبی ر 
اور یہ دُعا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، چودھری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی 
وکلاء کیلئے 
کرتا ہے قَلم اپنے لَب و نُطق کی تَطہِیر 
پہنچی ہے سر حرفِ دُعا اَب مِری تحریر 
ہرکام میں بَرکت ہو، ہر اِک قَول میں قُوّت 
ہرگام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گِیر 
ہر لحظہ ترا طالعِ اِقبال سَوا ہو 
ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر 
ہر بات ہو مقبول، ہر اِک بول ہو بالَّ 
کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شُعلۂِ تقریر 
ہر دِن ہو تِرا لطفِ زَباں اَور زیادہ 
اللہ کرے زور بیاں اَور زیادہ 
ہمارے ہاں روایت تو نہیں پر شاید اب کے یہ عجوبہ بھی ہوجائے کہ ریفرنس بنانے والے، اُس 
کی وکالت کرنے والے اوراُس پر ضِد کرنے والے خود ہی شرم کریں اور استعفے دے دیں ۔اب 
کے بار کسی بکرے کی قربانی سے کام نہیں چلے گا، افراد کی قربانی دینا ہوگی اور افراد 
کی بھی نہیں پورے ٹولے کی کہ اگر رضاکارانہ قربانی نہیں دیں گے تو پھر قوم کے 
ہاتھوں قربان ہونے کیلئے تیار ہوجائیں !! 
:Share this 
ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا “حسی ن ” نجانے یہ نظم کیوں آج کے بین السطور 
میں بھی بالکل حسب حال لگتی ہي 
حُسی ن! سرور کونینؐ کی دہائی ہے
حُسی ن! ہم نے بھی اک کربلا بسائی ہے 
حدُودِ شرعِ پیمبرؐ سے بے نیاز ہیں لوگ 
عجب زمانۂِ حاضر کی رہنمائی ہے 
ٹَپک رہا ہے لَہو دشنہ ہائے قاتل سے 
مزاج گردشِ حالَّت کربلائی ہے 
خُدا کا نام ہے، اِلزام آلِ حید ر پر 
بُتوں کی شمر کے دربار تک رسائی ہے 
حُسی ن! تیرے مُقدس لَہو کا ہر قطرہ 
ظہور جلوۂِ تقدیسِ کبریائی ہے 
تمام عُمر رہے ہیں ، قَتیلِ اِبنِ زیاد 
تمام عُمر رَذِیلوں سے مار کھائی ہے 
حُسی ن! دیکھ شریفوں کی لُٹ گئی عِزّت 
حُسی ن! برقِ ستم ہم پہ مسکرائی ہے 
یزید تَخت کا وارث ، حُسی ن نیزے پر 
قرونِ اُولیٰ کی تاریخ لَوٹ آئی ہے 
فَقیہِ مدرسہ، مِیر سِپہ، خطیب چَمن 
خُدا کہاں ہے؟ اِنہیں زُعمِ پارسائی ہے 
میں بے ادب ہوں ، فَقِیہوں سے دور لے جاؤ 
کہ اِن کی قَیصر و کِسریٰ سے آشنائی ہے 
ہمی نے خنجر قاتل کو آبرو بخشی 
ہَمِی نے محفلِ دار و رسن سَجائی ہے 
حُسی ن! ہم سے فقیروں کے آقا و مَولَّ 
لَہو نے اِن کے بِنا عِشق کی اُٹھائی ہے 
شہریوں کا تو شمار کرنا ہی بیکار ہے۔ پاکستان کا عراق اور افغانستان سے کیا فرق باقی رہ 
رہا ہے کہ چند دنوں تک اس کی خبريں بھی معمول بن جانے کا انديشہ ہے۔ یہ سلسلہ 
عوامی حمایت کے بغیر ،جمہوریت کے بغیر، عوامی حکمرانی کی بحالی کے بغیر رُک 
نہیں سکتا۔ بڑا اچھا کیا کہ آپ نے اعلان کردیا کہ ایمرجنسی نہیں لگے گی۔ اس کو سوچئے 
گا بھی نہیں جو آپ کو ایسے مشورے دیں ان کے سر پر سو جوتے ماریں اگر آپ کے دل 
میں بقول اپنے اِس قوم اور اس ملک کا ذرا بھر بھی درد ہے آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان بچ 
جائے اگر آپ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ آپ کی پہلی ترجیح یہ ملک اور اس کے عوام 
ہیں تو دونوں پر رحم کھائیں ۔ اقتدار چھوڑیں ، غیر جانبدار الیکشن کمشن بنا کر شفاف 
الیکشن کرائیں اور فوج کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاست سے الگ کردیں ۔ بدنام تو اُسے آپ 
پہلے ہی بہت کرچکے ہیں ، اب جاتے جاتے اس کی نیک نامی کیلئے بھی کچھ کر 
جائیں ورنہ، ورنہ ، ورنہ !! 
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لَہو کا سُراغ 
نہ دَست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں 
نہ سرخیِِٔ لب خنجر نہ رنگِ نوکِ سِناں 
نہ خاک پر کوئی دَھباّ نہ بام پر کوئی داغ 
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لَہو کا سُراغ 
نہ صَرفِ خدمت شاہاں کہ خُ وں بہا دیتے
نہ دیں کی نَذر کہ بیعانۂِِ جزا دیتے 
نہ رَزم گاہ میں برسا کہ مُعتبر ہوتا 
کسی عَلم پہ رقم ہو کے مُشتہر ہوتا 
پکارتا رہا، بے آسرا، یتیم لَہو 
کسی کو بہرِ سماعت نہ وَقت تھا نہ دماغ 
نہ مُدّعی، نہ شہادت، حساب پاک ہُوا 
یہ خُونِ خاک نشیناں تھا، رِزق خاک ہُوا 
کوئی ہے جو سوچے ……..کوئی ہے جو سمجھے !! 
اَور سب بُھول گئے حرفِ صداقت لِکھنا 
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لِکھنا 
لَّکھ کہتے رہے ظُلمت کو نہ ظُلمت لِکھنا 
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لِکھنا 
امریکہ نے پاکستان اور پاک فوج کی مدد سے روس کیخلاف ایک مزاحمتی قوت بنائی جس کا 
دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ اس کے ناقابل 
تسخیر ہونے کا یقین رکھتے اور افواج پاکستان کی کمان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اِن سے 
لڑائی نہیں صلح کرو، اِن سے جنگ نہیں مذاکرات کرو، اگر پہلے چارسو افسر اور جوان مروا 
کر آخر کار مذاکرات کرنے پڑے تھے تو اس بار بھی پرانا تجربہ کرنے پر کیوں اصرار کیا جارہا 
ہے۔ جنرل پرویزمشرف اپنے سابقہ ہم زبان کمانڈر انچیف کی بات پر کان دھرتے ہیں یا 
نہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن جس طرح ماضی میں عقل کی بات کو پرے پھینک دینے 
کی روایت ہے اب بھی وہی روش اپنائی گئی تو نتائج اتنے خوفناک ہوں گے کہ کوئی تصور 
بھی نہیں کرسکتا۔ جنرل پرویزمشرف کے ایک اُستاد لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل بھی 
متنبہ کررہے ہیں کہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں حالَّنکہ 
حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو فاصلے بڑھ نہیں کم ہورہے ہیں ،اب فریقین اتنے قریب 
ہیں کہ دست و گریبان ہیں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک فریق نے تو 
دوسرے کا گریبان پکڑ ہی رکھا ہے تاہم دوسرا فریق اپنی شرافت سے یا کمزوری کی وجہ 
سے اب تک ہاتھ اٹھانے سے مُجتنب ہے اس لئے کہ ہاتھ اٹھائے تو کس پر؟ اُس فوج پر جو 
اُس نے اپنے خون اور آنسوؤں سے پالی ہے، جس کی خاطر بُھوک اور تنگدستی برداشت 
کی ہے جس کی تمام ناکامیوں کو اپنے دل پر سہا ہے جس کی تمام بدنامیوں کو اپنے 
سینے کا تمغہ بنایا ہے اور جس کی تمام طالع آزمائیوں کو بہانے بنا کر سندِ جواز عطا کی 
ہے، لیکن یہ سلسلہ کتنی دیر جاری رہ سکے گا اور کب تک؟ کہ تنگ آمد بجنگ آمد والَّ 
معاملہ آن پہنچا ہے۔امریکی دفتر خارجہ کے ،موگینبو، آپ کی کارکردگی سے خوش ہوئے 
ہوں لیکن پاکستانی قوم بہرحال خوش نہیں ۔ 
چین کے تین انجینئر پشاور میں قتل ہوگئے ، زیادتی ہوئی، جُرم ہوا اُن کا خون بہا حکومت پاکستان دینے پر آمادہ ہے اِن کی طرف سے پیشکش کی بولی 31 لَّکھ سے چلی اور ایک 
کروڑ تک پہنچ گئی لیکن مطالبہ 1 کروڑ سے شروع ہوا اور کہتے ہیں اب 8 کروڑ تک پہنچ گیا 
ہے۔ تینوں چینیوں کی لَّشیں پاکستان میں پڑی ہیں اور معاملہ طے نہیں ہورہا…
ہمیں چینی انجینئروں کا خون بہا دینے پر کوئی اعتراض نہیں اور چینی حکومت کے اصرار 
کی بھی تعریف کی جانی چاہئے؟ کہ اپنے شہریوں کے حقوق پر سودے بازی نہیں کررہی 
لیکن کیا ہمارے قومی وسائل سے یہ رقم ادا کرنے والے کبھی اپنے لوگوں اور اپنے 
ہاتھوں مرنے والوں کیلئے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کریں گے؟ کہ اب تک کسی 
پاکستانی کی قیمت اور اوقات ایک لَّکھ روپے سے نہیں بڑھی۔ 
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں فوجی چیک پوسٹ پر ایک اور خودکش حملہ 
ہوگیا ہے۔ سالَّرزئی میں بارودی سرنگ پھٹ گئی ہے۔پولیس کی ایک وین کو بھی نشانہ بنایا 
گیا ہے۔ ایک بار پھر بے گناہ خون بہایا گیا ہے۔ کوئی اس طرز عمل کی حمایت نہیں کرسکتا 
لیکن یہ بھی تو سوچا جائے کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا بیج کس نے بویا، اس درخت کو 
تن آور بنانے اور بار آور ہونے میں کس کس کا کردار ہے؟ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، 
لیکن کتنے شرم کی بات ہے کہ غلط معلومات اور غلط اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر درست 
نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے جس قوت کو نہ انگریز فتح کرسکا نہ امریکہ اب ان 
کی خاطر ہم اپنے آپ کو اس آگ میں جھونک رہے ہیں بغیر یہ سوچے کہ آگ تو نمرود کی 
بھڑکائی ہوئی ہے لیکن ہم میں سے کوئی براہیمؑ نہیں کہ، اس کیلئے “یا نارُکُونی بَرداً 
