The Holy Qurr'an and Promised Messiah (AS)muzaffertahir9
"تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ " (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)
احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں اور سرکاری مسلمانوں کی زلت کی کہانیmuzaffertahir9
جو لوگ قرآن حکیم کو غور اور تدبر سے پڑھتے ہیں ان پر یہ امر خوب روشن ہے کہ تاریخ مذاہب کے ہر دور میں جب دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بن پڑا تو ہمیشہ ہی مذہب کے ٹھیکیداروں نے سیاسی اقتدار کو اپنا حلیف و ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی مامورین کی تاریخ سے مختلف نہیں۔ اﷲ وسایا اس بات کو تاریخ اور دنیا کی نظر سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے کہ ۱۹۷۴ ء میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی بھی ایک سیاسی طالع آزما اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے مابین ایک سازش اور گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی۔ اللہ وسایا جس بت کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور وہ پارلیمنٹ جس کی قرار داد کو وہ فرمانِ الٰہی اور فرمودات رسول سے بڑھ کر کوئی چیز سمجھ بیٹھے ہیں اس کا اپنا یہ عالم ہے کہ اسے کسی پہلو قرار نصیب نہیں ۔ آئے دن بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہے ، چشم بینا کیلئے پارلیمنٹ کے اس حشر میں کافی سامان عبرت موجود ہے۔
مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی تازیانہ عبرت ان کی آنکھیں نہیں کھولتا۔اس اسمبلی کے نمائندوں کے بارہ میں اﷲ وسایا کے ممدوح ’’خادمِ اسلام‘‘ جناب ضیاء الحق کی حکومت نے قرطاسِ ابیض شائع کیا۔اس سے خوب ظاہر ہے کہ وہ کس کردارکے حامل، کیسے لوگ تھے اور دینی امورمیں اجتہاد یا رائے دینے کے کتنے اہل تھے جنہوں نے ایک مہتم بالشان معاملہ میں مداخلت فی الدین کی جرأت کی ۔رہ گئے جناب اﷲ وسایا کے اکابرین علماء حضرات تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس دینی مسئلہ میں جو امداد کی وہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ مسئلہ ختمِ نبوّت سے متعلق تحریک کا سامنا کرنے کا تو حوصلہ ہی علماء حضرات کو نہ ہوا۔ان کی علمی بے بسی اور عجز کا اعتراف تو پہلے ہی دن ہو گیا جب انہوں نے وزیرِ قانون کی طرف سے پیش کردہ، ختمِ نبوت سے متعلق قرارداد سے جان چھڑانے کی خاطر اپنی ایک الگ قرارداد پیش کردی۔ قادیانیت کی جس شکست اور اپنی جس فتح کا اعلان اللہ وسایا موصوف کر رہے ہیں اس پر خود ان کے اپنے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ خدمت اسلام کی مہم میں وہ دروغگوئی اور تلبیس اور اخفاء حق کے مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لئے بغیر اپنی کارروائی پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ قریب نصف درجن جھوٹ تو اﷲ وسایا کے رقم کردہ دیباچہ ہی سے جھانکتے نظر آتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐ پر...muzaffertahir9
ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔
میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے
پاکستان میں دہشت گردی کا بانی
داخلی اور خارجی سیاست کے اعتبار سے آج ہمارے محبوب وطن، پاکستان، کے لئے سب سے بڑا مسئلہ انسداد دہشت گردی ہے ۔اس ہوش ربا اور تشویش انگیز مسئلہ سے نپٹنے کے لئے اولین مرحلہ پر یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ باطل کے سیاہ پوش دستوں کا ’’قافلہ سالار‘‘ کون تھا؟
آئیے اس سلسلہ میں پاکستان کے شیعہ محقق اور ماہنامہ’ خیرالعمل‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عسکری بن احمد کے افکار و تاثرات کا انہی کے الفاظ میں مطالعہ کریں ۔ آپ مذکورہ رسالہ کے شمارہ ستمبر ۱۹۹۷ء (صفحہ ۲۲ تا ۲۵) میں تحریر فرماتے ہیں:
’’موجودہ فرقہ وارانہ منافرت اور بین الفرق الاسلامیہ دہشت گردی کا آغاز جرنل ضیاء الحق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دور سے ہوا۔ دور بین نگاہیں یہ بھی دیکھ سکتی ہیں کہ اسی زمانہ میں بھارت میں دارالعلوم دیوبند کا جشن صدسالہ ہوا جس کی صدارت بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی آنجہانی نے کی۔ اور اس دارالعلوم کو بہت بڑی گرانٹ عطا کی۔ اس جشن میں شرکت کے لئے پاکستان سے بھی کئی دیوبندی اور اہل حدیث علماء کے وفود وہاں گئے۔ اور اندرا گاندھی جو پاکستا ن کو دولخت کرنے کا باعث بنی تھی اورمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں جس کے ہیلی کوپٹرز اور چھاتہ بردار فوج نے کام کیا اسی اندراگاندھی کے منتر نے دیوبند کے جشن میں جانے والے علماء کی پھڑکی گھما دی۔ اور مغربی پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال دیا۔
*۔۔۔ جرنیل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے ہر ہر مرحلے پر سعودی عرب کے علماء اور زعماء یہاں پاکستان تشریف لاتے رہے اور ہدایت کاری کرتے رہے۔ انہی دنوں مسجد کعبہ کے امام جماعت محمد بن عبداللہ بن سبیل نے پاکستان میں آ کر ارشاد فرمایا کہ جو کچھ ہم سعود ی عرب میں کر رہے ہیں وہی کچھ پاکستان میں اہل حدیث کر رہے ہیں۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی قادیانی کی بیمثال محبتmuzaffertahir9
The Ahmadiyya Muslim Community is a dynamic, fast growing international revival movement within Islam. Founded in 1889, it spans over 206 countries with membership exceeding tens of millions. Its current headquarters are in the United Kingdom
The Ahmadiyya Muslim Community is the only Islamic organization to believe that the long-awaited Messiah has come in the person of Mirza Ghulam Ahmad(as) (1835-1908) of Qadian. Ahmad(as) claimed to be the metaphorical second coming of Jesus(as) of Nazareth and the divine guide, whose advent was foretold by the Prophet of Islam, Muhammad(sa). The Ahmadiyya Muslim Community believes that God sent Ahmad(as), like Jesus(as), to end religious wars, condemn bloodshed and reinstitute morality, justice and peace. Ahmad’s(as) advent has brought about an unprecedented era of Islamic revival. He divested Islam of fanatical beliefs and practices by vigorously championing Islam’s true and essential teachings. He also recognized the noble teachings of the great religious founders and saints, including Zoroaster(as), Abraham(as), Moses(as), Jesus(as), Krishna(as), Buddha(as), Confucius(as), Lao Tzu and Guru Nanak, and explained how such teachings converged into the one true Islam.
