SlideShare a Scribd company logo
1 of 79
آخر میں شورش کاشمیری مرحوم کی ایک نظم جو 2791 ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور 
حکومت میں اُن کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کی طرف سے کراچی میں اردوکے حق میں مظاہرہ کرنے 
والوں پر گولیاں چلانے کے موقع پر لکھی گئی اصولا تو یہ نظم 21 مئی کے فوراً بعد چھپنی چاہئے تھی 
لیکن کہتے ہیں نیک کام میں کبھی دیر نہیں ہوتی سو اِسے اَب پڑھ لیں … نظم کا عنوان تھا “ستم 
نواز مسخرے” 
عوام ہیں سَتائے جا 
ابھار کر مِٹائے جا 
چراغ ہیں بُجھائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
ترا بڑا مَقام ہے 
تو مردِ خوش خرام ہے 
اٹھائے جا، گِرائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
سِتم نواز مَسخرے ! 
عَجب ہیں تیرے چوچلے ! 
عوام کو نَچائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
قَبائے شب ادھیڑ کر 
غزل کا ساز چھیڑ کر 
گُلال ہیں لُٹائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
رَوِش روش چَمن چَمن 
نَگر نَگر، دَمَن دَمَن 
قیامتیں اُٹھائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
مزہ ہے تیرے ساتھ میں 
سُبو ہے تیرے ہاتھ میں 
شراب ہے پِلائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
تَھرک تَھرک، مَٹک مَٹک 
اِدھر اُدھر لَٹک لَٹک 
مزاجِ یار پائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
لَہو… تِری غذا سہی 
تو رِند پارسا سہی
حِکایتیں سُنائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
یہ چال کَٹ ہی جائے گی 
یہ دال بَٹ ہی جائے گی 
ابھی تو ہَمہَمائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
خُدا کا خوف چھوڑ کر 
وَطن کی باگ موڑ کر 
نشان ہیں لگائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
…… 
لُقَندروں کی فوج ہے 
اِسی میں تیری موج ہے 
حرام مال کھائے جا 
تو… گولیاں چلائے جا 
تھا جنہیں ذَوق تماشا وہ تو رُخصت ہوگئے 
لے کے اب تُو وعدۂِِ دِیدارِ عام آیا تو کیا؟ 
اَنجمن سے وہ پُرانے شُعلہ آشام اُٹھ گئے 
ساقیا! محفل میں تو آتش بَجام آیا تو کیا 
آہ! جب گُلشن کی جَمعِیتّ پریشاں ہوچکی 
پُھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا؟ 
آخرِ شب دِید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ 
صُبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا؟ 
بُجھ گیا وہ شُعلہ جو مقصودِہر پروانہ تھا 
اب کوئی سودائیِ سوزتَمام آیا تو کیا 
پھول بے پروا ہیں تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو 
کارواں بے حِس ہے، آوازِ دَرا ہو یا نہ ہو 
7002 , کس کی جیت ،کس کی ہار؟ جولائی 8 
Masood @ 2:36 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Monday, July 08, 2007 
کس کی جیت ،کس کی ہار؟
حکومتی بولی بولنے والوں کو نہ جانے کس طرح الہام ہوا ہے کہ گزشتہ پانچ 
دنوں میں بہنے والے بے گناہوں کے خون سے جنرل پرویزمشرف کا امیج بہت بہتر ہوگیا ہے 
اور پاکستان کی سول سوسائٹی میں ان کی مقبولیت بے تحاشا بڑھ گئی ہے، آپ عام 
لوگوں سے مل کر دیکھیں تو 2792 ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پہلی بار 
انہیں اتنا زیادہ دُکھی پائیں گي… 2791 ء میں مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مولانا 
مفتی محمود علیہ الرحمتہ اور اُن کے قریبی ساتھی مولانا غلام غوث ہزاروی، جماعت 
اسلامی کی مخالفت میں پیپلزپارٹی کے ہمنوا تھے جس پر جماعت اسلامی کے حامیوں نے 
اُن کے نام سے مولانا کا لفظ ہٹا کر “مسٹر” کا لفظ جوڑ دیا جواباً پیپلزپارٹی کے ترجمان مولانا 
کوثر نیازی کے ہفت روزہ نے مولانا مودودیؒ کا سر اُس وقت کی مشہور ایکٹریس نغمہ کی 
فلم “انورا” میں رقص کناں ایک تصویر پر جوڑ کر نیچے کیپشن لگایا “سُن وے بلوری 
اَکھاں والیا” اس پر جماعت اسلامی کے حامی ایک جریدے نے ذوالفقار علی بھٹو کا سر 
کی بوتل پر جوڑ کر بدلہ چکایا۔ یہ سارا سیاسی کھیل تھا اور VAT شراب کے مشہور برانڈ 69 
اسی طرح کھیلا جارہا تھا لیکن 21 دسمبر 2792 ء کو جب حکومت اور فوج کے جھوٹے 
دعوؤں کا پول کھلا اور افواج پاکستان کے ایسٹرن کمان کے “شیر دل” کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل 
امیر عبداللہ نیازی نے اپنا پستول اتار کر بھارتی ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل 
جگجیت سنگھ اروڑہ کے حوالے کیا اور ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کئے تو شاید ہی 
کوئی ایسا شخص ہو جو پارٹی اور نظریات کے تمام تر اختلافات کے باوجود رویا نہ ہو… کچھ 
ایسی ہی حالت اب کے ہے۔ ساری کی ساری قوم رنجیدہ ہے ہر شخص مضطرب ہے مولوی 
برادران کو گالی دینے والے بھی کافی ہیں اور حکومت پر دشنام طرازی کرنے والے بھی بہت، 
کچھ کی بانچھیں کِھل رہی ہیں تو کچھ کے آنسو نہیں رُکنے پا رہے۔ کچھ لوگوں نے مولانا 
عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید کے ناموں سے مولانا کا لفظ غائب کرکے اپنے غصے کا اظہار 
کیا ہے کچھ نے اسلام سے اپنے بُغض کو مولوی برادران کے پردے میں ظاہر کیا اور کچھ 
نے حکومتی کیمپ سے وفاداری کا عہد نبھایا ہے لیکن کیا کوئی بھی موجودہ صورتحال سے 
خوش ہے؟… اگر نہیں تو اس ساری صورتحال کے ذمہ دار حکمران کس طرح راتوں رات عوام 
میں مقبول ہوگئے ہیں ۔ عوام کو نہ 2792 ء کے “غدار” بھولے ہیں ، نہ 1119 ء کے “محب 
وطن۔” 
وہ کہہ رہے ہیں مُحبت نہیں وطن سے مجھے 
سکھا رہے ہیں مُحبت مشین گن کے ساتھ 
بغیر کسی لڑائی میں فتح حاصل کئے پاکستانی جنرل ایوب خان کی طرح ازخود فیلڈ مارشل 
بننے والے نہیں ، بلکہ اصلی فیلڈ مارشل اور برطانوی فوج کے ہیرو فیلڈ مارشل ارل کچنر کا 
کہنا ہے “جنگ خطرات مول لینے کا نام ہے،… آپ یہ کھیل ہر بار نہیں جیت سکتے اور یہ بات 
بااختیار لوگوں کو جتنی جلدی معلوم ہوجائے اُتنا ہی بہتر ہوتا ہے”… لگتا ہے ہمارے 
کمانڈروں نے یہ قول کبھی نہیں پڑھا حالانکہ اِسے جدید دور کے حربی نصاب کی بنیاد 
سمجھا جاتا ہے۔ نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر، معصوم بچوں پر بمباری کرکے، بے گناہ 
آبادیوں کو ٹینکوں تلے روند کر میڈل لگا لینا ایک بات ہے۔ دشمن سے جنگ لڑ کے جیتنا 
دوسری… جبکہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے گئے “غازیوں ” سے لڑنا بالکل تیسری… جن 
لوگوں نے کبھی کسی جنگ کا انجام دیکھا ہی نہ ہو انہیں کیا پتا کہ ایسے کھیلوں کا نتیجہ 
کیا نکلتا ہے۔ 
پَندار کے خُوگر کو ناکام بھی دیکھو گے 
آغاز سے واقف یہ اَنجام بھی دیکھو گے 
اس بے وقوفانہ آپریشن سے جنرل پرویزمشرف نے مقبولیت کیا حاصل کرنی تھی یہ ضرور ہوا 
ہے کہ نفرت کے نشان سرکاری مولوی برادران پہلی بار عوامی ہمدردی حاصل کررہے ہیں ۔ 
اگر یہ ابھی تک “نُورا کشتی” نہیں ہے جیسا کہ لال مسجد سے ہونے والے ٹیلی فونک
مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک کسی نے فون تک جام نہیں کئے تو چیف جسٹس 
افتخار محمد چودھری کے انکار کے بعد مولانا عبدالرشید غازی اپنے طرز عمل سے “سلسلہ 
انکاریہ” کے فرد قرار پارہے ہیں اور حکومت کی حماقتوں سے ایک ہیرو کے طور پر سامنے 
آرہے ہیں اب وہ پکڑے جائیں یا مارے جائیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ چیف جسٹس کے معاملہ 
کی ہینڈلنگ میں حکومت خود مِس ہینڈل ہو گئی۔ مولویوں کی ہینڈلنگ تو بہتر ہونی چاہئے 
تھی کہ کار بھی اپنی تھی اور ہینڈل بھی اپنا لیکن چھ دنوں کے دوران درجنوں بے 
گناہوں کے خون نے حکومتی منصوبہ سازوں کی حکمت عملی کی ساری قلعی بالکل کھول 
کر رکھ دی ہے۔ عموماً دشمن کے مقابلے میں ون ٹو ون یا زیادہ سے زیادہ ایک کے مقابلے 
میں دو کی عددی قوت فتح کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جدید ترین عسکری ذرائع 
اور حربی آلات کی موجودگی اور ایک کے مقابلے میں دس، چھ دن بعد بھی عوام کے اعصاب 
کا امتحان لے رہے ہوں تو اسے فتح کوئی نہیں مانے گا۔ حکومت نے آج تک انسانی 
جانوں کا کتنا احترام کیا ہے جو اب اس کے دعوے کررہی ہے۔ لال مسجد کے لوگوں کے پاس 
اسلحہ کی غیرمحدود صلاحیت نہیں ہوسکتی جبکہ آپریشن کرنے والے جدید ترین آلات اور 
غیر محدود جنگی ہتھیاروں سے لیس ہیں ان کی شفٹیں بھی بدل رہی ہیں جبکہ دوسری 
طرف بھوک اور پیاس کے ڈیرے ہیں آپ اتنے “پکے مسلمان” ہیں کہ خود وہاں کھانا بھیجتے 
رہے لیکن بچوں کیلئے کھانا لیجانے والوں کو گرفتار کرادیتے ہیں ۔ مقابلہ بہت دیر نہیں چلے 
گا، چل بھی نہیں سکتا… لیکن حکومت جس فتح کے خواب آنکھوں میں سجائے میدان 
میں اُتری تھی وہ بہرحال پورے نہیں ہوئے کہ مقابل بھی ان کے ہی تربیت یافتہ ہیں ۔ لال 
مسجد کے مولویوں نے تو راشن پانی کا انتظام کر رکھا ہو گا لیکن اس علاقے کے لوگوں کا 
کیا قصور ہے کہ اپنے ہی علاقے میں محصور، اپنے ہی گھروں میں قید اور اپنے ہی خون کے 
گھونٹ پینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں ۔… حکومت جیت کر بھی شکست سے دوچار جبکہ 
حکومت مخالف تحریک یا لندن کی اے پی سی کو اس آپریشن سے نقصان نہیں فائدہ ہی 
ہوا ہے، جنرل مشرف کے حامی بھی اب انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ یا بینظیر بھٹو کے 
ساتھ معاملہ کر لو یا مارشل لاء کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جنرل صاحب کی خواہش تو یہ ہو گی کہ 
بے نظیر سے معاملہ ہو جائے لیکن بے نظیر ایسا کیوں کریں گی؟ لے دے کے جنرل صاحب 
کو کسی نئے جرنیل پر انحصار کرنا ہو گا لیکن نیا جرنیل ان کا کام کیوں کرے گا؟ ادھر عام 
لوگ بھی سوچ رہے ہیں 
مِرے خیال میں اَب تَھک چُکے ہیں ظالم بھی 
ڈھلے گی ظُلم کی شَب دِیپ آس کا نہ بُجھا 
ہم یہ مان لیتے ہیں کہ صدر جنرل پرویزمشرف کو اسلام آباد میں خون بہانے پر یقینا امریکہ 
سے توصیف ملے گی کہ جو کام وہ خود نہیں کرسکتا تھا وہ ہمارے حکمران کررہے ہیں لیکن 
میں اپنی )JIT ( اب جب انہوں نے تفتیش کیلئے بنائی گئی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم 
ایجنسیوں کے لوگوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے تو ہمارے حکمران انہیں کیا جواب 
دے سکیں گي… اگر انکار کرتے ہیں جس کی بظاہر ان میں ہمت نہیں تو ان کی “نوکری” 
خطرے میں پڑ جائے گی اور اگر اجازت دے دیتے ہیں تو سارے راز کھل جانے کا اندیشہ ہے 
سو کسی طرح سے راہ فرار نہیں مل رہی۔ وزیرداخلہ آفتاب شیر پاؤ اگر اپنے ڈرائیور شاہد 
سے نجات حاصل بھی کرلیں جو مولوی برادران کا برادر نسبتی بتایا جاتا ہے تو انہیں یہ 
کیسے پتا چلے گا کہ ان کے یا دوسرے بڑے بڑے لوگوں کے اردگرد اور کون کون ایسے ہی 
لوگ موجود ہیں ۔ رہا جنرل صاحب کا الٹی میٹم کہ لال مسجد والے باہر آ جائیں ورنہ مارے 
جائیں گے تو اب یہ ڈرامہ کافی لمبا ہو گیا ہے۔ عملاً یہ ٹی وی کا ڈرامہ بن گیا ہے جس کی 
قسطیں “عوام کے پرزور اصرار پر” بڑھائی جا رہی ہیں اور جب “ڈائریکٹر” چاہیں گے ڈرامہ بند 
ہو جائے گا۔ کیا جنرل صاحب اتنے مہینے انتظار کرتے رہے ہیں کہ ان کے پروردہ مولوی 
وہاں اپنے حامیوں کو بھی اکٹھا کر لیں اور اسلحہ بھی۔ اب تک جتنے لوگوں کو 
جہاں جہاں بھی مارا گیا۔ کتنوں کو وارننگ دی گئی؟ اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ جب تک
ایک عورت یا ایک بچہ بھی مسجد میں موجود ہے آپریشن نہیں ہو گا یعنی نہ نومن تیل ہو گا 
نہ رادھا ناچے گی یا پھر “سوپ ڈرامہ” کی کئی قسطیں ابھی باقی ہیں ۔… مارنے کے لئے 
وقت آج کا بہتر ہے یا کل بہتر تھا اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی یا جنرل صاحب کیونکہ ہم 
لوگ تو موت نہیں زندگی کی بات کرتے ہیں تاہم جنرل صاحب جو چاہے کر لیں ان کے لئے 
اب کوئی وقت بھی بہتر نہیں ۔ اللہ اس ملک، اس قوم اور ہم سب پر رحم کري… آخر 
میں اقبالؒ کے تین شعر 
بے اشکِ سحر گاہی تقویمِ خودی مُشکل 
یہ لالۂِِ پیکانی خوشتر ہے کنار جُو 
صَیاّد ہے کافر کا نَخچیِر ہے مومن کا 
یہ دیرِ کُہن یعنی بُت خانۂِِ رنگ و بُو 
اے شیخ! امیروں کو مسجد سے نکلوا دے 
ہے اُن کی نمازوں سے محراب ترش اَبرو 
:Share this 
7002 , ایَسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو جون 72 
Masood @ 12:45 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Friday, June 29, 2007 
اَیسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو!! 
روشن خیال کون ہے وہ مولوی جو اپنی بیوی کو ایک لاکھ روپے حق مہر دیتا، اپنی بیٹیوں کو 
جائیداد میں حصہ دیتا، کسی کی مخالفانہ تقریر کو ہنس کر ٹال دیتا، گالی کے جواب 
میں حُسنِ سلوک کرتا اور منبر رسولؐ سے صرف اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات کرتا ہے یا وہ 
وزیر جس کا باپ تو ایک شریف جِلد ساز تھا لیکن اُس کے بھائی، بھائی کی حکومتی طاقت 
کے زور پر کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں ، جو اپنی وزارت کے دوران ایک غیرملکی اور 
غیرمحرم خاتون کو اپنے گھر میں قید رکھتا، اُس سے زور زبردستی کرتا، اُس کو مردہ حالت 
میں ہسپتال لے کر آتا، حکومت اُس کی پشت پناہی کرتی، مردہ خاتون کی پوسٹ مارٹم 
رپورٹ میں واضح گھپلے ہوتے اور بنیادی شرائط ہی پوری نہیں کی جاتیں ، اِس بات کا تعین 
بھی نہیں کیا جاتا کہ خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں ؟ وہ کہیں حاملہ تو 
نہیں تھی یا اُس کا اسقاط تو نہیں کرایا گیا تھا۔ امریکی ماہرین مذکورہ آٹوپسی رپورٹ کو 
واضح طور پر ناقص اور بے کار قرار دیتے ہیں ، کئی دن اسے گرفتار ہی نہیں کیا جاتا، عدالت 
کے حکم پر گرفتاری کے اگلے ہی دن اُسے فوجی ہسپتال سے دل کی بیماری کا سرٹیفکیٹ 
مل جاتا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو جاتا ہے۔ کیا ہمارا قانون جو راہ چلتے میاں بیوی کا منہ 
سونگھتا اور اُن سے نکاح نامے بھی طلب کرتا ہے، اُسے وزیر صاحب کے معاملے 
میں کسی “اَیسی وَیسی” بات کا شک بھی نہیں ہوا۔ کیا یہ محض حبس بے جا کا مقدمہ 
ہے یا سارے کام باِلرَّضا ہو رہے تھے اور تحفظ حقوق نسواں آرڈیننس آنے کے بعد یہ کوئی 
جرم ہی نہیں ۔ اگر یہی روشن خیالی ہے تو تُف ہے ایسی روشن خیالی پر۔ 
ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے روشن خیال دین ہے جس نے پہلی بار 
جاہلانہ رسوم کو چیلنج کیا۔ انسان کو انسان اور پتھر کے سامنے جُھکنے سے روکا، کعبہ کو
بُتوں سے خالی کیا، بچیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کرنے کی روایت کو دفن کر دیا، بیٹیوں کی 
عِزّت اور تکریم شروع کی، عورت کو مہر، نان نفقہ، اچھی رہائش، اچھے لباس اور خُلع کا حق 
عطا کیا، علیحدگی کی صورت میں بھی عورت کو دیئے گئے تحفے، تحائف اور مال و دولت 
واپس نہ لینے کا حکم دیا، تہمت کو جرم قرار دیا، بدکاری کی صورت میں عورت کا پردہ 
رکھنے کی ہدایت کی، نجی زندگی میں دخل اندازی سے روکا، چادر اور چار دیواری کا تصور 
روشناس کرایا، تَجسُّس اور گھر میں جھانکنے سے منع کیا، ریاست اور فرد کے حقوق کی 
تشریح کی، عورت کے ساتھ مرد کو بھی غضِّ بَصر اور شرم گاہوں کی حفاظت کی تلقین 
کی، وراثت میں عورت کا حق مقرر کیا، مخالف مذاہب کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا، 
تہذیبوں اور مذاہب کے تصادم کو روکا، مخالف اَدیان کے انبیاء پر ایمان مسلمانوں کے ایمان کا 
حصہ قرار پایا، بدلے کے مقابلے میں معافی کا کلچر متعارف کرایا، فرد کی آمریت کو شُورائی 
جمہوریت سے تبدیل کیا، عوام کی اکثریت کے فیصلے کو سچ اور اللہ کا فیصلہ قرار دیا، 
وراثتی حکومت اور آمریت کی ممانعت کی، سرمایہ داری کو حرام قرار دیا، ضرورت سے زیادہ 
استعمال کی ہر چیز صدقہ کرنے کو تقویٰ کی بنیاد قرار دیا، مساوات، رواداری، قربانی اور 
انسانی حقوق کی پاسداری کو شعار بنایا غرضیکہ آج کی جدید دنیا میں کوئی ایسا بنیادی 
حق نہیں جو نبی آخر الزماں نے کائنات کو تفویض نہ کیا اور سارے حقوق پر عمل کر کے نہ 
دکھایا ہو۔… لیکن ہم آج کے محکوم اور مغلوب مسلمان نہ جانے کیوں مغرب کی چکا چوند 
سے آنکھوں کو خیرہ کئے جا رہے ہیں ۔ بجائے اِس کے کہ اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور اُن 
کا دفاع کریں ہمارا طرزِ عمل دفاعی ہو گیا ہے۔ مُلک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع 
نہیں کر پا رہے قوم کی نظریاتی حدود اور عقیدے کا کیا کریں گے؟ روشن خیالی سے مراد 
مخلوط محفلوں میں بغلگیر ہونے اور ذرائع ابلاغ سے فحاشی، عریانی اور جنسی جذبات 
بھڑکانے والے پروگراموں کی تشہیر کو لینا، چینی مساج کرنے والی لڑکیوں کا اسلام آباد 
کے بعد لاہور کو بھی ہدف بنا لینا ، رواداری کی آڑ میں منکرات کو فروغ دینا روشن خیالی اور 
رواداری نہیں ، کنجرپَن اور بَدکاری ہے۔ 
دین نے صرف ایک بات پر اصرار کیا اور وہ یہ کہ سارا کُفرمِلتّ واحدہ ہے۔ )اَلْکُفْرُ مِلَّۃُ وَّاحِدَۃ( اُس 
سے دوستی نہ کی جائے لیکن ہم عجیب مسلمان ہیں کہ اپنوں کو مار رہے اور 
دشمنوں سے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔ ہندو پنڈت آج بھی اُس مندر کو دھونے کا حکم 
دیتے ہیں جس سے کسی مُسلے )مسلمان( کا گزر ہو جائے، نیٹو افواج کے ترجمان کہہ رہے 
ہیں کہ اُنہوں نے قبائل پر بمباری سوچ سمجھ کر اور باِلاِرادہ کی، امریکی کانگریس کے ارکان 
ڈاکٹر قدیر سے براہِ راست ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اُن کے بقول بے نظیر بھٹو دور 
میں کوریا سے حاصل کیا جانے والا میزائل پروگرام فی الاصل اسلام آباد اور پیانگ یانگ کے 
درمیان ٹیکنالوجی کا تبادلہ تھا۔ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی دے کر میزائل ٹیکنالوجی حاصل 
کی اور بقول اُن کے دونوں باتیں امریکہ کے لئے شدید خطرہ ہیں ۔ 
جواباً وائٹ ہاؤس کہتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو لگام دی جا چکی ہے۔… اور ہمارا طرز عمل کیا ہے 
کہ بھارت سے دوستی کرنے کے لئے مرے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بات اب طَے ہے کہ نہ 
پاکستان بھارت کو اور نہ بھارت پاکستان کو ختم کر سکتا ہے۔ آئندہ تاریخ میں کسی جنگ کا 
بھی کوئی امکان نہیں ، امریکیوں کے کہنے پر ہماری فوج بے دریغ اپنے لوگوں پر بمباری 
کرتی ہے لیکن سیلاب میں ہلاک، تباہ اور بے گھر ہونے والوں کو طفل تسلیوں کے سوا 
ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ۔ نتیجتا بلوچ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بمباری کے لئے 
تو آپ کے پاس ہر وقت جہاز اور امریکی ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں بچانے کے لئے 
کیوں نہیں ؟ اب بھی فضائی جائزوں کے نام پر پکنک کے لئے ہیلی کاپٹر موجود جبکہ ریلیف 
والے جہاز موسم ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کا نمائندہ 
وزیراعلیٰ بلوچستان سے سیلاب کی صورت حال جاننے کیلئے رابطہ کرتا ہے تو وہ آرام فرما 
رہے ہوتے ہیں کہ اسمبلی میں بھی اکثر سوئے ہوئے ہی دیکھے جاتے ہیں لیکن بیان اُن کا 
یہ آ رہا ہے کہ اپوزیشن امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ گورنر سرحد کہہ رہے ہیں کہ جرگہ
سسٹم ناکام ہوا تو انتہائی قدم اٹھایا جائے گا۔ کیا کوئی انتہائی قدم ابھی باقی ہے؟ 
بلامبالغہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بے گناہ ہماری اپنی گولیوں اور بموں کا نشانہ بن چکے 
ہیں ۔ کیا اب ساری مخلوقِ خدا کو تہ تیغ کر دیں گے یا قبائل کا صفایا کر دیں گے حالانکہ یہ 
کام تو انگریز ڈیڑھ سو سال پہلے بھی نہ کر سکا تھا۔… ہماری علاقائی خودمختاری کو چیلنج 
کیا جاتا ہے اور نیٹو فورسز سے زور دار احتجاج تک نہیں کیا جا رہا۔ ٹھنڈی ٹھار سی گفتگو 
کی جا رہی ہے۔ “آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ”… “ورنہ کیا؟” “ورنہ ہم اِسی تنخواہ پر کام کرتے 
رہیں گے۔” اسلام آباد میں ایک مولوی کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے پریس کانفرنس کرتا ہے 
اور ہماری حکومتی عملداری کی غیرت نہیں جاگتی۔ نہتے لوگوں کو ڈراوے دیئے جا رہے ہیں 
۔ 
اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم، اَے جانِ جہاں یہ ٹھیک نہیں … معاف کیجئے اگر اپنوں کی 
پتلونیں اُتروانا اور مخالفوں کے سامنے پتلون اُتار دینا روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے تو 
ایسی روشن خیالی اور اعتدال پسندی پر ہزار لعنت۔ اگربرہنہ ٹانگوں ،برہنہ نافوں ، برہنہ 
سینوں کا مقابلہ تہذیب ہے، مُجرے، بوس وکنار، غیرمردوں اور عورتوں کی جپھیاں ان کے 
نزدیک روشن خیالی ہیں توخود جو چاہے کریں ۔ عوام کو اِن پر مجبور نہ کریں ۔ روشن خیالی 
عمل اور سوچ کا نام ہے، ہاتھ اُٹھا کر مارے جانے والے نعروں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر کی جانے 
والی تقریروں کا نہیں ۔ نہ تو کوئی عورت بُرقع پہننے سے رُجعت پسند ہو جاتی ہے نہ کوئی 
رانیں دکھا کر ترقی پسند۔ حسینؓ کی موت یزید کی زندگی سے لاکھ درجہ برتر، سید احمد 
شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شکست جنرل ڈائر کی فتح سے ہزار درجہ اُولیٰ اور ٹیپو 
سلطان جیسے شیر کی ایک دن کی زندگی مخالف گیدڑوں کی سو سالہ زندگی سے بہتر 
11 کے ریفرنس آپ کی روشن / ہے۔ کیا ہمارے سروں پر مُسلطّ حکمران نہیں سوچتے کہ 16 
خیالی نہیں جہالت، تہذیب نہیں بدتہذیبی کا ثبوت ہیں اور رہے عوام تو “ہم لوگ جو اَب تک 
زِندہ ہیں اِس جِینے پر شرمندہ ہیں ” کہ بقول اقبالؒ 
اے طائرِ لاہُوتی اُس رزق سے مَوت اچھی 
جس رِزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی 
:Share this 
26 جرن صلى الله عليه وسلممیں مآب و سال ت رضوح , 
2007
ک ا م س عرد اطہو :ب ت تِ ب ند دوجہ 
— س یا ست,ب ی نا دی د ہ ۔۔۔ ل م 
Masood @ 12:56 pm 
Tags: Athar Masood Column, 
Journalism, Pakistan, politics, 
,ب ی نا دی د ہ ۔۔۔ ل م ک ا م س عرد اطہو 
س یا ست
Tuesday, June 26, 2007 
صلى الله عليه وسلممیں مآب و سال ت رضوح 
ہے ک ہ نا ک ا ورومح یِضوح 
غدغرد غرِواں چرں نا وستہ موغضَرح 
غدغرد دغرواں ؤبہَح ہغو غطعضمہَح
اودر ک ر د عو ف او سی ضاا ن ے ا باوح ب 
ک یا ب یان طوح ضاا م یں 
ضقح ن ہ یں سے ف طوت د رنیَح جر 
وِراز 
ہے ان جام ک ا چاوہ ب ے موغضَح ر ا ا 
ا فتاد 
خرن ک ا نٔاہ رں ب ے م یں با ب 
ت صرو ک بھی ک ہ ہے اوزاں ضاتنا 
ہ و ت ھا۔ س ک تا جا ک یا ن ہ یں ب ھی 
ک ا ب ھا یرں ہ ی ا نِے ن ے ہ م ب او 
اب ل ی کن ل یا ل ے سو ا نِے خرن 
ن ے ” در س ترں“ ہماوے ب او ک ی 
ارو ک ی ن ے ہ م ک اوورا ی ک ہ ک ہا
ت عارن ک ا ف رج اِک ل ے ک ے ضاا 
اِک ج ب کہ ت ھا یٔا ک یا اِ صب 
ای سا“ ک ہ ہ یں ک ہ تے رال ے ف رج 
ک چھ ارو ہ م سرا ک ے ضاا ارو ن ہ یں 
ج ی سا ل ب نان ” ۓ۔ ک ہ یں ن ہ یں 
ا سوا یب ب ھی م لر یِ ث یت ب ے 
ہے جات ا ہ ر ک ھڑا م یں جراب ک ے 
تِا مِیرت ب ے ج ی سے ہ م ل ی کن 
ک و ان تظاو ک ا چ یز ضکا ن ہ یں 
ک ھوب رں وِ ف رج ک یا ۔ ہ یں وہے 
دن ی ہی اخواجات ک ے ور ےِ 
جا ک ے ل ے ک ے دی کھ نے 
ب م ای ٹم ک و ک ھا ھٔاا ارو وہے
اِک س تان ضاسی ن ے رال رں ب نان ے 
ک ے رضوح ت ھا؟ دی کھا خراب ک ا 
ا نِے سے اغبوہہ ن ے ببدالمطرلب دادا 
ک ہ ک ہا ارو مان گے را اِ ا رنا 
ا ا ر ہ ہے ھٔو ک ا جا ک ع بہ خان ہ 
ای ر ہ م أ۔ ک وے فِاظت خرد ک ی 
ک ا ”غسو“ ک ر و سرب داتضمح ذل یب 
وِ معام لے ک ے م ل نے خطاب 
جر ارو ہ یں وہے جا ہ ر ے ہ ل کان 
وِ ن ام ک ے وسرضح ب ا سی سوزم ین 
ک ی ا ا ت ھی ی ک ی اِ صب 
وِ ک ون ے اِماب ک ر سو دِرں 
ای ر ک ا ن دامت م یں آن کھ ہماوی
ک او ب ے ارو آت ا ن ہ یں ب ھی آن سر 
۔ ہ یں وہے ک و یِش ت اری ل یں 
ک و دی کھ ک چھ سب ی ہ اِضکح رضوح 
ور ن ہ یں آن سر ک ے خرن ک یا 
رم ک ی سی ک ہ ۓ ہ رں وہے 
ھٔو ا نِے ہے۔ ڑِا آن اِ سے 
ن ہ یں ک و ت ر فِاظت ک ی 
خاک ک ی بزت م یوی س ک تے 
!! ۓ ک وی ں فِاظت 
ب چے سہاوا ب ے ای ر جر نبضیح ر ہ 
اٹ ھ تے ت ڑپ ب ھی وِ وَبت ک ی 
ک ہ أ ہ ر چلا تِا ا نہیں جب ت ھے 
م یں ب س تی ن امی زراو م نڈی
ساوے دروان ک ے مِ لے اموی کی 
جان ے ماوے ک ے خان ہ اہ ب نغر ک ے نغر 
رال ے مان نے ای ر ک ے ا ضح ن وِ 
70 ک ے خ یب نٔ گی ب ی لہ 
خردک دی ن ے خاں خِارو سال ہ 
ک یا وِ دب ک ے ا ضنح ت ر ہے ل ی ک و 
ن ے ض ح ا نہرں جب یٔ؟ ہ ر ب ی تی 
مان نے ک ے ا ضنح ک ہ أ ہ ر دی کھا 
ک ے ض ح ا نہی وِ ن ام ک ے اضنح رال ے، 
ل گا، ف ترے ک ے ک فو وِ ا غمتیررں 
دھج یاں ک ی ا کِام ک ے ا ضنح خرد ارو 
ن ے ض ح ا نہرں ت ر ہ یں وہے اڑا 
ا نِے ل ی ٹے ب ا یں دا یں
ک یا سے بمبوح ارو ابربکبوح در س ترں 
ک ی ا ضنح جب یٔ؟ ہ ر ک ی ب ات 
م ل عرن ای ر سام نے ک ے آن کھرں 
وِ دی نے خطاب ک ا سو ک ر 
ا صب رال ے وچان ے ڈوامے س یا سی 
ک ی ا ن ارو ی ہردی رں أو نٔہ 
سے ا سوا یب نِا ہ جا ے 
وہے ب ڑھا یِ ن گ یں ک ی در س تی 
ی ہ ک یا ن ے ض ح ا نہرں ت ر ۓ ہ رں 
