حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی متضرعانہ دعائیںmuzaffertahir9
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی متضرعانہ دعائیں
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
’’دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں ۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعاکرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو‘‘
خود آپ کو اپنی دعاؤں میں جوش حاصل تھا چنانچہ فرماتے ہیں:
’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندرمیں ایک جوش ہوتاہے‘‘۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۲۷)
دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا عنوان تھا۔ آ پ نے اپنی جماعت کو بھی دعائیں کرنا سکھایا اور اس کی حقیقت سمجھا ئی اور فرمایا کہ دعا جنتر منتر کی طرح الفاظ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے اور اس میں رقّت اور اضطراب پیدا کرنا چاہئے
Shi'ism is not hostage to Juridical system.It is intellectual tradition of the Shi'ite Imams, that beholds justice in the nature of every thing as well as of God.So its philosophical authority can not be usurped by any Jurist on the pretence of Imam's absence.
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی متضرعانہ دعائیںmuzaffertahir9
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی متضرعانہ دعائیں
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
’’دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں ۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعاکرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو‘‘
خود آپ کو اپنی دعاؤں میں جوش حاصل تھا چنانچہ فرماتے ہیں:
’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندرمیں ایک جوش ہوتاہے‘‘۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۲۷)
دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا عنوان تھا۔ آ پ نے اپنی جماعت کو بھی دعائیں کرنا سکھایا اور اس کی حقیقت سمجھا ئی اور فرمایا کہ دعا جنتر منتر کی طرح الفاظ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے اور اس میں رقّت اور اضطراب پیدا کرنا چاہئے
Shi'ism is not hostage to Juridical system.It is intellectual tradition of the Shi'ite Imams, that beholds justice in the nature of every thing as well as of God.So its philosophical authority can not be usurped by any Jurist on the pretence of Imam's absence.
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضmuzaffertahir9
امّتِ محمدیہ کے کئی بزرگوں ( جیسا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ،صوفی بزرگ شیخ عبد العزیز ،مشہور صوفی و ادیب خواجہ حسن نظامی ،حضرت شاہ محمد حسین صابری ) نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کا تعین بھی کردیا تھا جو کہ چودھویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعویٰ سے قبل پوری ہونی تھیں، پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مسیح اور مہدی کا انتظار ہو رہا تھا۔ عوام سے لے کر علماء تک سبھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، بلاتفریق امت محمدیہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر احادیث مبارکہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺنے امتِ محمدیہ کا کھینچا وہ من وعن پورا ہو رہا تھا۔ مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ،ہزاروں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے اور اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا تھا۔مسجدیں دھرم شالہ بنا دی گئی تھیں۔ایسے حالات میں خدا تعا لیٰ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قا دیا ن سے ایک جوا ں مرد کو کھڑا کیا جوہر یک رنگ میں سرکارِ دوعالم ﷺکی پیشگو ئیو ں کا مصدا ق تھا۔
یہ مبارک ہستی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کی غرض یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ک
‘‘ مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔
اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔’’
نبی اللہ ، رسول ، محمد اور احمد- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اورگس...muzaffertahir9