اوسَلاماً عَلیٰ اِبراہِیْم”کا حکم آسمان سے جاری ہو۔ گردن بھی اپنی ہے اور چھری بھی اپنی 
لیکن دونوں میں سے کوئی نہ اسماعیلؑ ہے نہ ابراہیمؑ سو گردن تو کٹے گی ہی اور ہماری 
جگہ آسمان سے کوئی دُنبہ نہیں اُترے گا…قرآن کا دعویٰ ہے کہ “وہ بہت آسان ہے سَو 
کوئی ہے جو سوچے )وَلَقَدْ یَاسرْنَا القُرآن لِلذِّکر فَہَل مِن مُادکر”… قرآن کی روایات بھی آسان 
ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی بھی ممکن نہیں ۔ لہٰذا لکھ لیں اگر ہم نے یہ سلسلہ بند نہ 
کیا اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو فوج ایسی دلدل میں اتر جائے گی کہ نکلنا ممکن نہیں ہوگا 
اور یہی بات اُس کے اور پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں ۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں کو بُھول 
جائیں کہ جہالت سے بڑا ہمارا کوئی دشمن نہیں ، اگر ہماری جہالت کا مقابلہ امریکہ کے 
علم سے ہوگا تو شکست یقینی ہے اور یہ صرف شکست نہیں ہماری موت ہوگی۔ سو کوئی 
ہے جو سمجھے۔؟؟… 
ہمارے حکمران کیوں نہیں سمجھ رہے کہ اسلامی دنیا میں پاکستان سے زیادہ روشن خیال 
اور اعتدال پسند ملک اور کوئی نہیں ۔ ایک ہی گھر میں بیوی برقع پہنتی ، خاوند ٹائی لگاتا 
اور بنک کی نوکری کرتا ہے۔ ایک بیٹا مدرسے میں قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کررہا تو 
دوسرے بچے کو انجینئرنگ کی تعلیم دلَّئی جارہی ہے۔ ایک وکیل بن کر فوج کے سیاسی 
کردار کا مخالف ہے تو دوسرا جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر فوج میں نوکری کررہا ہے۔ ایک 
امام ابو حنیف ہ کے مسلک کا پیروکار ہے، دوسرا امام شافع ی کا ، ایک نمازی ہے دوسرا 
شرابی، ایک روزہ چھوڑتا نہیں دوسرا چکھتا بھی نہیں ، ایک بھائی کلین شیو ہے ،دوسرے 
کی لمبی ڈاڑھی ہي… سب ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی گھر میں ایک ہی پاکستان کی 
چھتری تلے زندگی بسر کررہے، ایک دوسرے سے محبت کرتے، ایک دوسرے پر جان نچھاور 
کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہیں ، آپ نہ جانے کس روشن خیالی کی بات 
کررہے ہیں کیوں کسی ایک فریق کو اقلیت اور دوسرے کو اکثریت قرار دے کر آپس میں لڑانا 
چاہ رہے ہیں ۔کیوں نہیں اپنے اصل کام کی طرف لوٹ جاتے، قوم کو فلسفہ اور اصولِ 
عِمرانیت سکھانے کے بجائے کیوں نہیں طے شدہ اصولوں کے مطابق جمہوریت بحال 
کردیتے کہ اس میں سب گھر والے سمجھتے ہیں کہ ان کی رائے لی جارہی اور ان کی بات 
سنی جارہی ہے۔ آپ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے کمسن بچوں کا پولیس ریمانڈ 
لے کر ان سے کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی کر کے انعام کے بجائے جیل بھیج کے خود 
برداشت اور روشن خیالی کی توہین کررہے ہیں ۔ ایمرجنسی لگا کر اقتدار کی مدت بڑھانے 
کی باتیں کرکے خود قوم کی بے عزتی کررہے ہیں ۔ خدا کیلئے ایسا نہ کریں کہ ایسی 
چیزوں کا انجام نہ کبھی ماضی میں اچھا ہوا نہ آپ کیلئے اچھا ہوسکے گا… آخر میں “جہاد”
کے عنوان سے اقبا ل کی ایک نظم 
فتویٰ ہے شَیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے! 
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر! 
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں ؟ 
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اَثر 
تیغ و تَفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں ؟ 
ہو بھی تو دل ہیں موت کی لَاذت سے بے خبر! 
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل 
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر؟ 
تعلیم اُس کو چاہئے ترکِ جہاد کی! 
دنیا کو جِس کے پنجۂِ خونیں سے ہو خطر 
باطل کے فال وفر کی حفاظت کے واسطے 
یورپ زرہ میں ڈُوب گیا دوش تا کمر 
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے! 
مشرق میں جنگ شر، ہے تو مغرب میں بھی ہے شر 
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات؟ 
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر 
:Share this 
7002 , خونِ مسلماں اتنا سستا……….…توبہ توبہ جولائی 51 
Masood @ 2:29 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Sunday, July 15, 2007 
خونِ مسلماں اتنا سستا……….…توبہ توبہ!! 
آپ کی ایک اور مہربانی، دوستوں ، دشمنوں سب کو بتا دیا کہ احتیاط کریں آپ روایتی 
جاسوسوں اور مُخبروں کی طرح باہمی بات چیت بھی ٹیپ کرلیتے ہیں …مولَّنا عبدالرشید 
غازی اور طارق عظیم کی گفتگو کے ٹیپ یقینا خود حکومت نے پبلک کئے ہیں جو گفتگو ٹیپ 
کررہا اور جس کی گفتگو بے خبری میں ٹیپ ہورہی ہو اُن کے لہجے اور انداز میں جو فرق ہوتا 
ہے اس کو مَدِّنظر نہ بھی رکھا جائے تو یہ ٹیپ خود ہماری ریاست کی بے عزتی کیلئے کافی 
ہے۔ الفاظ کے معنی ہوتے ہیں ، جن کو سمجھنے کیلئے علم بھی چاہئے اور عقل بھی ساری 
کہانی واضح ہے کہ مطالبہ کیا تھا؟ اور خون بہانے کا حُکم کِس نے دیا؟… جنرل پرویزمشرف نہ 
بھی کہیں تو حقائق آج نہیں تو کل لوگوں کے سامنے آ ہی جائیں گے۔ مرنے والوں کا 
پوسٹ مارٹم کرائیں نہ کرائیں دونوں طرف گولیاں چلانے والے پاکستانی تھے اور مسلمان 
بھی ان میں سے کوئی نہ کافر تھا، نہ سَفّاک البتہ کہانی کے ہدایتکار دل سے بھی محروم
تھے اور دماغ سے بھی لہٰذا کریکٹر اور ایکٹر رفتہ رفتہ ساری کہانی بیان کردیں گے۔یوں بھی 
“جو چُپ رہے گی، زبانِ خنجر لہو پُکارے گا آستیں کا۔” دہشت گردی کوئی مولوی کرے یا 
ریاست دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ عمرانیت کے قدیم ترین اصولوں کے مطابق بھی 
کی توقع کی جاتی ہے۔ افراد اور ریاست Responsibility ریاست سے زیادہ ذمہ داری اور زیادہ 
کے عمل اور طرزِ عمل میں کوئی فرق تو ہونا چاہئے۔ ٹونی بلیئر کے کہنے پر قتل کے 
سزایافتہ مجرم کو ساری قوم کے احتجاج کے باوجود معافی دے کر برطانیہ بھیج دیا تھا تو اس 
بار کیا چیز رکاوٹ بنی؟ 
ہم کیسی ریاست ہیں کہ ہمارے محافظِ اعلیٰ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف ہمارے 
محافظوں کو ہمارے وردی والوں کو ہدایت کررہے ہیں کہ یونیفارم پہن کر باہر نہ نکلیں کہ 
عوامی ردِّعمل کا خطرہ ہے۔ وہی یونیفارم جو ہمارے قومی وقار کا طُرہ بھی رہی ہے اور ہمارے 
دفاع وطن کا نشان بھی۔یقین جانیں پاک فوج کے سجیلے جوانوں پر خودکش حملوں اور 
دوسری کارروائیوں سے کسی کو خوشی نہیں ہورہی ساری قوم غمگین ہے، 
لَّشیں کسی فوجی کے گھر جائیں یا کسی مولوی کے گھر سب خون کے آنسو رُلَّتی ہیں 
۔ لیکن جب ہمارے جرنیل یہ اعلان کریں کہ انہوں نے فلاں علاقہ سول انتظامیہ کے حوالے 
کردیا ہے تو لوگ سوچتے ضرور ہیں کہ یہ کیا مذاق ہے، پورا ملک تو آپ کی دسترس 
میں ہے، کچھ بھی آپ کی دستبرد سے نہیں بچا ہُوا تو ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جو 
دلوں کو دُکھی کریں ۔ آپ نے آج تک جتنے آپریشن کئے ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ اگر آپ شروع 
سے ہی مہربانی کرتے مشرقی پاکستان کو بزور طاقت فتح کرنے کے خواب نہ دیکھتے۔ اسے 
سول انتظامیہ کے اختیار میں ہی رہنے دیتے، اگر بلوچستان میں چڑھائی نہ کرتے اور 
معاملات کو سویلین ہاتھوں میں رہنے دیتے۔ اگر فاٹا اور سرحدی علاقوں میں بمباری نہ 
کرتے، ٹینک نہ بھیجتے لَّل مسجد کی بے حُرمتی نہ کرتے تو آج نہ ان علاقوں میں فوجی 
جوانوں پر خودکش حملے ہوتے نہ آپ کو سرِعام وردی پہنے ہوئے ڈر محسوس ہوتا نہ خجالت۔ 
اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ عبدالرشید غازی کو جامعہ حفصہ کے عقب میں واقع نالے کے 
قریب کمرے سے زندہ گرفتار کیا جاسکتا تھا لیکن اصل کہانی طشت اَزبازم ہونے کا امکان تھا 
سو خطرہ مول نہ لیا گیا، جو اسلحہ اخبار نویسوں کو دکھایا گیا اُس میں سے جو 
وہاں واقعتا موجود تھا وہ تو راجن پور، فاضل پور اور کوہِ سلیمان کے راستے پھل کے 
کریٹوں میں پہنچا تھا۔ سارے کردار ساری دنیا جانتی ہے ہماری حکومت کیوں بے خبر رہی؟ 
یا یہ نظر پوشی جان بوجھ کر اختیار کی گئی کہ جو کرنا تھا اِس کے بغیر ممکن ہی نہ تھا… 
لیکن افسوس کے جن کو خوش کرنے کیلئے،جن سے تمغۂِِ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے 