The Holy Qurr'an and Promised Messiah (AS)muzaffertahir9
"تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ " (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)
احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں اور سرکاری مسلمانوں کی زلت کی کہانیmuzaffertahir9
جو لوگ قرآن حکیم کو غور اور تدبر سے پڑھتے ہیں ان پر یہ امر خوب روشن ہے کہ تاریخ مذاہب کے ہر دور میں جب دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بن پڑا تو ہمیشہ ہی مذہب کے ٹھیکیداروں نے سیاسی اقتدار کو اپنا حلیف و ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی مامورین کی تاریخ سے مختلف نہیں۔ اﷲ وسایا اس بات کو تاریخ اور دنیا کی نظر سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتے کہ ۱۹۷۴ ء میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارروائی بھی ایک سیاسی طالع آزما اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے مابین ایک سازش اور گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھی۔ اللہ وسایا جس بت کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور وہ پارلیمنٹ جس کی قرار داد کو وہ فرمانِ الٰہی اور فرمودات رسول سے بڑھ کر کوئی چیز سمجھ بیٹھے ہیں اس کا اپنا یہ عالم ہے کہ اسے کسی پہلو قرار نصیب نہیں ۔ آئے دن بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہے ، چشم بینا کیلئے پارلیمنٹ کے اس حشر میں کافی سامان عبرت موجود ہے۔
مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی مگر جناب اللہ وسایا ان لوگوں میں سے ہیں جو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور کوئی تازیانہ عبرت ان کی آنکھیں نہیں کھولتا۔اس اسمبلی کے نمائندوں کے بارہ میں اﷲ وسایا کے ممدوح ’’خادمِ اسلام‘‘ جناب ضیاء الحق کی حکومت نے قرطاسِ ابیض شائع کیا۔اس سے خوب ظاہر ہے کہ وہ کس کردارکے حامل، کیسے لوگ تھے اور دینی امورمیں اجتہاد یا رائے دینے کے کتنے اہل تھے جنہوں نے ایک مہتم بالشان معاملہ میں مداخلت فی الدین کی جرأت کی ۔رہ گئے جناب اﷲ وسایا کے اکابرین علماء حضرات تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس دینی مسئلہ میں جو امداد کی وہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ مسئلہ ختمِ نبوّت سے متعلق تحریک کا سامنا کرنے کا تو حوصلہ ہی علماء حضرات کو نہ ہوا۔ان کی علمی بے بسی اور عجز کا اعتراف تو پہلے ہی دن ہو گیا جب انہوں نے وزیرِ قانون کی طرف سے پیش کردہ، ختمِ نبوت سے متعلق قرارداد سے جان چھڑانے کی خاطر اپنی ایک الگ قرارداد پیش کردی۔ قادیانیت کی جس شکست اور اپنی جس فتح کا اعلان اللہ وسایا موصوف کر رہے ہیں اس پر خود ان کے اپنے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ خدمت اسلام کی مہم میں وہ دروغگوئی اور تلبیس اور اخفاء حق کے مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لئے بغیر اپنی کارروائی پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ قریب نصف درجن جھوٹ تو اﷲ وسایا کے رقم کردہ دیباچہ ہی سے جھانکتے نظر آتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیتmuzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہہ وسلم کی تاکیدی وصیت
’جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کے خلیفہ مہدی ہوگا۔‘ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی مامور اور امام آیا کرتے ہیں ان کو قبول کرنا اور ایمان لانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تمام برکتیں ان سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اور ان کے بغیر ہر طرف تاریکی اور جہالت ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ’جو شخص (خدا کے مقرر کردہ) امام کو قبول کئے بغیر مر گیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴، صفحہ ۹۶)
جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان باتوں کا انکار کیا جو محمد ؐ پر...muzaffertahir9
ان مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جو چوہدویں صدی میں امام مہدی کے منتظر تھے