’’خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمد مصطفی ﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمّد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمّد کی چیز محمّد کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ ‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۲۱۶)
اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بروزی صورت میں میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا ہے ۔ جبکہ صاحبِ بروز اور اصل محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ میرا نفس درمیان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک بروز ہے تو دوسرا صاحبِ بروز ۔ یعنی اصل تو محمد مصطفی ﷺ ہی ہیں۔ میری حیثیت تو محض بروزی ہے۔ پس اس میں نہ تو حضرت محمّد مصطفی ﷺ سے مقام ومرتبہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے نہ ہی بعینہ حضرت محمّد مصطفی ﷺ ہونے کا مفہوم ۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحبِ بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحبِ بروز میں سے نکلا ہوا ہو۔ ‘‘ (صفحہ ۲۱۳،ایضاً)
پس اس لحاظ سے بروز کا مقام صاحبِ بروز کے سامنے شاگرد یا بیٹے کا قرار پاتا ہے نہ یہ کہ وہ دونوں ہم مرتبہ اور ہم مقام ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اپنے اسی مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں فرمایا ہے
’’ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شاملِ حال ہے۔ یعنی محمّد مصطفی ﷺ ۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۱۱)
Sultan ul aolia Hazra Khawaja Muhammad Zaman Siddiqui Naqshbandi (Luari Sharif)
https://www.facebook.com/muhammadabid.qadri
Special thanks to Mr. Muhammad Bakhsh for his cooperation
https://www.facebook.com/ahmedbux.ahmedbux.96
شهر شوال شهر مبارك، وهو شهر طاعة، فهو بداية أشهر الحج، وفيه صيام الست، وقضاء الاعتكاف لمن فاته، وهو شهر نكاح وإعفاف بالحلال. يشرع للمسلم صيام ستة أيام من شوال بعد رمضان، فهو سنة مستحبة غير واجبة، فضلها عظيم، وأجرها كبير. من صام ستة أيام من شوال بعد رمضان كتب له أجر صيام سنة كاملة.
New Edited and updated slides.
Ruku by Ruku pointers.
Flow charts and action pointers added.
Self Evaluation chart added
Virtues and duas and much more!
New Edited and updated slides.
Ruku by Ruku pointers.
Flow charts and action pointers added.
Self Evaluation chart added
Virtues and duas and much more!
1- سيأتي زمان تكثر فيه الفتوحات ويعم الرخاء في معظم أرجاء المعمورة ، ويقدر الله أن يبقى في مدينة الرسول شدة وقحط وخوف ، وذلك ابتلاء وامتحان ، فيتسابق ضعاف الإيمان وأصحاب الشرور إلى أماكن الترف والرخاء حيث الفتوحات ، ولا يبقى في المدينة إلا الأتقياء الصالحون ، الصابرون على موعود الله –تعالى - ورسوله . ويكون ذلك إيذانا بقرب الساعة.
2- تفاوتت أقوال العلماء عن الزمن الذي تنفي فيه المدينة المنورة شرارها .
3- من خلال أقوال العلماء الكثيرة يتضح لنا أن المدينة -حرسها الله- ستبقى باقية عامرة حتى أيام الدجال ونزول عيسى –عليه السلام- . وأما خروج الناس من المدينة المنورة بالكلية فإن هذا سيكون في آخر الزمان عند خروج النار التي تحشر الناس وتسوقهم من كل جانب إلى محلة الحشر (الشام) ، وهذا آخر أشراط الساعة وأول العلامات الدالة على قيام الساعة ، ويومها تصبح المدينة غير محمية ولا ممتنعة فتنتابها السباع والوحوش بسبب خلوها من الساكنين بها .
4- خراب يثرب وهي المدينة المنورة هو رغبة الناس عن سكناها وتوقف التوسع في مبانيها .
5- مما أقدر الله عليه الدجال ليكون فتنة للناس ، سرعة انتقاله في الأرض ، وأنه سيجول في أقطار الأرض يدعو إلى الكفر والضلال ، ولكن الله سيحول بينه وبين أن يدخل مكة والمدينة شرفهما الله .
6- من فتن الدجال العظيمة قتله للشاب المؤمن الذي يرفض بما عنده من العلم والعقيدة الراسخة –أن يعترف بألوهية المسيح الدجال ، غير مبال بما يلحقه من الأذى والقتل في سيبل الله ، وحتى بعد أن يحييه عدو الله الكذاب ، ويهدده بالقتل ثانية إن لم يؤمن به ، فيقول له باستعلاء وإيمان صادق :
( ما ازددت فيك إلا بصيرة ) . وهذا كله سيكون في بعض السباخ التي بالمدينة.
