Submit Search
Upload
غزل: جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی
•
0 likes
•
163 views
I
Ibnay Muneeb
Follow
غزل: جو ہوتی دیس میں عزت ہنر کی شاعر: نوید رزاق بٹ
Read less
Read more
Report
Share
Report
Share
1 of 1
Download now
Download to read offline
Recommended
عام ہے فقہِ محبت میں اُصولی فتوی 'دو سے جب ایک نکالا، تو بچا اِک بھی نہیں' ( نوید)
Fiqh e muhabbat
Fiqh e muhabbat
Ibnay Muneeb
تعارف بسم اللہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔ میرا پہلا مجموعہءِکلام پیشِ خدمت ہے۔ کتاب کے عنوان اور انتساب کے حوالے سے چندمختصر وضاحتیں شاید ضروری ہیں۔بالعموم اہلِ لاہورسمجھدار اور معاشرے کی ناہمواریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں۔عنوان میں ذکر صرف ایک نادان کا ہے جو اِن میں رہنے کے باوجود کچھ زیادہ سیکھ نہیں پایا۔ اور معاملات کو سمجھے بغیر، جہاں کوئی چیز دل و دماغ کو کھٹکتی ہے، فوراً سوال کر ڈالتا ہے۔ یہ کتاب اِسی نادان کے سوالات اور الجھنوں کا مجموعہ ہے۔ بوڑھے مزدوروں کے نام اس لئے کہ بڑھاپے میں سخت محنت کے کام کرنے والے ایسے کئی 'دھیاڑی' داروں کو دیکھنے کا موقع ملا، اور ہر بار اُن کی جھریوں اور پتھرائی نگاہوں میں معاشرے کی ناانصافیوں کی مکمل تفصیل درج نظر آئی۔ میری شدید خواہش ہے کہ ایک دن وطنِ عزیز ایک فلاحی ریاست اور معاشرہ بن سکے جہاں 'سب سے پہلے کمزور' کا اُصول ہر ریاستی پالیسی اور ہر معاشرتی تعلق میں نظر آئے۔ کتاب اور اِس کے پیغام کے بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔ ،بہت شکریہ نوید رزاق بٹ
Nadaan Lahori
Nadaan Lahori
Ibnay Muneeb
رسمِ غلامی ہم کو عادت ہے جُھک کے رہنے کی صدقِ دل سے خراج دیتے ہیں ایک گرتا ہے منہ کے بَل جونہی دُوسرا ہم تراش لیتے ہیں شاعر: نوید رزاق بٹ
Rasm e ghulami
Rasm e ghulami
Ibnay Muneeb
More Trends? Visit http://www.thetrendwatch.com or http://www.facebook.com/thetrendwatch
TheTrendwatch #09
TheTrendwatch #09
damoncb
جامعہ نعمان کی ساتویں سال کی کارکردگی رپورٹ
Jamia after 7 years final
Jamia after 7 years final
Noman Educational Trust
غزل صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن ہم ہیں کردار اِک فسانے کے بزم میں پوچھتے ہیں حالِ دل دیکھ انداز آزمانے کے کُھل گئی آنکھ جب مریدوں کی کُھل گئے بھید آستانے کے لب پہ شکوہ، نہ اشک آنکھوں میں سیکھ آداب دل لگانے کے تنکا تنکا لُٹا دیا تم نے تم محافظ تھے آشیانے کے شاعر: نوید رزاق بٹ
Safha safha
Safha safha
Ibnay Muneeb
!مال نہیں تو جینا ناحق، جا مِٹ جا خاموشی سے ہاسپٹل کے دروازے پر لکھ ڈالا مجبوروں نے لالچ اُن کی دیکھ کے توبہ کرتے تھے سرمایہ دار اپنے کام کی پُوری اُجرت مانگی تھی مزدوروں نے شاعر: نوید رزاق بٹ
Mazdoor
Mazdoor
Ibnay Muneeb
سوچ کا سلسلہ ہے، اور میں ہوں عکس ہے، آئنہ ہے، اور میں ہوں دیکھیئے کیا سفر میں گزرے ہے دشت ہے، رہنما ہے، اور میں ہوں لوٹتے سب ہیں اپنی فطرت کو پھر وہی راستہ ہے، اور میں ہوں توڑ کر آئینے نظر آیا چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں پھر سے ٹوُٹے گا دل یہ بے چارہ پھر وہی بے وفا ہے، اور میں ہوں ( نویدؔ رزاق بٹ)
Aur maihoon