م یوے ک ہ أ ہ ر سرچا ن ہ یں 
ک ر ان ک ہ ہ یں یِورک او ک ی سے 
ی ہردی ک ہ ت ھا ب ھی ب تای ا 
ہ ر ن ہ یں خ یوخرا ہ ت مہاوے
سے دب ک ے ان ب ھی ھِو س ک تے 
ن کب ن ہ یں م بِت ک ی ا سوا یب 
ہ ر یٔا ب تای ا ض ح ا نہیں جب …وہ ی۔ 
اِ صب وِ ن ام ک ے ا ضنح ک ہ أ 
ا ضنح م یں اِک س تان ے ک ے 
ک ی ک فاو ک ر رال رں مان نے ک ے 
دہ ید ک ے ک و ب م باوی ن ے ف رج 
ک ے ہ رن ے م س لمان ارو دی ا ک و 
ک ی ا ن ن ے دبری داورں ک چھ 
ہماوے ن ے ض ح ا نہرں ت ر ک ی معارن ت 
وا ے ک یا م ت ع لق ک ے ا سلام 
یٔ؟ ہ ر ک ی ا م
ہے جان تی دن یا ساوی ب ات ات نی 
ف کو ہماوی ر ت ہ و ک ر ا ضح ن ک ہ 
ک ے ان ت قاب ا نِے ت ھی۔ وہ تی 
وب ا نِے ن ے ض ح ا نہرں ب ھی ر ت 
مان گی أون ٹی ی ہ صوف سے 
ا رمت ک ی ا ضنح ب عد ک ے ا ضنح ک ہ ت ھی 
ل ی کن أ، ک وے ن ہ یں و سرا ک ر 
جب ک وی ں ک یا أون ٹ یاں ی ہ 
ت ب وِ ہ رن ے و سرا ہ ی خرد ا رمت 
ک ے ت و ی م یں ک واچی …۔ جا ے 
ای ر ارو ہ رں وہے جا أ ے یٔت 
زا د سے سر اڑھا ی ب اوش ہ ی 
ل ے، ب نا ن رال ہ ک ر ل ر رٔں
ب ڑے سے سب ک ے ”داوا سِلام“ 
سوک او وِ ت و ی ک ی جا دہو 
خوچ ور ےِ اوب رں ب قرب ک ے 
م یں دن در ہ رں ے ک ے 
ارو ک وے یِش م نظو ک ا ک ھ نڈو 
ک ے ک ون ے ف واہ م ب ج لی ک ر جا 
ک ون ے ف واہ م ب ج لی رہ اں وِ ن ام 
ور ےِ اوب رں ک ر اداوے را دِ رال ے 
ک ر داو سومای ہ ای ر س س تا 
دہو ا ا ہ ر، یٔا دی ا ک و ف ورخت 
سے ب ج لی صِہ ف ی صد 70 ک ا 
سا ن جن جہاں جا ے۔ ہ ر م وِرم 
ل ے ک ے ل گان ے ک ر ب روڈرں
جات ی ل ی و درت ور ےِ کِ ھرں 
ک ا مرت ل ے ک ے ل ر رٔں رہ ی ہ ر 
در سوے ارو جا یں ب ن یِ غام 
جاوی ک ھ یب ی ہی م یں صرب رں 
ھِو ب عد ک ے ت باہ ی جہاں ارو ہ ر 
وِ ج ی برں ک ی وَی برں سے 
وی ل یف ل ے ک ے ماون ے ڈاک ہ 
وہ ا جا ک یا ابلان ک ا ب نان ے ف نڈ 
ہ ر۔ 
ک ہ جان تے ن ہ یں آ ضحا م یوے ک یا 
ک ا وِ س ٹرورں ی رٹ ی ل ٹی 
ف ورخت وِ وی ا ک ا ماب ک ا طوح 
ہماوے ارو ہے وہ ا جا ک یا
جب ک و ہ ر ک ھڑے رہ اں رزی وابظم 
ن عوہ ک ا ”ب اد زن د ہ اِک س تان“ 
ک ر خرد ر ہ ت ر ہ یں ل گرات ے 
سے اِ تِ ک ے رم اِک س تان ی 
ہ یں ک وت ے ظاہ و خ بو ب ے ک ت نا 
ای ر ک ے نبضیح ک ہ تِا ک یا ا نہیں ۔ 
ک ہ ت ھا ک ہا ت ر ن ے درم خلیفضہَح لَام، 
ک تا ای ر ک ناوے ک ے ن یب ا ؤ 
بمبوح ت ر یٔا مو سے یِاا ب ھی 
ورزان ہ ی ہاں أ۔ ہ ر جراب د ہ ک ا اا 
ا دوف ، ن ہ یں ک تے ک ت نے، 
ارو ب ھرک ان سان ال مخ لر ات 
دے جان ہ ات ھرں ک ے وَب ت
رزی وابظم ہماوے ارو ہ یں دی تے 
ک ے ب اد زن د ہ اِک س تان سے ان 
ک و ف وما ش ک ی ل گان ے ن عوے 
رزی وابظم ک ے جہاں ۔ ہ یں وہے 
ی رٹ ی ل ٹی سوک اوی ک سی ن ے 
ت ر ب ازاو واجہ ب اہ و سے س ٹرو 
ہ ر۔ ک ی ن ہ ز مِت ب ھی ک ی جان ے 
ب ااث و ارو بوسضوا تداو ک ے جہاں 
چ ی نی ب ھی ت ھ کارا ا نِی اف واد 
ہ رں ک وات ے درو سے ل ڑک یرں 
امرو مذہ بی رزی و ک ے جہاں ارو 
ل ے ک ے ت ب ل یغ ک ی دی ن ک ر
ھِو ی ا ہ ر سِ ند ان گ ل ی نڈ ت ر ی ا 
ل ی نڈ۔ ت ھا ی 
وِ ا ضنح ار دِ ارو ب اپ ماں م یوے 
م ناف قت ن ے ض ح ا نہرں ۔ ہ رں وب ان 
ارو دی ا واو جوم ب ڑا سے ک فو ک ر 
ب ھی ن دان یاں چاو ک ی م ناف ق 
ن ہ یں دی کھ رضہح ک یا ۔ دی ں ب تا 
ہماوے ک ہ ۓ ہ رں وہے 
ن دان یاں ساوی م یں کِموان رں 
ان تخاب ی خرد ۔ چ ک یں ہ ر رِوی 
ارو ہ یں ڑِے ن کب ل ے ک ے مہم 
ہ را ک یا وِام ج ی نا ک ا مخال فرں 
ک ے ان ک ہ ہے تِا ک ر ا ن …۔ ہے
ت ہا ی در م یں اِول یم نا اِا 
برام ل ی کن ن ہ یں مرجرد اک ثوی ت 
ل ے ک ے ب نان ے ر رف ب ے ک ر 
در دا ک ا ت وم یم آ ی نی ری ں 18 
م یں ان تخاب ات ت اک ہ ہے دی ا چھرڑ 
م یں آ ین اِ نِ کہ آ ے۔ ک ام 
سے سب ت ر س ک تے ک و ت وم یم 
قِ ک ے رودی ا نِی ہِ لے 
ک وات ے۔ 
جان ے را اِ م یں ب یوک رں خرد 
رک لاء ارو وہے ل ے ن ہ یں ن ام ک ا 
ورمرں ب او ک ہ ہ یں وہے ک ہہ سے 
خرد ۔ جا یں چ لے را اِ م یں
دی وک ھ ک و اڑا دھج یاں ک ی آ ین 
بمب وِ آ ین سے رم ارو ہ یں 
خرد …۔ ہ یں وہے ک و مطال بہ ک ا 
ب دب ک ر وآں ، ن ہ یں ب دل تے 
۔ ہ یں دی تے 
ا نِے ک ہ وہ ا آ ن ہ یں سمجھ 
جاؤں ل ے م نہ ک یا سام نے غمرضکِے 
بغدد با ک ہ ک ورں دوخرا ست ک یا ارو 
ہ م ارو وہ ا ن ہ یں د عاو ک ا ا ضاح دی نا 
د س ت گ یو ک ے غکسرں ب ے ج ی سے 
سے ا ن … ہ یں رہ ی صوف ب ھی 
ہ ی ات نی صوف ن ہ یں ک چھ 
ک ہ ہے وہ ا ہ ر رِ ص لہ ک ا زٔاوش
ت ھے ک وت ے ک یا د با خرد ت ر آضپح 
کِموان ای سے وِ ہ م مر “ِ ک ہ 
ن ہ و مِ وِ ہ م جر ک و ن ہ مسلرط 
(یغوُغ منغا حَِ غمنُح غبلغیُنغا ت غسضلرطُح غرغحِ) ”۔ ک وی ں 
ہ ر ک یرں ای سا سات ھ ہماوے ت ر 
!رال ی ک ے جہان رں در اے ہے؟ وہ ا 
ک و، ک وم نظضوح وِ غکسرں ب ے ہ م 
سے ک رت اہ یرں لَط یرں ہماوی 
و مِ وِ اِل ت ہماوی ف وما، دو زٔو 
ہماوے سے وب ا نِے ارو ک و 
زٔاوش ک ی مہوب ان ی خاص ل ے 
س جھا ی وا س تہ ک ر ی اب ک ہ ک و 
ت دب یو ک ر ی وہ ا۔ دے ن ہ یں
درا ک سی وہ ی، ہ ر ن ہ یں ک او ؤ 
ک ر ی ارو وہ ا ن ہ یں اث و م یں 
وہ ا ک و ن ہ یں مندمب ک ر زخم موہ م 
ارو م بِرب ک ے اللُاعالضمین غوبَح اے … 
ہم یں ب ڑھ آ ۓ خرد ! یِاوے 
ت دب یوی ں ہماوی دک ھا، وا س تہ 
ک ر ب یماوی رں ہماوی ک و، ک او ؤ 
ارو دے ب دب م یں ت ندو س تی 
جا۔ ب ن مدارا خرد ک ا زخمرں ہماوے 
ب ھی سے وب ا نِے م یں آخو ارو 
ک ا سہاورں سب ک ہ زٔاوش، 
ہ م ارو ہے رہ ی ب ھی سہاوا آخوی 
رہی ب ھی مدد أو آخوی ک ا ل ر رٔں
ک ر ک وم انداضزح ن ہ ا نِے ک و و مِ 
جا ب ھرب 
ن ہ ت ر ل ی کن ہ یں ب ھرلے ت جھے ہ م 
جا ب ھرب ک ر ہ م 
ک ے د نیا ہ ر ے وان دے ک ے غخلق 
ہ ر ے ٹ ھ کوا ے 
ہ ات ھ وِ دغو ت یوے اب ہ یں آ ے 
ہ ر ے ھِ یلا ے 
ڈرب ے ، ہ یں ب دک او ہ یں خراو 
ہ یں م یں ضذلَت ہ ر ے 
ضتوے ل ی کن ہ یں ب ھی ک چھ 
ہ یں م یں ا مَت ک ی م بِرضبح
ضدب ن ے ت ر ک ی ا ؤ ک ی غوِسترں غقِ 
ن ہ یں جر ی 
خدا ک ا مسلم ک ہ ب ت ۓ دی ں ط ع نہ 
ن ہ یں ک ر ی 
7002 , حضورِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلممیں جون 72 
Masood @ 12:56 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Tuesday, June 26, 2007 
حضورِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلممیں 
پیرِ رومؒ کا کہنا ہے 
مُرغَکِ نارُستہ چوں پَرّاں شَوَد 
طَعمِۂِ ہَر گُربۂِ دَرّاں شَوَد 
اقبالؒ نے اِس فارسی شعر کو اردو میں اِس طرح بیان کیا 
جو دُونیِٔ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز 
اُس مُرغَکِ بے چارہ کا انجام ہے اُفتاد 
قبائل میں بے گناہوں کا خون اِتنا ارزاں ہے کہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہر بار 
ہم نے اپنے ہی بھائیوں کا خون اپنے سر لے لیا لیکن اب کی بار ہمارے “دوستوں ” نے کہا کہ 
کارروائی ہم نے کی اور اِس کے لئے پاک فوج کا تعاون حاصل کیا گیا تھا جبکہ پاک فوج والے 
کہتے ہیں کہ “ایسا نہیں اور اِس کے سوا ہم اور کچھ نہیں کہیں گے۔” لبنان جیسا بے 
حیثیت ملک بھی اسرائیل کے جواب میں کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم جیسے بے حمیتّ پتا 
نہیں کِس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا فوج پر کھربوں روپے کے اخراجات یہی دن دیکھنے 
کے لئے کئے جا رہے اور گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے والوں نے اِسی پاکستان کا خواب دیکھا 
تھا؟ حضورؐ کے دادا عبدالمطلّب نے اَبرہہ سے اپنے اُونٹ واپس مانگے اور کہا کہ خانہ کعبہ 
جس کا گھر ہے وہ اُس کی خود حفاظت کرے گا۔ ہم ایک ذلیل شاتمِ رسول کو “سَر” کا خطاب 
ملنے کے معاملے پر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور جو سرزمین اُسی رسولؐ کے نام پر حاصل 
کی گئی تھی اُس کی سرحدوں کو پامال کرنے پر ہماری آنکھ میں ندامت کا ایک آنسو بھی 
نہیں آتا اور بے کار تاویلیں پیش کر رہے ہیں ۔ حضور پاکؐ یہ سب کچھ دیکھ کر کیا خون کے 
آنسو نہیں رو رہے ہوں گے کہ کیسی قوم سے پالا آن پڑا ہے۔ اپنے گھر کی حفاظت تو کر
نہیں سکتے میری عزت کی خاک حفاظت کریں گے!! 
وہ نبیؐ جو ایک بے سہارا بچے کی غُربت پر بھی تڑپ اٹھتے تھے جب اُنہیں پتا چلا ہو گا کہ 
منڈی زوار نامی بستی میں امریکی حملے کے دوران سارے نَو کے نَو اہل خانہ کے مارے 
جانے پر اُنؐ کے ایک ماننے والے قبیلہ گنگی خیل کے 91 سالہ پخاور خاں نے خودکشی کر 
لی ہے تو اُنؐ کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟ جب اُنہوں نے دیکھا ہو گا کہ اُنؐ کے ماننے والے، انؐ 
کے نام پر اُنہی کے اُمَتیوّں پر کفر کے فتوے لگا، اور خود اُنؐ کے احکام کی دھجیاں اڑا رہے 
ہیں تو اُنہوں نے دائیں بائیں لیٹے اپنے دوستوں ابوبکرؓ اور عمرؓ سے کیا بات کی ہو گی؟ 
جب اُنؐ کی آنکھوں کے سامنے ایک ملعون کو سر کا خطاب دینے پر سیاسی ڈرامے رچانے 
والے اصل گنہ گار یہودیوں اور اُن کی جائے پناہ اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے 
ہوں گے تو اُنہوں نے کیا یہ نہیں سوچا ہو گا کہ میرے کیسے پیروکار ہیں کہ ان کو بتایا 
بھی تھا کہ یہودی تمہارے خیرخواہ نہیں ہو سکتے پھر بھی ان کے دل سے اسرائیل کی 
مُحبت نہیں نکل رہی۔… جب اُنہیں بتایا گیا ہو گا کہ اُنؐ کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان 
میں اُنؐ کے ماننے والوں کو کفار کی فوج نے بمباری کر کے شہید کر دیا اور مسلمان ہونے 
کے کچھ دعویداروں نے اُن کی معاونت کی تو اُنہوں نے ہمارے اسلام کے متعلق کیا رائے 
قائم کی ہو گی؟ 
اتنی بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اُنؐ کو ہر وقت ہماری فکر رہتی تھی۔ اپنے انتقال کے وقت 
بھی اُنہوں نے اپنے رب سے صرف یہ گارنٹی مانگی تھی کہ اُنؐ کے بعد اُنؐ کی اُمّت کو 
رسوا نہیں کرے گا، لیکن یہ گارنٹیاں کیا کریں جب اُمّت خود ہی رسوا ہونے پر تُل جائے ۔… 
کراچی میں ترقی کے گیت گائے جا رہے ہوں اور ایک ہی بارش اڑھائی سو سے زائد 
لوگوں کو نوالہ بنا لے، “دارالاسلام” کے سب سے بڑے شہر جس کی ترقی پر سرکار کے 
بقول اربوں روپے خرچ کئے گئے ہوں دو دن میں کھنڈر کا منظر پیش کرے اور جس کو بجلی 
فراہم کرنے کے نام پر وہاں بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے کو اربوں روپے سستا ایک 
سرمایہ دار کو فروخت کر دیا گیا ہو، اُس شہر کا 91 فیصد حصہ بجلی سے محروم ہو جائے۔ 
جہاں جن سائن بورڈوں کو لگانے کے لئے لاکھوں روپے رشوت لی جاتی ہو وہی لوگوں کے 
لئے موت کا پیغام بن جائیں اور دوسرے صوبوں میں یہی کھیل جاری ہو اور جہاں تباہی کے 
بعد پھر سے غریبوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کے لئے ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہو۔ 
کیا میرے آقاؐ نہیں جانتے کہ یوٹیلٹی سٹوروں پر کس طرح کا مال کس ریٹ پر فروخت کیا جا 
رہا ہے اور ہمارے وزیراعظم وہاں کھڑے ہو کر جب “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگواتے ہیں تو وہ 
خود کو پاکستانی قوم کے حالات سے کتنا بے خبر ظاہر کرتے ہیں ۔ اُنہیں کیا پتا کہ نبیؐ کے 
ایک غلام، خلیفۂِِ دوم نے تو کہا تھا کہ اگر نیل کے کنارے ایک کُتا بھی پیاس سے مر گیا تو 
عمرؓ اس کا جوابدہ ہو گا۔ یہاں روزانہ کتنے، کُتے نہیں ، اشرف المخلوقات انسان بھوک اور 
غربت کے ہاتھوں جان دے دیتے ہیں اور ہمارے وزیراعظم ان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے 
لگانے کی فرمائش کر رہے ہیں ۔ جہاں کے وزیراعظم نے کسی سرکاری یوٹیلٹی سٹور سے 
باہر راجہ بازار تک جانے کی بھی زحمت نہ کی ہو۔ جہاں کے برسرِاقتدار اور بااثر افراد اپنی 
تھکاوٹ بھی چینی لڑکیوں سے دور کراتے ہوں اور جہاں کے وزیر مذہبی امور کو دین کی 
تبلیغ کے لئے یا تو انگلینڈ پسند ہو یا پھر تھائی لینڈ۔ 
میرے ماں باپ اور اولاد اُنؐ پر قربان ہوں ۔ اُنہوں نے منافقت کو کُفر سے بڑا جرم قرار دیا اور 
منافق کی چار نشانیاں بھی بتا دیں ۔ کیا وہؐ دیکھ نہیں رہے ہوں گے کہ ہمارے 
حکمرانوں میں ساری نشانیاں پوری ہو چکیں ۔ خود انتخابی مہم کے لئے نکل پڑے ہیں اور 
مخالفوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔… اُن کو پتا ہے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی 
اکثریت موجود نہیں لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے 21 ویں آئینی ترمیم کا شوشا 
چھوڑ دیا ہے تاکہ انتخابات میں کام آئے۔ حالانکہ آئین میں ترمیم کر سکتے تو سب سے 
پہلے اپنی وردی کے حق کراتے۔ 
خود بیرکوں میں واپس جانے کا نام نہیں لے رہے اور وکلاء سے کہہ رہے ہیں کہ بار
روموں میں واپس چلے جائیں ۔ خود آئین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور قوم سے آئین 
پر عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔… خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں ۔ 
سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنے مَولاؐکے سامنے کیا منہ لے جاؤں اور کیا درخواست کروں کہ بَددُعا 
دینا اُسؐ کا شعار نہیں رہا اور ہم جیسے بے کَسوں کے دستگیر بھی صرف وہی ہیں … اُن 
سے کچھ نہیں صرف اتنی ہی گزارش کا حوصلہ ہو رہا ہے کہ آپؐ تو خود دُعا کیا کرتے تھے کہ 
“مولا ہم پر ایسے حکمران مُسلطّ نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں ۔” )وَلَا تُسَلِطّْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا 
یَرْحَمُنَا( تو ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اے دو جہانوں کے والی! ہم بے کَسوں پر نظرِ 
کرم کر، ہماری غلطیوں کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہماری حالت پر رحم کر اور اپنے رب سے 
ہمارے لئے خاص مہربانی کی گزارش کر کہ اب کوئی راستہ سُجھائی نہیں دے رہا۔ کوئی 
تدبیر کارگر نہیں ہو رہی، کسی دوا میں اثر نہیں رہا اور کوئی مرہم زخم کو مُندمل نہیں کر 
رہا… اے رَبُّ اللْعٰالمِین کے محبوب اور پیارے! خود آگے بڑھ ہمیں راستہ دکھا، ہماری 
تدبیریں کارگر کر، ہماری بیماریوں کو تندرستی میں بدل دے اور ہمارے زخموں کا خود مداوا 
بن جا۔ اور آخر میں اپنے رب سے بھی گزارش، کہ سب سہاروں کا آخری سہارا بھی وہی 
ہے اور ہم لوگوں کا آخری مددگار بھی وُہی 
رحم کر اپنے نہ اندازِ کرم کو بُھول جا 
ہم تجھے بُھولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بُھول جا 
خَلق کے راندے ہوئے دُنیا کے ٹھکرائے ہوئے 
آئے ہیں اب تیرے دَر پر ہاتھ پھیلائے ہوئے 
خوار ہیں بدکار ہیں ، ڈوبے ہوئے ذِلَّت میں ہیں 
کچھ بھی ہیں لیکن تِرے محبوبؐ کی اُمَّت میں ہیں 
حَق پَرستوں کی اگر کی تُو نے دِل جوئی نہیں 
طعنہ دیں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہیں 
د ی درں ہ ر ے ٹ رٹ ے ارو ل ی نا 
ان ب یاء ل ی نا جرڑ سے ھِو ک ر 
بام ہے مم کن ت ر ک ی ل ے 
ہ م ارو ن ہ یں ک ی ل ے ان سان رں 
ک ہ چاہ ے ل ی نی مان ب ات ی ہ ک ر
ن ہ یں ن بی ہ یں ہ ی ان سان بام ہ م 
!! 
د و ک ہ د ی دہ،جام ک ہ ہ ر مرت ی 
یٔا ٹ را سر یٔا، ٹ را جر 
ہے س ک تا جڑ سے اغدکرں ک ب 
یٔا چھرا سر یٔا، ٹ را جر 
*………* 
ک و چن چن ٹ کڑے ن ا قِ ت م 
ہ ر ب ی ٹھے چھ اِ ے م یں دامن 
ن ہ یں ک ر ی م س ی اِ ک ا د ی درں
ہ ر؟ ب ی ٹھے ل گا ے آا ک یا 
*………* 
ک ہ یں م یں ٹ کڑرں ان ہی ک ہ دای د 
ک بھی م یں ضجا ہے، دب ساضَوح ر ہ 
ت ھی ک وت ی ا توا سے ن از صد 
غوِی ک ی جان اں ضَمح صہ با ے 
*………* 
سے ت م ن ے رال رں دن یا ھِو 
دی ا ھِرڑ ک و ل ے سا وَ ی ہ 
م یں ضمٹری دی ب ہا ت ھی غمے جر 
دی ا ت رڑ غدہ وِ ک ا مہمان
*………* 
دای د ہ یں وی زے ون گ یں ی ہ 
ک ے غس نِرں بغلرضویں درخ ان 
سے ضجن م یں جران ی غمست تغم 
ت ھے ک وت ے سجای ا ک ر غخلغرت 
*………* 
غمَ ارو ب ھرک دف تو، ن اداوی، 
وہے ٹ کوات ے سے غس نِرں ان 
تِھواؤ غچر مکھ ت ھا و مِ ب ے 
ک یا ڈھان چے ک ے ک ان چ ی ہ 
ک وت ے
*………* 
ک ہ یں م یں ذغرورں ان دای د ی ا 
ک ا ضبرزت ت مہاوی ہے مرت ی 
ب ھی ہِ ضبجز ت مہاوے سے جا ر ہ 
ک یا غودر ن ے درں دم داد 
*………* 
ھِوت ے م یں د ھن ک ی ماب ضاا 
ت ھے 
ک ی ب ھی غوہزن ب ہت، ب ھی ت اجو 
ک ی م ف لا ی اں چرون گو، ہے 
ی آن ت ر ب چی جان ؤ
*………* 
ۂو ر لغعب د ی دے، سا وَ، ی ہ 
ہ یں اِت ے یمت ت ر ہ رں سالغم 
ت ر ہ رں ٹ کڑے ٹ کڑے ی رں 
ف قط 
ہ یں ولراتے لغہر ، ہ یں چبھتے 
*………* 
غوفر ک ے ؤی بان رں ک ے ی ادرں 
؟ ہے ہ رت ی ک ب زٔو ک ی دب وِ 
ضسیا ای ر ،ا دھیڑا بغخیہ ضاک 
؟ ہے ہ رت ی ک ب ب سو بمو ی رں
*………* 
جہاں م یں ہ س تی کاوضٔہح ضاا 
ہ یں ڈغھلتے د ی دے سا وَ، ی ہ 
ہے س ک تا ضمب ب دب ک ا غدے ہ و 
ہ یں ہ ر س ک تے و دامن سب 
*………* 
ی ہاں ہے ی ارو ب ڑھے، ہ ات ھ جر 
ب خ تارو ر ہ ،ا ٹھے آن کھ جر 
ن ہ یں اغنت ک ا درل ت ،دغھن ی اں 
م گو کِ ھ، ڈاک ر م یں ھٔات ہ رں 
*………*
ک ی ہ س تی سے غجھ اِ ل را ک ب 
ہ یں ہ رت ی خال ی درک ان یں 
ہ یں ہ یوے غوِبت غوِبت ی اں 
ہ یں مرت ی سا ؤ سا ؤ ی اں 
*………* 
وِ درل ت ضاا جر ہ یں ل رگ ک چھ 
ہ یں ھِوت ے لغٹکاتے وِدے 
ک ر سا ؤ ہ و ک ر، وِب ت ہ و 
ہ یں ھِوت ے چڑھات ے ن یلام 
*………* 
ک و ضبھڑ لغڑ جر ہ یں ب ھی ر ہ ک چھ
ہ یں ؤات ے ن رچ وِدے ی ہ 
ک ی ضٔیورں ا ٹھا ضیح ک ے ہ س تی 
ہ یں جات ے ا لجھا ے چاب ہ و 
*………* 
ہے ڑِت ا غون م یں درن رں ضان 
نغگو نغگو بغستی بغستی ضنت 
م یں س ی نے ک ے ھٔو بغستے ہ و 
وِ مات ھے ک ے وا ہ چ ل تی ہ و 
*………* 
ہ یں ضِھوتے بغھوتے ک الر ی ہ 
ہ یں وہ تے غجگاتے غجرت ر ہ
ہ یں ضِھوتے ل گات ے آگ ی ہ 
ہ یں وہ تے ب جھاتے آگ ر ہ 
*………* 
ۂو ر لغعب ،ضدیدے سا وَ، سب 
ہ یں جات ے بغد م یں ب ازی ضاا 
ک ر ہ ات ھرں خال ی سب ا ٹھر 
ہ یں آت ے ب لارے سے غون ضاا 
لینا اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کو پھر سے جوڑ لینا انبیاء کیلئے تو ممکن ہے عام انسانوں کیلئے 
نہیں اور ہم کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ ہم عام انسان ہی ہیں نبی نہیں !! 
موتی ہو کہ شیشہ،جام کہ دُر 
جو ٹُوٹ گیا، سو ٹُوٹ گیا 
کب اَشکوں سے جُڑ سکتا ہے 
جو ٹُوٹ گیا، سو چُھوٹ گیا 
*………* 
تم ناحق ٹکڑے چُن چُن کر 
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو 
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں 
کیا آس لگائے بیٹھے ہو؟ 
*………* 
شاید کہ انہی ٹُکڑوں میں کہیں 
وہ ساغرِ دل ہے، جِس میں کبھی 
صد ناز سے اُترا کرتی تھی
صہبائے غمِ جاناں کی پَری 
*………* 
پھر دنیا والوں نے تُم سے 
یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا 
جو مَے تھی بہا دی مِٹّی میں 
مہمان کا شَہپر توڑ دیا 
*………* 
یہ رنگیں ریزے ہیں شاید 
ان شوخ بَلورِیں سَ پنوں کے 
تَم مَست جوانی میں جِن سے 
خَلوَت کو سجایا کرتے تھے 
*………* 
ناداری، دفتر، بُھوک اور غَم 
ان سَپنوں سے ٹکراتے رہے 
بے رحم تھا چَومُکھ پتھراؤ 
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے 
*………* 
یا شاید ان ذَرّوں میں کہیں 
موتی ہے تمہاری عِزّت کا 
وہ جس سے تمہارے عِجز پہ بھی 
شمشاد قدوں نے رَشک کیا 
*………* 
اِس مال کی دُھن میں پھرتے تھے 
تاجر بھی بہت، رَہزن بھی کئی 
ہے چورنگر، یاں مفلس کی 
گر جان بچی تو آن گئی 
*………* 
یہ ساغر، شیشے، لَعل و گُہر 
سالَم ہوں تو قیمت پاتے ہیں 
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط 
چُبھتے ہیں ، لَہو رُلواتے ہیں 
*………* 
یادوں کے گریبانوں کے رَفو 
پر دل کی گُزر کب ہوتی ہے ؟ 
اِک بَخیہ اُدھیڑا، ایک سِیا 
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے ؟ 
*………* 
اِس کارگہِ ہستی میں جہاں 
یہ ساغر، شیشے ڈَھلتے ہیں 
ہر شَے کا بدل مِل سکتا ہے 
سب دامن پُر ہوسکتے ہیں 
*………* 
جو ہاتھ بڑھے، یاور ہے یہاں 
جو آنکھ اُٹھے، وہ بختاور
یاں دَھن، دولت کا اَنت نہیں 
ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ، مگر 
*………* 
کب لُوٹ جَھپٹ سے ہستی کی 
دوکانیں خالی ہوتی ہیں 
یاں پَربت پَربت ہیرے ہیں 
یاں ساگر ساگر موتی ہیں 
*………* 
کچھ لوگ ہیں جو اِس دولت پر 
پردے لَٹکاتے پھرتے ہیں 
ہر پربت کو، ہر ساگر کو 
نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں 
*………* 
کچھ وہ بھی ہیں جو لَڑ بِھڑ کر 
یہ پردے نوچ گراتے ہیں 
ہستی کے اُٹھائیِ گِیروں کی 
ہر چال اُلجھائے جاتے ہیں 
*………* 
اِن دونوں میں رَن پڑتا ہے 
نِت بَستی بَستی نَگر نَگر 
ہر بَستے گھر کے سینے میں 
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر 
*………* 
یہ کالک بَھرتے پِھرتے ہیں 
وہ جَوت جَگاتے رہتے ہیں 
یہ آگ لگاتے پِھرتے ہیں 
وہ آگ بُجھاتے رہتے ہیں 
*………* 
سب ساغر، شِیشے، لَعل و گُہر 
اِس بازی میں بَد جاتے ہیں 
اُٹھو سب خالی ہاتھوں کو 
اِس رَن سے بلاوے آتے ہیں 
ساتھ ساتھ گوانتاناموبے اور دوسری پاکستانی اور سامراجی جیلوں میں بند بے گناہ سیاسی 
F2% کارکنوں اور مجاہدین آزادی کی نذر ہے% 10 
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے 
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم 
نِیم تاریک راہوں میں مارے گئے 
*………* 
سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے 
تیرے ہونٹوں کی لالی لَپکتی رہی 
تیری زُلفوں کی مَستی بَرستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دَمَکتی رہی 
*………* 
جب گُھلی تیری راہوں میں شامِ سِتَم 
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم 
لب پہ حرفِ غَزَل، دِل میں قندیلِ غَم 
اپنا غم تھا گواہی تِرے حُسن کی 
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 
*………* 
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی 
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی 
کس کو شکوہ ہے گرشَوق کے سلسلے 
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے 
*………* 
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علَم 
اور نِکلیں گے عُشّاق کے قافلے 
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم 
مختصر کر چلے درد کے فاصلے 
کر چلے جن کی خاطر جہاں گِیر ہم 
جاں گنوا کر تِری دِلبری کا بَھرم 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 
ساتھ ساتھ گوانتاناموبے اور دوسری پاکستانی اور سامراجی جیلوں میں بند بے گناہ سیاسی 
F2% کارکنوں اور مجاہدین آزادی کی نذر ہے% 10 
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے 
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم 
نِیم تاریک راہوں میں مارے گئے 
*………* 
سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے 
تیرے ہونٹوں کی لالی لَپکتی رہی 
تیری زُلفوں کی مَستی بَرستی رہی 
تیرے ہاتھوں کی چاندی دَمَکتی رہی 
*………* 
جب گُھلی تیری راہوں میں شامِ سِتَم 
ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم 
لب پہ حرفِ غَزَل، دِل میں قندیلِ غَم 
اپنا غم تھا گواہی تِرے حُسن کی 
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 
*………* 
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی 
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گرشَوق کے سلسلے 
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے 
*………* 
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علَم 
اور نِکلیں گے عُشّاق کے قافلے 
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم 
مختصر کر چلے درد کے فاصلے 
کر چلے جن کی خاطر جہاں گِیر ہم 
جاں گنوا کر تِری دِلبری کا بَھرم 
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 
7002 , بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی جون 51 
Masood @ 12:43 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Friday, June 15, 2007 
بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی 
حکومت میں شامل رہنے کیلئے لوگ کتنے احسان ناشناس اورطوطا چشم ہو جاتے ہیں کہ 
کل نواز شریف پر صدقے واری ہونے والوں کو قومی اسمبلی میں اُن کی تصویر لانے پر بھی 
اعتراض ہو رہا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ہر حکمران کو ظِلّ اہللّٰ گردانتے ہیں اور پھر اس کی قبر 
کھودنے کے لیے سب سے پہلے پھاوڑا اٹھاتے ہیں ۔ پتا نہیں اپنے سابق ہونے والي”محبوب 
حکمران” کی قبر کشی کے لیے اپنی کَسّی کی آواز اُن کے دل پر بھی کچھ اثر کرتی ہے یا 
نہیں ؟ مرزا جانِ جاناں مظہر کی بیاض “خریطۃ الجواہر”کا ایک شعر شاید اِنہی لوگوں کیلئے 
کہا گیا ہے 
صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگراست 
خبربگیر کہ آواز تیشہ و جگر است 
میاں نواز شریف اگر کانوں کے کچے نہ ہوں تو اُن جیسا ہیرا سیاستدان شاید ہی کوئی ہو۔ 
اُنہوں نے کس کس کو اور کیا کیا نہیں نوازا، آج جب اُن کے دستر خوان کی بچی ہوئی روٹی 
کھانے والے اُنہیں گالی دیتے ہیں تو شرم آ نے لگتی ہے پر کیا کریں کہتے ہیں سیاست 
کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ نوازشریف نے محض اپنی آنکھ کی شرم میں ایم کیو ایم کے 
لیڈروں سے اُس وقت صَرفِ نظر کیا جب اِن کے موجودہ سرپرست جنرل پرویزمشرف بطور 
آرمی چیف حکیم سعید کیس چلانے کیلئے نوازشریف انہیں فوجی عدالتیں بنانے کی تجویز 
دے رہے تھے اگر نوازشریف مان جاتے تو آج جو لوگ اپنے بری ہونے کے بلند بانگ دعوے کررہے 
ہیں کسی کرنل کے ہاتھوں پھانسی پاکر اولا تو دوسری دنیا کو سدھار چکے ہوتے اور اگر 
ایسا نہ بھی ہوتا تو اب تک کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں چَکّیِ پِیسنا ان کا مقدر ٹھہرتا 
کہ ہماری فوج کی بنیادی شان یہی ہے کہ جو حکم ملے اس پر عمل کرتی ہے، فوجی دماغ 
استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے لگے تو ڈسپلن کی 
دھجیاں اڑ جائیں گو پاکستان میں اہم فوجی پوسٹوں کے لئے قابلیت کا معیار سخت ہے 
مگر دنیا بھر میں رواج ہے کہ فوج میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو تعلیم میں سب 
سے کمزور اور زیادہ بحث و تمحیص کے عادی نہ ہوں پاکستان کی کسی بھی گوشت
مارکیٹ میں چلے جائیں آپ سِری پائے کے شوقین ہیں تو قصاب آپ سے پوچھے گا کہ 
سِری”سادہ” لینی ہے یا “فوجی” کہ اُس سِری میں سے وہ مغز نکال کر الگ بیچتے ہیں اور 
نتیجتا سستی ہوتی ہي… معروف دانش ور اور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کی صاحبزادی 
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر اعتراض بھی دراصل پڑھنے لکھنے کے اِسی شوق کی 
Food for کمی کے باعث ہے کیونکہ یہ کتاب بنیادی طور پر محققین اور ریسرچ سکالرز کیلئے 
ہے نہ کسی پر اعتراض ہے نہ کسی پر تنقید۔ thought 
بات دوسری طرف نکل گئی ذکر ہر حکومت کے آخری وقت میں اس کی پیٹھ میں چھرا 
گھونپ کر نئی حکومت میں شامل ہونے والوں کا ہورہا تھا لیکن اب کی بار جس طرح چیف 
جسٹس کے حوالے سے وکلاء کی تحریک ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے ،سیاسی کارکن 
بھی حکمرانوں کی توقعات اور عزائم کو پاش پاش کئے جارہے ہیں 01 سینٹی گریڈ کی 
گرمی اور جیل… سیاسی کارکنوں سے مطالبہ صرف اتنا کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ )ق( کے 
فارم بھر دیں لیکن ابھی تک کسی نے نہیں بھرا آگے کیا ہوگا ہم نہیں جانتے لیکن جس نے 
بھی گرفتاریوں کا فیصلہ کیا ہے اس نے خود اپنے لئے اچھا نہیں کیا، کہ جاتے جاتے 
لوگوں پر مہربانی کرنی چاہئے ظلم نہیں ۔ انصاف کرنا چاہئے زیادتی نہیں ، آپ لوگوں کو 
استعمال کی چیزیں سَستی نہیں دے سکتے نہ دیں ایک میٹھا بول تو بول ہی سکتے ہیں 
دِلبری، پیار، لُطف ہمدردی 
کام کی کوئی شَے تو سَستی کر 
ملک کے پہلے آئین شکن آمر کے پوتے اور آخری آئین شکن کے “چھوٹے” وزیر خزانہ عمر ایوب 
خان اگر لوگوں کے یوٹیلٹی سٹورز پر لائنیں نہ بنانے پر چِیں بَجبِیں ہوں تو کون اعتراض 
کرے گا لیکن چودھری پرویزالٰہی کہیں کہ غربت 21 فیصد کم ہوگئی ہے تو یہ ان کو زیب 
نہیں دیتا غربت سے امارت کی آخر تک پہنچنے کے باوصف انہیں یقینا لوگوں کی حالت زار 
کا پتا ہونا چاہئے ورنہ لوگ تو یہی کہیں گے کہ 
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیازمندی سے 
بُتوں نے کی ہیں جہاں میں خُدائیاں کیا کیا؟ 
اصل میں ہم لوگ، خاص طور پر پنجابی اس بات کے عادی ہیں کہ حکمران کو اندازہ ہی 
نہیں ہونے دیتے کہ اسکے پاؤں زمین پر نہیں خلاء میں ہیں اوراس کے ہاتھ میں سونا 
نہیں ریت ہے جو پھسلتی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ جس طرح ہماری مسجد وں سے قبرستان 
جانے والی چارپائیوں کے پاؤں کی طرف لکھا ہوتا ہے کہ “دارا جب مارا گیا تو اس کے 
دونوں ہاتھ کفن سے خالی تھے۔” بالکل اسی طرح جب ہمارے حکمرانوں کا آخری وقت آتا 
ہے تو ان کے دونوں ہاتھ بھی بالکل خالی ہوتے ہیں نہ ان کے آگے کوئی “ہٹو بچو” کی 
صدائیں دینے والا ہوتا ہے نہ پیچھے، اور مڑ کر دیکھیں تو حفیظ جالندھری والی بات ہوتی ہے 
دیکھا جو تِیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی 
چیف جسٹس کیخلاف بیان حلفی دے کر میجر )ریٹائرڈ( ضیاء الحسن تو آئی جی سندھ تک 
لگ گئے لیکن بے چارا میجر )ریٹائرڈ( بلال جھوٹا بیان دینے کے باوجود ابھی تک غیرملکی 
پوسٹنگ کیلئے خوار ہورہا ہے اگرچہ پنجاب کے بعد سندھ کا آئی جی لگنا ایسے ہی ہے 
جیسے کوئی وزیراعظم وزیر ماحولیات بننے پر آمادہ ہوجائے لیکن نوکری پیشہ لوگوں کی 
اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں یہ الگ بات کہ اپنی مجبوریوں کو سامنے رکھنے کے بجائے اگروہ 
اپنا اور قوم کا مستقبل سامنے رکھیں تو سب کا بھلا ہو… پھر بھی کچھ لوگوں کی بڑی ہمت 
ہوتی ہے کہ منہ کھول کر مانگ لیتے ہیں حالانکہ اگر خاموش رہیں تو شاید زیادہ نوازے جائیں 
فَیض نَظر کے واسطے ضَبط سُخن چاہئے 
حرفِ پریشاں مت کہہ اہلِ نَظر کے حضور 
لیکن اب چونکہ “اہلِ نَظر” بھی بدل گئے ہیں اور “فَیض نَظر” کے متلاشی بھی سو جو کچھ 
ہورہا ہے اسے ہونے دیں کہ ہم سب کتنے بھی گنہگار کیوں نہ ہوں یہ عقیدہ ضرور رکھتے
ہیں کہ اللہ ہمارا انجام اچھا ہی کرے گا۔ 
7002 , اب شورش کاشمیری کی تین نظمیں جون 55 
Masood @ 12:49 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Monday, June 11, 2007 
اب شورش کاشمیری کی تین نظمیں 
حبیب جالب کی تین نظموں کی “جناح “میں اشاعت کے بعدقارئین کااصرارتھا کہ 
شورش کاشمیر ی کا بھی ایسا ہی کلام اُن کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ حبیب جالب 
اورشورش کاشمیر ی ہم عصر تھے ۔حبیب جالب ایک سیاسی کارکن اوربے خوف شاعر تھے 
توشورش کاشمیر ی ایک نامور سیاسی کارکن ،ایک شُعلہ بیاں خطیب ،ایک زور دار شاعر 
اور ایک بے باک صحافی ونابغہ تھے۔جالب نے عوامی امنگوں کی ترجمانی کے جُر م میں 
پاکستانی حکمرانوں کی جیل کاٹی تو شو رش کا شمیری پاکستان میں کوئی چارسال قید 
میں گزارنے کے ساتھ ساتھ دس سال انگریز دور میں بھی قیدوبندکے مصائب سے 
گزرے۔دونوں الگ الگ مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔جالب کٹّر “سوشلسٹ” اور شورش کا 
شمیری شدت سے “اسلام پسند” کہ جنر ل یحییٰ خاں کے دور میں یہ اصطلاحیں عام 
استعمال ہوتی تھیں ،لیکن نظریاتی اختلا فات کے باوجود پاکستان اوراس کے لیے دونوں کے 
دل بھی ایک تھے اور زبانیں بھی۔ قارئین کی فرمائش پر آغاشورش کاشمیری کے تین 
رشحات قلمِ ان کی نذر ہیں ۔پہلی نظم کاعنوان “مسلمان “ہے جوعام مسلمانوں کے لیے 
طرز عمل اور فکر کی غما زہے، دوسری نظم “ہم اہل قلم کیا ہیں ؟”حکومتی دہلیزوں پر جُبہّ 
سائی کرنے والے صحافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے ۔جبکہ تیسری نظم “دعائے نیمِ شَبی 
“بنیادی طور پر عام شہریوں خصوصاًسیاسی کارکنوں او ر صحافیوں کی ایک آرزو کااظہار ہے، 
آئیے یہ نظمیں پڑھیں اوراپنے احوال پر غورکریں 
مُسلمان 
سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں 
جس نے اَولادِ پیمبرؐ کا تماشا دیکھا 
جس نے سَادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں 
جس نے لَختِ دلِ حیدرؓ کو تڑپتا دیکھا 
برسرِ عام سکینہؓ کی نقابیں اُلٹیں 
لشکر حیدرِ کرارؓ کو لُٹتا دیکھا 
اُمِ کلثومؓ کے چہرے پہ طمانچے مارے 
شام میں زینبؓوصُغرٰیٰؓ کا تماشا دیکھا 
شہِ کونینؓ کی بیٹی کا جگر چاک کیا 
سِبطِ پیغمبر اسلامؐ کا لاشا دیکھا 
دیدۂِ قاسمؓ و عباسؓ کے آنسو لُوٹے 
قلب پر عابدِؓ بیمار کے چَرکا دیکھا 
توڑ کر اصغرؓواکبرؓ کی رگوں پر خنجر 
جورِدوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا 
بھائی کی نعش سے ہمشیر لِپٹ کر روئی
فوج کے سامنے شبیرؓ کو تنہا دیکھا 
پھاڑ کر گُنبدِخضریٰ کے مکیں کا پرچم 
عرش سے فرش تلک حَشر کا نَقشا دیکھا 
قلب اسلام میں صَدمات کے خنجر بھونکے 
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا 
اُبوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی 
خود فروشوں کو دِنائت سے پنپتا دیکھا 
اے مری قوم! ترے حُسنِ کمالات کی خیر 
تُونے جوکچھ بھی دکھایا وُہی نقشا دیکھا 
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے 
کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے ! 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
اَلفاظ کا جھگڑا ہیں ، بے جوڑ سراپا ہیں 
بجتا ہوا ڈنکا ہیں ، ہر دیگ کا چمچا ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
مشہور صحافی ہیں ، عنوانِ معافی ہیں 
شاہانہ قصیدوں کے، بے ربط قوافی ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
چلتے ہوئے لَٹّو ہیں ، بے زین کے ٹَٹّو ہیں 
اُسلوب نگارش کے، منہ زور نِکھٹّو ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
یہ شکل یہ صورت ہے، سینوں میں کدورت ہے 
آنکھوں میں حیا کیسی؟ پیسے کی ضرورت ہے 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
اپنا ہی بَھرم لے کر، اپنا ہی قلم لے کر 
کہتے ہیں …کہ لکھتے ہیں ، انسان کا غم لے کر 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
تابع ہیں وزیروں کے، خادم ہیں امیروں کے 
قاتل ہیں اَسیروں کے، دشمن ہیں فقیروں کے 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
اَوصاف سے عاری ہیں ، نُوری ہیں نہ ناری ہیں 
طاقت کے پُجاری ہیں ، لفظوں کے مداری ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
تصویرِ زمانہ ہیں ، بے رنگ فسانہ ہیں 
پیشہ ہی کچھ ایسا ہے، ہر اِک کا نشانہ ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
رَہ رَہ کے ابھرتے ہیں ، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں 
کہنے کی جو باتیں ہیں ، کہتے ہوئے ڈرتے ہیں 
ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ 
بے تیغ و سناں جائیں ، باآہ و فغاں جائیں 
اس سوچ میں غلطاں ہیں ، جائیں تو کہاں جائیں ؟ 
دُعائے نِیم شَبی 
زور بیان و قوّتِ اظہار چھین لے 
مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے
کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں 
تاج و کُلاہ و جبہّ و دستار چھین لے 
عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر 
نظاّرہ ہائے گیسو و رُخسار چھین لے 
شاہوں کو اُن کے غرّۂِِ بے جا کی دے سزا 
محلوں سے اُن کی رفعت کہسار چھین لے 
میں اور پڑھوں قصیدۂِ ارباب اقتدار 
میرے قلم سے جُرأِت رفتار چھین لے 
اربابِ اختیار کی جاگیر ضبط کر 
یا غم زدوں سے نعرۂِ پَیکار چھین لے 
7002 , دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا جون 8 
Masood @ 12:35 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست 
اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags 
سیاست 
Friday, June 08, 2007 
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا 
اِسی باعث تو قَتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے 
اکیلے پھر رہے ہو یُوسفِ بے کارواں ہوکر 
صدر پرویز یقینا حقیقت پسند ہیں کہ انہیں اپنی تنہائی کا اندازہ بھی ہے اور یقین بھی، وہ 
اندر سے کتنے ڈرے ہوئے اور پریشان ہیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مسلم لیگ کی 
پارلیمانی پارٹی سے اُن کا خطاب ہی کافی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ صدر مملکت سخت 
ناراض بھی تھے اور غصے میں بھی وہ گِلہ مند بھی تھے اور گلوگیر بھی۔انہوں نے کھلے 
لفظوں میں کہا کہ “حکومتی اتحاد کے لوگوں نے مشکل میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ افغان 
پالیسی میں تبدیلی کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر قدیر کا، اکبر بگٹی کا مسئلہ ہو یا عدالتی بحران اور 
21 مئی کو کراچی میں ہونے والے واقعات کا …آپ لوگوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا” وہ کہہ 
رہے تھے “ملک بھر میں حکمران اتحاد کے ایک ہزار سے زیادہ وزیر، مشیر، پارلیمانی 
سیکرٹری اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین موجود ہیں لیکن میرے دفاع میں 21 لوگ بھی 
نظر نہیں آئے۔ البتہ یہ لوگ اپنی نجی محفلوں میں مجھ پر تنقید کرتے رہے۔ آپ لوگ اعصاب 
کی جنگ ہار چکے ہیں۔ میڈیا کے معاملہ میں آپ کچھ نہیں کرسکے اور یہ کام مجھے خود 
کرنا پڑا ہے۔ اِسی لئے پیمرا آرڈیننس کو “دانت” دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ لوگ )میڈیا والے( 
مجھے دیوار سے لگا رہے تھے۔ )جب یہ دانت کاٹیں گے تو( قانون کی حکمرانی بحال ہوگی… 
آپ لوگ بتائیں آپ کا کوئی رول ہے یا نہیں کیونکہ میں پہلی بار پریشان ہوں۔ آپ لوگ نہیں 
جانتے مجھے تنہا کردیا گیا تو ملک کا کیا بنے گا؟ اور آپ کا بھی” 
پنجاب کے سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور سرکار میں بیٹھے شاید واحد شعر گو اور شعر 
شناس شعیب بن عزیز کا یہ شعر بچہ بچہ جانتا ہے یقیناً صدر مشرف نے بھی پڑھ یا سن 
رکھا ہوگا 
اَب اُداس پھرتے ہو “گرمیوں” کی شاموں میں 
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں 
“سردیوں کی شاموں کو گرمیوں کی شاموں” میں حالات اور موجودہ گرمی کے حوالے سے
تبدیل کیا ہے کہ جوں جوں گرمی بڑھ رہی ہے مظاہرین کی گرمی اور تعداد بھی بڑھتی 
جارہی ہے۔ گرفتاریاں اور میڈیا پر پابندیاں ان کی تعداد کو کم نہیں کر پارہیں بلکہ اضافہ کا 
باعث بن رہی ہیں۔ صدر صاحب نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا ہے اس پر کسی مزید تبصرے 
کی ضرورت نہیں کہ یہاں “عیاں راچہ بیاں؟” تاہم کیا جنرل صاحب کو اپنے ساتھیوں کے ماضی 
کا پتہ نہیں یا ان لوگوں کی کایا کلپ ہوگئی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ خواجہ ناظم 
الدین، میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، محمد خان جونیجو، میاں 
نوازشریف سب کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کون تھے۔ یہی یا ان کے آباؤ اَجداد! ان سے 
صدر مشرف کس طرح کوئی دوسری توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس کا جواب خود اُنہی کے پاس 
ہوگا۔ 
کچھ لوگوں کے مطابق پیمرا آرڈیننس پر عملدرآمد معطل کرکے نافذ کرنے والوں نے مذاکرات کا 
دروازہ کھولا ہے۔ کچھ کے مطابق انہوں نے تُھوک کے چاٹا ہے، کچھ کے مطابق یہ سجدۂِِ سہو 
ہے اور کچھ کے مطابق انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ ان تبصروں کی حقیقت تو ہم 
نہیں جانتے لیکن یہ بات طے ہے کہ غلطی کا احساس بالکل نہیں ہوا۔ ورنہ یہ کس طرح 
ممکن تھا کہ پریس کیلئے بھی پیمرا آرڈیننس کی طرز کا نیا قانون بنانے کی تیاریاں کی 
Both optimists and pessimists contribute to our جارہی ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔ 
اب حکمرانوں society the optimists invent airoplane and the passimists the parachute 
کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہوائی جہاز ایجاد کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پیراشوٹ 
بنانے والوں میں؟ 
قومی اسمبلی میں جوکچھ ہوا وہ کم سے کم لفظوں میں شرمناک تھا۔ سوال صرف اتنا ہے 
کہ کیا اخبار نویسوں نے غُنڈہ گردی کی یا اس ہنگامے کو حکومتی ایجنسیوں نے بڑھاوا 
دیا کیا یہ سب “کسی” خفیہ ہاتھ کی پلاننگ کا نتیجہ تو نہیں؟…یوں تو ظلم کے خلاف آواز 
بلند کرنا صحافیوں کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی کہ ہمارے عقیدے کے مطابق 
جو ظُلم پہ لعنت نہ کرے آپ لَعِیں ہے 
جو جَبر کا مُنکر نہیں وہ مُنکر دِیں ہے 
لیکن نہ جانے بار بار دل میں یہ خیال کیوں آرہا ہے کہ کہیں کچھ اخبار نویس جانے انجانے میں 
حکومت کے پھیلائے ہوئے دام میں تو نہیں آتے جارہے۔ اخبار نویس کی شان اس کا مُکّہ،آواز 
کی بلندی یا جسم کی قوّت نہیں اُس کا قلم ہوتا ہے اور جب حکمرانوں کا احوال یہ ہو کہ 
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں 
کم نَظر روشنی سے ڈرتے ہوں 
تو اُن سے کسی بھی اقدام یا کارروائی کی توقع رکھنی چاہئے یہی وہ مرحلہ ہے جو احتیاط 
کا متقاضی ہوتا ہے کہ بقول عبدالحمید عدم 
اَے عدم احتیاط لازم ہے 
لوگ مُنکر نکیر ہوتے ہیں 
غیر ضروری مباحثوناور تنازعات میں اُلجھ کر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر پابندیاں لگوالینا 
دانش مندی نہیں بے وقوفی کہلائے گا۔ ابھی تو “نسخہ ہائے وفا کی تالیف” باقی ہے کہ 
“مجموعہ خیال” ابھی فرد فرد ہے۔” یوں بھی کسی کا نقطۂِِ نظر جو بھی ہو ہمارے خیال میں 
پارلیمنٹ ملک کا مقدس ترین اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ عدلیہ اور فوج سے بھی بالاتر۔ پارلیمنٹ 
بے شک ربڑ سٹمپ ہو وہ عوامی حاکمیت کا نشان ہے۔ اس کی توہین کرنا یا توہین کی کسی 
سازش میں شامل ہونا ہمیں بالکل زیب نہیں دیتا اور اگر اس غلطی پر پارلیمنٹ سے معذرت 
بھی کرلی جائے تو کسی کی ناک نیچی نہیں ہوگی کہ ہم عوام کی حکمرانی کے آگے سر 
جھکانے والے لوگ ہیں۔ ضِد اور غُنڈہ گردی حکمرانوں اوران کے “غبی ڈفر” جیسے وزیروں کو 
ہی مبارک ہو۔ یا پھر شیخ رشید جیسے سیاسی دانشوروں کو جو “کالے کوٹ” “کالے برقعے” 
اور “کالے کیمرے” کو روکنے کی بات کررہے ہیں۔ کاش وہ “کالے منہ” والے لوگوں کو روکنے 
کی بات کرتے نہ کہ “کالے قانون” بنانے کی حمایت کرتي… ہم اخبار نویسوں کو اپنا کام کرنا
ہے اور کرتے ہی جانا ہے کسی رکاوٹ یا کسی شرارت سے ہمیں اپنی منزل کھوٹی نہیں 
کرنی، اور منزل کیا ہے؟ آزادیِٔ صحافت، مکمل آزادیِٔ صحافت… کیونکہ آج کل تو حالت یہ ہے 
نہیں وُقعت کسی اہلِ نظر کی 
عبادت ہورہی ہے سِیم و زَر کی 
خوشامد کا صِلہ تَمغائے خِدمت 
خوشامد سے ملے سِفلوں کو عِزّت 
خوشامد جو کرے فَ نکار ہے وہ 
جو سچ بولے یہاں غدّار ہے وہ 
اِس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ تاہم صدر کے چیف 
آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل )ریٹائرڈ( جاوید حامد، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل 
ندیم اعجاز اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر )ریٹائرڈ( اعجاز شاہ کے عدالت میں 
داخل کئے حلف نامے سامنے پڑے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا جواب ابھی نہیں آیا۔ 
بیانات میں اسمبلیاں توڑنے اور نگران حکومت کا سربراہ بننے کے الزامات بظاہر نئے لگتے 
لیکن بعداز مرگ واویلہ ہیں کہ باقی ساری باتیں گھسی پٹی ہیں۔ ان حلف ناموں کا پوسٹ 
مارٹم کیا جائے تو کم از کم ایک سو سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں تاہم صرف ایک سوال جس 
کا جواب کسی نے نہیں دیا وہ یہ کہ جب جنرل پرویزمشرف اور چیف جسٹس افتخار چودھری 
کی ملاقات ہورہی تھی تو یہ سب لوگ وہاں کیا کررہے تھے؟کیا کوئی تحقیقات ہورہی تھیں؟ 
یا کچہری لگی ہوئی تھی؟ اور اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس خود 
آئے انہیں بلوایا نہیں گیا اگرچہ آنا یا بلوایا جانا کوئی اہم بات نہیں پھر بھی جب سرکاری حکم 
کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ یوں )Called( نامہ جاری کیا گیا تو اس میں انہیں بلوائے جانے 
بھی کسی باس کے پرسنل سٹاف کا اُس کے حق میں بیان اور لاپتہ افراد کے متعلق خفیہ 
ایجنسیوں کے سپریم کورٹ میں بیانات کے بعد ان کے بیانات کی وُقعت اور حقیقت کتنی قابل 
یقین رہتی ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں؟ 
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا 
سے ا داورں ک ے ان ک ہ دی ں ہن 
ن ہ یں ک م ہ ن گامہ م یں ا سم ب لی 
اِک س تان ی وہ ا ارو ہ ر أ زی اد ہ 
ک ا دم یوی دروش ب قرب ت ر م یڈی ا 
ت مہ یں ی ہ ہ ر وہے ورک لم ت م 
وہے ی اد
ل ہر سے غسفینرں ک ہ ہ یں رہ اں ہ م 
أ ٹ کِے 
مم کن ن ہ یں وکنا ک ا ف کو دبرضتح 
! صا بِ 
ل ہر سے غجبینرں ک ی ی اورں دہو 
أ ٹ کِے 
غلم ر لغرح سب ن ہ یں را ف د یخ 
ہ یں ا نِے 
یِدا ہے ک یا ضایثاو ہنگامضہَح ن ے ہ م 
ک و اٹ ھا ت مہ ید ک ی درو ن ے ضاک 
ن ے ہ م 
یِدا ہے ضکیا اغفکاو بالضمح ن یا ضاک
دغبنے سے خرف ک سی لم کاو ہ م 
ن ہ یں ک ے 
ک وت ے غوسن ر دغاو وِروضشح ی ہاں ہ م 
! ہ یں 
ہ یں جات ے چ لے زن ج یو اِب ہ 
طوف ک ی قتغبغمح 
س فو ضمینا ے سے خرن ہ ی ا نِے 
ہ یں بغھوتے 
ک ی ب مو اغب ، ہ یں ل رگ غسڑی ہ م 
م یں م نزب ا ا 
فغغاں ر آ ہ جہاں ہے ھِ ل تی خرب 
وہے ی اد
ضچیوا ضجگو ک ا آمو ر جاب و ہ و ن ے ہ م 
ہے 
بغیاں طوضزح ی ہ ہے دھاو ک ی ت یغ 
وہے ی اد 
لم ۓ دب اؤ ب ھی ضجتنا آپ 
! ۓ ب رل یں 
ب لم ک ا ص اِف ت ب ہو اِب ہ م 
! ۓ ک ھرل یں 
نہ دیں کہ ان کے اشاروں سے اسمبلی میں ہنگامہ کم نہیں زیادہ ہوگا اور رہا پاکستانی میڈیا تو بقول 
شورش کاشمیری 
تم قلم روک رہے ہو یہ تمہیں یاد رہے 
ہم وہاں ہیں کہ سَفینوں سے لہو ٹپکے گا 
دعوتِ فکر کا رُکنا نہیں ممکن صاحب! 
شہر یاروں کی جَبینوں سے لہو ٹپکے گا 
شیخ واقف نہیں سب لَوح و قَلم اپنے ہیں 
ہم نے ہنگامۂِِ اِیثار کیا ہے پیدا 
اِک نئے دور کی تمہید اٹھا کر ہم نے 
اِک نیا عالمِ اَفکار کِیا ہے پیدا
ہم قلمکار کسی خوف سے دَبنے کے نہیں 
ہم یہاں پرورشِ دَار و رَسن کرتے ہیں ! 
پابہ زنجیر چلے جاتے ہیں مَقتَل کی طرف 
اپنے ہی خون سے مِینائے سفر بَھرتے ہیں 
ہم سَڑی لوگ ہیں ، اَب عُمر کی اُس منزل میں 
خُوب پھلتی ہے جہاں آہ و فَغاں یاد رہے 
ہم نے ہر جابر و آمر کا جِگر چِیرا ہے 
تیغ کی دھار ہے یہ طرزِ بَیاں یاد رہے 
آپ جِتنا بھی دباؤ گے قلم بولیں گے ! 
ہم بہرحال صحافت کا علم کھولیں گے ! 
کِرم ترں م قدمے ی ہ ک یرن کہ 
ہ یں جات ے ہ ر خ تم ہ ی جات ے ک ے 
صدا ت وِضفح ے ب ھرب سب ارو 
ل کھ نا 
ب غارت ہ ی ہماوا ک ام یٔا وہ 
ل کھ نا
ن ہ ک ر ظ لمت وہ یں ک ہ تے کِ ھ 
ل کھ نا ظ لمت 
بغہ ! یِاوے ن ہ یں س ی کھا ن ے ہ م 
ل کھ نا اجازت 
ک ی س تا ش ن ہ ک ی ص لے ن ہ 
ک ر ہ م ت م نا 
ت ر ہماوی ک ے ل ر رٔں م یں قِ 
ل کھ نا بادت ہے 
ک ا غدہ ب ھی ک ے ب ھرب جر ن ے ہ م 
ل کھا ن ہ ص ید ہ 
ب درل ت ک ی خرب ی ضاسی آی ا دا د 
ل کھ نا
ت سِ ین ضموی ک ے ب ڑھ سے اا 
یٔ؟ ہ ر ک یا ب ھلا 
صاضِبح ، ضموا ہ یں ن اخرش ک ے ڑِھ 
ل کھ نا ث ورت 
غدہ ک ہ یں ہ یں ک ہ تے ب ھی ک چھ 
جال ب مصا بِ ک ے 
ص روت ضاسی ا نِا ی ہی وک ھ نا ونگ 
ل کھ نا 
کیونکہ یہ مقدمے حکومتوں کے جاتے ہی ختم ہو جاتے ہیں 
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا 
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا 
لاکھ کہتے رہیں ظُلمت کو نہ ظُلمت لکھنا 
ہم نے سیکھا نہیں پیارے! بَہ اجازت لکھنا 
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو 
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا 
ہم نے جو بھول کے بھی شَہ کا قصیدہ نہ لکھا 
شائد آیا اِسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کے مِری تحسین بھلا کیا ہو گی؟ 
پڑھ کے ناخوش ہیں مِرا ، صاحب ثروت لکھنا 
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شَہ کے مصاحب جالب 
رنگ رکھنا یہی اپنا اِسی صوُرت لکھنا 
آوہ ا ن ظو“ ہ وا ہ وا“ سب ب ھی 
ن ظم ای ر ک ی جال ب م یں ہے۔آخو 
ثغبات ک ر ظ لُمات غدہضوح“ ہے ب نران 
“ ن ہ یں 
!ف وزن در ک ے ک ہن نظاضمح اغے 
بغندر ضجگو ک ے ت او دضبح اغے 
ن ہ یں ت ر جارداں ت او دضبح ی ہ 
ہ ي رال ی جان ے ت او دضبح ی ہ 
اف سان ے ک ے ضتیو یٔ تغابغغکے 
ہے رال ی مسکوانے نغر صببحض
! رٔ در ضجگو ک ے ت او دضبح اغے 
!ک ر در ضستم د دمنر س وِ اغے 
أ چم کے آف تاب ک ا صبب 
جادر ک ا جہب أ جا ے ٹ را 
م یں دی اورں ان یٔ جا ے ھِ یب 
س ر ہ و ور د نی ک ی دان ش ر ب لم 
!ضنگہبانر ک ے ت او دضبح اے 
!غوِرانر ک ے غزیاں بہضدح دمعحض 
!خران ر ثغنا ک ے ظ لمات دہضوح 
ن ہ یں ث بات ک ر ظ لمات دہضوح 
ل ر ہغنا وِ صبب دی و ک چھ ارو
ب ات ک ر ی …دی و ک چھ ارو 
! ن ہ یں 
بھی سب “ہرا ہرا “نظر آرہا ہے۔آخر میں جالب کی ایک نظم عنوان ہے “شَہرِ ظُلْمات کو ثَبات نہیں “ 
اَے نظامِ کُہن کے فرزندو! 
اَے شب تار کے جِگر بَندو 
یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں 
یہ شبِ تار جانے والی ہي 
تَابَکَے تِیرگی کے افسانے 
صُبح نَو مُسکرانے والی ہے 
اَے شب تار کے جِگر گوشو! 
اَے سحر دُشمنو سِتم کوشو! 
صُبح کا آفتاب چمکے گا 
ٹوٹ جائے گا جُہل کا جادو 
پھیل جائے گی ان دیاروں میں 
علم و دانش کی روشنی ہر سُو 
اے شبِ تار کے نِگہبانو! 
شمع عہدِ زَیاں کے پَروانو! 
شہرِ ظلمات کے ثَنا خوانو! 
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں 
اور کچھ دیر صُبح پر ہَنس لو 
اور کچھ دیر… کوئی بات نہیں ! 
بھی پڑھ لیں ۔ 
کل ہو گیا مرکز کی ہدایات پہ “سَن” ضبط 
گل ضَبط، صبا ضَبط، روِش ضَبط، چَمن ضَبط 
ہوتے تھے رضا جوئیِ انگریز کی خاطر 
چالیس برس پہلے قَلم ضَبط، سُخَن ضَبط 
اُس وقت پرایوں کا زمانہ تھا گِلہ کیا؟
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2
Uniba urdu 2