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراضmuzaffertahir9
امّتِ محمدیہ کے کئی بزرگوں ( جیسا کہ حضرت شاہ عبد العزیز ؒ،صوفی بزرگ شیخ عبد العزیز ،مشہور صوفی و ادیب خواجہ حسن نظامی ،حضرت شاہ محمد حسین صابری ) نے امام مہدی کے ظہور کے زمانہ کا تعین بھی کردیا تھا جو کہ چودھویں صدی کا ابتدائی حصہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علامات اور نشانیاں جو امام مہدی کے دعویٰ سے قبل پوری ہونی تھیں، پوری ہو گئیں اور ہر طرف بڑی شدت سے ایک مسیح اور مہدی کا انتظار ہو رہا تھا۔ عوام سے لے کر علماء تک سبھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، بلاتفریق امت محمدیہ کے مرثیہ خواں نظر آتے تھے۔ خاص طور پر احادیث مبارکہ میں جو نقشہ آنحضرت ﷺنے امتِ محمدیہ کا کھینچا وہ من وعن پورا ہو رہا تھا۔ مسلمان زوال کا شکار ہو رہے تھے ،ہزاروں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے اور اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا تھا۔مسجدیں دھرم شالہ بنا دی گئی تھیں۔ایسے حالات میں خدا تعا لیٰ نے دنیا کے سامنے ہندوستان کی ایک گمنام بستی قا دیا ن سے ایک جوا ں مرد کو کھڑا کیا جوہر یک رنگ میں سرکارِ دوعالم ﷺکی پیشگو ئیو ں کا مصدا ق تھا۔
یہ مبارک ہستی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کی غرض یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ک
‘‘ مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہو ئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھائوں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اِس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔
اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔’’
نبی اللہ ، رسول ، محمد اور احمد- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اورگس...muzaffertahir9
’’خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمد مصطفی ﷺ ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمّد اور احمد ہوا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمّد کی چیز محمّد کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ ‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۲۱۶)
اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بروزی صورت میں میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا ہے ۔ جبکہ صاحبِ بروز اور اصل محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ میرا نفس درمیان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر ایک بروز ہے تو دوسرا صاحبِ بروز ۔ یعنی اصل تو محمد مصطفی ﷺ ہی ہیں۔ میری حیثیت تو محض بروزی ہے۔ پس اس میں نہ تو حضرت محمّد مصطفی ﷺ سے مقام ومرتبہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے نہ ہی بعینہ حضرت محمّد مصطفی ﷺ ہونے کا مفہوم ۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’بروز کے لئے یہ ضرور نہیں کہ بروزی انسان صاحبِ بروز کا بیٹا یا نواسہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ روحانیت کے تعلقات کے لحاظ سے شخص موردِ بروز صاحبِ بروز میں سے نکلا ہوا ہو۔ ‘‘ (صفحہ ۲۱۳،ایضاً)
پس اس لحاظ سے بروز کا مقام صاحبِ بروز کے سامنے شاگرد یا بیٹے کا قرار پاتا ہے نہ یہ کہ وہ دونوں ہم مرتبہ اور ہم مقام ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ اپنے اسی مقام کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کتاب میں فرمایا ہے
’’ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شاملِ حال ہے۔ یعنی محمّد مصطفی ﷺ ۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۱۱)
Sultan ul aolia Hazra Khawaja Muhammad Zaman Siddiqui Naqshbandi (Luari Sharif)
https://www.facebook.com/muhammadabid.qadri
Special thanks to Mr. Muhammad Bakhsh for his cooperation
https://www.facebook.com/ahmedbux.ahmedbux.96
شهر شوال شهر مبارك، وهو شهر طاعة، فهو بداية أشهر الحج، وفيه صيام الست، وقضاء الاعتكاف لمن فاته، وهو شهر نكاح وإعفاف بالحلال. يشرع للمسلم صيام ستة أيام من شوال بعد رمضان، فهو سنة مستحبة غير واجبة، فضلها عظيم، وأجرها كبير. من صام ستة أيام من شوال بعد رمضان كتب له أجر صيام سنة كاملة.