Aur maihoon
Ibnay Muneeb
Recommended
عام ہے فقہِ محبت میں اُصولی فتوی 'دو سے جب ایک نکالا، تو بچا اِک بھی نہیں' ( نوید)
Fiqh e muhabbat
Fiqh e muhabbat
Ibnay Muneeb
تعارف بسم اللہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔ میرا پہلا مجموعہءِکلام پیشِ خدمت ہے۔ کتاب کے عنوان اور انتساب کے حوالے سے چندمختصر وضاحتیں شاید ضروری ہیں۔بالعموم اہلِ لاہورسمجھدار اور معاشرے کی ناہمواریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں۔عنوان میں ذکر صرف ایک نادان کا ہے جو اِن میں رہنے کے باوجود کچھ زیادہ سیکھ نہیں پایا۔ اور معاملات کو سمجھے بغیر، جہاں کوئی چیز دل و دماغ کو کھٹکتی ہے، فوراً سوال کر ڈالتا ہے۔ یہ کتاب اِسی نادان کے سوالات اور الجھنوں کا مجموعہ ہے۔ بوڑھے مزدوروں کے نام اس لئے کہ بڑھاپے میں سخت محنت کے کام کرنے والے ایسے کئی 'دھیاڑی' داروں کو دیکھنے کا موقع ملا، اور ہر بار اُن کی جھریوں اور پتھرائی نگاہوں میں معاشرے کی ناانصافیوں کی مکمل تفصیل درج نظر آئی۔ میری شدید خواہش ہے کہ ایک دن وطنِ عزیز ایک فلاحی ریاست اور معاشرہ بن سکے جہاں 'سب سے پہلے کمزور' کا اُصول ہر ریاستی پالیسی اور ہر معاشرتی تعلق میں نظر آئے۔ کتاب اور اِس کے پیغام کے بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔ ،بہت شکریہ نوید رزاق بٹ
Nadaan Lahori
Nadaan Lahori
Ibnay Muneeb
رسمِ غلامی ہم کو عادت ہے جُھک کے رہنے کی صدقِ دل سے خراج دیتے ہیں ایک گرتا ہے منہ کے بَل جونہی دُوسرا ہم تراش لیتے ہیں شاعر: نوید رزاق بٹ
Rasm e ghulami
Rasm e ghulami
Ibnay Muneeb
More Trends? Visit http://www.thetrendwatch.com or http://www.facebook.com/thetrendwatch
TheTrendwatch #09
TheTrendwatch #09
damoncb
جامعہ نعمان کی ساتویں سال کی کارکردگی رپورٹ
Jamia after 7 years final
Jamia after 7 years final
Noman Educational Trust
غزل صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن ہم ہیں کردار اِک فسانے کے بزم میں پوچھتے ہیں حالِ دل دیکھ انداز آزمانے کے کُھل گئی آنکھ جب مریدوں کی کُھل گئے بھید آستانے کے لب پہ شکوہ، نہ اشک آنکھوں میں سیکھ آداب دل لگانے کے تنکا تنکا لُٹا دیا تم نے تم محافظ تھے آشیانے کے شاعر: نوید رزاق بٹ
Safha safha
Safha safha
Ibnay Muneeb
!مال نہیں تو جینا ناحق، جا مِٹ جا خاموشی سے ہاسپٹل کے دروازے پر لکھ ڈالا مجبوروں نے لالچ اُن کی دیکھ کے توبہ کرتے تھے سرمایہ دار اپنے کام کی پُوری اُجرت مانگی تھی مزدوروں نے شاعر: نوید رزاق بٹ
Mazdoor
Mazdoor
Ibnay Muneeb
سوچ کا سلسلہ ہے، اور میں ہوں عکس ہے، آئنہ ہے، اور میں ہوں دیکھیئے کیا سفر میں گزرے ہے دشت ہے، رہنما ہے، اور میں ہوں لوٹتے سب ہیں اپنی فطرت کو پھر وہی راستہ ہے، اور میں ہوں توڑ کر آئینے نظر آیا چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں پھر سے ٹوُٹے گا دل یہ بے چارہ پھر وہی بے وفا ہے، اور میں ہوں ( نویدؔ رزاق بٹ)
Aur maihoon
Aur maihoon
Ibnay Muneeb
ایک سوال ۔ کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی ہمی نے روندے گلاب لوگو! ترستے پنچھی نے جان دے دی ملی نہ پانی کی بوند اُس کو چُرائے کس نے چمن کے چشمے؟ سجائے کس نے سراب لوگو؟ کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو یہ رشوتوں کا نظام، ہائے یہ جھُوٹا سچا کلام، ہائے یہ منصبوں کو سلام، ہائے یہ ‘تیز دولت’ کے خواب لوگو کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو (نویدؔ بٹ)
Aik sawal
Aik sawal
Ibnay Muneeb
کتابِ حسرت میں خاص ہو گا، کمالِ حسرت کا یہ فسانہ نہ صبح پھوٹی، نہ آس ٹوٹی، نہ تُو ہی آیا، نہ دل ہی مانا (نوید رزاق بٹ)
Kitab e hasrat
Kitab e hasrat
Ibnay Muneeb
Christmas around the world visit http://www.facebook.com/ILoveChristmasHoHoHo
Christmas around the world
Christmas around the world
lotustan
غالب کی زمین* پر چند اشعار نہ تڑپ ہی دل میں ہوتی نہ ہی انتظار ہوتا جو بہشت میں ہی ہوتے تو کہاں قرار ہوتا یہ بدن جو خاک و خوں ہے یہ اگر غبار ہوتا تیری خاکِ پا میں شامل تیرا خاکسار ہوتا کہیں راہبر نے لُوٹا، کہیں راہزن نے تھاما جو سفر نہ یوں گزرتا تو نہ یادگار ہوتا رہے بیخودی سلامت، رہے میکشی سلامت تجھے ہم بھُلا نہ پاتے اگر اختیار ہوتا یہ نصیب کی ہیں باتیں کہ چلے ہیں سوئے مقتل جو قلم جھکا کے لکھتے تو گلے میں ہار ہوتا شاعر: نوید رزاق بٹ * یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا – غالب
Initzar hota
Initzar hota
Ibnay Muneeb
http://naveedrbutt.wordpress.com/nadaan-lahori/
Khizar say
Khizar say
Ibnay Muneeb
گزشتہ برس استنبول میں سلطان محمد فاتح کی تلوار دیکھ کر لکھے چند اشعار ------------------------------------- قدم زمیں میں گاڑ کر گُماں کی دُھول جھاڑ کر وہ بانگ دے کہ آسماں تڑپ اُٹھے لَرَز اُٹھے! (نویدؔ رزاق بٹ)
Fateh
Fateh
Ibnay Muneeb
غزل: جلیں گے کتنے چراغ تم سے شاعر: نوید رزاق بٹ http://naveedrbutt.wordpress.com/ Photo Credit: Alesa Dam / flickr
Charaagh
Charaagh
Ibnay Muneeb
تین درویش (پہلا) امیری آزمایش ـــــــــــــ فقیری آزمایش اسیرِِ زندگی تُو ـــــــــــــ اسیری آزمایش (دوسرا) محبت بیقراری ـــــــــــــ تمنا بیقراری خلیلی امتحاں ہے ـــــــــــــ کلیمی آزمایش (تیسرا) توجہ آزمایش ـــــــــــــ حقارت آزمایش نگاہِ یار کی ہر ـــــــــــــ شرارت آزمایش . (پہلا) مکاں و لا مکاں میں ـــــــــــــ صدائے حق ھُوْ ہے وہی ہے درمیاں اور ـــــــــــــ وہی جو چار سُو ہے (دوسرا) وہی زادِ سفر ہے ـــــــــــــ وہی بانگِ سَحَر ہے وہی ہے رہنما اور ـــــــــــــ اُسی کی جستجو ہے (تیسرا) نہیں محبوب اُس بِن ـــــــــــــ نہیں مطلوب اُس بِن وہی دل کی تڑپ اور ـــــــــــــ وہی رازِ سُکوں ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Tean dervish
Tean dervish
Ibnay Muneeb
ہر پل دلِ ناشاد تجھے یاد کرے ہے یوں وقت تِری یاد میں برباد کرے ہے لٹکا ہُوا زنجیر سے ملتا ہے محل میں اِس دَور میں مظلوم جو فریاد کرے ہے مِلتا ہے درِ یار سے اِکسیر کی صُورت وہ درد جو ہر درد سے آزاد کرے ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Her pal
Her pal
Ibnay Muneeb
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ ‘ہو جس سے اختلاف، اُسے مار ڈالیے’ شاعر: نوید رزاق بٹ
Rayej hai
Rayej hai
Ibnay Muneeb
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
Ibnay Muneeb
تُو شریکِ سفر ہُوا نہ مگر تیری خوشبو ہے ہمسفر میری ذِکر تیرا ہے رُوح میں رقصاں تجھ کو مانگے ہے چشمِ تَر میری ایک ذرہ ہُوں ایک ذرے پر ذات کتنی ہے معتبر میری؟ پوچھتا پھر رہا ہوں تاروں سے کیا کسی کو مِلی خبر میری؟ چشمِ ساقی کو بھُول بیٹھا ہُوں دستِ ساقی پہ ہے نظر میری کل وہ چُپکے سے مُسکرائیں گے آج برہم ہیں بات پر میری آج پھر اِس اندھیر نگری میں لُوٹ لی شاہ نے سَحَر میری اپنے انجام کی طرف صاحِب عمر بڑھتی ہے عمر بھر میری! (نویدؔ رزاق بٹ)
Teri khushbu hai
Teri khushbu hai
Ibnay Muneeb
ایک اور مارشل لاء . "لو فوجی باوا آ بیٹھا اب پیٹ میں روٹی جائے گی!" واں سڑک کنارے بیٹھی ہے حالات کی ماری بے چاری گھٹڑی میں اُس کی سرمایہ، افلاس کی مہلک بیماری۔ جب گود میں بچہ روتا ہے ماں کے دل کو کچھ ہوتا ہے پیارا سا گیت سناتی ہے بچے کو جھوٹ بتاتی ہے اور اپنا دل بہلاتی ہے "خاموش! ذرا بھی شور نہ کر! اب وقت بدلنے والا ہے۔ اب دیکھ تیری خاطر قسمت کیا خوب کھلونے لائے گی! تیری ماں کے ننگے سر کے لئے ململ کی چادر آئے گی! لو فوجی باوا آ بیٹھا اب پیٹ میں روٹی جائے گی!" . شاعر: نوید رزاق بٹ کتاب: نادان لاہوری
Martial law
Martial law
Ibnay Muneeb
نشانہ آزمایا جا رہا ہے ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے جلا کر چل دیے جو آشیاں کو انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے یہاں جمہوریت کا نام لے کر تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے نوالہ چھین کر محنت کشوں سے نوابوں کو کھلایا جا رہا ہے غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں دو ہاتھوں سے لُٹایا جا رہا ہے عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے خدا کے نام پہ کر کے تجارت سکونِ قلب پایا جا رہا ہے زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے خلیفہ نرم دل ہیں رو پڑیں گے غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے گزرگاہ ہے جہاں، منزل نہیں ہے رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Nishana Azmaya Ja raha hai
Nishana Azmaya Ja raha hai
Ibnay Muneeb
Web: www.iss.nus.edu.sg Twitter:#ISSNUS Facebook: www.facebook.com/ISS.NUS
Business Use of Social Media and Impact to BA
Business Use of Social Media and Impact to BA
NUS-ISS
"مناجات" خداوندا تِرا بندہ تِری تعریف کرتا ہے کہ تُو مالک جہانوں کا کہ تُو خالق جہانوں کا کہ تُو رحمن ہے مولی تُو عالی شان ہے مولی مُصور تُو جہاں تیرا زمیں تیری زماں تیرا تِرے در پر جھکا کر سر تِرا بندہ تجھے مانگے! دکھا دے راہ وہ مولا جو تجھ تک لے چلے مجھ کو کہ تیری دید کو ترسیں یہ آنکھیں رات دن برسیں! (نویدؔ رزاق بٹ)
Munajaat
Munajaat
Ibnay Muneeb
بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے کِیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے ثنا خوانوں کی سازش ہے یقینا بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی مصیبت میں بھی ہنستا رہا ہے سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے نویدؔ رزاق بٹ
Bharee mehfil
Bharee mehfil
Ibnay Muneeb
My slide deck for this event: http://www.facebook.com/e27sg#/event.php?eid=159834562395&ref=mf
Echelon Slide Deck
Echelon Slide Deck
Michael Smith Jr.