مقام شکر ہے کہ نام نہاد علماءنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ چوہدویں صدی ختم ہوگئی ہے ۔ سارا عالم اسلام چوہدویں صدی میں امام مہدی کا شدت سے منتظر تھا ۔ اور بعض علماءکہا کرتے تھے کہ چوہدویں صدی ختم نہ ہوگی جب تک امام مہدی ظاہر نہ ہوجائے ۔ اگر چوہدویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کے عقیدہ میں مسلمان درست تھے اور یقیناً درست تھے تو معلوم ہوا کہ آنے والا تو چوہدویں صدی میں آچکا لیکن نام نہاد علماءنے اخفاءحق میں مہارت رکھنے کے باعث مسلمانوں کو سچے مہدی کی شناخت سے محروم رکھا ۔
میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے
پاکستان میں دہشت گردی کا بانی
داخلی اور خارجی سیاست کے اعتبار سے آج ہمارے محبوب وطن، پاکستان، کے لئے سب سے بڑا مسئلہ انسداد دہشت گردی ہے ۔اس ہوش ربا اور تشویش انگیز مسئلہ سے نپٹنے کے لئے اولین مرحلہ پر یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ باطل کے سیاہ پوش دستوں کا ’’قافلہ سالار‘‘ کون تھا؟
آئیے اس سلسلہ میں پاکستان کے شیعہ محقق اور ماہنامہ’ خیرالعمل‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عسکری بن احمد کے افکار و تاثرات کا انہی کے الفاظ میں مطالعہ کریں ۔ آپ مذکورہ رسالہ کے شمارہ ستمبر ۱۹۹۷ء (صفحہ ۲۲ تا ۲۵) میں تحریر فرماتے ہیں:
’’موجودہ فرقہ وارانہ منافرت اور بین الفرق الاسلامیہ دہشت گردی کا آغاز جرنل ضیاء الحق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دور سے ہوا۔ دور بین نگاہیں یہ بھی دیکھ سکتی ہیں کہ اسی زمانہ میں بھارت میں دارالعلوم دیوبند کا جشن صدسالہ ہوا جس کی صدارت بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی آنجہانی نے کی۔ اور اس دارالعلوم کو بہت بڑی گرانٹ عطا کی۔ اس جشن میں شرکت کے لئے پاکستان سے بھی کئی دیوبندی اور اہل حدیث علماء کے وفود وہاں گئے۔ اور اندرا گاندھی جو پاکستا ن کو دولخت کرنے کا باعث بنی تھی اورمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں جس کے ہیلی کوپٹرز اور چھاتہ بردار فوج نے کام کیا اسی اندراگاندھی کے منتر نے دیوبند کے جشن میں جانے والے علماء کی پھڑکی گھما دی۔ اور مغربی پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال دیا۔
*۔۔۔ جرنیل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے ہر ہر مرحلے پر سعودی عرب کے علماء اور زعماء یہاں پاکستان تشریف لاتے رہے اور ہدایت کاری کرتے رہے۔ انہی دنوں مسجد کعبہ کے امام جماعت محمد بن عبداللہ بن سبیل نے پاکستان میں آ کر ارشاد فرمایا کہ جو کچھ ہم سعود ی عرب میں کر رہے ہیں وہی کچھ پاکستان میں اہل حدیث کر رہے ہیں۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی قادیانی کی بیمثال محبتmuzaffertahir9
The Ahmadiyya Muslim Community is a dynamic, fast growing international revival movement within Islam. Founded in 1889, it spans over 206 countries with membership exceeding tens of millions. Its current headquarters are in the United Kingdom
The Ahmadiyya Muslim Community is the only Islamic organization to believe that the long-awaited Messiah has come in the person of Mirza Ghulam Ahmad(as) (1835-1908) of Qadian. Ahmad(as) claimed to be the metaphorical second coming of Jesus(as) of Nazareth and the divine guide, whose advent was foretold by the Prophet of Islam, Muhammad(sa). The Ahmadiyya Muslim Community believes that God sent Ahmad(as), like Jesus(as), to end religious wars, condemn bloodshed and reinstitute morality, justice and peace. Ahmad’s(as) advent has brought about an unprecedented era of Islamic revival. He divested Islam of fanatical beliefs and practices by vigorously championing Islam’s true and essential teachings. He also recognized the noble teachings of the great religious founders and saints, including Zoroaster(as), Abraham(as), Moses(as), Jesus(as), Krishna(as), Buddha(as), Confucius(as), Lao Tzu and Guru Nanak, and explained how such teachings converged into the one true Islam.
امام مہدی کی مخالفت ہی صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
شیعه شناسی از آثار منتشر نشده استاد علی اکبر خانجانیalireza behbahani
عرفان انسان کامل امام زمان فلسفه ظهور سیر و سلوک عرفانی فلسفه ازدواج و زناشوئی لقاءالله تشیّع وحدت وجود عشق عرفانی تأویل قرآن معرفت نفس خودشناسی دجال خلق جدید قیامت آدم و حوا عرفان درمانی امامت شفاعت کرامت عرفان شیعی هرمنوتیک اشراق حکمت فلسفه نجات فمینیزم اگزیستانسیالیزم علم توحید اسلام شناسی ظهور امام زمان ناجی موعود دکتر علی شریعتی نیچه هایدگر صادق هدایت فلسفه سینما فلسفه عشق فلسفه دین فلسفه زندگی خودکشی فلسفه طلاق ولایت وجودی شناخت شناسی معرفت شناسی فلسفه ملاصدرا طب اسلامی حکمت الاشراق معراج مهدی موعود فاطمه شناسی علی شناسی امام شناسی شیطان شناسی خداشناسی تئوسوفی حافظ مولانا روزبهان بقلی مولوی ابن عربی رجعت حسینی فلسفه مرگ ابرانسان زرتشت عرفان حلقه اوشو کریشنامورتی فلسفه نماز اسرار صلوة فلسفه گناه بهشت جهنم برزخ عذاب فلسفه بیماری ایدز امراض لاعلاج عرفان اسلامی تناسخ حکومت اسلامی متافیزیک ماورای طبیعت پدیده شناسی خاتمیت غیبت بوبر یاسپرس ادگار آلن پور علائم ظهور حلاج آفرینش جدید عرفانی زایش عرفانی حقیقت محمدی وجه الله آخرالزمان
علی اکبر خانجانی
بد کرداراسلام فروش پاکستنی ملا انگریز کا خود کاشتہ پودا muzaffertahir9
اصل یہ ہے جھوٹی تعریف اور سچی خوشامد پر مبنی نظم ونثر کی صورت میں کاسۂ گدائی جو مسلمان لیڈروں نے انگریز کے آگے پھیلایا۔
یہ تو تم لوگوں کا کردار رہا ہے کہ ایک طرف حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے اس کی خوشامدیں کر کر کے اس کے آگے کاسۂ گدائی پھیلاتے رہے اور دوسری طرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جب خدا تعالیٰ کے مامور کے سامنے ناکام ونامراد رہے تو حکومت وقت کو ان کے خلاف بھڑکانے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ شکایتیں کرنے لگے۔ تمہاری ان شکایتوں اور پرانگیخت کارروائیوں پر اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے ایک سچی اور حق بات کی تو تم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے طوق اتار کر ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے۔ پس یہ ہے تمہاری شکل اور یہ ہے تمہارا کردار ، جو تمہارے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی کا پیغامmuzaffertahir9
ضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557)
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
This book is the first from the series of the books which will be released one after the other to 'expose' the most dangerous Dajali Fitna of the current times "Dawate-Islami" or "Dawate-Ilyasi".
Please must read these books to save your iman and decide with your IMAN & ISHQ, and see how these people are destroying Ahle-Sunnat.
سورۃ آل عمران کی آیت سے وفات مسیح کا ثبوت
ترجمہ : اور محمد نہیں ہیں مگر ایک رسول۔ یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکرگزاروں کو جزا دے گا۔
آمدِ مسیح موعود ء ۔ نزول یا رجوع؟
انصر رضا
دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول ‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع ‘‘ کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریم ؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع ‘‘ کی بجائے ’’نزول ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔
ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر پھر اُسی مقام پر آنے کو رجوع یعنی واپسی کہنے کے قاعدہ کا ثبوت یوں تو عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی لاتعداد مثالوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن اسی نوعیت کی ایک مثال سے یہ بات نہ صرف زبان و بیان کے قواعد اور اُن کے استعمال بلکہ دینی پہلو سے بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے رب
شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی نظر میں
جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانیءجماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانیء جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔
آج ساری امت مسلمہ غیرمعمولی افتراق ، انتشار اور غربت و افلاس اور ذہنی و فکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کے لئے اور اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآ ن کریم میں آئی ہے کہ ’’ تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتی‘‘ کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں ۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کسمپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آ جاتی تھی اور اب نہیں آ رہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوند ی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سور ہ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں) muzaffertahir9
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی توہین کی سزاکا اختیار کئی مصالح کے باعث اس دنیا میں کسی انسان کو نہیں دیا اسی طرح اپنے رسول کی توہین کی سزا کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے
تعزیرات پاکستان کے مطابق نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی اور توہین رسالت کی سزا عمر قید یا موت ہوسکتی تھی۔ 1992ء میں شرعی عدالت کے اس فیصلہ کی بنا پر کہ توہینِ رسالت کی سزا صرف موت ہی ہوسکتی ہے عمر قید کے الفاظ دفعہ 295Cسے حذف کر دیے گئے اور موجودہ ملکی قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے۔
دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا مقصد بھی مفاد عامہ اور قیام امن ہی بتایا گیا تھا مگرگذشتہ سالوں کے تلخ تجربات کے بعد ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس قانون سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس قانون کو فتنہ ، فساد اورظلم کا ذریعہ بنایا گیاہے۔ بالخصوص کمزور اور اقلیتی گروہ اس کی زد میں آئے اور ذاتی عناد کی بنا پر توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات درج کروانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ رجحان روکنے کے لیے ایک اَور قانون متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر غلط مقدمہ درج کروانے والے پر بھی گرفت کی جاسکے ۔ یہ تو اندرونی ملکی صورتِ حال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ ...muzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول
اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں’’قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں۔
’’باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈاکہ مارنے کی سعی ناکام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں۔‘‘
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسبِ ذیل دلیل دیتے ہیں۔(نقل بمطابق اصل )
’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔ مثلاً
* محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۰۷)
* انا اعطینک الکوثر (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۵)
* انک لعلی خلق عظیم (روحانی خزائن ملفوظات جلد ۱ص ۱۴۱)
* وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۶)
*وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین(روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۱)
* یس والقرآن الحکیم (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۱۰)
* سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)‘‘
جب انسان بغض وعناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ ’’ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ‘‘ ایک جھوٹا اور کذّاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت وسلوک کی پاک راہوں کوگندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی �
جماعت احمدیہ کی تاریخ الٰہی نصرت کے نشانوں سے اس طرح بھری پڑی ہے کہ گویا ان کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے ۔ دنیا کاکوئی خطہ نہیں جو ان نشانات سے خالی ہو ۔ خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے صدق و اخلاص او ر وفا کاتعلق رکھنے والے تمام احمدی ان نشانوں کے گواہ ہیں ۔ صرف ذاتی اور انفرادی طورپر یامقامی اور ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ساری جماعت احمدیہ عالمگیر کے ساتھ خدا تعالیٰ کاجو خاص فضل اور احسان کا غیر معمولی سلوک ہے اور اس کی نصرت کے جو نشان موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہیں ان کااحاطہ تو درکنار ان کا تصور بھی کسی انسان کے بس میں نہیں۔
دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
امام مہدی کی مخالفت ہی صداقت کا ثبوت
خدا کی طرف سے آنے والے ماموروں کو ہمیشہ ہی ابنائے عالم کی طرف سے مخالفتوں ، اذیتوں اور دکھوں کا سامنا رہا ہے ۔ اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بڑے افسوس کے ساتھ فرمایا ۔ ’ وائے افسوس انکار کی طرف مائل بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں۔ ‘ (سورۃ یٰس آیت ۳۱)
امت محمدیہ کی تاریخ بھی اسی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور امت محمدیہ کے بزرگوں نے زیادہ تکلیفیں اٹھائیں۔ ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ زندیق قرار دیا گیا اور پھر واجب القتل قرار دے کر انہیں ظالم اور سفاک جلادوں کے سپرد کردیا گیا۔
امت محمدیہ کو ایک ایسے موعود کی خبر دی گئی جس کو الٰہی نوشتوں میں ’امام مہدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور امت کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظریاتی طور پر اس کا انتظار کررہا ہے مگر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک مقدر ہے جو پہلے خدا والوں کے ساتھ ہوچکا ہے اور امت کے بزرگوں نے خود اس کی خبر دی ہے اور بات سب میں مشترک ہے کہ اما م مہدی کے سب سے بڑے مخالف اس کے زمانہ کے علما ء ہوں گے۔ چند حوالے پیش ہیں۔
شیعه شناسی از آثار منتشر نشده استاد علی اکبر خانجانیalireza behbahani
عرفان انسان کامل امام زمان فلسفه ظهور سیر و سلوک عرفانی فلسفه ازدواج و زناشوئی لقاءالله تشیّع وحدت وجود عشق عرفانی تأویل قرآن معرفت نفس خودشناسی دجال خلق جدید قیامت آدم و حوا عرفان درمانی امامت شفاعت کرامت عرفان شیعی هرمنوتیک اشراق حکمت فلسفه نجات فمینیزم اگزیستانسیالیزم علم توحید اسلام شناسی ظهور امام زمان ناجی موعود دکتر علی شریعتی نیچه هایدگر صادق هدایت فلسفه سینما فلسفه عشق فلسفه دین فلسفه زندگی خودکشی فلسفه طلاق ولایت وجودی شناخت شناسی معرفت شناسی فلسفه ملاصدرا طب اسلامی حکمت الاشراق معراج مهدی موعود فاطمه شناسی علی شناسی امام شناسی شیطان شناسی خداشناسی تئوسوفی حافظ مولانا روزبهان بقلی مولوی ابن عربی رجعت حسینی فلسفه مرگ ابرانسان زرتشت عرفان حلقه اوشو کریشنامورتی فلسفه نماز اسرار صلوة فلسفه گناه بهشت جهنم برزخ عذاب فلسفه بیماری ایدز امراض لاعلاج عرفان اسلامی تناسخ حکومت اسلامی متافیزیک ماورای طبیعت پدیده شناسی خاتمیت غیبت بوبر یاسپرس ادگار آلن پور علائم ظهور حلاج آفرینش جدید عرفانی زایش عرفانی حقیقت محمدی وجه الله آخرالزمان
علی اکبر خانجانی
بد کرداراسلام فروش پاکستنی ملا انگریز کا خود کاشتہ پودا muzaffertahir9
اصل یہ ہے جھوٹی تعریف اور سچی خوشامد پر مبنی نظم ونثر کی صورت میں کاسۂ گدائی جو مسلمان لیڈروں نے انگریز کے آگے پھیلایا۔
یہ تو تم لوگوں کا کردار رہا ہے کہ ایک طرف حکومت کی چاپلوسی کرتے رہے اس کی خوشامدیں کر کر کے اس کے آگے کاسۂ گدائی پھیلاتے رہے اور دوسری طرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور جب خدا تعالیٰ کے مامور کے سامنے ناکام ونامراد رہے تو حکومت وقت کو ان کے خلاف بھڑکانے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ شکایتیں کرنے لگے۔ تمہاری ان شکایتوں اور پرانگیخت کارروائیوں پر اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لئے ایک سچی اور حق بات کی تو تم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدوں کے طوق اتار کر ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے۔ پس یہ ہے تمہاری شکل اور یہ ہے تمہارا کردار ، جو تمہارے جھوٹا ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی کا پیغامmuzaffertahir9
ضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی غلامی اور اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کو اسلام اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن کریم کی طرف بلایا جائے ۔چنانچہ آپ بڑے جلال کے ساتھ اور پرحکمت انداز میں کل عالم کو دین محمدی ﷺ کی طرف دعوت دیتے رہے ۔ اور اسلام کے دوبارہ غلبہ کا نیا دور شروع فرمایا ۔ آپ کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔
صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیرالناس ہیں ۔جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں ۔ اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایا ں ہوتے ہیں اور قرآن شریف سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے ۔ (براہین احمدیہ جلد 4صفحہ557)
حدیث لانبی بعدی اور بزرگان امت
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خاتم النبیین کے عظیم الشان لقب سے سرفراز فرمایا ہے ۔ جس کے معنی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق سب سے افضل اور بزرگ ترین نبی کے ہیں ۔ جو نبیوں کامصدق اور زینت ہو اور جس کی کامل اتباع سے خادم اور امتی نبوت کا فیضان جاری ہو ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث یہی مفہوم بیان کرتی ہیں ۔
بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم صحابہ اور بزرگان امت کے مستند حوالوں کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ۔
This book is the first from the series of the books which will be released one after the other to 'expose' the most dangerous Dajali Fitna of the current times "Dawate-Islami" or "Dawate-Ilyasi".