More Related Content

Viewers also liked

Media Indonesia 30 Maret 2014
Media Indonesia 30 Maret 2014Media Indonesia 30 Maret 2014
Media Indonesia 30 Maret 2014hastapurnama
 
2012-01-18 Interpreting Legislation Slides
2012-01-18 Interpreting Legislation Slides2012-01-18 Interpreting Legislation Slides
2012-01-18 Interpreting Legislation SlidesScott McCrossin
 
Siqur - Health & Safety with the Wii
Siqur - Health & Safety with the WiiSiqur - Health & Safety with the Wii
Siqur - Health & Safety with the Wiimartinip
 
Strategy EU for Asia 2007-2013
Strategy EU for Asia 2007-2013Strategy EU for Asia 2007-2013
Strategy EU for Asia 2007-2013Clara Kusumadewi
 
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones Unidas
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones UnidasResolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones Unidas
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones UnidasAldo Riquelme
 
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014Semana del 11 al 15 de agosto de 2014
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014colegiommc
 
(Relatorio final nomeações - site) (2)
(Relatorio final   nomeações - site) (2)(Relatorio final   nomeações - site) (2)
(Relatorio final nomeações - site) (2)Antônio Rosa
 
Concerte de sărbători
Concerte de sărbătoriConcerte de sărbători
Concerte de sărbătoriBiro Bela
 
Violencia Contra A Mulher Cartilha
Violencia Contra A Mulher CartilhaViolencia Contra A Mulher Cartilha
Violencia Contra A Mulher CartilhaSGC
 
文档-About_JD_201603
文档-About_JD_201603文档-About_JD_201603
文档-About_JD_201603Amy (Bin) Liu
 

Viewers also liked (20)

TPS 05 Kampung Salo (KDI)
TPS 05 Kampung Salo (KDI)TPS 05 Kampung Salo (KDI)
TPS 05 Kampung Salo (KDI)
 
Media Indonesia 30 Maret 2014
Media Indonesia 30 Maret 2014Media Indonesia 30 Maret 2014
Media Indonesia 30 Maret 2014
 
2012-01-18 Interpreting Legislation Slides
2012-01-18 Interpreting Legislation Slides2012-01-18 Interpreting Legislation Slides
2012-01-18 Interpreting Legislation Slides
 
CTE.- Atando cabos dos
CTE.- Atando cabos dosCTE.- Atando cabos dos
CTE.- Atando cabos dos
 
Bo 15 06-2012-41 ii serie
Bo 15 06-2012-41 ii serieBo 15 06-2012-41 ii serie
Bo 15 06-2012-41 ii serie
 
Siqur - Health & Safety with the Wii
Siqur - Health & Safety with the WiiSiqur - Health & Safety with the Wii
Siqur - Health & Safety with the Wii
 
Strategy EU for Asia 2007-2013
Strategy EU for Asia 2007-2013Strategy EU for Asia 2007-2013
Strategy EU for Asia 2007-2013
 
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones Unidas
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones UnidasResolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones Unidas
Resolución N° 2087 del Consejo de Seguridad de las Naciones Unidas
 
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014Semana del 11 al 15 de agosto de 2014
Semana del 11 al 15 de agosto de 2014
 
Duetoines..
Duetoines..Duetoines..
Duetoines..
 