New Edited and updated slides.
Ruku by Ruku pointers.
Flow charts and action pointers added.
Self Evaluation chart added
Virtues and duas and much more!
New Edited and updated slides.
Ruku by Ruku pointers.
Flow charts and action pointers added.
Self Evaluation chart added
Virtues and duas and much more!
1- سيأتي زمان تكثر فيه الفتوحات ويعم الرخاء في معظم أرجاء المعمورة ، ويقدر الله أن يبقى في مدينة الرسول شدة وقحط وخوف ، وذلك ابتلاء وامتحان ، فيتسابق ضعاف الإيمان وأصحاب الشرور إلى أماكن الترف والرخاء حيث الفتوحات ، ولا يبقى في المدينة إلا الأتقياء الصالحون ، الصابرون على موعود الله –تعالى - ورسوله . ويكون ذلك إيذانا بقرب الساعة.
2- تفاوتت أقوال العلماء عن الزمن الذي تنفي فيه المدينة المنورة شرارها .
3- من خلال أقوال العلماء الكثيرة يتضح لنا أن المدينة -حرسها الله- ستبقى باقية عامرة حتى أيام الدجال ونزول عيسى –عليه السلام- . وأما خروج الناس من المدينة المنورة بالكلية فإن هذا سيكون في آخر الزمان عند خروج النار التي تحشر الناس وتسوقهم من كل جانب إلى محلة الحشر (الشام) ، وهذا آخر أشراط الساعة وأول العلامات الدالة على قيام الساعة ، ويومها تصبح المدينة غير محمية ولا ممتنعة فتنتابها السباع والوحوش بسبب خلوها من الساكنين بها .
4- خراب يثرب وهي المدينة المنورة هو رغبة الناس عن سكناها وتوقف التوسع في مبانيها .
5- مما أقدر الله عليه الدجال ليكون فتنة للناس ، سرعة انتقاله في الأرض ، وأنه سيجول في أقطار الأرض يدعو إلى الكفر والضلال ، ولكن الله سيحول بينه وبين أن يدخل مكة والمدينة شرفهما الله .
6- من فتن الدجال العظيمة قتله للشاب المؤمن الذي يرفض بما عنده من العلم والعقيدة الراسخة –أن يعترف بألوهية المسيح الدجال ، غير مبال بما يلحقه من الأذى والقتل في سيبل الله ، وحتى بعد أن يحييه عدو الله الكذاب ، ويهدده بالقتل ثانية إن لم يؤمن به ، فيقول له باستعلاء وإيمان صادق :
( ما ازددت فيك إلا بصيرة ) . وهذا كله سيكون في بعض السباخ التي بالمدينة.
New Edited and updated slides.
Ruku by Ruku pointers.
Flow charts and action pointers added.
Self Evaluation chart added
Virtues and duas and much more!
الزلازل، والبراكين، والكسوف، والخسوف، والعواصف، والفيضانات، والسحاب، والرياح، والليل والنهار، والشمس والقمر، والحرّ والبرد، والنجوم، والأفلاك؛ كلها من آيات الله -تعالى-، الدالة على وحدانيته وربوبيته وقيومّته، وعظيم قدرته، وكمال تدبيره، واستحقاقه، للعبادة وحده سبحانه لا شريك له، وأنه لا معبود بحق إلا هو، وأن الخلق كلهم مفتقرون له، خاضعون له، ليس للطبيعة في ذلك أمر ولا قُدْرة، ما أصابنا من ذلك لم يكن ليخطئنا، وما أخطأنا لم يكن ليصيبنا.
يعد هذا الكتاب من أشهر كتب الأذكار رواجاً بين المسلمين، نظراً لسهولة حفظه، وقد ترجم إلى لغات كثيرة بحمد الله، وقد كتب الله لهذا الكتاب القبول بين المسلمين بفضل الله.