1. پر ندےکی فرياد
کيا بد نصيب ہوں ميں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہيں وطن ميں ، ميں قيد ميں پڑا ہوں
آتا ہے ياد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاريں وہ سب کا چہچہانا
آئی بہار کلياں پھولوں کی ہنس رہی ہيں
ميں اس اندھيرے گھر ميں قسمت کو رو رہا ہوں
آزادياں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
اس قيد کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے يہيں قفسں ميں ميں غم سے مر نہ جاؤں
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے ياد جس دم
شبنم کے آنسوئوں پر کليوں کا مسکرانا
جب سے چمن چھٹا ہے ، يہ حال ہو گيا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
وہ پياری پياری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا ميرا آشيانا
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فرياد يہ صدا ہے
آتی نہيں صدائيں اس کی مرے قفس ميں
ہوتی مری رہائی اے کاش ميرے بس ميں
آزاد مجھ کو کر دے ، او قيد کرنے والے
ميں بے زباں ہوں قيدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
پہاڑ ارو گلہری
کوئی پہاڑ يہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی ميں جا کے ڈوب مرے
جو ميں بڑی نہيں تيری طرح تو کيا پروا
نہيں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
2. ذرا سی چيز ہے ، اس پر غرور ، کيا کہنا
يہ عقل اور يہ سمجھ ، يہ شعور ، کيا کہنا!
ہر ايک چيز سے پيدا خدا کی قدرت ہے
ک وئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، يہ اس کی حکمت ہے
خدا کی شان ہے ناچيز چيز بن بيٹھيں
جو بے شعور ہوں يوں باتميز بن بيٹھيں
بڑا جہان ميں تجھ کو بنا ديا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا ديا اس نے
تری بساط ہے کيا ميری شان کے آگے
زميں ہے پست مری آن بان کے آگے
قدم اٹھانے کی طاقت نہيں ذرا تجھ ميں
نری بڑائی ہے ، خوبی ہے اور کيا تجھ ميں
جو بات مجھ ميں ہے ، تجھ کو وہ ہے نصيب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غريب کہاں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
يہ چھاليا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
کہا يہ سن کے گلہری نے ، منہ سنبھال ذرا
يہ کچی باتيں ہيں دل سے انھيں نکال ذرا
نہيں ہے چيز نکمی کوئی زمانے ميں
کوئی برا نہيں قدرت کے کارخانے ميں