(Relatorio final nomeações - site) (2)
(Relatorio final   nomeações - site) (2)(Relatorio final   nomeações - site) (2)
(Relatorio final nomeações - site) (2)
 
Concerte de sărbători
Concerte de sărbătoriConcerte de sărbători
Concerte de sărbători
 
Violencia Contra A Mulher Cartilha
Violencia Contra A Mulher CartilhaViolencia Contra A Mulher Cartilha
Violencia Contra A Mulher Cartilha
 
Desafio alumnos 2o interiores
Desafio alumnos 2o interioresDesafio alumnos 2o interiores
Desafio alumnos 2o interiores
 
Planeamento em saúde
Planeamento em saúdePlaneamento em saúde
Planeamento em saúde
 
Organizações e administração
Organizações e administraçãoOrganizações e administração
Organizações e administração
 
Aritgos aprovados na XXIII SNPTEE
Aritgos aprovados na XXIII SNPTEEAritgos aprovados na XXIII SNPTEE
Aritgos aprovados na XXIII SNPTEE
 
Fred Mercury! ! !
Fred Mercury! ! !Fred Mercury! ! !
Fred Mercury! ! !
 
文档-About_JD_201603
文档-About_JD_201603文档-About_JD_201603
文档-About_JD_201603
 
Makalah mikro islam
Makalah mikro islamMakalah mikro islam
Makalah mikro islam
 

More from Speech Sciences Naushad (13)

Speech at-inclusion-event
Speech at-inclusion-eventSpeech at-inclusion-event
Speech at-inclusion-event
 
NAUSHAD
NAUSHADNAUSHAD
NAUSHAD
 
Smile n write ied.by najma adam
Smile n write ied.by najma adamSmile n write ied.by najma adam
Smile n write ied.by najma adam
 
Print lowercase formation_chart1
Print lowercase formation_chart1Print lowercase formation_chart1
Print lowercase formation_chart1
 
Print capital formation_chart2
Print capital formation_chart2Print capital formation_chart2
Print capital formation_chart2
 
Naushad a source of info
Naushad a source of infoNaushad a source of info
Naushad a source of info
 
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبیندماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن مبین
 
Zainabhw2014
Zainabhw2014Zainabhw2014
Zainabhw2014
 
What is aphasia
What is aphasiaWhat is aphasia
What is aphasia
 
Untitled 1
Untitled 1Untitled 1
Untitled 1
 
Uniba speech
Uniba speechUniba speech
Uniba speech
 
Husna
HusnaHusna
Husna
 
Inter school boys hockey team tournament district level winner team
Inter school boys hockey team tournament district level winner teamInter school boys hockey team tournament district level winner team
Inter school boys hockey team tournament district level winner team
 