کیلئے یہ سب کچھ کیا گیا وہ اب بھی خوش نہیں ، وہ اب بھی آپ کی کارکردگی کو مشکوک 
قرار دے رہے ہیں ۔ جارج بش جو چاہے کہتے رہیں اور آپ تسلیم کریں نہ کریں امریکی 
کانگریس کا موڈ آپ کے بارے کوئی اچھا نہیں ، اور رہے پاکستانی تو ان کا کہنا ہے کہ جس 
کی جھوٹی کہانی گھڑی تھی اُسی )WMD( طرح امریکہ نے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں 
طرح آپ نے ان لوگوں کو مارنے کیلئے بے بنیاد افسانہ تراشی کی۔ 
عبدالرشید غازی کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان نے 13 ویں صدی میں کربلا کی 
تاریخ دہرائی۔ شیعہ مسلک کے جیدّ عالمِ دین علامہ مفتی کفائت حسین علیہ الرحمتہ سے 
سنا تھا کہ واقعہ کربلا کے دنوں میں جب امامِ حسی ن شہادت سے سرفراز ہورہے تھے اُن 
کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو مسلمانوں کا اِمام قرار پایا کہ نبیؐ کے نواسے امامِ زمان کا بیٹا 
اور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑنواسا تھا…اب لوگ کہتے ہیں کہ جب 
عبدالرشید غازی ہماری فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے ٹھیک اُسی وقت اُن کی بیگم 
کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچے سے نوازا جس کا نام بھی انہوں نے عبدالرشید غازی رکھ دیاہے۔ 
ہم نہیں جانتے کہ لَّل مسجد کے واقع کی کربلا سے کوئی مماثلت ہے یا نہیں ؟ ہمیں یہ 
بھی نہیں پتا کہ اس معرکے کا حسی ن کون ہے؟ اور یزید کون؟ اور ہم یہ بھی نہیں کہہ 
سکتے کہ مولَّنا عبدالرشید غازی کے ہاں پیدا ہونے والَّ بچہ، ابنِ حسی ن کا کردار ادا کرے گا
یا نہیں ؟ لیکن اتنی بات یقیناً جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے۔ 
اَپنے دفاع میں امام کعبہ کا نام استعمال کرنے والوں سے قوم پوچھتی ہے کہ امام کعبہ نے 
لَّل مسجد والوں کو تو ضرور سمجھایا ہوگا، کیا آپ کو کچھ نہیں سمجھایا؟ آپ کو نہیں کہا 
ملک میں فحاشی اور بے حیائی کا فروغ بند کریں ۔ انہوں نے آپ کو تلقین نہیں کی کہ 
چلیں شریعت نافذ نہیں کرسکتے نہ کریں لیکن ننگی ٹانگوں والی لڑکیاں تو سڑکوں پر نہ 
دَوڑائیں … بے کار بحثیں ، فضول تاویلیں اور دُوراَز کار دلَّئل دیتے رہیں کوئی آپ کی بات 
نہیں مان رہا۔ قرآن میں ایک جگہ نبی اکرمؐ نے اپنے مخالفوں کو دعوت دی کہ اگر سچے ہو 
تو آؤ ہم اور تُم خُود، اپنی اولَّدوں اور اپنی عورتوں کو لے آتے، قسم کھاتے ہیں اور پھر 
ظالموں پر اللہ کی لعنت کے طلب گار ہوتے ہیں … ہم ایسی بات نہیں کہہ سکتے کہ 
دونوں طرف مسلمان ہیں لیکن اتنا تو ہو ہی سکتا ہے کہ اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات 
کرالی جائیں ۔ 31 مئی کو کراچی میں بہایا جانے والَّ خون تو آپ پی گئے۔ لَّل مسجد کے 
خون کو تو رزق خاک نہ ہونے دیں ۔ 
آپ کہتے ہیں کہ آپریشن پورے غوروخوض سے سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ 
اس میں غور نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔اس میں سوچ کا کوئی عنصر دکھائی ہی 
نہیں دیتا کیونکہ ہماری یادداشت کے مطابق 3691 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پلواڑہ، آدم 
پور اور پٹھان کوٹ کے بھارتی ہوائی اڈوں پر کئے جانے والے پیرا ڈراپ آپریشن میں ایس ایس 
جی کے کل 81 افسر اور جوان بھیجے گئے جن میں سے 1 شہید اور 31 زخمی ہوئے جبکہ 
لَّل مسجد کے آپریشن “سن رائز” میں اس سے دُگنے، یعنی 391 افسروں اور جوانوں کو 
جھونکا گیا جن میں سے جنرل پرویزمشرف کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 31 شہید اور 
11 زخمی ہوئے سو یہ ہے آپ کی پلاننگ اور یہ ہے آپ کی سوچ اور عقل۔ کیوں بیگناہ 
فوجیوں اور عوام کا خون ارزاں کردیا گیا؟… اپنی غلطی مان کیوں نہیں لیتے؟ اس کا کفارہ 
کیوں ادا نہیں کرتے؟ کہ آپ مانیں نہ مانیں لوگ فریقین کی اموات کا ذمہ دار آپ کو مانتے 
اور جانتے ہیں اور جب ایسے حالَّت ہوجائیں تو اِن کے بارے میں قرآن کی سُورۃ النساء کی 
آیت 63 سے 69 تک میں حل بھی بتایا گیا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں ۔ یہ آیات ہمارے 
حکمرانوں کیلئے بھی ہیں ، فوج کیلئے بھی، مولویوں کیلئے بھی اور ان کے درمیان دار 
مذاکرات کاروں کیلئے بھی… 
“تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے جو بظاہر چاہتے ہیں کہ تُم سے بھی اَمن 
میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی اَمن میں رہیں ۔ )لیکن( جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف 
لوٹائے جاتے تو اوندھے منہ اس میں گر پڑتے ہیں ، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ 
کریں اور تم سے صلح کا سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں ، تو انہیں پکڑو 
اور مار ڈالو جہاں کہیں بھی پالو! یہی وہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صاف حُجّت عنایت 
فرمائی۔) 63 (کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہوجائے 
)تو اور بات ہے( اور جو شخص کسی مسلمان کو بلاارادہ مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام 
کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ 
بطور صدقہ معاف کردیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک 
مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لَّزمی ہے اور اگر مقتول اُس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان 
میں عہدو پیمان ہے تو خون بہا لَّزم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے گا اور ایک 
مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی )ضروری ہے( پس جو نہ ایسا کرسکے اُس کے ذمے دو مہینے 
کے لگاتار روزے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کیلئے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والَّ اور 
حکمت والَّ ہے۔) 61 ( اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اُس کی سزا دوزخ ہے 
جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی 
ہے اور اس کیلئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔) 61 ( اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جارہے ہو 
تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سَلام عَلیک کرے تم اُسے یہ نہ کہہ دو کہ تُو ایمان والَّ 
نہیں ۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی
غنیمتیں ہیں ۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم 
ضرور تحقیق و تفتیش کرلیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔) 61 ( اپنی 
جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن، اور بغیر عُذر کے بیٹھ رہنے 
والے مومن برابر نہیں ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو، بیٹھ رہنے 
والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر 
ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر 
کی فضیلت دے رکھی ہے۔) 61 ( اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور 
) رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والَّ ہے۔) 69 
آخر میں فیض احمد فیض کی ایک نظم جامعہ حفص ہ کے معصوم شہید بچوں اور ان کیلئے 
گریہ کُناں بچیوں کے نام 
یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی 
اَشرفیاں ، چَھن چَھن، چَھن چَھن 
دَھرتی کے پیہم پیاسے 
کَشکول میں ڈَھلتی جاتی ہیں 
کَشکول کو بھرتی ہیں 
یہ کَون جواں ہیں ارضِ وطن 
یہ لَکھ لُٹ 
جِن کے جسموں کی 
بَھرپور جوانی کا کُندن 
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے 
یوں کُوچہ کُوچہ بِکھرا ہے 
اے ارضِ عجم، اے ارضِ عجم! 
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیئے 
اِن آنکھوں نے اپنے نیلم 
اِن ہونٹوں نے اپنے مَرجاں 
اِن ہاتھوں کی “بے کل چاندی” 
کِس کام آئی، کِس ہاتھ لگی؟” 
“اَے پوچھنے والے پردیسی! 
یہ طِفل و جواں 
اُس نُور کے نَورس موتی ہیں 
اُس آگ کی کچّی کلیاں ہیں 
جِس مِیٹھے نُور اور کڑوی آگ 
سے ظلم کی اَندھی رات میں پُھوٹا 
صُبحِ بغاوت کا گُلشن 
اور صبح ہُوئی مَن مَن، تَن تَن 
اِن جسموں کا چاندی سونا 
اِن چہروں کے نیِلم، مَرجاں 
جَگ مَگ جَگ مَگ ،رَخشاں ، رَخشاں 
جو دیکھنا چاہے پردیسی 
پاس آئے دیکھے جی بھر کر 
یہ زِیست کی رانی کا جُھومر 
یہ اَمن کی دیوی کا کنگن