Please must read these books to save your iman and decide with your IMAN & ISHQ, and see how these people are destroying Ahle-Sunnat.
سورۃ آل عمران کی آیت سے وفات مسیح کا ثبوت
ترجمہ : اور محمد نہیں ہیں مگر ایک رسول۔ یقینا اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائےگا تو وہ ہرگز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا۔ اور اللہ یقینا شکرگزاروں کو جزا دے گا۔
آمدِ مسیح موعود ء ۔ نزول یا رجوع؟
انصر رضا
دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول ‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع ‘‘ کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریم ؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع ‘‘ کی بجائے ’’نزول ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔
ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر پھر اُسی مقام پر آنے کو رجوع یعنی واپسی کہنے کے قاعدہ کا ثبوت یوں تو عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی لاتعداد مثالوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن اسی نوعیت کی ایک مثال سے یہ بات نہ صرف زبان و بیان کے قواعد اور اُن کے استعمال بلکہ دینی پہلو سے بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے رب
شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی نظر میں
جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانیءجماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانیء جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔
آج ساری امت مسلمہ غیرمعمولی افتراق ، انتشار اور غربت و افلاس اور ذہنی و فکری پسماندگی کا شکار ہے۔ اس افتراق اور زبوں حالی کو دو ر کرنے کے لئے اور اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی فضا پیدا کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں لیکن آخر وہی ہوتا رہا جس کی نشان دہی قرآ ن کریم میں آئی ہے کہ ’’ تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتی‘‘ کہ بظاہر یہ ایک ہیں مگر ان کے دل انتشار کا شکار ہیں ۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کے اختلافات کو دور کرنے کے لئے جو بھی تحریک اٹھی اس کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور تائید کو جذب کرنے کے اس کے قہر کا مورد بن رہی ہیں۔ کیوں مسلمانوں کی ایسی کسمپرسی کی حالت میں قرون اولیٰ میں تو خدا کی رحمت جوش میں آ جاتی تھی اور اب نہیں آ رہی؟ اس امر پر غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور قرآن کریم اور احادیث کے مضمون کے مطالعہ کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کی اصل بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے اس نعمت خداوند ی سے محروم ہو چکے ہیں جو ان کو متحد کرنے کی ضامن تھی جس کا وعدہ ان سے خدا تعالیٰ نے سور ہ النور کی آیت استخلاف میں ان الفاظ میں دیا تھا:
توہین رسالت کی سزا (قرآن و سنت کی روشنی میں) muzaffertahir9
اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی توہین کی سزاکا اختیار کئی مصالح کے باعث اس دنیا میں کسی انسان کو نہیں دیا اسی طرح اپنے رسول کی توہین کی سزا کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے
تعزیرات پاکستان کے مطابق نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی اور توہین رسالت کی سزا عمر قید یا موت ہوسکتی تھی۔ 1992ء میں شرعی عدالت کے اس فیصلہ کی بنا پر کہ توہینِ رسالت کی سزا صرف موت ہی ہوسکتی ہے عمر قید کے الفاظ دفعہ 295Cسے حذف کر دیے گئے اور موجودہ ملکی قانون کے مطابق توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے۔
دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا مقصد بھی مفاد عامہ اور قیام امن ہی بتایا گیا تھا مگرگذشتہ سالوں کے تلخ تجربات کے بعد ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس قانون سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے بلکہ الٹا اس قانون کو فتنہ ، فساد اورظلم کا ذریعہ بنایا گیاہے۔ بالخصوص کمزور اور اقلیتی گروہ اس کی زد میں آئے اور ذاتی عناد کی بنا پر توہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات درج کروانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ رجحان روکنے کے لیے ایک اَور قانون متعارف کروانے کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر غلط مقدمہ درج کروانے والے پر بھی گرفت کی جاسکے ۔ یہ تو اندرونی ملکی صورتِ حال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ ...muzaffertahir9
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وا آلہ وسلم کی شان میں نازل ہونے والی آیات کا دوبارہ نزول
اپنی ’’بے لگام کتاب‘‘ میں’’قادیانی اخلاق ‘‘ کے عنوان کے تحت راشد علی اور اس کا پیر لکھتے ہیں۔