غزل محوِ گریہ ہے تری یاد میں شاعر تیرا کیسا بکھرا ہے تری یاد میں شاعر تیرا تُو تو پنہاں ہے نگاہوں سے زمانے بھر کی اور رسوا ہے تری یاد میں شاعر تیرا لفظ ہیں، پھول ہیں، موتی ہیں، خدا ہی جانے کیا کیا لکھتا ہے تری یاد میں شاعر تیرا روز کرتا ہے چراغاں کہ گھٹے وحشتِ جاں روز جلتا ہے تری یاد میں شاعر تیرا شاعر: نوید رزاق بٹ
Shayer tera
Shayer tera
Ibnay Muneeb
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے ڈھونڈ رکھا ہے تیرے غم نے ٹھکانا کیسا آ کے اِک روز بچا لے گا مسیحا کوئی دیکھ بیٹھے تھے سبھی خواب سہانا کیسا شاعر: نوید رزاق بٹ
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
Ibnay Muneeb
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ - ابنِ مُنیبؔ
Teeshay ke ghazal
Teeshay ke ghazal
Ibnay Muneeb
شیخ صاحب باندھ کر اِک دن حرم کو لے چلے مست ہو گاتے تھے رِند "آخر بلاوا آ گیا!" - ابنِ مُنیبؔ
Seikh sahab baandh kr
Seikh sahab baandh kr
Ibnay Muneeb
More Related Content
Viewers also liked
ایک سوال ۔ کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی ہمی نے روندے گلاب لوگو! ترستے پنچھی نے جان دے دی ملی نہ پانی کی بوند اُس کو چُرائے کس نے چمن کے چشمے؟ سجائے کس نے سراب لوگو؟ کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو یہ رشوتوں کا نظام، ہائے یہ جھُوٹا سچا کلام، ہائے یہ منصبوں کو سلام، ہائے یہ ‘تیز دولت’ کے خواب لوگو کِیا ہے کس نے خراب لوگو بتاؤ کر کے حساب لوگو (نویدؔ بٹ)
Aik sawal
Aik sawal
Ibnay Muneeb
کتابِ حسرت میں خاص ہو گا، کمالِ حسرت کا یہ فسانہ نہ صبح پھوٹی، نہ آس ٹوٹی، نہ تُو ہی آیا، نہ دل ہی مانا (نوید رزاق بٹ)
Kitab e hasrat
Kitab e hasrat
Ibnay Muneeb
Christmas around the world visit http://www.facebook.com/ILoveChristmasHoHoHo
Christmas around the world
Christmas around the world
lotustan
غالب کی زمین* پر چند اشعار نہ تڑپ ہی دل میں ہوتی نہ ہی انتظار ہوتا جو بہشت میں ہی ہوتے تو کہاں قرار ہوتا یہ بدن جو خاک و خوں ہے یہ اگر غبار ہوتا تیری خاکِ پا میں شامل تیرا خاکسار ہوتا کہیں راہبر نے لُوٹا، کہیں راہزن نے تھاما جو سفر نہ یوں گزرتا تو نہ یادگار ہوتا رہے بیخودی سلامت، رہے میکشی سلامت تجھے ہم بھُلا نہ پاتے اگر اختیار ہوتا یہ نصیب کی ہیں باتیں کہ چلے ہیں سوئے مقتل جو قلم جھکا کے لکھتے تو گلے میں ہار ہوتا شاعر: نوید رزاق بٹ * یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا – غالب
Initzar hota
Initzar hota
Ibnay Muneeb
http://naveedrbutt.wordpress.com/nadaan-lahori/
Khizar say
Khizar say
Ibnay Muneeb
گزشتہ برس استنبول میں سلطان محمد فاتح کی تلوار دیکھ کر لکھے چند اشعار ------------------------------------- قدم زمیں میں گاڑ کر گُماں کی دُھول جھاڑ کر وہ بانگ دے کہ آسماں تڑپ اُٹھے لَرَز اُٹھے! (نویدؔ رزاق بٹ)
Fateh
Fateh
Ibnay Muneeb
غزل: جلیں گے کتنے چراغ تم سے شاعر: نوید رزاق بٹ http://naveedrbutt.wordpress.com/ Photo Credit: Alesa Dam / flickr
Charaagh
Charaagh
Ibnay Muneeb
تین درویش (پہلا) امیری آزمایش ـــــــــــــ فقیری آزمایش اسیرِِ زندگی تُو ـــــــــــــ اسیری آزمایش (دوسرا) محبت بیقراری ـــــــــــــ تمنا بیقراری خلیلی امتحاں ہے ـــــــــــــ کلیمی آزمایش (تیسرا) توجہ آزمایش ـــــــــــــ حقارت آزمایش نگاہِ یار کی ہر ـــــــــــــ شرارت آزمایش . (پہلا) مکاں و لا مکاں میں ـــــــــــــ صدائے حق ھُوْ ہے وہی ہے درمیاں اور ـــــــــــــ وہی جو چار سُو ہے (دوسرا) وہی زادِ سفر ہے ـــــــــــــ وہی بانگِ سَحَر ہے وہی ہے رہنما اور ـــــــــــــ اُسی کی جستجو ہے (تیسرا) نہیں محبوب اُس بِن ـــــــــــــ نہیں مطلوب اُس بِن وہی دل کی تڑپ اور ـــــــــــــ وہی رازِ سُکوں ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Tean dervish
Tean dervish
Ibnay Muneeb
ہر پل دلِ ناشاد تجھے یاد کرے ہے یوں وقت تِری یاد میں برباد کرے ہے لٹکا ہُوا زنجیر سے ملتا ہے محل میں اِس دَور میں مظلوم جو فریاد کرے ہے مِلتا ہے درِ یار سے اِکسیر کی صُورت وہ درد جو ہر درد سے آزاد کرے ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Her pal
Her pal
Ibnay Muneeb
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ ‘ہو جس سے اختلاف، اُسے مار ڈالیے’ شاعر: نوید رزاق بٹ
Rayej hai
Rayej hai
Ibnay Muneeb
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
Ibnay Muneeb
تُو شریکِ سفر ہُوا نہ مگر تیری خوشبو ہے ہمسفر میری ذِکر تیرا ہے رُوح میں رقصاں تجھ کو مانگے ہے چشمِ تَر میری ایک ذرہ ہُوں ایک ذرے پر ذات کتنی ہے معتبر میری؟ پوچھتا پھر رہا ہوں تاروں سے کیا کسی کو مِلی خبر میری؟ چشمِ ساقی کو بھُول بیٹھا ہُوں دستِ ساقی پہ ہے نظر میری کل وہ چُپکے سے مُسکرائیں گے آج برہم ہیں بات پر میری آج پھر اِس اندھیر نگری میں لُوٹ لی شاہ نے سَحَر میری اپنے انجام کی طرف صاحِب عمر بڑھتی ہے عمر بھر میری! (نویدؔ رزاق بٹ)
Teri khushbu hai
Teri khushbu hai
Ibnay Muneeb
ایک اور مارشل لاء . "لو فوجی باوا آ بیٹھا اب پیٹ میں روٹی جائے گی!" واں سڑک کنارے بیٹھی ہے حالات کی ماری بے چاری گھٹڑی میں اُس کی سرمایہ، افلاس کی مہلک بیماری۔ جب گود میں بچہ روتا ہے ماں کے دل کو کچھ ہوتا ہے پیارا سا گیت سناتی ہے بچے کو جھوٹ بتاتی ہے اور اپنا دل بہلاتی ہے "خاموش! ذرا بھی شور نہ کر! اب وقت بدلنے والا ہے۔ اب دیکھ تیری خاطر قسمت کیا خوب کھلونے لائے گی! تیری ماں کے ننگے سر کے لئے ململ کی چادر آئے گی! لو فوجی باوا آ بیٹھا اب پیٹ میں روٹی جائے گی!" . شاعر: نوید رزاق بٹ کتاب: نادان لاہوری
Martial law
Martial law
Ibnay Muneeb
نشانہ آزمایا جا رہا ہے ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے جلا کر چل دیے جو آشیاں کو انہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے یہاں جمہوریت کا نام لے کر تماشا کیا دکھایا جا رہا ہے نوالہ چھین کر محنت کشوں سے نوابوں کو کھلایا جا رہا ہے غضب خالی خزانہ ہے جسے یوں دو ہاتھوں سے لُٹایا جا رہا ہے عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے خدا کے نام پہ کر کے تجارت سکونِ قلب پایا جا رہا ہے زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے خلیفہ نرم دل ہیں رو پڑیں گے غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے گزرگاہ ہے جہاں، منزل نہیں ہے رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے شاعر: نوید رزاق بٹ
Nishana Azmaya Ja raha hai
Nishana Azmaya Ja raha hai
Ibnay Muneeb
Web: www.iss.nus.edu.sg Twitter:#ISSNUS Facebook: www.facebook.com/ISS.NUS
Business Use of Social Media and Impact to BA
Business Use of Social Media and Impact to BA
NUS-ISS
"مناجات" خداوندا تِرا بندہ تِری تعریف کرتا ہے کہ تُو مالک جہانوں کا کہ تُو خالق جہانوں کا کہ تُو رحمن ہے مولی تُو عالی شان ہے مولی مُصور تُو جہاں تیرا زمیں تیری زماں تیرا تِرے در پر جھکا کر سر تِرا بندہ تجھے مانگے! دکھا دے راہ وہ مولا جو تجھ تک لے چلے مجھ کو کہ تیری دید کو ترسیں یہ آنکھیں رات دن برسیں! (نویدؔ رزاق بٹ)
Munajaat
Munajaat
Ibnay Muneeb
بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے کِیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے ثنا خوانوں کی سازش ہے یقینا بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی مصیبت میں بھی ہنستا رہا ہے سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے نویدؔ رزاق بٹ
Bharee mehfil
Bharee mehfil
Ibnay Muneeb
My slide deck for this event: http://www.facebook.com/e27sg#/event.php?eid=159834562395&ref=mf
Echelon Slide Deck
Echelon Slide Deck
Michael Smith Jr.