More Related Content

More from Speech Sciences Naushad (13)

Speech at-inclusion-event
Speech at-inclusion-eventSpeech at-inclusion-event
Speech at-inclusion-event
 
NAUSHAD
NAUSHADNAUSHAD
NAUSHAD
 
Smile n write ied.by najma adam
Smile n write ied.by najma adamSmile n write ied.by najma adam
Smile n write ied.by najma adam
 
Print lowercase formation_chart1
Print lowercase formation_chart1Print lowercase formation_chart1
Print lowercase formation_chart1
 
Print capital formation_chart2
Print capital formation_chart2Print capital formation_chart2
Print capital formation_chart2
 
Naushad a source of info
Naushad a source of infoNaushad a source of info
Naushad a source of info
 
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبیندماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
 
Zainabhw2014
Zainabhw2014Zainabhw2014
Zainabhw2014
 
What is aphasia
What is aphasiaWhat is aphasia
What is aphasia
 
Untitled 1
Untitled 1Untitled 1
Untitled 1
 
Uniba speech
Uniba speechUniba speech
Uniba speech
 
Husna
HusnaHusna
Husna
 
Inter school boys hockey team tournament district level winner team
Inter school boys hockey team tournament district level winner teamInter school boys hockey team tournament district level winner team
Inter school boys hockey team tournament district level winner team
 

