گزشتہ برس استنبول میں سلطان محمد فاتح کی تلوار دیکھ کر لکھے چند اشعار
-------------------------------------
قدم زمیں میں گاڑ کر
گُماں کی دُھول جھاڑ کر
وہ بانگ دے کہ آسماں
تڑپ اُٹھے
لَرَز اُٹھے!
(نویدؔ رزاق بٹ)
پنجره ضد سرقت ایرانی ترک المانی یو پی وی سی ایرانی ترک آلمانی, فروش پنجره دو سه جداره يو پي وي سي ويستابست, فروش تعویض پنجره قدیمی آهنی, فروش پنجره دوجداره ضد صرقت
سازنده در و پنجره دوجداره upvc, ساخت تولید پنجره دوجداره یو پی وی سی وين تک ویستابست , پنجره يو پي وي سي ويستابستدر ایران , پنجره يو پي وي سي کشويي وينتک تهران, پرده کرکره بين شيشه دوجداره, توری پنجره دوجداره ضدگرد غبار و سرما و گرما عایق بهترین برای بیرون داخل ساختمان می باشد
پنجره دو سه جداره با افتخار با خدمات ذیل در خدمت مشتریان و همشریانمی باشد
تولید و نصب انواع پنجره های دوجداره
تولید انواع شیشه های 2 و 3 جداره
تعویض پنجره های قدیمی بدون تخریب
ارائه دهنده پنجره های طرح چوب
تزریق گاز ارگون
پروفیل های تولیدی شرکت درب و پنجره دوجداره یو پی وی سی تولیدی ویستابستوین تک, در برابر تمامی مشکلات و صدمات ناشی از عدم رعایت موارد فنی و کیفی تولید پروفیل
که منجر به تغییر رنگ فاحش, انحنا, شکستگی, تغییر شکل (دفرمه شدن) در پروفیل میشود
تا پایان تاریخ ضمانت نامه مورد تضمین شرکت بیمه اسیا می باشد
Contract Us
http://windowdoubleglazed.tebyan.net/
تعارف
بسم اللہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔
میرا پہلا مجموعہءِکلام پیشِ خدمت ہے۔ کتاب کے عنوان اور انتساب کے حوالے سے چندمختصر وضاحتیں شاید ضروری ہیں۔بالعموم اہلِ لاہورسمجھدار اور معاشرے کی ناہمواریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں۔عنوان میں ذکر صرف ایک نادان کا ہے جو اِن میں رہنے کے باوجود کچھ زیادہ سیکھ نہیں پایا۔ اور معاملات کو سمجھے بغیر، جہاں کوئی چیز دل و دماغ کو کھٹکتی ہے، فوراً سوال کر ڈالتا ہے۔ یہ کتاب اِسی نادان کے سوالات اور الجھنوں کا مجموعہ ہے۔
بوڑھے مزدوروں کے نام اس لئے کہ بڑھاپے میں سخت محنت کے کام کرنے والے ایسے کئی 'دھیاڑی' داروں کو دیکھنے کا موقع ملا، اور ہر بار اُن کی جھریوں اور پتھرائی نگاہوں میں معاشرے کی ناانصافیوں کی مکمل تفصیل درج نظر آئی۔ میری شدید خواہش ہے کہ ایک دن وطنِ عزیز ایک فلاحی ریاست اور معاشرہ بن سکے جہاں 'سب سے پہلے کمزور' کا اُصول ہر ریاستی پالیسی اور ہر معاشرتی تعلق میں نظر آئے۔
کتاب اور اِس کے پیغام کے بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
،بہت شکریہ
نوید رزاق بٹ
سوچ کا سلسلہ ہے، اور میں ہوں
عکس ہے، آئنہ ہے، اور میں ہوں
دیکھیئے کیا سفر میں گزرے ہے
دشت ہے، رہنما ہے، اور میں ہوں
لوٹتے سب ہیں اپنی فطرت کو
پھر وہی راستہ ہے، اور میں ہوں
توڑ کر آئینے نظر آیا
چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں
پھر سے ٹوُٹے گا دل یہ بے چارہ
پھر وہی بے وفا ہے، اور میں ہوں
( نویدؔ رزاق بٹ)
پنچھی جو پلے ہوں پنچروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
(نویدؔ بٹ)
(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا منظوم ترجمہ ہے)
ایک سوال
۔
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
ترستے پنچھی نے جان دے دی
ملی نہ پانی کی بوند اُس کو
چُرائے کس نے چمن کے چشمے؟
سجائے کس نے سراب لوگو؟
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
یہ رشوتوں کا نظام، ہائے
یہ جھُوٹا سچا کلام، ہائے
یہ منصبوں کو سلام، ہائے
یہ ‘تیز دولت’ کے خواب لوگو
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
(نویدؔ بٹ)
How to make your company's facebook page awesomeChristina Wasson
This document provides instructions for creating a custom Facebook page using Pagemodo.com. It outlines the prerequisites needed, including having a Facebook page for your business and images/photos. It then walks through the steps to select a template on Pagemodo, customize it, and install the customized page as the default landing page on your Facebook business page. The overall goal is to help organizations create an engaging Facebook presence.