غزل محوِ گریہ ہے تری یاد میں شاعر تیرا کیسا بکھرا ہے تری یاد میں شاعر تیرا تُو تو پنہاں ہے نگاہوں سے زمانے بھر کی اور رسوا ہے تری یاد میں شاعر تیرا لفظ ہیں، پھول ہیں، موتی ہیں، خدا ہی جانے کیا کیا لکھتا ہے تری یاد میں شاعر تیرا روز کرتا ہے چراغاں کہ گھٹے وحشتِ جاں روز جلتا ہے تری یاد میں شاعر تیرا شاعر: نوید رزاق بٹ
Shayer tera
Shayer tera
Ibnay Muneeb
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے ڈھونڈ رکھا ہے تیرے غم نے ٹھکانا کیسا آ کے اِک روز بچا لے گا مسیحا کوئی دیکھ بیٹھے تھے سبھی خواب سہانا کیسا شاعر: نوید رزاق بٹ
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
Ibnay Muneeb
Viewers also liked
(20)
Aik sawal
Aik sawal
Kitab e hasrat
Kitab e hasrat
Christmas around the world
Christmas around the world
Initzar hota
Initzar hota
Khizar say
Khizar say
Fateh
Fateh
Charaagh
Charaagh
Tean dervish
Tean dervish
Her pal
Her pal
Rayej hai
Rayej hai
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
نظم: نادان لاہوری، حصہ اول
Teri khushbu hai
Teri khushbu hai
Martial law
Martial law
Nishana Azmaya Ja raha hai
Nishana Azmaya Ja raha hai
Business Use of Social Media and Impact to BA
Business Use of Social Media and Impact to BA
Munajaat
Munajaat
Bharee mehfil
Bharee mehfil
Echelon Slide Deck
Echelon Slide Deck
Shayer tera
Shayer tera
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
شدتِ لمس سے جلتا ہے بدن جلنے دو
More from Ibnay Muneeb
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ - ابنِ مُنیبؔ
Teeshay ke ghazal
Teeshay ke ghazal
Ibnay Muneeb
شیخ صاحب باندھ کر اِک دن حرم کو لے چلے مست ہو گاتے تھے رِند "آخر بلاوا آ گیا!" - ابنِ مُنیبؔ
Seikh sahab baandh kr
Seikh sahab baandh kr
Ibnay Muneeb
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟ تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟ سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو - ابنِ مُنیبؔ
Zaiba hay kubb ghazal
Zaiba hay kubb ghazal
Ibnay Muneeb
"تلاش" "اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے" پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا - ابنِ مُنیبؔ
Talash
Talash
Ibnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔ ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے - ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazal
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazal
Ibnay Muneeb
"خوف" جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔ "اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!" "ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!" "پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!" اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟" "دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔" "ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔ جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔ تحریر: ابنِ مُنیب
Khouf
Khouf
Ibnay Muneeb
"عدالت" ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔ - ابنِ مُنیبؔ (فلیش فکشن)
Adaalat
Adaalat
Ibnay Muneeb
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔) "پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے" راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو! پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے - ابنِ مُنیبؔ
Patharon per chaltay chaltay ghazal
Patharon per chaltay chaltay ghazal
Ibnay Muneeb
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں - ابنِ مُنیبؔ (نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
Ho na ho yeh hay
Ho na ho yeh hay
Ibnay Muneeb
"بچوں کی نظم" (انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی) ایک، دو، تین، چار، پانچ مچھلی پکڑی میں نے آج! چھ ، سات، آٹھ، نو، دس چھوڑ دیا پھر اُس کو بس! چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟ ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی! ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟ میری مرضی، میں جانوں! - ابنِ مُنیبؔ
Aik douteencharpanch machli pakree
Aik douteencharpanch machli pakree
Ibnay Muneeb
"بچوں کی نظم" (انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی) ایک، دو، تین، چار، پانچ مہنگی چُوڑی، سستا کانچ چھ، سات، آٹھ، نو، دس بھاگ کے ہم نے پکڑی بس بھاگ کے بس کیوں پکڑی جی؟ چُوڑی واپس کرنی تھی! واپس ہو گئی چُوڑی کیا؟ چُوڑی والا بھاگ گیا! - ابنِ مُنیبؔ