’’باوجود اس کے کہ مرزا صاحب حضور ﷺ کی محبت کے دعویدار تھے مگر ان کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور اور دیانتدار شخص اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ مرزا صاحب کی سب سے زیادہ رقابت جن دو ہستیوں سے تھی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ کہیں تو ان کے فضائل پر ڈاکہ مارنے کی سعی ناکام تھی تو کہیں ان کو ان کے مقام سے گرانے کی مزموم کوششیں۔‘‘
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی توہین کے بدترین الزام کے ثبوت کے لئے راشد علی اور اس کا پیر حسبِ ذیل دلیل دیتے ہیں۔(نقل بمطابق اصل )
’’ہر وہ آیت جو قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں نازل فرمائی وہ مرزا صاحب کا ٹیچی ٹیچی فرشتہ ان کے حق میں لے کر نازل ہوا۔ مثلاً
* محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کے الہام میں محمد رسول اللہ سے مراد میں ہی ہوں اور رسول اللہ خدا نے مجھے کہا ہے۔ (ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۰۷)
* انا اعطینک الکوثر (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۵)
* انک لعلی خلق عظیم (روحانی خزائن ملفوظات جلد ۱ص ۱۴۱)
* وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۶)
*وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین(روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۱۱)
* یس والقرآن الحکیم (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۱۰)
* سبحان الذی اسری بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی (روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۸۱)‘‘
جب انسان بغض وعناد میں اندھا ہو جائے تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے جن کا ذکر اس مثال میں بیان ہوا ہے کہ ’’ گیدڑ کی موت آئے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ‘‘ ایک جھوٹا اور کذّاب جب دین کے معاملات میں دخل دے گا اور معرفت وسلوک کی پاک راہوں کوگندہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس کے فرشتوں اور عوام الناس کی �
جماعت احمدیہ کی تاریخ الٰہی نصرت کے نشانوں سے اس طرح بھری پڑی ہے کہ گویا ان کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے ۔ دنیا کاکوئی خطہ نہیں جو ان نشانات سے خالی ہو ۔ خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے صدق و اخلاص او ر وفا کاتعلق رکھنے والے تمام احمدی ان نشانوں کے گواہ ہیں ۔ صرف ذاتی اور انفرادی طورپر یامقامی اور ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ساری جماعت احمدیہ عالمگیر کے ساتھ خدا تعالیٰ کاجو خاص فضل اور احسان کا غیر معمولی سلوک ہے اور اس کی نصرت کے جو نشان موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہیں ان کااحاطہ تو درکنار ان کا تصور بھی کسی انسان کے بس میں نہیں۔
دعاؤں کی تاثیر آب و آتش سے بڑھ کر ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طورپر سامنے آتی ہے کہ آپ کااوڑھنا بچھونا گویادعا ہی تھا اورآپ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۵ صفحہ ۳۶)
مذهب اصالت عشق جلد دوم از آثار منتشر نشده استاد علی اکبر خانجانیalireza behbahani
عرفان انسان کامل امام زمان فلسفه ظهور سیر و سلوک عرفانی فلسفه ازدواج و زناشوئی لقاءالله تشیّع وحدت وجود عشق عرفانی تأویل قرآن معرفت نفس خودشناسی دجال خلق جدید قیامت آدم و حوا عرفان درمانی امامت شفاعت کرامت عرفان شیعی هرمنوتیک اشراق حکمت فلسفه نجات فمینیزم اگزیستانسیالیزم علم توحید اسلام شناسی ظهور امام زمان ناجی موعود دکتر علی شریعتی نیچه هایدگر صادق هدایت فلسفه سینما فلسفه عشق فلسفه دین فلسفه زندگی خودکشی فلسفه طلاق ولایت وجودی شناخت شناسی معرفت شناسی فلسفه ملاصدرا طب اسلامی حکمت الاشراق معراج مهدی موعود فاطمه شناسی علی شناسی امام شناسی شیطان شناسی خداشناسی تئوسوفی حافظ مولانا روزبهان بقلی مولوی ابن عربی رجعت حسینی فلسفه مرگ ابر انسان زرتشت عرفان حلقه اوشو کریشنامورتی فلسفه نماز اسرار صلوة فلسفه گناه بهشت جهنم برزخ عذاب فلسفه بیماری ایدز امراض لاعلاج عرفان اسلامی تناسخ حکومت اسلامی متافیزیک ماورای طبیعت پدیده شناسی خاتمیت غیبت بوبر یاسپرس ادگار آلن پو علائم ظهور حلاج آفرینش جدید عرفانی زایش عرفانی حقیقت محمدی وجه الله آخرالزمان
علی اکبر خانجانی
Hadaiq e bakhshish ki Aruuzi Pemaish By Mushahid Raza MisbahiAbul Meezab
قادری پرنٹنگ اینڈ ڈیزائننگ لکھنؤ کی جانب سے تیار کردہ ”حدائق بخشش کی عروضی پیمائش“ بعدِ اجازتِ مصنف بغرضِ استفادۂ عام اوریجنل پی۔ڈی۔ایف۔ فارمیٹ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہے خوب خوب استفادہ کریں اور اپنے دوست و احباب میں کے ساتھ شیئر کرنے کی عام اجازت ہے۔
مختصر تعارف
نامِ کتاب: حدائق بخشش کی عروضی پیمائش
مصنف: محمد مشاہد رضا عبید القادری مصباحی
تصحیح و نظر ثانی: ڈاکٹر ناظم فاروق قادری بریلوی
صفحات: 111
طباعت: قادری پریس لکھنؤ 8534041142
ناشر: شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ ام الخیر سعد اللہ نگر بلرامپور یوپی۔
Sutoon e Naat (by Qumer Anjum)-owaisoloGyAbul Meezab
Book: Sutoon e Naat (Majmoa e Hamd o Naat / Manqbat)
Poet: Qumer Anjum