Uniba urdu 1

  • 1. قرآن کی آیت ہے “جَائَ الحَقُّ وَزَھَقّ الْبَاطِلْ اِنّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا” سچ آگیااور جھوٹ بھاگ گیا کیونکہ جھوٹ کو بھاگنا ہی ہوتا ہي… ہم نے پرسوں ہی گزارش کردی تھی کہ اب ریفرنس میں باقی کیا رہ گیا ہے فیصلہ جو ہوگا سب جانتے ہیں …دنیا کے سات عجائبات میں سے کوئی بھی پاکستان میں نہیں لیکن جتنے عجوبے ہمارے ملک میں ہوتے ہیں اُن کا شمار کیا جائے تو شاید ہمارا نمبر پہلا ہو۔کبھی آپ نے سنا بھی نہیں ہوگا کہ کسی ملک کا قاضی القضاۃ، منصفِ اعلیٰ، چیف جسٹس خود انصاف حاصل کرنے کیلئے اپنی ہی عدالت میں کوئی ساڑھے تین ماہ دھکے کھاتے رہے لیکن شاید قوم کی توبہ قبول ہوئی اللہ کو پاکستان کی حالت پر رحم آگیا اور اس نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے وہ کام لیا کہ ان کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔ ایک اور عجوبہ ہوگیا، ایک نئی سپریم کورٹ کا جنم ہوا، کوئی توقع بھی کرسکتا تھا کہ ہماری عدالت عظمیٰ اس طرح اپنا حکم صادر کرے گی۔ کرے گی۔ وکلاء برادری ان کیخلاف ریفرنس پر شروع ہونے والی تاریخ کو Assert اس طرح قرار دے رہی تھی اور ایسا ہی ہوا کہ سپریم کورٹ نے پہلی Defining moment لمَحۂِِ فیصل کو، جسٹس منیر، جسٹس انوار الحق Kelson theory ، بار، جی ہاں پہلی بار نظریۂِِ ضرورت کو اور جسٹس ارشاد حسن خان کی قبیل کے لوگوں کو ان کے فیصلوں سمیت دفن کردیا اور ایسا فیصلہ کیا کہ اُس کے سارے پرانے گناہ، ساری پرانی خطائیں معاف ہوگئیں صُبح پُھوٹی تو آسماں پہ تِرے رنگِ رُخسار کی پُھوار گ ری رات چھائی تو رُوئے عَالم پر تیری زُلفوں کی آبشار گِری عربی کا محاورہ ہے “اَالَِّنتِظارَ اَشَدّ مِنَ المَوتْ ” کہ انتظار کی سختی موت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ قوم چار ماہ سے انتظار کررہی تھی، لیکن انتظار کے آخری چار گھنٹے جتنے اعصاب شکن تھے اور جتنے طویل لگے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کِتنا بے کار تَمنّا کا سفر ہوتا ہے کل کی اُمِّید پہ ہر آج بَسر ہوتا ہے قوم اگرچہ پہلے ہی فیصلہ سنا چکی اور اِسی فیصلے کی منتظر تھی لیکن جب 31 رکنی عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے چند سطروں پر مشتمل فیصلہ سنایا تو وہ جہاں قوم کی امیدوں کے بالکل عین مطابق وہاں حکمرانوں کی توقعات کے بالکل برعکس نکلا ان کو یقین ہی نہیں آسکتا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ ایسا بھی کرسکتی۔ کسی آمر کو طوق ڈال سکتی اور اُس کے فیصلے کو کالعدم قرار بھی دے سکتی ہے۔ بقول اقبا ل ہمارا نَرم رَو قاصد پیامِ زندگی لَّیا خبر دیتی تھیں جِن کو بِجلیاں وہ بے خبر نکلے کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ فوج اور عدلیہ کا مقابلہ ہے، کچھ کہہ رہے تھے کہ ان کی زبان بند ہے، کچھ سرکاری گواہ تیار کررہے تھے، کچھ نے جھوٹے بیان حلفی داخل کئے، کچھ کی زبانیں گز گز لمبی ہوگئیں ، کچھ نے عدالت کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کی۔ کچھ نے دباؤ کا ہر ہتھکنڈا اپنایا، کچھ نے ججوں سے خُفیہ ملاقاتیں کیں ، کچھ نے علانیہ، لیکن ساری تدبیریں اُلٹی ہوگئیں ۔ حکمرانوں کے حوصلے کا اندازہ ان کے وکیلوں سے کیا جاسکتا ہے کہ فیصلہ سننے کا یارا بھی نہ تھا۔ سیانے لوگ ہیں جانتے تھے کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کیس ہے ہی نہیں ۔ سو فیس کھری کی اور عدالت سے بھاگ لئے، Argue سازشوں کے ذریعے، بند کمروں میں ، پردے کے پیچھے، سرگوشیاں کرکے، ڈرا دھمکا کر، پی سی او جاری کرکے، ججوں کو حلف سے محروم کرکے فیصلے لینا ایک بات ہے اور کھلی عدالت میں میرٹ پر انصاف حاصل کرنا بالکل دوسری، سَیدّ شریف الدین پیرزادہ اور ان Expose جیسے وکلائ، قانون دان چاہے جتنے بڑے ہوں ان کی اخلاقیات پہلی بار اس طرح ہوئیں کہ آئندہ شاید یہ پیشہ ہی چھوڑ دیں ۔
  • 2. جسٹس خلیل الرحمان رمدے کو سلام، 31 رکنی عدالت عظمیٰ کے سارے ججوں کو سلام، اختلاف کرنے والوں کو بھی سلام، پوری سپریم کورٹ کو سلام، پوری وکلاء برادری کو سلام اور پوری قوم کو سلام کہ انہوں نے نئی تاریخ لکھی ہے۔ قوم کو نیا جذبہ دیا ہے، روشنی کی نئی کرن دکھائی ہے، امید کی نئی شمع روشن کی ہے اور پاکستان کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا ہے۔ آزادی کے راستے پر، جمہوریت کے راستے پر، عدل کے راستے پر، انصاف کے راستے پر، اسلام کے راستے پر اور آئین کی حکمرانی کے راستے پر۔ اب توقع بندھ گئی ہے کہ ملک آمریت سے آزاد ہوگا، فرد واحد ہماری قسمتوں کے فیصلے نہیں کریں گے اور یہاں پر وہی کچھ ہوگا جوہمارا آئین کہتا ہے جوہمارا قانون کہتا ہے روشن کہیں ، بہار کے اِمکاں ہوئے تو ہیں گُلشن میں چَاک، چند گریباں ہوئے تو ہیں اب بھی خزاں کا راج ہے، لیکن کہیں کہیں گوشے رَہِ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں ٹھہری ہوئی ہے شَب کی سیاہی وَہیں مگر کُچھ کُچھ سَحر کے رَنگ پَر اَفشاں ہوئے تو ہیں اِن میں لَہو جلا ہو، ہمارا کہ جان و دل محفل میں کُچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں اَہلِ قَفس کی، صُبح چَمن میں کُھلے گی آنکھ بَادِ صَبا سے وَعدہ و پَیماں ہوئے تو ہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ایک درویش منش انسان ہیں ۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے فیصلے پہلے ہی کافی شہرت پا چکے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو سیاسی انصاف بھی دیا جائے … کہ قوم نے ایک فرد کیلئے نہیں ایک ادارے کیلئے اور سب سے بڑھ کر اپنی ناآسودہ خواہشات کیلئے، اپنے کچلے ہوئے جذبوں کیلئے، اپنے سلب شدہ حقوق کیلئے تحریک چلائی ہي… چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کی بحالی پر بہت بہت مبارکباد۔ لیکن اصل مبارکباد کے وہ مستحق تب ہوں گے جب وہ اس قوم کی حالت بدلیں گے کہ قوم نے ان سے وہ توقعات لگائی ہیں کہ اس سے پہلے شاید قائداعظ م اور اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے لگائی تھیں ۔ یہ فیصلہ اگرچہ کسی فرد کی فتح یا شکست نہیں کہا جانا چاہئے لیکن اسے عدلیہ کی فتح اور آمریت کی شکست کہنے میں تو کوئی حرج نہیں ۔ چیف جسٹس نے اپنے دَورِ ابتلاء میں مزید جان لیا ہوگا کہ ریاستی قوت، جی نہیں فوجی قوت جب مَن مَانی پر آتی ہے تو کسی کو معاف نہیں کرتی، چیف جسٹس کو بھی نہیں … ہم نہیں کہتے کہ وہ کسی سے انتقام لیں لیکن اگر انہوں نے جابروں اور ظالموں سے قوم کا بدلہ نہ لیا تو پھر قوم کی ان سے بھی لڑائی ہوگی کہ یہ جو پرچم لہرایا گیا ہے وہ افتخار محمد چودھری کے گھر پر نہیں چیف جسٹس آف پاکستان کے گھر پر لہرایا گیا ہے، آمروں کی قبر پر لہرایا گیا ہے اور قوم کی توقعات کے روشن مینار پر لہرایا گیا ہے۔ افتخار محمد چودھری کا ایک دَورِ ابتلاء ختم ہوا لیکن نئے امتحان کا آغاز ہوگیا اور یہ امتحان پہلے امتحان سے کہیں زیادہ سخت ہے اک اور دَریا کا سَامنا تھا مُنیر مُجھ کو جو ایک دَریا کے پَار اُترا تو میں نے دیکھا وہ ہمیشہ دُعا کرتے تھے کہ اللہ انہیں سرخرو کرے تو اللہ نے ان کو سرخرو کردیا لیکن اب قوم کی سرخروئی ان کے ہاتھ میں ہے اور سب سے آخر میں توصیف کے چند شعر چودھری اعتزاز احسن کیلئے کہ بڑے وکیل تو وہ پہلے ہی تھے لیکن انسانی حقوق کے اتنے بڑے چیمپئن اور اتنے بڑے انسان کہ اپنے پیشے اور سیاسی کارکنوں کیلئے ان کی شخصیت ہمیشہ مشعل راہ ہوگی۔ انہوں نے دل کے ساتھ جس طرح عقل کو بھی پاسبان رکھا، نہ غصے میں آئے، نہ طیش میں ، جذبات کو چھپایا نہ جذبات کو حاوی ہونے دیا ایک نئی تاریخ لکھی اور عدالتی آزادی کی تحریک کے سرخیل ثابت ہوئے۔ یہ اشعار فیض احمد