Uniba urdu 2

  • 1. آخر میں شورش کاشمیری مرحوم کی ایک نظم جو 2791 ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں اُن کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز بھٹو کی طرف سے کراچی میں اردوکے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلانے کے موقع پر لکھی گئی اصولا تو یہ نظم 21 مئی کے فوراً بعد چھپنی چاہئے تھی لیکن کہتے ہیں نیک کام میں کبھی دیر نہیں ہوتی سو اِسے اَب پڑھ لیں … نظم کا عنوان تھا “ستم نواز مسخرے” عوام ہیں سَتائے جا ابھار کر مِٹائے جا چراغ ہیں بُجھائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… ترا بڑا مَقام ہے تو مردِ خوش خرام ہے اٹھائے جا، گِرائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… سِتم نواز مَسخرے ! عَجب ہیں تیرے چوچلے ! عوام کو نَچائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… قَبائے شب ادھیڑ کر غزل کا ساز چھیڑ کر گُلال ہیں لُٹائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… رَوِش روش چَمن چَمن نَگر نَگر، دَمَن دَمَن قیامتیں اُٹھائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… مزہ ہے تیرے ساتھ میں سُبو ہے تیرے ہاتھ میں شراب ہے پِلائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… تَھرک تَھرک، مَٹک مَٹک اِدھر اُدھر لَٹک لَٹک مزاجِ یار پائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… لَہو… تِری غذا سہی تو رِند پارسا سہی
  • 2. حِکایتیں سُنائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… یہ چال کَٹ ہی جائے گی یہ دال بَٹ ہی جائے گی ابھی تو ہَمہَمائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… خُدا کا خوف چھوڑ کر وَطن کی باگ موڑ کر نشان ہیں لگائے جا تو… گولیاں چلائے جا …… لُقَندروں کی فوج ہے اِسی میں تیری موج ہے حرام مال کھائے جا تو… گولیاں چلائے جا تھا جنہیں ذَوق تماشا وہ تو رُخصت ہوگئے لے کے اب تُو وعدۂِِ دِیدارِ عام آیا تو کیا؟ اَنجمن سے وہ پُرانے شُعلہ آشام اُٹھ گئے ساقیا! محفل میں تو آتش بَجام آیا تو کیا آہ! جب گُلشن کی جَمعِیتّ پریشاں ہوچکی پُھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا؟ آخرِ شب دِید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ صُبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا؟ بُجھ گیا وہ شُعلہ جو مقصودِہر پروانہ تھا اب کوئی سودائیِ سوزتَمام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حِس ہے، آوازِ دَرا ہو یا نہ ہو 7002 , کس کی جیت ،کس کی ہار؟ جولائی 8 Masood @ 2:36 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Monday, July 08, 2007 کس کی جیت ،کس کی ہار؟
  • 3. حکومتی بولی بولنے والوں کو نہ جانے کس طرح الہام ہوا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں میں بہنے والے بے گناہوں کے خون سے جنرل پرویزمشرف کا امیج بہت بہتر ہوگیا ہے اور پاکستان کی سول سوسائٹی میں ان کی مقبولیت بے تحاشا بڑھ گئی ہے، آپ عام لوگوں سے مل کر دیکھیں تو 2792 ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پہلی بار انہیں اتنا زیادہ دُکھی پائیں گي… 2791 ء میں مولانا فضل الرحمان کے والد گرامی مولانا مفتی محمود علیہ الرحمتہ اور اُن کے قریبی ساتھی مولانا غلام غوث ہزاروی، جماعت اسلامی کی مخالفت میں پیپلزپارٹی کے ہمنوا تھے جس پر جماعت اسلامی کے حامیوں نے اُن کے نام سے مولانا کا لفظ ہٹا کر “مسٹر” کا لفظ جوڑ دیا جواباً پیپلزپارٹی کے ترجمان مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ نے مولانا مودودیؒ کا سر اُس وقت کی مشہور ایکٹریس نغمہ کی فلم “انورا” میں رقص کناں ایک تصویر پر جوڑ کر نیچے کیپشن لگایا “سُن وے بلوری اَکھاں والیا” اس پر جماعت اسلامی کے حامی ایک جریدے نے ذوالفقار علی بھٹو کا سر کی بوتل پر جوڑ کر بدلہ چکایا۔ یہ سارا سیاسی کھیل تھا اور VAT شراب کے مشہور برانڈ 69 اسی طرح کھیلا جارہا تھا لیکن 21 دسمبر 2792 ء کو جب حکومت اور فوج کے جھوٹے دعوؤں کا پول کھلا اور افواج پاکستان کے ایسٹرن کمان کے “شیر دل” کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے اپنا پستول اتار کر بھارتی ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے حوالے کیا اور ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کئے تو شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو پارٹی اور نظریات کے تمام تر اختلافات کے باوجود رویا نہ ہو… کچھ ایسی ہی حالت اب کے ہے۔ ساری کی ساری قوم رنجیدہ ہے ہر شخص مضطرب ہے مولوی برادران کو گالی دینے والے بھی کافی ہیں اور حکومت پر دشنام طرازی کرنے والے بھی بہت، کچھ کی بانچھیں کِھل رہی ہیں تو کچھ کے آنسو نہیں رُکنے پا رہے۔ کچھ لوگوں نے مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید کے ناموں سے مولانا کا لفظ غائب کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے کچھ نے اسلام سے اپنے بُغض کو مولوی برادران کے پردے میں ظاہر کیا اور کچھ نے حکومتی کیمپ سے وفاداری کا عہد نبھایا ہے لیکن کیا کوئی بھی موجودہ صورتحال سے خوش ہے؟… اگر نہیں تو اس ساری صورتحال کے ذمہ دار حکمران کس طرح راتوں رات عوام میں مقبول ہوگئے ہیں ۔ عوام کو نہ 2792 ء کے “غدار” بھولے ہیں ، نہ 1119 ء کے “محب وطن۔” وہ کہہ رہے ہیں مُحبت نہیں وطن سے مجھے سکھا رہے ہیں مُحبت مشین گن کے ساتھ بغیر کسی لڑائی میں فتح حاصل کئے پاکستانی جنرل ایوب خان کی طرح ازخود فیلڈ مارشل بننے والے نہیں ، بلکہ اصلی فیلڈ مارشل اور برطانوی فوج کے ہیرو فیلڈ مارشل ارل کچنر کا کہنا ہے “جنگ خطرات مول لینے کا نام ہے،… آپ یہ کھیل ہر بار نہیں جیت سکتے اور یہ بات بااختیار لوگوں کو جتنی جلدی معلوم ہوجائے اُتنا ہی بہتر ہوتا ہے”… لگتا ہے ہمارے کمانڈروں نے یہ قول کبھی نہیں پڑھا حالانکہ اِسے جدید دور کے حربی نصاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر، معصوم بچوں پر بمباری کرکے، بے گناہ آبادیوں کو ٹینکوں تلے روند کر میڈل لگا لینا ایک بات ہے۔ دشمن سے جنگ لڑ کے جیتنا دوسری… جبکہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے گئے “غازیوں ” سے لڑنا بالکل تیسری… جن لوگوں نے کبھی کسی جنگ کا انجام دیکھا ہی نہ ہو انہیں کیا پتا کہ ایسے کھیلوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ پَندار کے خُوگر کو ناکام بھی دیکھو گے آغاز سے واقف یہ اَنجام بھی دیکھو گے اس بے وقوفانہ آپریشن سے جنرل پرویزمشرف نے مقبولیت کیا حاصل کرنی تھی یہ ضرور ہوا ہے کہ نفرت کے نشان سرکاری مولوی برادران پہلی بار عوامی ہمدردی حاصل کررہے ہیں ۔ اگر یہ ابھی تک “نُورا کشتی” نہیں ہے جیسا کہ لال مسجد سے ہونے والے ٹیلی فونک
  • 4. مذاکرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک کسی نے فون تک جام نہیں کئے تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے انکار کے بعد مولانا عبدالرشید غازی اپنے طرز عمل سے “سلسلہ انکاریہ” کے فرد قرار پارہے ہیں اور حکومت کی حماقتوں سے ایک ہیرو کے طور پر سامنے آرہے ہیں اب وہ پکڑے جائیں یا مارے جائیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ چیف جسٹس کے معاملہ کی ہینڈلنگ میں حکومت خود مِس ہینڈل ہو گئی۔ مولویوں کی ہینڈلنگ تو بہتر ہونی چاہئے تھی کہ کار بھی اپنی تھی اور ہینڈل بھی اپنا لیکن چھ دنوں کے دوران درجنوں بے گناہوں کے خون نے حکومتی منصوبہ سازوں کی حکمت عملی کی ساری قلعی بالکل کھول کر رکھ دی ہے۔ عموماً دشمن کے مقابلے میں ون ٹو ون یا زیادہ سے زیادہ ایک کے مقابلے میں دو کی عددی قوت فتح کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جدید ترین عسکری ذرائع اور حربی آلات کی موجودگی اور ایک کے مقابلے میں دس، چھ دن بعد بھی عوام کے اعصاب کا امتحان لے رہے ہوں تو اسے فتح کوئی نہیں مانے گا۔ حکومت نے آج تک انسانی جانوں کا کتنا احترام کیا ہے جو اب اس کے دعوے کررہی ہے۔ لال مسجد کے لوگوں کے پاس اسلحہ کی غیرمحدود صلاحیت نہیں ہوسکتی جبکہ آپریشن کرنے والے جدید ترین آلات اور غیر محدود جنگی ہتھیاروں سے لیس ہیں ان کی شفٹیں بھی بدل رہی ہیں جبکہ دوسری طرف بھوک اور پیاس کے ڈیرے ہیں آپ اتنے “پکے مسلمان” ہیں کہ خود وہاں کھانا بھیجتے رہے لیکن بچوں کیلئے کھانا لیجانے والوں کو گرفتار کرادیتے ہیں ۔ مقابلہ بہت دیر نہیں چلے گا، چل بھی نہیں سکتا… لیکن حکومت جس فتح کے خواب آنکھوں میں سجائے میدان میں اُتری تھی وہ بہرحال پورے نہیں ہوئے کہ مقابل بھی ان کے ہی تربیت یافتہ ہیں ۔ لال مسجد کے مولویوں نے تو راشن پانی کا انتظام کر رکھا ہو گا لیکن اس علاقے کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ اپنے ہی علاقے میں محصور، اپنے ہی گھروں میں قید اور اپنے ہی خون کے گھونٹ پینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں ۔… حکومت جیت کر بھی شکست سے دوچار جبکہ حکومت مخالف تحریک یا لندن کی اے پی سی کو اس آپریشن سے نقصان نہیں فائدہ ہی ہوا ہے، جنرل مشرف کے حامی بھی اب انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ یا بینظیر بھٹو کے ساتھ معاملہ کر لو یا مارشل لاء کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جنرل صاحب کی خواہش تو یہ ہو گی کہ بے نظیر سے معاملہ ہو جائے لیکن بے نظیر ایسا کیوں کریں گی؟ لے دے کے جنرل صاحب کو کسی نئے جرنیل پر انحصار کرنا ہو گا لیکن نیا جرنیل ان کا کام کیوں کرے گا؟ ادھر عام لوگ بھی سوچ رہے ہیں مِرے خیال میں اَب تَھک چُکے ہیں ظالم بھی ڈھلے گی ظُلم کی شَب دِیپ آس کا نہ بُجھا ہم یہ مان لیتے ہیں کہ صدر جنرل پرویزمشرف کو اسلام آباد میں خون بہانے پر یقینا امریکہ سے توصیف ملے گی کہ جو کام وہ خود نہیں کرسکتا تھا وہ ہمارے حکمران کررہے ہیں لیکن میں اپنی )JIT ( اب جب انہوں نے تفتیش کیلئے بنائی گئی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ایجنسیوں کے لوگوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے تو ہمارے حکمران انہیں کیا جواب دے سکیں گي… اگر انکار کرتے ہیں جس کی بظاہر ان میں ہمت نہیں تو ان کی “نوکری” خطرے میں پڑ جائے گی اور اگر اجازت دے دیتے ہیں تو سارے راز کھل جانے کا اندیشہ ہے سو کسی طرح سے راہ فرار نہیں مل رہی۔ وزیرداخلہ آفتاب شیر پاؤ اگر اپنے ڈرائیور شاہد سے نجات حاصل بھی کرلیں جو مولوی برادران کا برادر نسبتی بتایا جاتا ہے تو انہیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ ان کے یا دوسرے بڑے بڑے لوگوں کے اردگرد اور کون کون ایسے ہی لوگ موجود ہیں ۔ رہا جنرل صاحب کا الٹی میٹم کہ لال مسجد والے باہر آ جائیں ورنہ مارے جائیں گے تو اب یہ ڈرامہ کافی لمبا ہو گیا ہے۔ عملاً یہ ٹی وی کا ڈرامہ بن گیا ہے جس کی قسطیں “عوام کے پرزور اصرار پر” بڑھائی جا رہی ہیں اور جب “ڈائریکٹر” چاہیں گے ڈرامہ بند ہو جائے گا۔ کیا جنرل صاحب اتنے مہینے انتظار کرتے رہے ہیں کہ ان کے پروردہ مولوی وہاں اپنے حامیوں کو بھی اکٹھا کر لیں اور اسلحہ بھی۔ اب تک جتنے لوگوں کو جہاں جہاں بھی مارا گیا۔ کتنوں کو وارننگ دی گئی؟ اب وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ جب تک
  • 5. ایک عورت یا ایک بچہ بھی مسجد میں موجود ہے آپریشن نہیں ہو گا یعنی نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی یا پھر “سوپ ڈرامہ” کی کئی قسطیں ابھی باقی ہیں ۔… مارنے کے لئے وقت آج کا بہتر ہے یا کل بہتر تھا اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی یا جنرل صاحب کیونکہ ہم لوگ تو موت نہیں زندگی کی بات کرتے ہیں تاہم جنرل صاحب جو چاہے کر لیں ان کے لئے اب کوئی وقت بھی بہتر نہیں ۔ اللہ اس ملک، اس قوم اور ہم سب پر رحم کري… آخر میں اقبالؒ کے تین شعر بے اشکِ سحر گاہی تقویمِ خودی مُشکل یہ لالۂِِ پیکانی خوشتر ہے کنار جُو صَیاّد ہے کافر کا نَخچیِر ہے مومن کا یہ دیرِ کُہن یعنی بُت خانۂِِ رنگ و بُو اے شیخ! امیروں کو مسجد سے نکلوا دے ہے اُن کی نمازوں سے محراب ترش اَبرو :Share this 7002 , ایَسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو جون 72 Masood @ 12:45 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Friday, June 29, 2007 اَیسی روشن خیالی آپ کو ہی مبارک ہو!! روشن خیال کون ہے وہ مولوی جو اپنی بیوی کو ایک لاکھ روپے حق مہر دیتا، اپنی بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دیتا، کسی کی مخالفانہ تقریر کو ہنس کر ٹال دیتا، گالی کے جواب میں حُسنِ سلوک کرتا اور منبر رسولؐ سے صرف اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات کرتا ہے یا وہ وزیر جس کا باپ تو ایک شریف جِلد ساز تھا لیکن اُس کے بھائی، بھائی کی حکومتی طاقت کے زور پر کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں ، جو اپنی وزارت کے دوران ایک غیرملکی اور غیرمحرم خاتون کو اپنے گھر میں قید رکھتا، اُس سے زور زبردستی کرتا، اُس کو مردہ حالت میں ہسپتال لے کر آتا، حکومت اُس کی پشت پناہی کرتی، مردہ خاتون کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح گھپلے ہوتے اور بنیادی شرائط ہی پوری نہیں کی جاتیں ، اِس بات کا تعین بھی نہیں کیا جاتا کہ خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں ؟ وہ کہیں حاملہ تو نہیں تھی یا اُس کا اسقاط تو نہیں کرایا گیا تھا۔ امریکی ماہرین مذکورہ آٹوپسی رپورٹ کو واضح طور پر ناقص اور بے کار قرار دیتے ہیں ، کئی دن اسے گرفتار ہی نہیں کیا جاتا، عدالت کے حکم پر گرفتاری کے اگلے ہی دن اُسے فوجی ہسپتال سے دل کی بیماری کا سرٹیفکیٹ مل جاتا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو جاتا ہے۔ کیا ہمارا قانون جو راہ چلتے میاں بیوی کا منہ سونگھتا اور اُن سے نکاح نامے بھی طلب کرتا ہے، اُسے وزیر صاحب کے معاملے میں کسی “اَیسی وَیسی” بات کا شک بھی نہیں ہوا۔ کیا یہ محض حبس بے جا کا مقدمہ ہے یا سارے کام باِلرَّضا ہو رہے تھے اور تحفظ حقوق نسواں آرڈیننس آنے کے بعد یہ کوئی جرم ہی نہیں ۔ اگر یہی روشن خیالی ہے تو تُف ہے ایسی روشن خیالی پر۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے روشن خیال دین ہے جس نے پہلی بار جاہلانہ رسوم کو چیلنج کیا۔ انسان کو انسان اور پتھر کے سامنے جُھکنے سے روکا، کعبہ کو
  • 6. بُتوں سے خالی کیا، بچیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کرنے کی روایت کو دفن کر دیا، بیٹیوں کی عِزّت اور تکریم شروع کی، عورت کو مہر، نان نفقہ، اچھی رہائش، اچھے لباس اور خُلع کا حق عطا کیا، علیحدگی کی صورت میں بھی عورت کو دیئے گئے تحفے، تحائف اور مال و دولت واپس نہ لینے کا حکم دیا، تہمت کو جرم قرار دیا، بدکاری کی صورت میں عورت کا پردہ رکھنے کی ہدایت کی، نجی زندگی میں دخل اندازی سے روکا، چادر اور چار دیواری کا تصور روشناس کرایا، تَجسُّس اور گھر میں جھانکنے سے منع کیا، ریاست اور فرد کے حقوق کی تشریح کی، عورت کے ساتھ مرد کو بھی غضِّ بَصر اور شرم گاہوں کی حفاظت کی تلقین کی، وراثت میں عورت کا حق مقرر کیا، مخالف مذاہب کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا، تہذیبوں اور مذاہب کے تصادم کو روکا، مخالف اَدیان کے انبیاء پر ایمان مسلمانوں کے ایمان کا حصہ قرار پایا، بدلے کے مقابلے میں معافی کا کلچر متعارف کرایا، فرد کی آمریت کو شُورائی جمہوریت سے تبدیل کیا، عوام کی اکثریت کے فیصلے کو سچ اور اللہ کا فیصلہ قرار دیا، وراثتی حکومت اور آمریت کی ممانعت کی، سرمایہ داری کو حرام قرار دیا، ضرورت سے زیادہ استعمال کی ہر چیز صدقہ کرنے کو تقویٰ کی بنیاد قرار دیا، مساوات، رواداری، قربانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کو شعار بنایا غرضیکہ آج کی جدید دنیا میں کوئی ایسا بنیادی حق نہیں جو نبی آخر الزماں نے کائنات کو تفویض نہ کیا اور سارے حقوق پر عمل کر کے نہ دکھایا ہو۔… لیکن ہم آج کے محکوم اور مغلوب مسلمان نہ جانے کیوں مغرب کی چکا چوند سے آنکھوں کو خیرہ کئے جا رہے ہیں ۔ بجائے اِس کے کہ اپنے اصولوں پر قائم رہیں اور اُن کا دفاع کریں ہمارا طرزِ عمل دفاعی ہو گیا ہے۔ مُلک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع نہیں کر پا رہے قوم کی نظریاتی حدود اور عقیدے کا کیا کریں گے؟ روشن خیالی سے مراد مخلوط محفلوں میں بغلگیر ہونے اور ذرائع ابلاغ سے فحاشی، عریانی اور جنسی جذبات بھڑکانے والے پروگراموں کی تشہیر کو لینا، چینی مساج کرنے والی لڑکیوں کا اسلام آباد کے بعد لاہور کو بھی ہدف بنا لینا ، رواداری کی آڑ میں منکرات کو فروغ دینا روشن خیالی اور رواداری نہیں ، کنجرپَن اور بَدکاری ہے۔ دین نے صرف ایک بات پر اصرار کیا اور وہ یہ کہ سارا کُفرمِلتّ واحدہ ہے۔ )اَلْکُفْرُ مِلَّۃُ وَّاحِدَۃ( اُس سے دوستی نہ کی جائے لیکن ہم عجیب مسلمان ہیں کہ اپنوں کو مار رہے اور دشمنوں سے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔ ہندو پنڈت آج بھی اُس مندر کو دھونے کا حکم دیتے ہیں جس سے کسی مُسلے )مسلمان( کا گزر ہو جائے، نیٹو افواج کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے قبائل پر بمباری سوچ سمجھ کر اور باِلاِرادہ کی، امریکی کانگریس کے ارکان ڈاکٹر قدیر سے براہِ راست ملاقات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اُن کے بقول بے نظیر بھٹو دور میں کوریا سے حاصل کیا جانے والا میزائل پروگرام فی الاصل اسلام آباد اور پیانگ یانگ کے درمیان ٹیکنالوجی کا تبادلہ تھا۔ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی دے کر میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی اور بقول اُن کے دونوں باتیں امریکہ کے لئے شدید خطرہ ہیں ۔ جواباً وائٹ ہاؤس کہتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو لگام دی جا چکی ہے۔… اور ہمارا طرز عمل کیا ہے کہ بھارت سے دوستی کرنے کے لئے مرے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بات اب طَے ہے کہ نہ پاکستان بھارت کو اور نہ بھارت پاکستان کو ختم کر سکتا ہے۔ آئندہ تاریخ میں کسی جنگ کا بھی کوئی امکان نہیں ، امریکیوں کے کہنے پر ہماری فوج بے دریغ اپنے لوگوں پر بمباری کرتی ہے لیکن سیلاب میں ہلاک، تباہ اور بے گھر ہونے والوں کو طفل تسلیوں کے سوا ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ۔ نتیجتا بلوچ عوام یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بمباری کے لئے تو آپ کے پاس ہر وقت جہاز اور امریکی ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں بچانے کے لئے کیوں نہیں ؟ اب بھی فضائی جائزوں کے نام پر پکنک کے لئے ہیلی کاپٹر موجود جبکہ ریلیف والے جہاز موسم ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کا نمائندہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے سیلاب کی صورت حال جاننے کیلئے رابطہ کرتا ہے تو وہ آرام فرما رہے ہوتے ہیں کہ اسمبلی میں بھی اکثر سوئے ہوئے ہی دیکھے جاتے ہیں لیکن بیان اُن کا یہ آ رہا ہے کہ اپوزیشن امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ گورنر سرحد کہہ رہے ہیں کہ جرگہ
  • 7. سسٹم ناکام ہوا تو انتہائی قدم اٹھایا جائے گا۔ کیا کوئی انتہائی قدم ابھی باقی ہے؟ بلامبالغہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بے گناہ ہماری اپنی گولیوں اور بموں کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ کیا اب ساری مخلوقِ خدا کو تہ تیغ کر دیں گے یا قبائل کا صفایا کر دیں گے حالانکہ یہ کام تو انگریز ڈیڑھ سو سال پہلے بھی نہ کر سکا تھا۔… ہماری علاقائی خودمختاری کو چیلنج کیا جاتا ہے اور نیٹو فورسز سے زور دار احتجاج تک نہیں کیا جا رہا۔ ٹھنڈی ٹھار سی گفتگو کی جا رہی ہے۔ “آئندہ ایسا نہ کرنا ورنہ”… “ورنہ کیا؟” “ورنہ ہم اِسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔” اسلام آباد میں ایک مولوی کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے پریس کانفرنس کرتا ہے اور ہماری حکومتی عملداری کی غیرت نہیں جاگتی۔ نہتے لوگوں کو ڈراوے دیئے جا رہے ہیں ۔ اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم، اَے جانِ جہاں یہ ٹھیک نہیں … معاف کیجئے اگر اپنوں کی پتلونیں اُتروانا اور مخالفوں کے سامنے پتلون اُتار دینا روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے تو ایسی روشن خیالی اور اعتدال پسندی پر ہزار لعنت۔ اگربرہنہ ٹانگوں ،برہنہ نافوں ، برہنہ سینوں کا مقابلہ تہذیب ہے، مُجرے، بوس وکنار، غیرمردوں اور عورتوں کی جپھیاں ان کے نزدیک روشن خیالی ہیں توخود جو چاہے کریں ۔ عوام کو اِن پر مجبور نہ کریں ۔ روشن خیالی عمل اور سوچ کا نام ہے، ہاتھ اُٹھا کر مارے جانے والے نعروں اور گلے پھاڑ پھاڑ کر کی جانے والی تقریروں کا نہیں ۔ نہ تو کوئی عورت بُرقع پہننے سے رُجعت پسند ہو جاتی ہے نہ کوئی رانیں دکھا کر ترقی پسند۔ حسینؓ کی موت یزید کی زندگی سے لاکھ درجہ برتر، سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شکست جنرل ڈائر کی فتح سے ہزار درجہ اُولیٰ اور ٹیپو سلطان جیسے شیر کی ایک دن کی زندگی مخالف گیدڑوں کی سو سالہ زندگی سے بہتر 11 کے ریفرنس آپ کی روشن / ہے۔ کیا ہمارے سروں پر مُسلطّ حکمران نہیں سوچتے کہ 16 خیالی نہیں جہالت، تہذیب نہیں بدتہذیبی کا ثبوت ہیں اور رہے عوام تو “ہم لوگ جو اَب تک زِندہ ہیں اِس جِینے پر شرمندہ ہیں ” کہ بقول اقبالؒ اے طائرِ لاہُوتی اُس رزق سے مَوت اچھی جس رِزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی :Share this 26 جرن صلى الله عليه وسلممیں مآب و سال ت رضوح , 2007
  • 8. ک ا م س عرد اطہو :ب ت تِ ب ند دوجہ — س یا ست,ب ی نا دی د ہ ۔۔۔ ل م Masood @ 12:56 pm Tags: Athar Masood Column, Journalism, Pakistan, politics, ,ب ی نا دی د ہ ۔۔۔ ل م ک ا م س عرد اطہو س یا ست
  • 9. Tuesday, June 26, 2007 صلى الله عليه وسلممیں مآب و سال ت رضوح ہے ک ہ نا ک ا ورومح یِضوح غدغرد غرِواں چرں نا وستہ موغضَرح غدغرد دغرواں ؤبہَح ہغو غطعضمہَح
  • 10. اودر ک ر د عو ف او سی ضاا ن ے ا باوح ب ک یا ب یان طوح ضاا م یں ضقح ن ہ یں سے ف طوت د رنیَح جر وِراز ہے ان جام ک ا چاوہ ب ے موغضَح ر ا ا ا فتاد خرن ک ا نٔاہ رں ب ے م یں با ب ت صرو ک بھی ک ہ ہے اوزاں ضاتنا ہ و ت ھا۔ س ک تا جا ک یا ن ہ یں ب ھی ک ا ب ھا یرں ہ ی ا نِے ن ے ہ م ب او اب ل ی کن ل یا ل ے سو ا نِے خرن ن ے ” در س ترں“ ہماوے ب او ک ی ارو ک ی ن ے ہ م ک اوورا ی ک ہ ک ہا
  • 11. ت عارن ک ا ف رج اِک ل ے ک ے ضاا اِک ج ب کہ ت ھا یٔا ک یا اِ صب ای سا“ ک ہ ہ یں ک ہ تے رال ے ف رج ک چھ ارو ہ م سرا ک ے ضاا ارو ن ہ یں ج ی سا ل ب نان ” ۓ۔ ک ہ یں ن ہ یں ا سوا یب ب ھی م لر یِ ث یت ب ے ہے جات ا ہ ر ک ھڑا م یں جراب ک ے تِا مِیرت ب ے ج ی سے ہ م ل ی کن ک و ان تظاو ک ا چ یز ضکا ن ہ یں ک ھوب رں وِ ف رج ک یا ۔ ہ یں وہے دن ی ہی اخواجات ک ے ور ےِ جا ک ے ل ے ک ے دی کھ نے ب م ای ٹم ک و ک ھا ھٔاا ارو وہے
  • 12. اِک س تان ضاسی ن ے رال رں ب نان ے ک ے رضوح ت ھا؟ دی کھا خراب ک ا ا نِے سے اغبوہہ ن ے ببدالمطرلب دادا ک ہ ک ہا ارو مان گے را اِ ا رنا ا ا ر ہ ہے ھٔو ک ا جا ک ع بہ خان ہ ای ر ہ م أ۔ ک وے فِاظت خرد ک ی ک ا ”غسو“ ک ر و سرب داتضمح ذل یب وِ معام لے ک ے م ل نے خطاب جر ارو ہ یں وہے جا ہ ر ے ہ ل کان وِ ن ام ک ے وسرضح ب ا سی سوزم ین ک ی ا ا ت ھی ی ک ی اِ صب وِ ک ون ے اِماب ک ر سو دِرں ای ر ک ا ن دامت م یں آن کھ ہماوی
  • 13. ک او ب ے ارو آت ا ن ہ یں ب ھی آن سر ۔ ہ یں وہے ک و یِش ت اری ل یں ک و دی کھ ک چھ سب ی ہ اِضکح رضوح ور ن ہ یں آن سر ک ے خرن ک یا رم ک ی سی ک ہ ۓ ہ رں وہے ھٔو ا نِے ہے۔ ڑِا آن اِ سے ن ہ یں ک و ت ر فِاظت ک ی خاک ک ی بزت م یوی س ک تے !! ۓ ک وی ں فِاظت ب چے سہاوا ب ے ای ر جر نبضیح ر ہ اٹ ھ تے ت ڑپ ب ھی وِ وَبت ک ی ک ہ أ ہ ر چلا تِا ا نہیں جب ت ھے م یں ب س تی ن امی زراو م نڈی
  • 14. ساوے دروان ک ے مِ لے اموی کی جان ے ماوے ک ے خان ہ اہ ب نغر ک ے نغر رال ے مان نے ای ر ک ے ا ضح ن وِ 70 ک ے خ یب نٔ گی ب ی لہ خردک دی ن ے خاں خِارو سال ہ ک یا وِ دب ک ے ا ضنح ت ر ہے ل ی ک و ن ے ض ح ا نہرں جب یٔ؟ ہ ر ب ی تی مان نے ک ے ا ضنح ک ہ أ ہ ر دی کھا ک ے ض ح ا نہی وِ ن ام ک ے اضنح رال ے، ل گا، ف ترے ک ے ک فو وِ ا غمتیررں دھج یاں ک ی ا کِام ک ے ا ضنح خرد ارو ن ے ض ح ا نہرں ت ر ہ یں وہے اڑا ا نِے ل ی ٹے ب ا یں دا یں