Aik douteencharpanch mehngi choree
Aik douteencharpanch mehngi choree
Ibnay Muneeb
"بچوں کی نظم" (انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی) دادو نے اک دنبہ پالا ڈَمبَو اُس کا نام-او ڈ - م - ب - و ڈ - م - ب - و ڈ - م - ب - و اور ڈَمبَو اُس کا نام-او - ابنِ مُنیبؔ
Daado nai ikk dunba pala
Daado nai ikk dunba pala
Ibnay Muneeb
لِکھ چُکا جب لکھنے والا، پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟ بیٹھ کر سوچو مِیاں تم، ہم چلے میخانے کو - ابنِ مُنیبؔ
Likh chuka jabb likhnay wala
Likh chuka jabb likhnay wala
Ibnay Muneeb
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو - ابنِ مُنیبؔ
Zaiba hay kubb
Zaiba hay kubb
Ibnay Muneeb
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟ ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟" ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!" جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا - ابنِ مُنیبؔ
Uss ko aana tha na aaya ghazal
Uss ko aana tha na aaya ghazal
Ibnay Muneeb
(ایک تجرباتی شعر) I had a dream that you were here پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں Our deepest thoughts they do ensnare وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں - ابنِ مُنیبؔ
I had a dream
I had a dream
Ibnay Muneeb
"سائیکل کا پہیّہ گھومے گول گول گول" (انگریزی نرسری رہائم "وِہیلز آن دا بس گو راؤنڈ ایند راؤنڈ" پر مبنی) سائیکل کا پہیّہ گھومے گول گول گول گول گول گول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گول گول گول سائیکل کا پہیّہ گھومے گول گول گول صبح، دوپہر، اور شام سائیکل پہ بھیّا بولے "پیچھے ہٹ جاؤ" "پیچھے ہٹ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ پیچھے ہٹ جاؤ" سائیکل پہ بھیّا بولے "پیچھے ہٹ جاؤ" صبح، دوپہر، اور شام سائیکل کی گھنٹی بجے ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹن ٹن ٹن سائیکل کی گھنٹی بجے ٹن ٹن ٹن صبح، دوپہر، اور شام سائیکل پہ جھولا مِلے آ ہا ہا آ ہا ہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ ہا ہا سائیکل پہ جھولا مِلے آ ہا ہا صبح، دوپہر، اور شام - ابنِ مُنیبؔ
Cycle ka pahyya
Cycle ka pahyya
Ibnay Muneeb
“بے بی مانیٹر" رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا، "میں تیار ہوں" - سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ تحریر: ابنِ مُنیب
Baby monitor
Baby monitor
Ibnay Muneeb
"شہ مات" زندگی شطرنج کا کھیل نہیں ہے پر جو ایسا سمجھتے ہیں اُن کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیں یہی اُن کے لیے شہ مات ہے - ابنِ مُنیبؔ
Sheh maat
Sheh maat
Ibnay Muneeb
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل) ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟ سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں - ابنِ مُنیبؔ ----------------------------------- پس نوشت: انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے: ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا: "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" اِس پر اندھے نے کہا: مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں فقیر نے کہا: مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں عاشق نے کہا: ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں اور عالمِ دین کہا: بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
Hum ko seerat sai hai matlab
Hum ko seerat sai hai matlab
Ibnay Muneeb
More from Ibnay Muneeb
(20)
Teeshay ke ghazal
Teeshay ke ghazal
Seikh sahab baandh kr
Seikh sahab baandh kr
Zaiba hay kubb ghazal
Zaiba hay kubb ghazal
Talash
Talash
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazal
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazal
Khouf
Khouf
Adaalat
Adaalat
Patharon per chaltay chaltay ghazal
Patharon per chaltay chaltay ghazal
Ho na ho yeh hay
Ho na ho yeh hay
Aik douteencharpanch machli pakree
Aik douteencharpanch machli pakree
Aik douteencharpanch mehngi choree
Aik douteencharpanch mehngi choree
Daado nai ikk dunba pala
Daado nai ikk dunba pala
Likh chuka jabb likhnay wala
Likh chuka jabb likhnay wala
Zaiba hay kubb
Zaiba hay kubb
Uss ko aana tha na aaya ghazal
Uss ko aana tha na aaya ghazal
I had a dream
I had a dream
Cycle ka pahyya
Cycle ka pahyya
Baby monitor
Baby monitor
Sheh maat
Sheh maat
Hum ko seerat sai hai matlab
Hum ko seerat sai hai matlab
Download now