  • 3. فیض نے اپنے خلاف مقدمہ کے دوران صفائی کے وکیل سَیدّ حسین شہید سہروردی کے لئے لکھے تھے لیکن آج کے دور میں کوئی اعتزاز احسن سے زیادہ ان کا مستحق نہیں کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂِ تقریر گویا سر بَاطل پہ چمکنے لگی شمشیر وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا واں سینۂِِ اَغیار میں پَیوست ہُوئے تِیر گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، رَوانی بھی سَکُوں بھی تَاثِیر کا کیا کہئے، ہے تَاثِیر سی تَاثِیر اِعجاز اُسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ ہر ایک جگہ مَکروریا کی ہُوئی تشہیر روشن ہُوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے پیشانیِٔ اعدأِ پہ سیاہی ہُوئی تحریر آخر کو سرفراز ہُوا کرتے ہیں اَحرار آخر کو گِرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جَم و دارا ہر عہد میں دیوارِ سِتم ہوتی ہے تَسخیر ہر دَور میں مَلعُون شَقاوَت ہے شِمر کی ہر عہد میں مَسعُود ہے قربانیِٔ شبی ر اور یہ دُعا چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، چودھری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء کیلئے کرتا ہے قَلم اپنے لَب و نُطق کی تَطہِیر پہنچی ہے سر حرفِ دُعا اَب مِری تحریر ہرکام میں بَرکت ہو، ہر اِک قَول میں قُوّت ہرگام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گِیر ہر لحظہ ترا طالعِ اِقبال سَوا ہو ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر ہر بات ہو مقبول، ہر اِک بول ہو بالَّ کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شُعلۂِ تقریر ہر دِن ہو تِرا لطفِ زَباں اَور زیادہ اللہ کرے زور بیاں اَور زیادہ ہمارے ہاں روایت تو نہیں پر شاید اب کے یہ عجوبہ بھی ہوجائے کہ ریفرنس بنانے والے، اُس کی وکالت کرنے والے اوراُس پر ضِد کرنے والے خود ہی شرم کریں اور استعفے دے دیں ۔اب کے بار کسی بکرے کی قربانی سے کام نہیں چلے گا، افراد کی قربانی دینا ہوگی اور افراد کی بھی نہیں پورے ٹولے کی کہ اگر رضاکارانہ قربانی نہیں دیں گے تو پھر قوم کے ہاتھوں قربان ہونے کیلئے تیار ہوجائیں !! :Share this ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا “حسی ن ” نجانے یہ نظم کیوں آج کے بین السطور میں بھی بالکل حسب حال لگتی ہي حُسی ن! سرور کونینؐ کی دہائی ہے
  • 4. حُسی ن! ہم نے بھی اک کربلا بسائی ہے حدُودِ شرعِ پیمبرؐ سے بے نیاز ہیں لوگ عجب زمانۂِ حاضر کی رہنمائی ہے ٹَپک رہا ہے لَہو دشنہ ہائے قاتل سے مزاج گردشِ حالَّت کربلائی ہے خُدا کا نام ہے، اِلزام آلِ حید ر پر بُتوں کی شمر کے دربار تک رسائی ہے حُسی ن! تیرے مُقدس لَہو کا ہر قطرہ ظہور جلوۂِ تقدیسِ کبریائی ہے تمام عُمر رہے ہیں ، قَتیلِ اِبنِ زیاد تمام عُمر رَذِیلوں سے مار کھائی ہے حُسی ن! دیکھ شریفوں کی لُٹ گئی عِزّت حُسی ن! برقِ ستم ہم پہ مسکرائی ہے یزید تَخت کا وارث ، حُسی ن نیزے پر قرونِ اُولیٰ کی تاریخ لَوٹ آئی ہے فَقیہِ مدرسہ، مِیر سِپہ، خطیب چَمن خُدا کہاں ہے؟ اِنہیں زُعمِ پارسائی ہے میں بے ادب ہوں ، فَقِیہوں سے دور لے جاؤ کہ اِن کی قَیصر و کِسریٰ سے آشنائی ہے ہمی نے خنجر قاتل کو آبرو بخشی ہَمِی نے محفلِ دار و رسن سَجائی ہے حُسی ن! ہم سے فقیروں کے آقا و مَولَّ لَہو نے اِن کے بِنا عِشق کی اُٹھائی ہے شہریوں کا تو شمار کرنا ہی بیکار ہے۔ پاکستان کا عراق اور افغانستان سے کیا فرق باقی رہ رہا ہے کہ چند دنوں تک اس کی خبريں بھی معمول بن جانے کا انديشہ ہے۔ یہ سلسلہ عوامی حمایت کے بغیر ،جمہوریت کے بغیر، عوامی حکمرانی کی بحالی کے بغیر رُک نہیں سکتا۔ بڑا اچھا کیا کہ آپ نے اعلان کردیا کہ ایمرجنسی نہیں لگے گی۔ اس کو سوچئے گا بھی نہیں جو آپ کو ایسے مشورے دیں ان کے سر پر سو جوتے ماریں اگر آپ کے دل میں بقول اپنے اِس قوم اور اس ملک کا ذرا بھر بھی درد ہے آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان بچ جائے اگر آپ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ آپ کی پہلی ترجیح یہ ملک اور اس کے عوام ہیں تو دونوں پر رحم کھائیں ۔ اقتدار چھوڑیں ، غیر جانبدار الیکشن کمشن بنا کر شفاف الیکشن کرائیں اور فوج کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاست سے الگ کردیں ۔ بدنام تو اُسے آپ پہلے ہی بہت کرچکے ہیں ، اب جاتے جاتے اس کی نیک نامی کیلئے بھی کچھ کر جائیں ورنہ، ورنہ ، ورنہ !! کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لَہو کا سُراغ نہ دَست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخیِِٔ لب خنجر نہ رنگِ نوکِ سِناں نہ خاک پر کوئی دَھباّ نہ بام پر کوئی داغ کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لَہو کا سُراغ نہ صَرفِ خدمت شاہاں کہ خُ وں بہا دیتے
  • 5. نہ دیں کی نَذر کہ بیعانۂِِ جزا دیتے نہ رَزم گاہ میں برسا کہ مُعتبر ہوتا کسی عَلم پہ رقم ہو کے مُشتہر ہوتا پکارتا رہا، بے آسرا، یتیم لَہو کسی کو بہرِ سماعت نہ وَقت تھا نہ دماغ نہ مُدّعی، نہ شہادت، حساب پاک ہُوا یہ خُونِ خاک نشیناں تھا، رِزق خاک ہُوا کوئی ہے جو سوچے ……..کوئی ہے جو سمجھے !! اَور سب بُھول گئے حرفِ صداقت لِکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لِکھنا لَّکھ کہتے رہے ظُلمت کو نہ ظُلمت لِکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لِکھنا امریکہ نے پاکستان اور پاک فوج کی مدد سے روس کیخلاف ایک مزاحمتی قوت بنائی جس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا یقین رکھتے اور افواج پاکستان کی کمان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اِن سے لڑائی نہیں صلح کرو، اِن سے جنگ نہیں مذاکرات کرو، اگر پہلے چارسو افسر اور جوان مروا کر آخر کار مذاکرات کرنے پڑے تھے تو اس بار بھی پرانا تجربہ کرنے پر کیوں اصرار کیا جارہا ہے۔ جنرل پرویزمشرف اپنے سابقہ ہم زبان کمانڈر انچیف کی بات پر کان دھرتے ہیں یا نہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن جس طرح ماضی میں عقل کی بات کو پرے پھینک دینے کی روایت ہے اب بھی وہی روش اپنائی گئی تو نتائج اتنے خوفناک ہوں گے کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جنرل پرویزمشرف کے ایک اُستاد لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل بھی متنبہ کررہے ہیں کہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں حالَّنکہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو فاصلے بڑھ نہیں کم ہورہے ہیں ،اب فریقین اتنے قریب ہیں کہ دست و گریبان ہیں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک فریق نے تو دوسرے کا گریبان پکڑ ہی رکھا ہے تاہم دوسرا فریق اپنی شرافت سے یا کمزوری کی وجہ سے اب تک ہاتھ اٹھانے سے مُجتنب ہے اس لئے کہ ہاتھ اٹھائے تو کس پر؟ اُس فوج پر جو اُس نے اپنے خون اور آنسوؤں سے پالی ہے، جس کی خاطر بُھوک اور تنگدستی برداشت کی ہے جس کی تمام ناکامیوں کو اپنے دل پر سہا ہے جس کی تمام بدنامیوں کو اپنے سینے کا تمغہ بنایا ہے اور جس کی تمام طالع آزمائیوں کو بہانے بنا کر سندِ جواز عطا کی ہے، لیکن یہ سلسلہ کتنی دیر جاری رہ سکے گا اور کب تک؟ کہ تنگ آمد بجنگ آمد والَّ معاملہ آن پہنچا ہے۔امریکی دفتر خارجہ کے ،موگینبو، آپ کی کارکردگی سے خوش ہوئے ہوں لیکن پاکستانی قوم بہرحال خوش نہیں ۔ چین کے تین انجینئر پشاور میں قتل ہوگئے ، زیادتی ہوئی، جُرم ہوا اُن کا خون بہا حکومت پاکستان دینے پر آمادہ ہے اِن کی طرف سے پیشکش کی بولی 31 لَّکھ سے چلی اور ایک کروڑ تک پہنچ گئی لیکن مطالبہ 1 کروڑ سے شروع ہوا اور کہتے ہیں اب 8 کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ تینوں چینیوں کی لَّشیں پاکستان میں پڑی ہیں اور معاملہ طے نہیں ہورہا…
