تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
The document is a poem expressing longing and devotion for a beloved. It uses rich imagery to describe the beauty and perfection of the beloved, and expresses how the beloved is the poet's companion, friend, and source of joy. It calls the beloved to come together with the poet.
Nou afsaanay aik kahani by ibnay muneebIbnay Muneeb
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دِن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے!
'بارہ افسانے' کے تقریبا چار سال بعد 'نو افسانے، ایک کہانی' کے عنوان سے میرا دوسرا نثری مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ افسانے (اور کہانی) شامل ہیں جو میں نے نومبر۲۰۱۵ سے اب تک لکھے۔ کہتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا ایک مختلف کتاب پڑھتا ہے۔ دیکھیے آپ اِس کتاب میں کیا پڑھتے ہیں۔اِس سلسلے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
بہت شکریہ،
ابنِ منیب
فروری ۲۰۲۰
(ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
- اِبنِ مُنیبؔ
"وقار"
جمعے کی شب آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر سترہ سالہ احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ کو محلے والوں کے سامنے گھونسوں، لاتوں، اور گالیوں کی مدد سے وین میں لادا گیا اور پھر اِسی اہتمام کے ساتھ تھانے میں لا کر ایک جیل سَیل میں دھکیل دیا گیا۔ رات بھر وقفے وقفے سے پَیٹ کے بل لِٹا کر اور نیم برہنہ حالت میں خصوصی چمڑے کے جوتے سے اُس کی خاطر مدارات کی گئی۔ بیچ بیچ میں تھانیدار اور سپاہی حسبِ استطاعت ٹھڈے مارتے اور فحش گالیاں دیتے رہے۔
احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ پر الزام تھا کہ اُس نے کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کی ٹیم کا جھنڈا کمرے کی کھڑکی سے لٹکا رکھا تھا۔ تھانے میں چند دن کی اچھی طبیعت صفائی کے بعد اُس سے حلفیہ بیان لکھوایا گیا
"مَیں احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ، مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی زبردستی کے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کا جھنڈا کھڑکی سے لٹکایا۔ میرے اِس فعل نے بِیس کروڑ کی اِس باعزت قوم کے وقار کو پامال کِیا۔ میں آئندہ ایسی کسی بھی حرکت سے دُور رہوں گا۔"
اِس کے بعد اُسے تھانے سے باہر دھکیل دیا گیا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
- اِبنِ مُنیبؔ
Procrastination is a common challenge that many individuals face when it comes to completing tasks and achieving goals. It can hinder productivity and lead to feelings of stress and frustration.
However, with the right strategies and mindset, it is possible to overcome procrastination and increase productivity.
In this article, we will explore the causes of procrastination, how to recognize the signs of procrastination in oneself, and effective strategies for overcoming procrastination and boosting productivity.
You may be stressed about revealing your cancer diagnosis to your child or children.
Children love stories and these often provide parents with a means of broaching tricky subjects and so the ‘The Secret Warrior’ book was especially written for CANSA TLC, by creative writer and social worker, Sally Ann Carter.
Find out more:
https://cansa.org.za/resources-to-help-share-a-parent-or-loved-ones-cancer-diagnosis-with-a-child/
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
The document is a poem expressing longing and devotion for a beloved. It uses rich imagery to describe the beauty and perfection of the beloved, and expresses how the beloved is the poet's companion, friend, and source of joy. It calls the beloved to come together with the poet.
Nou afsaanay aik kahani by ibnay muneebIbnay Muneeb
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دِن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے!
'بارہ افسانے' کے تقریبا چار سال بعد 'نو افسانے، ایک کہانی' کے عنوان سے میرا دوسرا نثری مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ افسانے (اور کہانی) شامل ہیں جو میں نے نومبر۲۰۱۵ سے اب تک لکھے۔ کہتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا ایک مختلف کتاب پڑھتا ہے۔ دیکھیے آپ اِس کتاب میں کیا پڑھتے ہیں۔اِس سلسلے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
بہت شکریہ،
ابنِ منیب
فروری ۲۰۲۰
(ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
- اِبنِ مُنیبؔ
"وقار"
جمعے کی شب آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر سترہ سالہ احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ کو محلے والوں کے سامنے گھونسوں، لاتوں، اور گالیوں کی مدد سے وین میں لادا گیا اور پھر اِسی اہتمام کے ساتھ تھانے میں لا کر ایک جیل سَیل میں دھکیل دیا گیا۔ رات بھر وقفے وقفے سے پَیٹ کے بل لِٹا کر اور نیم برہنہ حالت میں خصوصی چمڑے کے جوتے سے اُس کی خاطر مدارات کی گئی۔ بیچ بیچ میں تھانیدار اور سپاہی حسبِ استطاعت ٹھڈے مارتے اور فحش گالیاں دیتے رہے۔
احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ پر الزام تھا کہ اُس نے کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کی ٹیم کا جھنڈا کمرے کی کھڑکی سے لٹکا رکھا تھا۔ تھانے میں چند دن کی اچھی طبیعت صفائی کے بعد اُس سے حلفیہ بیان لکھوایا گیا
"مَیں احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ، مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی زبردستی کے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کا جھنڈا کھڑکی سے لٹکایا۔ میرے اِس فعل نے بِیس کروڑ کی اِس باعزت قوم کے وقار کو پامال کِیا۔ میں آئندہ ایسی کسی بھی حرکت سے دُور رہوں گا۔"
اِس کے بعد اُسے تھانے سے باہر دھکیل دیا گیا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
- اِبنِ مُنیبؔ
Procrastination is a common challenge that many individuals face when it comes to completing tasks and achieving goals. It can hinder productivity and lead to feelings of stress and frustration.
However, with the right strategies and mindset, it is possible to overcome procrastination and increase productivity.
In this article, we will explore the causes of procrastination, how to recognize the signs of procrastination in oneself, and effective strategies for overcoming procrastination and boosting productivity.
You may be stressed about revealing your cancer diagnosis to your child or children.
Children love stories and these often provide parents with a means of broaching tricky subjects and so the ‘The Secret Warrior’ book was especially written for CANSA TLC, by creative writer and social worker, Sally Ann Carter.
Find out more:
https://cansa.org.za/resources-to-help-share-a-parent-or-loved-ones-cancer-diagnosis-with-a-child/
Understanding of Self - Applied Social Psychology - Psychology SuperNotesPsychoTech Services
A proprietary approach developed by bringing together the best of learning theories from Psychology, design principles from the world of visualization, and pedagogical methods from over a decade of training experience, that enables you to: Learn better, faster!
Aggression - Applied Social Psychology - Psychology SuperNotesPsychoTech Services
A proprietary approach developed by bringing together the best of learning theories from Psychology, design principles from the world of visualization, and pedagogical methods from over a decade of training experience, that enables you to: Learn better, faster!
As we navigate through the ebbs and flows of life, it is natural to experience moments of low motivation and dwindling passion for our goals.
However, it is important to remember that this is a common hurdle that can be overcome with the right strategies in place.
In this guide, we will explore ways to rekindle the fire within you and stay motivated towards your aspirations.
ProSocial Behaviour - Applied Social Psychology - Psychology SuperNotesPsychoTech Services
A proprietary approach developed by bringing together the best of learning theories from Psychology, design principles from the world of visualization, and pedagogical methods from over a decade of training experience, that enables you to: Learn better, faster!