  • 15. ک یا سے بمبوح ارو ابربکبوح در س ترں ک ی ا ضنح جب یٔ؟ ہ ر ک ی ب ات م ل عرن ای ر سام نے ک ے آن کھرں وِ دی نے خطاب ک ا سو ک ر ا صب رال ے وچان ے ڈوامے س یا سی ک ی ا ن ارو ی ہردی رں أو نٔہ سے ا سوا یب نِا ہ جا ے وہے ب ڑھا یِ ن گ یں ک ی در س تی ی ہ ک یا ن ے ض ح ا نہرں ت ر ۓ ہ رں م یوے ک ہ أ ہ ر سرچا ن ہ یں ک ر ان ک ہ ہ یں یِورک او ک ی سے ی ہردی ک ہ ت ھا ب ھی ب تای ا ہ ر ن ہ یں خ یوخرا ہ ت مہاوے
  • 16. سے دب ک ے ان ب ھی ھِو س ک تے ن کب ن ہ یں م بِت ک ی ا سوا یب ہ ر یٔا ب تای ا ض ح ا نہیں جب …وہ ی۔ اِ صب وِ ن ام ک ے ا ضنح ک ہ أ ا ضنح م یں اِک س تان ے ک ے ک ی ک فاو ک ر رال رں مان نے ک ے دہ ید ک ے ک و ب م باوی ن ے ف رج ک ے ہ رن ے م س لمان ارو دی ا ک و ک ی ا ن ن ے دبری داورں ک چھ ہماوے ن ے ض ح ا نہرں ت ر ک ی معارن ت وا ے ک یا م ت ع لق ک ے ا سلام یٔ؟ ہ ر ک ی ا م
  • 17. ہے جان تی دن یا ساوی ب ات ات نی ف کو ہماوی ر ت ہ و ک ر ا ضح ن ک ہ ک ے ان ت قاب ا نِے ت ھی۔ وہ تی وب ا نِے ن ے ض ح ا نہرں ب ھی ر ت مان گی أون ٹی ی ہ صوف سے ا رمت ک ی ا ضنح ب عد ک ے ا ضنح ک ہ ت ھی ل ی کن أ، ک وے ن ہ یں و سرا ک ر جب ک وی ں ک یا أون ٹ یاں ی ہ ت ب وِ ہ رن ے و سرا ہ ی خرد ا رمت ک ے ت و ی م یں ک واچی …۔ جا ے ای ر ارو ہ رں وہے جا أ ے یٔت زا د سے سر اڑھا ی ب اوش ہ ی ل ے، ب نا ن رال ہ ک ر ل ر رٔں
  • 18. ب ڑے سے سب ک ے ”داوا سِلام“ سوک او وِ ت و ی ک ی جا دہو خوچ ور ےِ اوب رں ب قرب ک ے م یں دن در ہ رں ے ک ے ارو ک وے یِش م نظو ک ا ک ھ نڈو ک ے ک ون ے ف واہ م ب ج لی ک ر جا ک ون ے ف واہ م ب ج لی رہ اں وِ ن ام ور ےِ اوب رں ک ر اداوے را دِ رال ے ک ر داو سومای ہ ای ر س س تا دہو ا ا ہ ر، یٔا دی ا ک و ف ورخت سے ب ج لی صِہ ف ی صد 70 ک ا سا ن جن جہاں جا ے۔ ہ ر م وِرم ل ے ک ے ل گان ے ک ر ب روڈرں
  • 19. جات ی ل ی و درت ور ےِ کِ ھرں ک ا مرت ل ے ک ے ل ر رٔں رہ ی ہ ر در سوے ارو جا یں ب ن یِ غام جاوی ک ھ یب ی ہی م یں صرب رں ھِو ب عد ک ے ت باہ ی جہاں ارو ہ ر وِ ج ی برں ک ی وَی برں سے وی ل یف ل ے ک ے ماون ے ڈاک ہ وہ ا جا ک یا ابلان ک ا ب نان ے ف نڈ ہ ر۔ ک ہ جان تے ن ہ یں آ ضحا م یوے ک یا ک ا وِ س ٹرورں ی رٹ ی ل ٹی ف ورخت وِ وی ا ک ا ماب ک ا طوح ہماوے ارو ہے وہ ا جا ک یا
  • 20. جب ک و ہ ر ک ھڑے رہ اں رزی وابظم ن عوہ ک ا ”ب اد زن د ہ اِک س تان“ ک ر خرد ر ہ ت ر ہ یں ل گرات ے سے اِ تِ ک ے رم اِک س تان ی ہ یں ک وت ے ظاہ و خ بو ب ے ک ت نا ای ر ک ے نبضیح ک ہ تِا ک یا ا نہیں ۔ ک ہ ت ھا ک ہا ت ر ن ے درم خلیفضہَح لَام، ک تا ای ر ک ناوے ک ے ن یب ا ؤ بمبوح ت ر یٔا مو سے یِاا ب ھی ورزان ہ ی ہاں أ۔ ہ ر جراب د ہ ک ا اا ا دوف ، ن ہ یں ک تے ک ت نے، ارو ب ھرک ان سان ال مخ لر ات دے جان ہ ات ھرں ک ے وَب ت
  • 21. رزی وابظم ہماوے ارو ہ یں دی تے ک ے ب اد زن د ہ اِک س تان سے ان ک و ف وما ش ک ی ل گان ے ن عوے رزی وابظم ک ے جہاں ۔ ہ یں وہے ی رٹ ی ل ٹی سوک اوی ک سی ن ے ت ر ب ازاو واجہ ب اہ و سے س ٹرو ہ ر۔ ک ی ن ہ ز مِت ب ھی ک ی جان ے ب ااث و ارو بوسضوا تداو ک ے جہاں چ ی نی ب ھی ت ھ کارا ا نِی اف واد ہ رں ک وات ے درو سے ل ڑک یرں امرو مذہ بی رزی و ک ے جہاں ارو ل ے ک ے ت ب ل یغ ک ی دی ن ک ر
  • 22. ھِو ی ا ہ ر سِ ند ان گ ل ی نڈ ت ر ی ا ل ی نڈ۔ ت ھا ی وِ ا ضنح ار دِ ارو ب اپ ماں م یوے م ناف قت ن ے ض ح ا نہرں ۔ ہ رں وب ان ارو دی ا واو جوم ب ڑا سے ک فو ک ر ب ھی ن دان یاں چاو ک ی م ناف ق ن ہ یں دی کھ رضہح ک یا ۔ دی ں ب تا ہماوے ک ہ ۓ ہ رں وہے ن دان یاں ساوی م یں کِموان رں ان تخاب ی خرد ۔ چ ک یں ہ ر رِوی ارو ہ یں ڑِے ن کب ل ے ک ے مہم ہ را ک یا وِام ج ی نا ک ا مخال فرں ک ے ان ک ہ ہے تِا ک ر ا ن …۔ ہے
  • 23. ت ہا ی در م یں اِول یم نا اِا برام ل ی کن ن ہ یں مرجرد اک ثوی ت ل ے ک ے ب نان ے ر رف ب ے ک ر در دا ک ا ت وم یم آ ی نی ری ں 18 م یں ان تخاب ات ت اک ہ ہے دی ا چھرڑ م یں آ ین اِ نِ کہ آ ے۔ ک ام سے سب ت ر س ک تے ک و ت وم یم قِ ک ے رودی ا نِی ہِ لے ک وات ے۔ جان ے را اِ م یں ب یوک رں خرد رک لاء ارو وہے ل ے ن ہ یں ن ام ک ا ورمرں ب او ک ہ ہ یں وہے ک ہہ سے خرد ۔ جا یں چ لے را اِ م یں
  • 24. دی وک ھ ک و اڑا دھج یاں ک ی آ ین بمب وِ آ ین سے رم ارو ہ یں خرد …۔ ہ یں وہے ک و مطال بہ ک ا ب دب ک ر وآں ، ن ہ یں ب دل تے ۔ ہ یں دی تے ا نِے ک ہ وہ ا آ ن ہ یں سمجھ جاؤں ل ے م نہ ک یا سام نے غمرضکِے بغدد با ک ہ ک ورں دوخرا ست ک یا ارو ہ م ارو وہ ا ن ہ یں د عاو ک ا ا ضاح دی نا د س ت گ یو ک ے غکسرں ب ے ج ی سے سے ا ن … ہ یں رہ ی صوف ب ھی ہ ی ات نی صوف ن ہ یں ک چھ ک ہ ہے وہ ا ہ ر رِ ص لہ ک ا زٔاوش
  • 25. ت ھے ک وت ے ک یا د با خرد ت ر آضپح کِموان ای سے وِ ہ م مر “ِ ک ہ ن ہ و مِ وِ ہ م جر ک و ن ہ مسلرط (یغوُغ منغا حَِ غمنُح غبلغیُنغا ت غسضلرطُح غرغحِ) ”۔ ک وی ں ہ ر ک یرں ای سا سات ھ ہماوے ت ر !رال ی ک ے جہان رں در اے ہے؟ وہ ا ک و، ک وم نظضوح وِ غکسرں ب ے ہ م سے ک رت اہ یرں لَط یرں ہماوی و مِ وِ اِل ت ہماوی ف وما، دو زٔو ہماوے سے وب ا نِے ارو ک و زٔاوش ک ی مہوب ان ی خاص ل ے س جھا ی وا س تہ ک ر ی اب ک ہ ک و ت دب یو ک ر ی وہ ا۔ دے ن ہ یں
  • 26. درا ک سی وہ ی، ہ ر ن ہ یں ک او ؤ ک ر ی ارو وہ ا ن ہ یں اث و م یں وہ ا ک و ن ہ یں مندمب ک ر زخم موہ م ارو م بِرب ک ے اللُاعالضمین غوبَح اے … ہم یں ب ڑھ آ ۓ خرد ! یِاوے ت دب یوی ں ہماوی دک ھا، وا س تہ ک ر ب یماوی رں ہماوی ک و، ک او ؤ ارو دے ب دب م یں ت ندو س تی جا۔ ب ن مدارا خرد ک ا زخمرں ہماوے ب ھی سے وب ا نِے م یں آخو ارو ک ا سہاورں سب ک ہ زٔاوش، ہ م ارو ہے رہ ی ب ھی سہاوا آخوی رہی ب ھی مدد أو آخوی ک ا ل ر رٔں
  • 27. ک ر ک وم انداضزح ن ہ ا نِے ک و و مِ جا ب ھرب ن ہ ت ر ل ی کن ہ یں ب ھرلے ت جھے ہ م جا ب ھرب ک ر ہ م ک ے د نیا ہ ر ے وان دے ک ے غخلق ہ ر ے ٹ ھ کوا ے ہ ات ھ وِ دغو ت یوے اب ہ یں آ ے ہ ر ے ھِ یلا ے ڈرب ے ، ہ یں ب دک او ہ یں خراو ہ یں م یں ضذلَت ہ ر ے ضتوے ل ی کن ہ یں ب ھی ک چھ ہ یں م یں ا مَت ک ی م بِرضبح
  • 28. ضدب ن ے ت ر ک ی ا ؤ ک ی غوِسترں غقِ ن ہ یں جر ی خدا ک ا مسلم ک ہ ب ت ۓ دی ں ط ع نہ ن ہ یں ک ر ی 7002 , حضورِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلممیں جون 72 Masood @ 12:56 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Tuesday, June 26, 2007 حضورِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلممیں پیرِ رومؒ کا کہنا ہے مُرغَکِ نارُستہ چوں پَرّاں شَوَد طَعمِۂِ ہَر گُربۂِ دَرّاں شَوَد اقبالؒ نے اِس فارسی شعر کو اردو میں اِس طرح بیان کیا جو دُونیِٔ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز اُس مُرغَکِ بے چارہ کا انجام ہے اُفتاد قبائل میں بے گناہوں کا خون اِتنا ارزاں ہے کہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہر بار ہم نے اپنے ہی بھائیوں کا خون اپنے سر لے لیا لیکن اب کی بار ہمارے “دوستوں ” نے کہا کہ کارروائی ہم نے کی اور اِس کے لئے پاک فوج کا تعاون حاصل کیا گیا تھا جبکہ پاک فوج والے کہتے ہیں کہ “ایسا نہیں اور اِس کے سوا ہم اور کچھ نہیں کہیں گے۔” لبنان جیسا بے حیثیت ملک بھی اسرائیل کے جواب میں کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ہم جیسے بے حمیتّ پتا نہیں کِس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا فوج پر کھربوں روپے کے اخراجات یہی دن دیکھنے کے لئے کئے جا رہے اور گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے والوں نے اِسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ حضورؐ کے دادا عبدالمطلّب نے اَبرہہ سے اپنے اُونٹ واپس مانگے اور کہا کہ خانہ کعبہ جس کا گھر ہے وہ اُس کی خود حفاظت کرے گا۔ ہم ایک ذلیل شاتمِ رسول کو “سَر” کا خطاب ملنے کے معاملے پر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اور جو سرزمین اُسی رسولؐ کے نام پر حاصل کی گئی تھی اُس کی سرحدوں کو پامال کرنے پر ہماری آنکھ میں ندامت کا ایک آنسو بھی نہیں آتا اور بے کار تاویلیں پیش کر رہے ہیں ۔ حضور پاکؐ یہ سب کچھ دیکھ کر کیا خون کے آنسو نہیں رو رہے ہوں گے کہ کیسی قوم سے پالا آن پڑا ہے۔ اپنے گھر کی حفاظت تو کر
  • 29. نہیں سکتے میری عزت کی خاک حفاظت کریں گے!! وہ نبیؐ جو ایک بے سہارا بچے کی غُربت پر بھی تڑپ اٹھتے تھے جب اُنہیں پتا چلا ہو گا کہ منڈی زوار نامی بستی میں امریکی حملے کے دوران سارے نَو کے نَو اہل خانہ کے مارے جانے پر اُنؐ کے ایک ماننے والے قبیلہ گنگی خیل کے 91 سالہ پخاور خاں نے خودکشی کر لی ہے تو اُنؐ کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟ جب اُنہوں نے دیکھا ہو گا کہ اُنؐ کے ماننے والے، انؐ کے نام پر اُنہی کے اُمَتیوّں پر کفر کے فتوے لگا، اور خود اُنؐ کے احکام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو اُنہوں نے دائیں بائیں لیٹے اپنے دوستوں ابوبکرؓ اور عمرؓ سے کیا بات کی ہو گی؟ جب اُنؐ کی آنکھوں کے سامنے ایک ملعون کو سر کا خطاب دینے پر سیاسی ڈرامے رچانے والے اصل گنہ گار یہودیوں اور اُن کی جائے پناہ اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہوں گے تو اُنہوں نے کیا یہ نہیں سوچا ہو گا کہ میرے کیسے پیروکار ہیں کہ ان کو بتایا بھی تھا کہ یہودی تمہارے خیرخواہ نہیں ہو سکتے پھر بھی ان کے دل سے اسرائیل کی مُحبت نہیں نکل رہی۔… جب اُنہیں بتایا گیا ہو گا کہ اُنؐ کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان میں اُنؐ کے ماننے والوں کو کفار کی فوج نے بمباری کر کے شہید کر دیا اور مسلمان ہونے کے کچھ دعویداروں نے اُن کی معاونت کی تو اُنہوں نے ہمارے اسلام کے متعلق کیا رائے قائم کی ہو گی؟ اتنی بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اُنؐ کو ہر وقت ہماری فکر رہتی تھی۔ اپنے انتقال کے وقت بھی اُنہوں نے اپنے رب سے صرف یہ گارنٹی مانگی تھی کہ اُنؐ کے بعد اُنؐ کی اُمّت کو رسوا نہیں کرے گا، لیکن یہ گارنٹیاں کیا کریں جب اُمّت خود ہی رسوا ہونے پر تُل جائے ۔… کراچی میں ترقی کے گیت گائے جا رہے ہوں اور ایک ہی بارش اڑھائی سو سے زائد لوگوں کو نوالہ بنا لے، “دارالاسلام” کے سب سے بڑے شہر جس کی ترقی پر سرکار کے بقول اربوں روپے خرچ کئے گئے ہوں دو دن میں کھنڈر کا منظر پیش کرے اور جس کو بجلی فراہم کرنے کے نام پر وہاں بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے کو اربوں روپے سستا ایک سرمایہ دار کو فروخت کر دیا گیا ہو، اُس شہر کا 91 فیصد حصہ بجلی سے محروم ہو جائے۔ جہاں جن سائن بورڈوں کو لگانے کے لئے لاکھوں روپے رشوت لی جاتی ہو وہی لوگوں کے لئے موت کا پیغام بن جائیں اور دوسرے صوبوں میں یہی کھیل جاری ہو اور جہاں تباہی کے بعد پھر سے غریبوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کے لئے ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہو۔ کیا میرے آقاؐ نہیں جانتے کہ یوٹیلٹی سٹوروں پر کس طرح کا مال کس ریٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے اور ہمارے وزیراعظم وہاں کھڑے ہو کر جب “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگواتے ہیں تو وہ خود کو پاکستانی قوم کے حالات سے کتنا بے خبر ظاہر کرتے ہیں ۔ اُنہیں کیا پتا کہ نبیؐ کے ایک غلام، خلیفۂِِ دوم نے تو کہا تھا کہ اگر نیل کے کنارے ایک کُتا بھی پیاس سے مر گیا تو عمرؓ اس کا جوابدہ ہو گا۔ یہاں روزانہ کتنے، کُتے نہیں ، اشرف المخلوقات انسان بھوک اور غربت کے ہاتھوں جان دے دیتے ہیں اور ہمارے وزیراعظم ان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کی فرمائش کر رہے ہیں ۔ جہاں کے وزیراعظم نے کسی سرکاری یوٹیلٹی سٹور سے باہر راجہ بازار تک جانے کی بھی زحمت نہ کی ہو۔ جہاں کے برسرِاقتدار اور بااثر افراد اپنی تھکاوٹ بھی چینی لڑکیوں سے دور کراتے ہوں اور جہاں کے وزیر مذہبی امور کو دین کی تبلیغ کے لئے یا تو انگلینڈ پسند ہو یا پھر تھائی لینڈ۔ میرے ماں باپ اور اولاد اُنؐ پر قربان ہوں ۔ اُنہوں نے منافقت کو کُفر سے بڑا جرم قرار دیا اور منافق کی چار نشانیاں بھی بتا دیں ۔ کیا وہؐ دیکھ نہیں رہے ہوں گے کہ ہمارے حکمرانوں میں ساری نشانیاں پوری ہو چکیں ۔ خود انتخابی مہم کے لئے نکل پڑے ہیں اور مخالفوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔… اُن کو پتا ہے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے 21 ویں آئینی ترمیم کا شوشا چھوڑ دیا ہے تاکہ انتخابات میں کام آئے۔ حالانکہ آئین میں ترمیم کر سکتے تو سب سے پہلے اپنی وردی کے حق کراتے۔ خود بیرکوں میں واپس جانے کا نام نہیں لے رہے اور وکلاء سے کہہ رہے ہیں کہ بار
  • 30. روموں میں واپس چلے جائیں ۔ خود آئین کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور قوم سے آئین پر عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔… خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنے مَولاؐکے سامنے کیا منہ لے جاؤں اور کیا درخواست کروں کہ بَددُعا دینا اُسؐ کا شعار نہیں رہا اور ہم جیسے بے کَسوں کے دستگیر بھی صرف وہی ہیں … اُن سے کچھ نہیں صرف اتنی ہی گزارش کا حوصلہ ہو رہا ہے کہ آپؐ تو خود دُعا کیا کرتے تھے کہ “مولا ہم پر ایسے حکمران مُسلطّ نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں ۔” )وَلَا تُسَلِطّْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا یَرْحَمُنَا( تو ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اے دو جہانوں کے والی! ہم بے کَسوں پر نظرِ کرم کر، ہماری غلطیوں کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہماری حالت پر رحم کر اور اپنے رب سے ہمارے لئے خاص مہربانی کی گزارش کر کہ اب کوئی راستہ سُجھائی نہیں دے رہا۔ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی، کسی دوا میں اثر نہیں رہا اور کوئی مرہم زخم کو مُندمل نہیں کر رہا… اے رَبُّ اللْعٰالمِین کے محبوب اور پیارے! خود آگے بڑھ ہمیں راستہ دکھا، ہماری تدبیریں کارگر کر، ہماری بیماریوں کو تندرستی میں بدل دے اور ہمارے زخموں کا خود مداوا بن جا۔ اور آخر میں اپنے رب سے بھی گزارش، کہ سب سہاروں کا آخری سہارا بھی وہی ہے اور ہم لوگوں کا آخری مددگار بھی وُہی رحم کر اپنے نہ اندازِ کرم کو بُھول جا ہم تجھے بُھولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بُھول جا خَلق کے راندے ہوئے دُنیا کے ٹھکرائے ہوئے آئے ہیں اب تیرے دَر پر ہاتھ پھیلائے ہوئے خوار ہیں بدکار ہیں ، ڈوبے ہوئے ذِلَّت میں ہیں کچھ بھی ہیں لیکن تِرے محبوبؐ کی اُمَّت میں ہیں حَق پَرستوں کی اگر کی تُو نے دِل جوئی نہیں طعنہ دیں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہیں د ی درں ہ ر ے ٹ رٹ ے ارو ل ی نا ان ب یاء ل ی نا جرڑ سے ھِو ک ر بام ہے مم کن ت ر ک ی ل ے ہ م ارو ن ہ یں ک ی ل ے ان سان رں ک ہ چاہ ے ل ی نی مان ب ات ی ہ ک ر
  • 31. ن ہ یں ن بی ہ یں ہ ی ان سان بام ہ م !! د و ک ہ د ی دہ،جام ک ہ ہ ر مرت ی یٔا ٹ را سر یٔا، ٹ را جر ہے س ک تا جڑ سے اغدکرں ک ب یٔا چھرا سر یٔا، ٹ را جر *………* ک و چن چن ٹ کڑے ن ا قِ ت م ہ ر ب ی ٹھے چھ اِ ے م یں دامن ن ہ یں ک ر ی م س ی اِ ک ا د ی درں
  • 32. ہ ر؟ ب ی ٹھے ل گا ے آا ک یا *………* ک ہ یں م یں ٹ کڑرں ان ہی ک ہ دای د ک بھی م یں ضجا ہے، دب ساضَوح ر ہ ت ھی ک وت ی ا توا سے ن از صد غوِی ک ی جان اں ضَمح صہ با ے *………* سے ت م ن ے رال رں دن یا ھِو دی ا ھِرڑ ک و ل ے سا وَ ی ہ م یں ضمٹری دی ب ہا ت ھی غمے جر دی ا ت رڑ غدہ وِ ک ا مہمان
  • 33. *………* دای د ہ یں وی زے ون گ یں ی ہ ک ے غس نِرں بغلرضویں درخ ان سے ضجن م یں جران ی غمست تغم ت ھے ک وت ے سجای ا ک ر غخلغرت *………* غمَ ارو ب ھرک دف تو، ن اداوی، وہے ٹ کوات ے سے غس نِرں ان تِھواؤ غچر مکھ ت ھا و مِ ب ے ک یا ڈھان چے ک ے ک ان چ ی ہ ک وت ے
  • 34. *………* ک ہ یں م یں ذغرورں ان دای د ی ا ک ا ضبرزت ت مہاوی ہے مرت ی ب ھی ہِ ضبجز ت مہاوے سے جا ر ہ ک یا غودر ن ے درں دم داد *………* ھِوت ے م یں د ھن ک ی ماب ضاا ت ھے ک ی ب ھی غوہزن ب ہت، ب ھی ت اجو ک ی م ف لا ی اں چرون گو، ہے ی آن ت ر ب چی جان ؤ
  • 35. *………* ۂو ر لغعب د ی دے، سا وَ، ی ہ ہ یں اِت ے یمت ت ر ہ رں سالغم ت ر ہ رں ٹ کڑے ٹ کڑے ی رں ف قط ہ یں ولراتے لغہر ، ہ یں چبھتے *………* غوفر ک ے ؤی بان رں ک ے ی ادرں ؟ ہے ہ رت ی ک ب زٔو ک ی دب وِ ضسیا ای ر ،ا دھیڑا بغخیہ ضاک ؟ ہے ہ رت ی ک ب ب سو بمو ی رں
  • 36. *………* جہاں م یں ہ س تی کاوضٔہح ضاا ہ یں ڈغھلتے د ی دے سا وَ، ی ہ ہے س ک تا ضمب ب دب ک ا غدے ہ و ہ یں ہ ر س ک تے و دامن سب *………* ی ہاں ہے ی ارو ب ڑھے، ہ ات ھ جر ب خ تارو ر ہ ،ا ٹھے آن کھ جر ن ہ یں اغنت ک ا درل ت ،دغھن ی اں م گو کِ ھ، ڈاک ر م یں ھٔات ہ رں *………*
  • 37. ک ی ہ س تی سے غجھ اِ ل را ک ب ہ یں ہ رت ی خال ی درک ان یں ہ یں ہ یوے غوِبت غوِبت ی اں ہ یں مرت ی سا ؤ سا ؤ ی اں *………* وِ درل ت ضاا جر ہ یں ل رگ ک چھ ہ یں ھِوت ے لغٹکاتے وِدے ک ر سا ؤ ہ و ک ر، وِب ت ہ و ہ یں ھِوت ے چڑھات ے ن یلام *………* ک و ضبھڑ لغڑ جر ہ یں ب ھی ر ہ ک چھ
  • 38. ہ یں ؤات ے ن رچ وِدے ی ہ ک ی ضٔیورں ا ٹھا ضیح ک ے ہ س تی ہ یں جات ے ا لجھا ے چاب ہ و *………* ہے ڑِت ا غون م یں درن رں ضان نغگو نغگو بغستی بغستی ضنت م یں س ی نے ک ے ھٔو بغستے ہ و وِ مات ھے ک ے وا ہ چ ل تی ہ و *………* ہ یں ضِھوتے بغھوتے ک الر ی ہ ہ یں وہ تے غجگاتے غجرت ر ہ
  • 39. ہ یں ضِھوتے ل گات ے آگ ی ہ ہ یں وہ تے ب جھاتے آگ ر ہ *………* ۂو ر لغعب ،ضدیدے سا وَ، سب ہ یں جات ے بغد م یں ب ازی ضاا ک ر ہ ات ھرں خال ی سب ا ٹھر ہ یں آت ے ب لارے سے غون ضاا لینا اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کو پھر سے جوڑ لینا انبیاء کیلئے تو ممکن ہے عام انسانوں کیلئے نہیں اور ہم کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ ہم عام انسان ہی ہیں نبی نہیں !! موتی ہو کہ شیشہ،جام کہ دُر جو ٹُوٹ گیا، سو ٹُوٹ گیا کب اَشکوں سے جُڑ سکتا ہے جو ٹُوٹ گیا، سو چُھوٹ گیا *………* تم ناحق ٹکڑے چُن چُن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو؟ *………* شاید کہ انہی ٹُکڑوں میں کہیں وہ ساغرِ دل ہے، جِس میں کبھی صد ناز سے اُترا کرتی تھی
  • 40. صہبائے غمِ جاناں کی پَری *………* پھر دنیا والوں نے تُم سے یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا جو مَے تھی بہا دی مِٹّی میں مہمان کا شَہپر توڑ دیا *………* یہ رنگیں ریزے ہیں شاید ان شوخ بَلورِیں سَ پنوں کے تَم مَست جوانی میں جِن سے خَلوَت کو سجایا کرتے تھے *………* ناداری، دفتر، بُھوک اور غَم ان سَپنوں سے ٹکراتے رہے بے رحم تھا چَومُکھ پتھراؤ یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے *………* یا شاید ان ذَرّوں میں کہیں موتی ہے تمہاری عِزّت کا وہ جس سے تمہارے عِجز پہ بھی شمشاد قدوں نے رَشک کیا *………* اِس مال کی دُھن میں پھرتے تھے تاجر بھی بہت، رَہزن بھی کئی ہے چورنگر، یاں مفلس کی گر جان بچی تو آن گئی *………* یہ ساغر، شیشے، لَعل و گُہر سالَم ہوں تو قیمت پاتے ہیں یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط چُبھتے ہیں ، لَہو رُلواتے ہیں *………* یادوں کے گریبانوں کے رَفو پر دل کی گُزر کب ہوتی ہے ؟ اِک بَخیہ اُدھیڑا، ایک سِیا یوں عمر بسر کب ہوتی ہے ؟ *………* اِس کارگہِ ہستی میں جہاں یہ ساغر، شیشے ڈَھلتے ہیں ہر شَے کا بدل مِل سکتا ہے سب دامن پُر ہوسکتے ہیں *………* جو ہاتھ بڑھے، یاور ہے یہاں جو آنکھ اُٹھے، وہ بختاور
  • 41. یاں دَھن، دولت کا اَنت نہیں ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ، مگر *………* کب لُوٹ جَھپٹ سے ہستی کی دوکانیں خالی ہوتی ہیں یاں پَربت پَربت ہیرے ہیں یاں ساگر ساگر موتی ہیں *………* کچھ لوگ ہیں جو اِس دولت پر پردے لَٹکاتے پھرتے ہیں ہر پربت کو، ہر ساگر کو نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں *………* کچھ وہ بھی ہیں جو لَڑ بِھڑ کر یہ پردے نوچ گراتے ہیں ہستی کے اُٹھائیِ گِیروں کی ہر چال اُلجھائے جاتے ہیں *………* اِن دونوں میں رَن پڑتا ہے نِت بَستی بَستی نَگر نَگر ہر بَستے گھر کے سینے میں ہر چلتی راہ کے ماتھے پر *………* یہ کالک بَھرتے پِھرتے ہیں وہ جَوت جَگاتے رہتے ہیں یہ آگ لگاتے پِھرتے ہیں وہ آگ بُجھاتے رہتے ہیں *………* سب ساغر، شِیشے، لَعل و گُہر اِس بازی میں بَد جاتے ہیں اُٹھو سب خالی ہاتھوں کو اِس رَن سے بلاوے آتے ہیں ساتھ ساتھ گوانتاناموبے اور دوسری پاکستانی اور سامراجی جیلوں میں بند بے گناہ سیاسی F2% کارکنوں اور مجاہدین آزادی کی نذر ہے% 10 تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم نِیم تاریک راہوں میں مارے گئے *………* سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے تیرے ہونٹوں کی لالی لَپکتی رہی تیری زُلفوں کی مَستی بَرستی رہی
  • 42. تیرے ہاتھوں کی چاندی دَمَکتی رہی *………* جب گُھلی تیری راہوں میں شامِ سِتَم ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم لب پہ حرفِ غَزَل، دِل میں قندیلِ غَم اپنا غم تھا گواہی تِرے حُسن کی دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے *………* نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی کس کو شکوہ ہے گرشَوق کے سلسلے ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے *………* قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علَم اور نِکلیں گے عُشّاق کے قافلے جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم مختصر کر چلے درد کے فاصلے کر چلے جن کی خاطر جہاں گِیر ہم جاں گنوا کر تِری دِلبری کا بَھرم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے ساتھ ساتھ گوانتاناموبے اور دوسری پاکستانی اور سامراجی جیلوں میں بند بے گناہ سیاسی F2% کارکنوں اور مجاہدین آزادی کی نذر ہے% 10 تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم نِیم تاریک راہوں میں مارے گئے *………* سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے تیرے ہونٹوں کی لالی لَپکتی رہی تیری زُلفوں کی مَستی بَرستی رہی تیرے ہاتھوں کی چاندی دَمَکتی رہی *………* جب گُھلی تیری راہوں میں شامِ سِتَم ہم چلے آئے، لائے جہاں تک قدم لب پہ حرفِ غَزَل، دِل میں قندیلِ غَم اپنا غم تھا گواہی تِرے حُسن کی دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے *………* نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
  • 43. کس کو شکوہ ہے گرشَوق کے سلسلے ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے *………* قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علَم اور نِکلیں گے عُشّاق کے قافلے جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم مختصر کر چلے درد کے فاصلے کر چلے جن کی خاطر جہاں گِیر ہم جاں گنوا کر تِری دِلبری کا بَھرم ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 7002 , بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی جون 51 Masood @ 12:43 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Friday, June 15, 2007 بدلتے موسموں کے رنگ اور تعلیم کی کمی حکومت میں شامل رہنے کیلئے لوگ کتنے احسان ناشناس اورطوطا چشم ہو جاتے ہیں کہ کل نواز شریف پر صدقے واری ہونے والوں کو قومی اسمبلی میں اُن کی تصویر لانے پر بھی اعتراض ہو رہا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ہر حکمران کو ظِلّ اہللّٰ گردانتے ہیں اور پھر اس کی قبر کھودنے کے لیے سب سے پہلے پھاوڑا اٹھاتے ہیں ۔ پتا نہیں اپنے سابق ہونے والي”محبوب حکمران” کی قبر کشی کے لیے اپنی کَسّی کی آواز اُن کے دل پر بھی کچھ اثر کرتی ہے یا نہیں ؟ مرزا جانِ جاناں مظہر کی بیاض “خریطۃ الجواہر”کا ایک شعر شاید اِنہی لوگوں کیلئے کہا گیا ہے صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگراست خبربگیر کہ آواز تیشہ و جگر است میاں نواز شریف اگر کانوں کے کچے نہ ہوں تو اُن جیسا ہیرا سیاستدان شاید ہی کوئی ہو۔ اُنہوں نے کس کس کو اور کیا کیا نہیں نوازا، آج جب اُن کے دستر خوان کی بچی ہوئی روٹی کھانے والے اُنہیں گالی دیتے ہیں تو شرم آ نے لگتی ہے پر کیا کریں کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ نوازشریف نے محض اپنی آنکھ کی شرم میں ایم کیو ایم کے لیڈروں سے اُس وقت صَرفِ نظر کیا جب اِن کے موجودہ سرپرست جنرل پرویزمشرف بطور آرمی چیف حکیم سعید کیس چلانے کیلئے نوازشریف انہیں فوجی عدالتیں بنانے کی تجویز دے رہے تھے اگر نوازشریف مان جاتے تو آج جو لوگ اپنے بری ہونے کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں کسی کرنل کے ہاتھوں پھانسی پاکر اولا تو دوسری دنیا کو سدھار چکے ہوتے اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو اب تک کسی جیل کی کال کوٹھڑی میں چَکّیِ پِیسنا ان کا مقدر ٹھہرتا کہ ہماری فوج کی بنیادی شان یہی ہے کہ جو حکم ملے اس پر عمل کرتی ہے، فوجی دماغ استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے لگے تو ڈسپلن کی دھجیاں اڑ جائیں گو پاکستان میں اہم فوجی پوسٹوں کے لئے قابلیت کا معیار سخت ہے مگر دنیا بھر میں رواج ہے کہ فوج میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو تعلیم میں سب سے کمزور اور زیادہ بحث و تمحیص کے عادی نہ ہوں پاکستان کی کسی بھی گوشت