کتاب: ستونِ نعت (بلغ العلٰی بکمالہ) مجموعہِ حمد و نعت و مناقب
شاعر: قمر انجؔم
www.facebook.com/owaisoloGy
Akhtar ul hamidi ki naat (mahnama naat lahore)Abul Meezab
Akhtar ul Hamidi ki Naat (Mahnama Naat Lahore) az Raja Rasheed Mehmood
ماہنامہ نعت (لاہور) ’’اختؔرالحامدی کی نعت‘‘ (از راجا رشید محمود)
مولانا سید مرغوب احمد اختؔر الحامدی (صاحبِ تضمینِ سلامِ رضا اور صاحبِ تضمینِ قصیدہِ نور) کی شاعری کے حوالے سے مئی 1994 میں شایع ہونے والا خصوصی شمارہ
سید اختؔر الحامدی مرحوم کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام کا انتخاب مع مرحوم کی شاعری کے حوالے سے مضامین بھی شامل ہیں۔
طالبِ دعا: ابو المیزاب محمد اویس رضوی
www.facebook.com/owaisoloGy
کتاب: ظہورِ قدسی
کلام: سحر کا وقت تھا معصوم کلیاں مسکراتی تھیں
سلام: سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
شاعر: ماؔہر القادری
Book: Zahoor e Qudsi by Mahir ul Qadri
Kalam: Salam us per k jis ne be-kason ki dastgiri ki
طالبِ دعا: ابو المیزاب محمد اویس رضوی
www.facebook.com/owaisoloGy
Ba Huzoor khatim ul ambiya (by raghib muradabadi) Durood o SalamAbul Meezab
کتاب: ’’بحضور خاتم الانبیاء‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم (درود و سلام اور نعتیہ رباعیات)
شاعر: راغؔب مرادآبادی
Book: Ba Huzoor Khatim ul Ambiya (majmoa e Durood o Salam)
Poet: Raghib Muradabadi
طالبِ دعا: ابو المیزاب محمد اویس رضوی
www.facebook.com/owaisoloGy
Midhat e khairul bashar (by raghib muradabadi)- owaisolo gyAbul Meezab
کتاب: مدحتِ خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم (غاؔلب کی زمینوں میں63 نعتیں)
شاعر: راغؔب مرادآبادی
طالبِ دعا: ابو المیزاب محمد اویس رضوی
Book: Midhat e Khair ul Bashar (Majmoa e Naat)
Ghalib ki zameeno main 63 Naat
Poet: Raghib Muradabadi
Tajalliyat e Haramain (by Tariq Sultan Puri) owaisoloGyAbul Meezab
کتاب: تجلیاتِ حرمین (سفر نامہِ حجاز) ۔۔ تاریخی نام: رابطہِ بخشش
شاعر: سلطان الشعراء محمد عبدالقیوم طارؔق سلطان پوری مرحوم (حسن ابدال،اٹک)
book: Tajalliyat e Haramain
Port: Tariq Sultan Puri (Hasan Abdal, Attock)
naatiya safar nama .. نعتیہ سفر نامہ
Zikr e Habib (by Wasif Ali Wasif) - Majmoa e hamd o NaatAbul Meezab
Book: Zikr e Habib
Poet: Wasif Ali Wasif
Majmoa e hamd o Naat
کتاب: ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم (مجموعہِ حمد و نعت) شاعر؛ واصف علی واصف
اردو نعت، اردو حمد، اردو دعا، مناجات، سلام
Khoshboo e Adeeb (Majmoa e Naa) - owaisoloGyAbul Meezab
کتاب: خوشبوئے ادیب (باقیاتِ سید محمد حسین ادیؔب رائے پوری)
شاعر؛ سید محمد حسین ادیؔب رائے پوری
Book: Khoshboo e Adeeb
Poet; Syed Muhammad Hussain Adeeb rai puri
مجموعہِ حمد و نعت
Majmoa e Hamd o naat
Laa Shareek (by Muzaffar Warsi) owaisoloGyAbul Meezab
مجموعہِ حمد و مناجات ’’لا شریک‘‘ از الحاج مظفر وارثی صدیقی مرحوم
نوٹ: اس پی ڈی ایف فائل میں وہ کلام شامل نہیں کیے گئے جو پہلے حمدیہ مجموعہ ’’الحمد‘‘ میں موجود ہیں۔
طالبِ دعا: ابو المیزاب اویس آبؔ رضوی
Book: Laa Shareek (Majmoa e Hamd) by Muzaffar Warsi
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan SaeediAbul Meezab
Aaina e Wahhabiyat آئینہِ وھابیت by Allama Adnan Saeedi
اس کتاب میں: ہندوستان میں وھابیت اور انگریز فائنانسنگ کا ظہور
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی علمی اور عملی حالت
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کے شرمناک مسائل
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) کی گستاخیاں
غیر مقلدین (نام نہاد فرقہِ اہلحدیث) اور مرزا غلام احمد قادیانی
Ghair Moqallideen (naam nihad Ahle Hadees) ki Ilmi or Amali Halat
Hindostan main Wahabiyyat or Angrazi Financing ka zahoor
British Financing in India and the Sect of Ahl e Hadees (Ghair Moqallid)
Tehreek e Pakistan Kon Mukhalif Kon baniAbul Meezab
Tehreek e Pakistan Kon Mukhalif Kon bani (ek tehqeeqi jaiza)
by: Allama Adnan Saeedi Rizvi
کتاب کا نام: تحریکِ پاکستان کون مخالف کون بانی
تحقیق: شحاذِ رضؔا علامہ محمد عدنان سعیدی رضوی
Subhan Allah Ma Ajmalaka (by Tariq Sultan Puri) Naatiya KalaamAbul Meezab
Subhan Allah Ma Ajmalaka (Naatiya Kalaam) by Tariq Sultan Puri
سبحان اللہ ما اجملک (نعتیہ کلام) محمد عبد القیوم طارؔق سلطان پوری
یہ کتاب فروغِ نعت (اٹک) کے نویں شمارہ سے لی گئی ہے
ادارہ فروغِ نعت (اٹک) سے رابطے کے لئے: http://www.faroghenaat.org/index.php
بشکریہ جناب سید شاکر القادری صاحب
https://www.facebook.com/shakirulqadree
Sharha Qasida e Mairaj (Imam Ahmed Raza Khan)Abul Meezab
مختصر شرح، قصیدہِ معراج
وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
شاعر: امامِ اہلسنت، الشاہ امام احمد رضا خان