  • 6. ہمیں چینی انجینئروں کا خون بہا دینے پر کوئی اعتراض نہیں اور چینی حکومت کے اصرار کی بھی تعریف کی جانی چاہئے؟ کہ اپنے شہریوں کے حقوق پر سودے بازی نہیں کررہی لیکن کیا ہمارے قومی وسائل سے یہ رقم ادا کرنے والے کبھی اپنے لوگوں اور اپنے ہاتھوں مرنے والوں کیلئے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کریں گے؟ کہ اب تک کسی پاکستانی کی قیمت اور اوقات ایک لَّکھ روپے سے نہیں بڑھی۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں فوجی چیک پوسٹ پر ایک اور خودکش حملہ ہوگیا ہے۔ سالَّرزئی میں بارودی سرنگ پھٹ گئی ہے۔پولیس کی ایک وین کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک بار پھر بے گناہ خون بہایا گیا ہے۔ کوئی اس طرز عمل کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی تو سوچا جائے کہ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا بیج کس نے بویا، اس درخت کو تن آور بنانے اور بار آور ہونے میں کس کس کا کردار ہے؟ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، لیکن کتنے شرم کی بات ہے کہ غلط معلومات اور غلط اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر درست نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جارہی ہے جس قوت کو نہ انگریز فتح کرسکا نہ امریکہ اب ان کی خاطر ہم اپنے آپ کو اس آگ میں جھونک رہے ہیں بغیر یہ سوچے کہ آگ تو نمرود کی بھڑکائی ہوئی ہے لیکن ہم میں سے کوئی براہیمؑ نہیں کہ، اس کیلئے “یا نارُکُونی بَرداً اوسَلاماً عَلیٰ اِبراہِیْم”کا حکم آسمان سے جاری ہو۔ گردن بھی اپنی ہے اور چھری بھی اپنی لیکن دونوں میں سے کوئی نہ اسماعیلؑ ہے نہ ابراہیمؑ سو گردن تو کٹے گی ہی اور ہماری جگہ آسمان سے کوئی دُنبہ نہیں اُترے گا…قرآن کا دعویٰ ہے کہ “وہ بہت آسان ہے سَو کوئی ہے جو سوچے )وَلَقَدْ یَاسرْنَا القُرآن لِلذِّکر فَہَل مِن مُادکر”… قرآن کی روایات بھی آسان ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی بھی ممکن نہیں ۔ لہٰذا لکھ لیں اگر ہم نے یہ سلسلہ بند نہ کیا اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو فوج ایسی دلدل میں اتر جائے گی کہ نکلنا ممکن نہیں ہوگا اور یہی بات اُس کے اور پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں ۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں کو بُھول جائیں کہ جہالت سے بڑا ہمارا کوئی دشمن نہیں ، اگر ہماری جہالت کا مقابلہ امریکہ کے علم سے ہوگا تو شکست یقینی ہے اور یہ صرف شکست نہیں ہماری موت ہوگی۔ سو کوئی ہے جو سمجھے۔؟؟… ہمارے حکمران کیوں نہیں سمجھ رہے کہ اسلامی دنیا میں پاکستان سے زیادہ روشن خیال اور اعتدال پسند ملک اور کوئی نہیں ۔ ایک ہی گھر میں بیوی برقع پہنتی ، خاوند ٹائی لگاتا اور بنک کی نوکری کرتا ہے۔ ایک بیٹا مدرسے میں قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کررہا تو دوسرے بچے کو انجینئرنگ کی تعلیم دلَّئی جارہی ہے۔ ایک وکیل بن کر فوج کے سیاسی کردار کا مخالف ہے تو دوسرا جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر فوج میں نوکری کررہا ہے۔ ایک امام ابو حنیف ہ کے مسلک کا پیروکار ہے، دوسرا امام شافع ی کا ، ایک نمازی ہے دوسرا شرابی، ایک روزہ چھوڑتا نہیں دوسرا چکھتا بھی نہیں ، ایک بھائی کلین شیو ہے ،دوسرے کی لمبی ڈاڑھی ہي… سب ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی گھر میں ایک ہی پاکستان کی چھتری تلے زندگی بسر کررہے، ایک دوسرے سے محبت کرتے، ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہیں ، آپ نہ جانے کس روشن خیالی کی بات کررہے ہیں کیوں کسی ایک فریق کو اقلیت اور دوسرے کو اکثریت قرار دے کر آپس میں لڑانا چاہ رہے ہیں ۔کیوں نہیں اپنے اصل کام کی طرف لوٹ جاتے، قوم کو فلسفہ اور اصولِ عِمرانیت سکھانے کے بجائے کیوں نہیں طے شدہ اصولوں کے مطابق جمہوریت بحال کردیتے کہ اس میں سب گھر والے سمجھتے ہیں کہ ان کی رائے لی جارہی اور ان کی بات سنی جارہی ہے۔ آپ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے کمسن بچوں کا پولیس ریمانڈ لے کر ان سے کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی کر کے انعام کے بجائے جیل بھیج کے خود برداشت اور روشن خیالی کی توہین کررہے ہیں ۔ ایمرجنسی لگا کر اقتدار کی مدت بڑھانے کی باتیں کرکے خود قوم کی بے عزتی کررہے ہیں ۔ خدا کیلئے ایسا نہ کریں کہ ایسی چیزوں کا انجام نہ کبھی ماضی میں اچھا ہوا نہ آپ کیلئے اچھا ہوسکے گا… آخر میں “جہاد”
  • 7. کے عنوان سے اقبا ل کی ایک نظم فتویٰ ہے شَیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے! دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر! لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں ؟ مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اَثر تیغ و تَفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں ؟ ہو بھی تو دل ہیں موت کی لَاذت سے بے خبر! کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر؟ تعلیم اُس کو چاہئے ترکِ جہاد کی! دنیا کو جِس کے پنجۂِ خونیں سے ہو خطر باطل کے فال وفر کی حفاظت کے واسطے یورپ زرہ میں ڈُوب گیا دوش تا کمر ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے! مشرق میں جنگ شر، ہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات؟ اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر :Share this 7002 , خونِ مسلماں اتنا سستا……….…توبہ توبہ جولائی 51 Masood @ 2:29 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Sunday, July 15, 2007 خونِ مسلماں اتنا سستا……….…توبہ توبہ!! آپ کی ایک اور مہربانی، دوستوں ، دشمنوں سب کو بتا دیا کہ احتیاط کریں آپ روایتی جاسوسوں اور مُخبروں کی طرح باہمی بات چیت بھی ٹیپ کرلیتے ہیں …مولَّنا عبدالرشید غازی اور طارق عظیم کی گفتگو کے ٹیپ یقینا خود حکومت نے پبلک کئے ہیں جو گفتگو ٹیپ کررہا اور جس کی گفتگو بے خبری میں ٹیپ ہورہی ہو اُن کے لہجے اور انداز میں جو فرق ہوتا ہے اس کو مَدِّنظر نہ بھی رکھا جائے تو یہ ٹیپ خود ہماری ریاست کی بے عزتی کیلئے کافی ہے۔ الفاظ کے معنی ہوتے ہیں ، جن کو سمجھنے کیلئے علم بھی چاہئے اور عقل بھی ساری کہانی واضح ہے کہ مطالبہ کیا تھا؟ اور خون بہانے کا حُکم کِس نے دیا؟… جنرل پرویزمشرف نہ بھی کہیں تو حقائق آج نہیں تو کل لوگوں کے سامنے آ ہی جائیں گے۔ مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کرائیں نہ کرائیں دونوں طرف گولیاں چلانے والے پاکستانی تھے اور مسلمان بھی ان میں سے کوئی نہ کافر تھا، نہ سَفّاک البتہ کہانی کے ہدایتکار دل سے بھی محروم
  • 8. تھے اور دماغ سے بھی لہٰذا کریکٹر اور ایکٹر رفتہ رفتہ ساری کہانی بیان کردیں گے۔یوں بھی “جو چُپ رہے گی، زبانِ خنجر لہو پُکارے گا آستیں کا۔” دہشت گردی کوئی مولوی کرے یا ریاست دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ عمرانیت کے قدیم ترین اصولوں کے مطابق بھی کی توقع کی جاتی ہے۔ افراد اور ریاست Responsibility ریاست سے زیادہ ذمہ داری اور زیادہ کے عمل اور طرزِ عمل میں کوئی فرق تو ہونا چاہئے۔ ٹونی بلیئر کے کہنے پر قتل کے سزایافتہ مجرم کو ساری قوم کے احتجاج کے باوجود معافی دے کر برطانیہ بھیج دیا تھا تو اس بار کیا چیز رکاوٹ بنی؟ ہم کیسی ریاست ہیں کہ ہمارے محافظِ اعلیٰ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف ہمارے محافظوں کو ہمارے وردی والوں کو ہدایت کررہے ہیں کہ یونیفارم پہن کر باہر نہ نکلیں کہ عوامی ردِّعمل کا خطرہ ہے۔ وہی یونیفارم جو ہمارے قومی وقار کا طُرہ بھی رہی ہے اور ہمارے دفاع وطن کا نشان بھی۔یقین جانیں پاک فوج کے سجیلے جوانوں پر خودکش حملوں اور دوسری کارروائیوں سے کسی کو خوشی نہیں ہورہی ساری قوم غمگین ہے، لَّشیں کسی فوجی کے گھر جائیں یا کسی مولوی کے گھر سب خون کے آنسو رُلَّتی ہیں ۔ لیکن جب ہمارے جرنیل یہ اعلان کریں کہ انہوں نے فلاں علاقہ سول انتظامیہ کے حوالے کردیا ہے تو لوگ سوچتے ضرور ہیں کہ یہ کیا مذاق ہے، پورا ملک تو آپ کی دسترس میں ہے، کچھ بھی آپ کی دستبرد سے نہیں بچا ہُوا تو ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جو دلوں کو دُکھی کریں ۔ آپ نے آج تک جتنے آپریشن کئے ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ اگر آپ شروع سے ہی مہربانی کرتے مشرقی پاکستان کو بزور طاقت فتح کرنے کے خواب نہ دیکھتے۔ اسے سول انتظامیہ کے اختیار میں ہی رہنے دیتے، اگر بلوچستان میں چڑھائی نہ کرتے اور معاملات کو سویلین ہاتھوں میں رہنے دیتے۔ اگر فاٹا اور سرحدی علاقوں میں بمباری نہ کرتے، ٹینک نہ بھیجتے لَّل مسجد کی بے حُرمتی نہ کرتے تو آج نہ ان علاقوں میں فوجی جوانوں پر خودکش حملے ہوتے نہ آپ کو سرِعام وردی پہنے ہوئے ڈر محسوس ہوتا نہ خجالت۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ عبدالرشید غازی کو جامعہ حفصہ کے عقب میں واقع نالے کے قریب کمرے سے زندہ گرفتار کیا جاسکتا تھا لیکن اصل کہانی طشت اَزبازم ہونے کا امکان تھا سو خطرہ مول نہ لیا گیا، جو اسلحہ اخبار نویسوں کو دکھایا گیا اُس میں سے جو وہاں واقعتا موجود تھا وہ تو راجن پور، فاضل پور اور کوہِ سلیمان کے راستے پھل کے کریٹوں میں پہنچا تھا۔ سارے کردار ساری دنیا جانتی ہے ہماری حکومت کیوں بے خبر رہی؟ یا یہ نظر پوشی جان بوجھ کر اختیار کی گئی کہ جو کرنا تھا اِس کے بغیر ممکن ہی نہ تھا… لیکن افسوس کے جن کو خوش کرنے کیلئے،جن سے تمغۂِِ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا گیا وہ اب بھی خوش نہیں ، وہ اب بھی آپ کی کارکردگی کو مشکوک قرار دے رہے ہیں ۔ جارج بش جو چاہے کہتے رہیں اور آپ تسلیم کریں نہ کریں امریکی کانگریس کا موڈ آپ کے بارے کوئی اچھا نہیں ، اور رہے پاکستانی تو ان کا کہنا ہے کہ جس کی جھوٹی کہانی گھڑی تھی اُسی )WMD( طرح امریکہ نے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں طرح آپ نے ان لوگوں کو مارنے کیلئے بے بنیاد افسانہ تراشی کی۔ عبدالرشید غازی کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان نے 13 ویں صدی میں کربلا کی تاریخ دہرائی۔ شیعہ مسلک کے جیدّ عالمِ دین علامہ مفتی کفائت حسین علیہ الرحمتہ سے سنا تھا کہ واقعہ کربلا کے دنوں میں جب امامِ حسی ن شہادت سے سرفراز ہورہے تھے اُن کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو مسلمانوں کا اِمام قرار پایا کہ نبیؐ کے نواسے امامِ زمان کا بیٹا اور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑنواسا تھا…اب لوگ کہتے ہیں کہ جب عبدالرشید غازی ہماری فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے ٹھیک اُسی وقت اُن کی بیگم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچے سے نوازا جس کا نام بھی انہوں نے عبدالرشید غازی رکھ دیاہے۔ ہم نہیں جانتے کہ لَّل مسجد کے واقع کی کربلا سے کوئی مماثلت ہے یا نہیں ؟ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ اس معرکے کا حسی ن کون ہے؟ اور یزید کون؟ اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ مولَّنا عبدالرشید غازی کے ہاں پیدا ہونے والَّ بچہ، ابنِ حسی ن کا کردار ادا کرے گا
  • 9. یا نہیں ؟ لیکن اتنی بات یقیناً جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے۔ اَپنے دفاع میں امام کعبہ کا نام استعمال کرنے والوں سے قوم پوچھتی ہے کہ امام کعبہ نے لَّل مسجد والوں کو تو ضرور سمجھایا ہوگا، کیا آپ کو کچھ نہیں سمجھایا؟ آپ کو نہیں کہا ملک میں فحاشی اور بے حیائی کا فروغ بند کریں ۔ انہوں نے آپ کو تلقین نہیں کی کہ چلیں شریعت نافذ نہیں کرسکتے نہ کریں لیکن ننگی ٹانگوں والی لڑکیاں تو سڑکوں پر نہ دَوڑائیں … بے کار بحثیں ، فضول تاویلیں اور دُوراَز کار دلَّئل دیتے رہیں کوئی آپ کی بات نہیں مان رہا۔ قرآن میں ایک جگہ نبی اکرمؐ نے اپنے مخالفوں کو دعوت دی کہ اگر سچے ہو تو آؤ ہم اور تُم خُود، اپنی اولَّدوں اور اپنی عورتوں کو لے آتے، قسم کھاتے ہیں اور پھر ظالموں پر اللہ کی لعنت کے طلب گار ہوتے ہیں … ہم ایسی بات نہیں کہہ سکتے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں لیکن اتنا تو ہو ہی سکتا ہے کہ اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کرالی جائیں ۔ 31 مئی کو کراچی میں بہایا جانے والَّ خون تو آپ پی گئے۔ لَّل مسجد کے خون کو تو رزق خاک نہ ہونے دیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ آپریشن پورے غوروخوض سے سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ اس میں غور نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔اس میں سوچ کا کوئی عنصر دکھائی ہی نہیں دیتا کیونکہ ہماری یادداشت کے مطابق 3691 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پلواڑہ، آدم پور اور پٹھان کوٹ کے بھارتی ہوائی اڈوں پر کئے جانے والے پیرا ڈراپ آپریشن میں ایس ایس جی کے کل 81 افسر اور جوان بھیجے گئے جن میں سے 1 شہید اور 31 زخمی ہوئے جبکہ لَّل مسجد کے آپریشن “سن رائز” میں اس سے دُگنے، یعنی 391 افسروں اور جوانوں کو جھونکا گیا جن میں سے جنرل پرویزمشرف کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 31 شہید اور 11 زخمی ہوئے سو یہ ہے آپ کی پلاننگ اور یہ ہے آپ کی سوچ اور عقل۔ کیوں بیگناہ فوجیوں اور عوام کا خون ارزاں کردیا گیا؟… اپنی غلطی مان کیوں نہیں لیتے؟ اس کا کفارہ کیوں ادا نہیں کرتے؟ کہ آپ مانیں نہ مانیں لوگ فریقین کی اموات کا ذمہ دار آپ کو مانتے اور جانتے ہیں اور جب ایسے حالَّت ہوجائیں تو اِن کے بارے میں قرآن کی سُورۃ النساء کی آیت 63 سے 69 تک میں حل بھی بتایا گیا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں ۔ یہ آیات ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی ہیں ، فوج کیلئے بھی، مولویوں کیلئے بھی اور ان کے درمیان دار مذاکرات کاروں کیلئے بھی… “تم کچھ اور لوگوں کو ایسا بھی پاؤ گے جو بظاہر چاہتے ہیں کہ تُم سے بھی اَمن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی اَمن میں رہیں ۔ )لیکن( جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے تو اوندھے منہ اس میں گر پڑتے ہیں ، پس اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تم سے صلح کا سلسلہ جنبانی نہ کریں اور اپنے ہاتھ نہ روک لیں ، تو انہیں پکڑو اور مار ڈالو جہاں کہیں بھی پالو! یہی وہ ہیں جن پر ہم نے تمہیں صاف حُجّت عنایت فرمائی۔) 63 (کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہوجائے )تو اور بات ہے( اور جو شخص کسی مسلمان کو بلاارادہ مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لَّزمی ہے اور اگر مقتول اُس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہدو پیمان ہے تو خون بہا لَّزم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے گا اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی )ضروری ہے( پس جو نہ ایسا کرسکے اُس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کیلئے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والَّ اور حکمت والَّ ہے۔) 61 ( اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اُس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کیلئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔) 61 ( اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جارہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سَلام عَلیک کرے تم اُسے یہ نہ کہہ دو کہ تُو ایمان والَّ نہیں ۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی
  • 10. غنیمتیں ہیں ۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق و تفتیش کرلیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔) 61 ( اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن، اور بغیر عُذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو، بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔) 61 ( اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور ) رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والَّ ہے۔) 69 آخر میں فیض احمد فیض کی ایک نظم جامعہ حفص ہ کے معصوم شہید بچوں اور ان کیلئے گریہ کُناں بچیوں کے نام یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اَشرفیاں ، چَھن چَھن، چَھن چَھن دَھرتی کے پیہم پیاسے کَشکول میں ڈَھلتی جاتی ہیں کَشکول کو بھرتی ہیں یہ کَون جواں ہیں ارضِ وطن یہ لَکھ لُٹ جِن کے جسموں کی بَھرپور جوانی کا کُندن یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے یوں کُوچہ کُوچہ بِکھرا ہے اے ارضِ عجم، اے ارضِ عجم! کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیئے اِن آنکھوں نے اپنے نیلم اِن ہونٹوں نے اپنے مَرجاں اِن ہاتھوں کی “بے کل چاندی” کِس کام آئی، کِس ہاتھ لگی؟” “اَے پوچھنے والے پردیسی! یہ طِفل و جواں اُس نُور کے نَورس موتی ہیں اُس آگ کی کچّی کلیاں ہیں جِس مِیٹھے نُور اور کڑوی آگ سے ظلم کی اَندھی رات میں پُھوٹا صُبحِ بغاوت کا گُلشن اور صبح ہُوئی مَن مَن، تَن تَن اِن جسموں کا چاندی سونا اِن چہروں کے نیِلم، مَرجاں جَگ مَگ جَگ مَگ ،رَخشاں ، رَخشاں جو دیکھنا چاہے پردیسی پاس آئے دیکھے جی بھر کر یہ زِیست کی رانی کا جُھومر یہ اَمن کی دیوی کا کنگن