  • 44. مارکیٹ میں چلے جائیں آپ سِری پائے کے شوقین ہیں تو قصاب آپ سے پوچھے گا کہ سِری”سادہ” لینی ہے یا “فوجی” کہ اُس سِری میں سے وہ مغز نکال کر الگ بیچتے ہیں اور نتیجتا سستی ہوتی ہي… معروف دانش ور اور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کی صاحبزادی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر اعتراض بھی دراصل پڑھنے لکھنے کے اِسی شوق کی Food for کمی کے باعث ہے کیونکہ یہ کتاب بنیادی طور پر محققین اور ریسرچ سکالرز کیلئے ہے نہ کسی پر اعتراض ہے نہ کسی پر تنقید۔ thought بات دوسری طرف نکل گئی ذکر ہر حکومت کے آخری وقت میں اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر نئی حکومت میں شامل ہونے والوں کا ہورہا تھا لیکن اب کی بار جس طرح چیف جسٹس کے حوالے سے وکلاء کی تحریک ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے ،سیاسی کارکن بھی حکمرانوں کی توقعات اور عزائم کو پاش پاش کئے جارہے ہیں 01 سینٹی گریڈ کی گرمی اور جیل… سیاسی کارکنوں سے مطالبہ صرف اتنا کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ )ق( کے فارم بھر دیں لیکن ابھی تک کسی نے نہیں بھرا آگے کیا ہوگا ہم نہیں جانتے لیکن جس نے بھی گرفتاریوں کا فیصلہ کیا ہے اس نے خود اپنے لئے اچھا نہیں کیا، کہ جاتے جاتے لوگوں پر مہربانی کرنی چاہئے ظلم نہیں ۔ انصاف کرنا چاہئے زیادتی نہیں ، آپ لوگوں کو استعمال کی چیزیں سَستی نہیں دے سکتے نہ دیں ایک میٹھا بول تو بول ہی سکتے ہیں دِلبری، پیار، لُطف ہمدردی کام کی کوئی شَے تو سَستی کر ملک کے پہلے آئین شکن آمر کے پوتے اور آخری آئین شکن کے “چھوٹے” وزیر خزانہ عمر ایوب خان اگر لوگوں کے یوٹیلٹی سٹورز پر لائنیں نہ بنانے پر چِیں بَجبِیں ہوں تو کون اعتراض کرے گا لیکن چودھری پرویزالٰہی کہیں کہ غربت 21 فیصد کم ہوگئی ہے تو یہ ان کو زیب نہیں دیتا غربت سے امارت کی آخر تک پہنچنے کے باوصف انہیں یقینا لوگوں کی حالت زار کا پتا ہونا چاہئے ورنہ لوگ تو یہی کہیں گے کہ ہم ایسے سادہ دلوں کی نیازمندی سے بُتوں نے کی ہیں جہاں میں خُدائیاں کیا کیا؟ اصل میں ہم لوگ، خاص طور پر پنجابی اس بات کے عادی ہیں کہ حکمران کو اندازہ ہی نہیں ہونے دیتے کہ اسکے پاؤں زمین پر نہیں خلاء میں ہیں اوراس کے ہاتھ میں سونا نہیں ریت ہے جو پھسلتی جارہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ جس طرح ہماری مسجد وں سے قبرستان جانے والی چارپائیوں کے پاؤں کی طرف لکھا ہوتا ہے کہ “دارا جب مارا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ کفن سے خالی تھے۔” بالکل اسی طرح جب ہمارے حکمرانوں کا آخری وقت آتا ہے تو ان کے دونوں ہاتھ بھی بالکل خالی ہوتے ہیں نہ ان کے آگے کوئی “ہٹو بچو” کی صدائیں دینے والا ہوتا ہے نہ پیچھے، اور مڑ کر دیکھیں تو حفیظ جالندھری والی بات ہوتی ہے دیکھا جو تِیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی چیف جسٹس کیخلاف بیان حلفی دے کر میجر )ریٹائرڈ( ضیاء الحسن تو آئی جی سندھ تک لگ گئے لیکن بے چارا میجر )ریٹائرڈ( بلال جھوٹا بیان دینے کے باوجود ابھی تک غیرملکی پوسٹنگ کیلئے خوار ہورہا ہے اگرچہ پنجاب کے بعد سندھ کا آئی جی لگنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی وزیراعظم وزیر ماحولیات بننے پر آمادہ ہوجائے لیکن نوکری پیشہ لوگوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں یہ الگ بات کہ اپنی مجبوریوں کو سامنے رکھنے کے بجائے اگروہ اپنا اور قوم کا مستقبل سامنے رکھیں تو سب کا بھلا ہو… پھر بھی کچھ لوگوں کی بڑی ہمت ہوتی ہے کہ منہ کھول کر مانگ لیتے ہیں حالانکہ اگر خاموش رہیں تو شاید زیادہ نوازے جائیں فَیض نَظر کے واسطے ضَبط سُخن چاہئے حرفِ پریشاں مت کہہ اہلِ نَظر کے حضور لیکن اب چونکہ “اہلِ نَظر” بھی بدل گئے ہیں اور “فَیض نَظر” کے متلاشی بھی سو جو کچھ ہورہا ہے اسے ہونے دیں کہ ہم سب کتنے بھی گنہگار کیوں نہ ہوں یہ عقیدہ ضرور رکھتے
  • 45. ہیں کہ اللہ ہمارا انجام اچھا ہی کرے گا۔ 7002 , اب شورش کاشمیری کی تین نظمیں جون 55 Masood @ 12:49 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Monday, June 11, 2007 اب شورش کاشمیری کی تین نظمیں حبیب جالب کی تین نظموں کی “جناح “میں اشاعت کے بعدقارئین کااصرارتھا کہ شورش کاشمیر ی کا بھی ایسا ہی کلام اُن کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ حبیب جالب اورشورش کاشمیر ی ہم عصر تھے ۔حبیب جالب ایک سیاسی کارکن اوربے خوف شاعر تھے توشورش کاشمیر ی ایک نامور سیاسی کارکن ،ایک شُعلہ بیاں خطیب ،ایک زور دار شاعر اور ایک بے باک صحافی ونابغہ تھے۔جالب نے عوامی امنگوں کی ترجمانی کے جُر م میں پاکستانی حکمرانوں کی جیل کاٹی تو شو رش کا شمیری پاکستان میں کوئی چارسال قید میں گزارنے کے ساتھ ساتھ دس سال انگریز دور میں بھی قیدوبندکے مصائب سے گزرے۔دونوں الگ الگ مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔جالب کٹّر “سوشلسٹ” اور شورش کا شمیری شدت سے “اسلام پسند” کہ جنر ل یحییٰ خاں کے دور میں یہ اصطلاحیں عام استعمال ہوتی تھیں ،لیکن نظریاتی اختلا فات کے باوجود پاکستان اوراس کے لیے دونوں کے دل بھی ایک تھے اور زبانیں بھی۔ قارئین کی فرمائش پر آغاشورش کاشمیری کے تین رشحات قلمِ ان کی نذر ہیں ۔پہلی نظم کاعنوان “مسلمان “ہے جوعام مسلمانوں کے لیے طرز عمل اور فکر کی غما زہے، دوسری نظم “ہم اہل قلم کیا ہیں ؟”حکومتی دہلیزوں پر جُبہّ سائی کرنے والے صحافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے ۔جبکہ تیسری نظم “دعائے نیمِ شَبی “بنیادی طور پر عام شہریوں خصوصاًسیاسی کارکنوں او ر صحافیوں کی ایک آرزو کااظہار ہے، آئیے یہ نظمیں پڑھیں اوراپنے احوال پر غورکریں مُسلمان سوچتا ہوں کہ اُسی قوم کے وارث ہم ہیں جس نے اَولادِ پیمبرؐ کا تماشا دیکھا جس نے سَادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں جس نے لَختِ دلِ حیدرؓ کو تڑپتا دیکھا برسرِ عام سکینہؓ کی نقابیں اُلٹیں لشکر حیدرِ کرارؓ کو لُٹتا دیکھا اُمِ کلثومؓ کے چہرے پہ طمانچے مارے شام میں زینبؓوصُغرٰیٰؓ کا تماشا دیکھا شہِ کونینؓ کی بیٹی کا جگر چاک کیا سِبطِ پیغمبر اسلامؐ کا لاشا دیکھا دیدۂِ قاسمؓ و عباسؓ کے آنسو لُوٹے قلب پر عابدِؓ بیمار کے چَرکا دیکھا توڑ کر اصغرؓواکبرؓ کی رگوں پر خنجر جورِدوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا بھائی کی نعش سے ہمشیر لِپٹ کر روئی
  • 46. فوج کے سامنے شبیرؓ کو تنہا دیکھا پھاڑ کر گُنبدِخضریٰ کے مکیں کا پرچم عرش سے فرش تلک حَشر کا نَقشا دیکھا قلب اسلام میں صَدمات کے خنجر بھونکے کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا اُبوسفیان کے پوتے کی غلامی کرلی خود فروشوں کو دِنائت سے پنپتا دیکھا اے مری قوم! ترے حُسنِ کمالات کی خیر تُونے جوکچھ بھی دکھایا وُہی نقشا دیکھا یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے کوئی تیرا بھی خدا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے ! ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ اَلفاظ کا جھگڑا ہیں ، بے جوڑ سراپا ہیں بجتا ہوا ڈنکا ہیں ، ہر دیگ کا چمچا ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ مشہور صحافی ہیں ، عنوانِ معافی ہیں شاہانہ قصیدوں کے، بے ربط قوافی ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ چلتے ہوئے لَٹّو ہیں ، بے زین کے ٹَٹّو ہیں اُسلوب نگارش کے، منہ زور نِکھٹّو ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ یہ شکل یہ صورت ہے، سینوں میں کدورت ہے آنکھوں میں حیا کیسی؟ پیسے کی ضرورت ہے ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ اپنا ہی بَھرم لے کر، اپنا ہی قلم لے کر کہتے ہیں …کہ لکھتے ہیں ، انسان کا غم لے کر ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ تابع ہیں وزیروں کے، خادم ہیں امیروں کے قاتل ہیں اَسیروں کے، دشمن ہیں فقیروں کے ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ اَوصاف سے عاری ہیں ، نُوری ہیں نہ ناری ہیں طاقت کے پُجاری ہیں ، لفظوں کے مداری ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ تصویرِ زمانہ ہیں ، بے رنگ فسانہ ہیں پیشہ ہی کچھ ایسا ہے، ہر اِک کا نشانہ ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ رَہ رَہ کے ابھرتے ہیں ، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں کہنے کی جو باتیں ہیں ، کہتے ہوئے ڈرتے ہیں ہم اہلِ قلم کیا ہیں ؟ بے تیغ و سناں جائیں ، باآہ و فغاں جائیں اس سوچ میں غلطاں ہیں ، جائیں تو کہاں جائیں ؟ دُعائے نِیم شَبی زور بیان و قوّتِ اظہار چھین لے مجھ سے مِرے خدا، مرِے افکار چھین لے
  • 47. کچھ بِجلیاں اُتار، قضا کے لباس میں تاج و کُلاہ و جبہّ و دستار چھین لے عِفّت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر نظاّرہ ہائے گیسو و رُخسار چھین لے شاہوں کو اُن کے غرّۂِِ بے جا کی دے سزا محلوں سے اُن کی رفعت کہسار چھین لے میں اور پڑھوں قصیدۂِ ارباب اقتدار میرے قلم سے جُرأِت رفتار چھین لے اربابِ اختیار کی جاگیر ضبط کر یا غم زدوں سے نعرۂِ پَیکار چھین لے 7002 , دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا جون 8 Masood @ 12:35 pm — درجہ بند بتحت: اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا,سیاست اطہر مسعود کا لم ۔۔۔ دیدہ بینا, ,politics ,Pakistan ,Journalism ,Athar Masood Column :Tags سیاست Friday, June 08, 2007 دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا اِسی باعث تو قَتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے اکیلے پھر رہے ہو یُوسفِ بے کارواں ہوکر صدر پرویز یقینا حقیقت پسند ہیں کہ انہیں اپنی تنہائی کا اندازہ بھی ہے اور یقین بھی، وہ اندر سے کتنے ڈرے ہوئے اور پریشان ہیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے اُن کا خطاب ہی کافی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ صدر مملکت سخت ناراض بھی تھے اور غصے میں بھی وہ گِلہ مند بھی تھے اور گلوگیر بھی۔انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ “حکومتی اتحاد کے لوگوں نے مشکل میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا۔ افغان پالیسی میں تبدیلی کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر قدیر کا، اکبر بگٹی کا مسئلہ ہو یا عدالتی بحران اور 21 مئی کو کراچی میں ہونے والے واقعات کا …آپ لوگوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا” وہ کہہ رہے تھے “ملک بھر میں حکمران اتحاد کے ایک ہزار سے زیادہ وزیر، مشیر، پارلیمانی سیکرٹری اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین موجود ہیں لیکن میرے دفاع میں 21 لوگ بھی نظر نہیں آئے۔ البتہ یہ لوگ اپنی نجی محفلوں میں مجھ پر تنقید کرتے رہے۔ آپ لوگ اعصاب کی جنگ ہار چکے ہیں۔ میڈیا کے معاملہ میں آپ کچھ نہیں کرسکے اور یہ کام مجھے خود کرنا پڑا ہے۔ اِسی لئے پیمرا آرڈیننس کو “دانت” دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ لوگ )میڈیا والے( مجھے دیوار سے لگا رہے تھے۔ )جب یہ دانت کاٹیں گے تو( قانون کی حکمرانی بحال ہوگی… آپ لوگ بتائیں آپ کا کوئی رول ہے یا نہیں کیونکہ میں پہلی بار پریشان ہوں۔ آپ لوگ نہیں جانتے مجھے تنہا کردیا گیا تو ملک کا کیا بنے گا؟ اور آپ کا بھی” پنجاب کے سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور سرکار میں بیٹھے شاید واحد شعر گو اور شعر شناس شعیب بن عزیز کا یہ شعر بچہ بچہ جانتا ہے یقیناً صدر مشرف نے بھی پڑھ یا سن رکھا ہوگا اَب اُداس پھرتے ہو “گرمیوں” کی شاموں میں اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں “سردیوں کی شاموں کو گرمیوں کی شاموں” میں حالات اور موجودہ گرمی کے حوالے سے
  • 48. تبدیل کیا ہے کہ جوں جوں گرمی بڑھ رہی ہے مظاہرین کی گرمی اور تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ گرفتاریاں اور میڈیا پر پابندیاں ان کی تعداد کو کم نہیں کر پارہیں بلکہ اضافہ کا باعث بن رہی ہیں۔ صدر صاحب نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا ہے اس پر کسی مزید تبصرے کی ضرورت نہیں کہ یہاں “عیاں راچہ بیاں؟” تاہم کیا جنرل صاحب کو اپنے ساتھیوں کے ماضی کا پتہ نہیں یا ان لوگوں کی کایا کلپ ہوگئی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔ خواجہ ناظم الدین، میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، محمد خان جونیجو، میاں نوازشریف سب کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کون تھے۔ یہی یا ان کے آباؤ اَجداد! ان سے صدر مشرف کس طرح کوئی دوسری توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس کا جواب خود اُنہی کے پاس ہوگا۔ کچھ لوگوں کے مطابق پیمرا آرڈیننس پر عملدرآمد معطل کرکے نافذ کرنے والوں نے مذاکرات کا دروازہ کھولا ہے۔ کچھ کے مطابق انہوں نے تُھوک کے چاٹا ہے، کچھ کے مطابق یہ سجدۂِِ سہو ہے اور کچھ کے مطابق انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ ان تبصروں کی حقیقت تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ بات طے ہے کہ غلطی کا احساس بالکل نہیں ہوا۔ ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ پریس کیلئے بھی پیمرا آرڈیننس کی طرز کا نیا قانون بنانے کی تیاریاں کی Both optimists and pessimists contribute to our جارہی ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔ اب حکمرانوں society the optimists invent airoplane and the passimists the parachute کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہوائی جہاز ایجاد کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پیراشوٹ بنانے والوں میں؟ قومی اسمبلی میں جوکچھ ہوا وہ کم سے کم لفظوں میں شرمناک تھا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا اخبار نویسوں نے غُنڈہ گردی کی یا اس ہنگامے کو حکومتی ایجنسیوں نے بڑھاوا دیا کیا یہ سب “کسی” خفیہ ہاتھ کی پلاننگ کا نتیجہ تو نہیں؟…یوں تو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صحافیوں کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی کہ ہمارے عقیدے کے مطابق جو ظُلم پہ لعنت نہ کرے آپ لَعِیں ہے جو جَبر کا مُنکر نہیں وہ مُنکر دِیں ہے لیکن نہ جانے بار بار دل میں یہ خیال کیوں آرہا ہے کہ کہیں کچھ اخبار نویس جانے انجانے میں حکومت کے پھیلائے ہوئے دام میں تو نہیں آتے جارہے۔ اخبار نویس کی شان اس کا مُکّہ،آواز کی بلندی یا جسم کی قوّت نہیں اُس کا قلم ہوتا ہے اور جب حکمرانوں کا احوال یہ ہو کہ شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں کم نَظر روشنی سے ڈرتے ہوں تو اُن سے کسی بھی اقدام یا کارروائی کی توقع رکھنی چاہئے یہی وہ مرحلہ ہے جو احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے کہ بقول عبدالحمید عدم اَے عدم احتیاط لازم ہے لوگ مُنکر نکیر ہوتے ہیں غیر ضروری مباحثوناور تنازعات میں اُلجھ کر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر پابندیاں لگوالینا دانش مندی نہیں بے وقوفی کہلائے گا۔ ابھی تو “نسخہ ہائے وفا کی تالیف” باقی ہے کہ “مجموعہ خیال” ابھی فرد فرد ہے۔” یوں بھی کسی کا نقطۂِِ نظر جو بھی ہو ہمارے خیال میں پارلیمنٹ ملک کا مقدس ترین اور اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ عدلیہ اور فوج سے بھی بالاتر۔ پارلیمنٹ بے شک ربڑ سٹمپ ہو وہ عوامی حاکمیت کا نشان ہے۔ اس کی توہین کرنا یا توہین کی کسی سازش میں شامل ہونا ہمیں بالکل زیب نہیں دیتا اور اگر اس غلطی پر پارلیمنٹ سے معذرت بھی کرلی جائے تو کسی کی ناک نیچی نہیں ہوگی کہ ہم عوام کی حکمرانی کے آگے سر جھکانے والے لوگ ہیں۔ ضِد اور غُنڈہ گردی حکمرانوں اوران کے “غبی ڈفر” جیسے وزیروں کو ہی مبارک ہو۔ یا پھر شیخ رشید جیسے سیاسی دانشوروں کو جو “کالے کوٹ” “کالے برقعے” اور “کالے کیمرے” کو روکنے کی بات کررہے ہیں۔ کاش وہ “کالے منہ” والے لوگوں کو روکنے کی بات کرتے نہ کہ “کالے قانون” بنانے کی حمایت کرتي… ہم اخبار نویسوں کو اپنا کام کرنا
  • 49. ہے اور کرتے ہی جانا ہے کسی رکاوٹ یا کسی شرارت سے ہمیں اپنی منزل کھوٹی نہیں کرنی، اور منزل کیا ہے؟ آزادیِٔ صحافت، مکمل آزادیِٔ صحافت… کیونکہ آج کل تو حالت یہ ہے نہیں وُقعت کسی اہلِ نظر کی عبادت ہورہی ہے سِیم و زَر کی خوشامد کا صِلہ تَمغائے خِدمت خوشامد سے ملے سِفلوں کو عِزّت خوشامد جو کرے فَ نکار ہے وہ جو سچ بولے یہاں غدّار ہے وہ اِس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ تاہم صدر کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل )ریٹائرڈ( جاوید حامد، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر )ریٹائرڈ( اعجاز شاہ کے عدالت میں داخل کئے حلف نامے سامنے پڑے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا جواب ابھی نہیں آیا۔ بیانات میں اسمبلیاں توڑنے اور نگران حکومت کا سربراہ بننے کے الزامات بظاہر نئے لگتے لیکن بعداز مرگ واویلہ ہیں کہ باقی ساری باتیں گھسی پٹی ہیں۔ ان حلف ناموں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو کم از کم ایک سو سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں تاہم صرف ایک سوال جس کا جواب کسی نے نہیں دیا وہ یہ کہ جب جنرل پرویزمشرف اور چیف جسٹس افتخار چودھری کی ملاقات ہورہی تھی تو یہ سب لوگ وہاں کیا کررہے تھے؟کیا کوئی تحقیقات ہورہی تھیں؟ یا کچہری لگی ہوئی تھی؟ اور اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس خود آئے انہیں بلوایا نہیں گیا اگرچہ آنا یا بلوایا جانا کوئی اہم بات نہیں پھر بھی جب سرکاری حکم کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ یوں )Called( نامہ جاری کیا گیا تو اس میں انہیں بلوائے جانے بھی کسی باس کے پرسنل سٹاف کا اُس کے حق میں بیان اور لاپتہ افراد کے متعلق خفیہ ایجنسیوں کے سپریم کورٹ میں بیانات کے بعد ان کے بیانات کی وُقعت اور حقیقت کتنی قابل یقین رہتی ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں؟ دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردا تیرا سے ا داورں ک ے ان ک ہ دی ں ہن ن ہ یں ک م ہ ن گامہ م یں ا سم ب لی اِک س تان ی وہ ا ارو ہ ر أ زی اد ہ ک ا دم یوی دروش ب قرب ت ر م یڈی ا ت مہ یں ی ہ ہ ر وہے ورک لم ت م وہے ی اد
  • 50. ل ہر سے غسفینرں ک ہ ہ یں رہ اں ہ م أ ٹ کِے مم کن ن ہ یں وکنا ک ا ف کو دبرضتح ! صا بِ ل ہر سے غجبینرں ک ی ی اورں دہو أ ٹ کِے غلم ر لغرح سب ن ہ یں را ف د یخ ہ یں ا نِے یِدا ہے ک یا ضایثاو ہنگامضہَح ن ے ہ م ک و اٹ ھا ت مہ ید ک ی درو ن ے ضاک ن ے ہ م یِدا ہے ضکیا اغفکاو بالضمح ن یا ضاک
  • 51. دغبنے سے خرف ک سی لم کاو ہ م ن ہ یں ک ے ک وت ے غوسن ر دغاو وِروضشح ی ہاں ہ م ! ہ یں ہ یں جات ے چ لے زن ج یو اِب ہ طوف ک ی قتغبغمح س فو ضمینا ے سے خرن ہ ی ا نِے ہ یں بغھوتے ک ی ب مو اغب ، ہ یں ل رگ غسڑی ہ م م یں م نزب ا ا فغغاں ر آ ہ جہاں ہے ھِ ل تی خرب وہے ی اد
  • 52. ضچیوا ضجگو ک ا آمو ر جاب و ہ و ن ے ہ م ہے بغیاں طوضزح ی ہ ہے دھاو ک ی ت یغ وہے ی اد لم ۓ دب اؤ ب ھی ضجتنا آپ ! ۓ ب رل یں ب لم ک ا ص اِف ت ب ہو اِب ہ م ! ۓ ک ھرل یں نہ دیں کہ ان کے اشاروں سے اسمبلی میں ہنگامہ کم نہیں زیادہ ہوگا اور رہا پاکستانی میڈیا تو بقول شورش کاشمیری تم قلم روک رہے ہو یہ تمہیں یاد رہے ہم وہاں ہیں کہ سَفینوں سے لہو ٹپکے گا دعوتِ فکر کا رُکنا نہیں ممکن صاحب! شہر یاروں کی جَبینوں سے لہو ٹپکے گا شیخ واقف نہیں سب لَوح و قَلم اپنے ہیں ہم نے ہنگامۂِِ اِیثار کیا ہے پیدا اِک نئے دور کی تمہید اٹھا کر ہم نے اِک نیا عالمِ اَفکار کِیا ہے پیدا
  • 53. ہم قلمکار کسی خوف سے دَبنے کے نہیں ہم یہاں پرورشِ دَار و رَسن کرتے ہیں ! پابہ زنجیر چلے جاتے ہیں مَقتَل کی طرف اپنے ہی خون سے مِینائے سفر بَھرتے ہیں ہم سَڑی لوگ ہیں ، اَب عُمر کی اُس منزل میں خُوب پھلتی ہے جہاں آہ و فَغاں یاد رہے ہم نے ہر جابر و آمر کا جِگر چِیرا ہے تیغ کی دھار ہے یہ طرزِ بَیاں یاد رہے آپ جِتنا بھی دباؤ گے قلم بولیں گے ! ہم بہرحال صحافت کا علم کھولیں گے ! کِرم ترں م قدمے ی ہ ک یرن کہ ہ یں جات ے ہ ر خ تم ہ ی جات ے ک ے صدا ت وِضفح ے ب ھرب سب ارو ل کھ نا ب غارت ہ ی ہماوا ک ام یٔا وہ ل کھ نا
  • 54. ن ہ ک ر ظ لمت وہ یں ک ہ تے کِ ھ ل کھ نا ظ لمت بغہ ! یِاوے ن ہ یں س ی کھا ن ے ہ م ل کھ نا اجازت ک ی س تا ش ن ہ ک ی ص لے ن ہ ک ر ہ م ت م نا ت ر ہماوی ک ے ل ر رٔں م یں قِ ل کھ نا بادت ہے ک ا غدہ ب ھی ک ے ب ھرب جر ن ے ہ م ل کھا ن ہ ص ید ہ ب درل ت ک ی خرب ی ضاسی آی ا دا د ل کھ نا
  • 55. ت سِ ین ضموی ک ے ب ڑھ سے اا یٔ؟ ہ ر ک یا ب ھلا صاضِبح ، ضموا ہ یں ن اخرش ک ے ڑِھ ل کھ نا ث ورت غدہ ک ہ یں ہ یں ک ہ تے ب ھی ک چھ جال ب مصا بِ ک ے ص روت ضاسی ا نِا ی ہی وک ھ نا ونگ ل کھ نا کیونکہ یہ مقدمے حکومتوں کے جاتے ہی ختم ہو جاتے ہیں اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا لاکھ کہتے رہیں ظُلمت کو نہ ظُلمت لکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے! بَہ اجازت لکھنا نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا ہم نے جو بھول کے بھی شَہ کا قصیدہ نہ لکھا شائد آیا اِسی خوبی کی بدولت لکھنا
  • 56. اس سے بڑھ کے مِری تحسین بھلا کیا ہو گی؟ پڑھ کے ناخوش ہیں مِرا ، صاحب ثروت لکھنا کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شَہ کے مصاحب جالب رنگ رکھنا یہی اپنا اِسی صوُرت لکھنا آوہ ا ن ظو“ ہ وا ہ وا“ سب ب ھی ن ظم ای ر ک ی جال ب م یں ہے۔آخو ثغبات ک ر ظ لُمات غدہضوح“ ہے ب نران “ ن ہ یں !ف وزن در ک ے ک ہن نظاضمح اغے بغندر ضجگو ک ے ت او دضبح اغے ن ہ یں ت ر جارداں ت او دضبح ی ہ ہ ي رال ی جان ے ت او دضبح ی ہ اف سان ے ک ے ضتیو یٔ تغابغغکے ہے رال ی مسکوانے نغر صببحض
  • 57. ! رٔ در ضجگو ک ے ت او دضبح اغے !ک ر در ضستم د دمنر س وِ اغے أ چم کے آف تاب ک ا صبب جادر ک ا جہب أ جا ے ٹ را م یں دی اورں ان یٔ جا ے ھِ یب س ر ہ و ور د نی ک ی دان ش ر ب لم !ضنگہبانر ک ے ت او دضبح اے !غوِرانر ک ے غزیاں بہضدح دمعحض !خران ر ثغنا ک ے ظ لمات دہضوح ن ہ یں ث بات ک ر ظ لمات دہضوح ل ر ہغنا وِ صبب دی و ک چھ ارو
  • 58. ب ات ک ر ی …دی و ک چھ ارو ! ن ہ یں بھی سب “ہرا ہرا “نظر آرہا ہے۔آخر میں جالب کی ایک نظم عنوان ہے “شَہرِ ظُلْمات کو ثَبات نہیں “ اَے نظامِ کُہن کے فرزندو! اَے شب تار کے جِگر بَندو یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں یہ شبِ تار جانے والی ہي تَابَکَے تِیرگی کے افسانے صُبح نَو مُسکرانے والی ہے اَے شب تار کے جِگر گوشو! اَے سحر دُشمنو سِتم کوشو! صُبح کا آفتاب چمکے گا ٹوٹ جائے گا جُہل کا جادو پھیل جائے گی ان دیاروں میں علم و دانش کی روشنی ہر سُو اے شبِ تار کے نِگہبانو! شمع عہدِ زَیاں کے پَروانو! شہرِ ظلمات کے ثَنا خوانو! شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں اور کچھ دیر صُبح پر ہَنس لو اور کچھ دیر… کوئی بات نہیں ! بھی پڑھ لیں ۔ کل ہو گیا مرکز کی ہدایات پہ “سَن” ضبط گل ضَبط، صبا ضَبط، روِش ضَبط، چَمن ضَبط ہوتے تھے رضا جوئیِ انگریز کی خاطر چالیس برس پہلے قَلم ضَبط، سُخَن ضَبط اُس وقت پرایوں کا زمانہ تھا گِلہ کیا؟