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
پنجره ضد سرقت ایرانی ترک المانی یو پی وی سی ایرانی ترک آلمانی, فروش پنجره دو سه جداره يو پي وي سي ويستابست, فروش تعویض پنجره قدیمی آهنی, فروش پنجره دوجداره ضد صرقت
سازنده در و پنجره دوجداره upvc, ساخت تولید پنجره دوجداره یو پی وی سی وين تک ویستابست , پنجره يو پي وي سي ويستابستدر ایران , پنجره يو پي وي سي کشويي وينتک تهران, پرده کرکره بين شيشه دوجداره, توری پنجره دوجداره ضدگرد غبار و سرما و گرما عایق بهترین برای بیرون داخل ساختمان می باشد
پنجره دو سه جداره با افتخار با خدمات ذیل در خدمت مشتریان و همشریانمی باشد
تولید و نصب انواع پنجره های دوجداره
تولید انواع شیشه های 2 و 3 جداره
تعویض پنجره های قدیمی بدون تخریب
ارائه دهنده پنجره های طرح چوب
تزریق گاز ارگون
پروفیل های تولیدی شرکت درب و پنجره دوجداره یو پی وی سی تولیدی ویستابستوین تک, در برابر تمامی مشکلات و صدمات ناشی از عدم رعایت موارد فنی و کیفی تولید پروفیل
که منجر به تغییر رنگ فاحش, انحنا, شکستگی, تغییر شکل (دفرمه شدن) در پروفیل میشود
تا پایان تاریخ ضمانت نامه مورد تضمین شرکت بیمه اسیا می باشد
Contract Us
http://windowdoubleglazed.tebyan.net/
تعارف
بسم اللہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔
میرا پہلا مجموعہءِکلام پیشِ خدمت ہے۔ کتاب کے عنوان اور انتساب کے حوالے سے چندمختصر وضاحتیں شاید ضروری ہیں۔بالعموم اہلِ لاہورسمجھدار اور معاشرے کی ناہمواریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں۔عنوان میں ذکر صرف ایک نادان کا ہے جو اِن میں رہنے کے باوجود کچھ زیادہ سیکھ نہیں پایا۔ اور معاملات کو سمجھے بغیر، جہاں کوئی چیز دل و دماغ کو کھٹکتی ہے، فوراً سوال کر ڈالتا ہے۔ یہ کتاب اِسی نادان کے سوالات اور الجھنوں کا مجموعہ ہے۔
بوڑھے مزدوروں کے نام اس لئے کہ بڑھاپے میں سخت محنت کے کام کرنے والے ایسے کئی 'دھیاڑی' داروں کو دیکھنے کا موقع ملا، اور ہر بار اُن کی جھریوں اور پتھرائی نگاہوں میں معاشرے کی ناانصافیوں کی مکمل تفصیل درج نظر آئی۔ میری شدید خواہش ہے کہ ایک دن وطنِ عزیز ایک فلاحی ریاست اور معاشرہ بن سکے جہاں 'سب سے پہلے کمزور' کا اُصول ہر ریاستی پالیسی اور ہر معاشرتی تعلق میں نظر آئے۔
کتاب اور اِس کے پیغام کے بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
،بہت شکریہ
نوید رزاق بٹ
سوچ کا سلسلہ ہے، اور میں ہوں
عکس ہے، آئنہ ہے، اور میں ہوں
دیکھیئے کیا سفر میں گزرے ہے
دشت ہے، رہنما ہے، اور میں ہوں
لوٹتے سب ہیں اپنی فطرت کو
پھر وہی راستہ ہے، اور میں ہوں
توڑ کر آئینے نظر آیا
چار سُو اِک خلا ہے، اور میں ہوں
پھر سے ٹوُٹے گا دل یہ بے چارہ
پھر وہی بے وفا ہے، اور میں ہوں
( نویدؔ رزاق بٹ)
پنچھی جو پلے ہوں پنچروں میں*
پرواز کو سمجھیں بیماری
جو ہونٹ سِلے ہوں صدیوں سے
آواز کو سمجھیں بیماری
(نویدؔ بٹ)
(* پہلا شعر مصنف اور فلمساز الیگزندرو جودوروسکی کے قول کا منظوم ترجمہ ہے)
ایک سوال
۔
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
ہمی تو ہیں اِس چمن کے باسی
ہمی نے روندے گلاب لوگو!
ترستے پنچھی نے جان دے دی
ملی نہ پانی کی بوند اُس کو
چُرائے کس نے چمن کے چشمے؟
سجائے کس نے سراب لوگو؟
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
یہ رشوتوں کا نظام، ہائے
یہ جھُوٹا سچا کلام، ہائے
یہ منصبوں کو سلام، ہائے
یہ ‘تیز دولت’ کے خواب لوگو
کِیا ہے کس نے خراب لوگو
بتاؤ کر کے حساب لوگو
(نویدؔ بٹ)
How to make your company's facebook page awesomeChristina Wasson
This document provides instructions for creating a custom Facebook page using Pagemodo.com. It outlines the prerequisites needed, including having a Facebook page for your business and images/photos. It then walks through the steps to select a template on Pagemodo, customize it, and install the customized page as the default landing page on your Facebook business page. The overall goal is to help organizations create an engaging Facebook presence.
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں