SlideShare a Scribd company logo
1 of 8
گہری جڑیں 
)wiawu rawna( 
اصغر بھائی بڑی بے چینی سے ظفر کا انتظار کر رہے ہیں. 
ظفر ان کا چھوٹا بھائی ہے. 
انہوں سوچ رکھا ہے کہ وہ آ جائے تو پھر فیصلہ لے ہی لیا جائے، یہ 
روز روز کی خوف-تشویش سے چھٹکارا تو ملے! 
اس معاملے کو زیادہ دن ٹالنا اب ٹھیک نہیں. 
کل فون پر ظفر سے بہت دیر تک باتیں تو ہوئی تھیں. 
اس نے کہا تھا کہ -'بھایجان آپ پریشان نہ ہوں، میں آ رہا ہوں. " 
اصغر بھائی 'هایپر-ٹینشن' اور 'ڈایبٹیج' کے مریض ٹھہرے. چھوٹی چھوٹی بات سے 
پریشان ہو جاتے ہیں. 
من بہلانے کے لیے ظفر میٹنگ میں آئے. 
منیرا ٹی وی دیکھ رہی تھی. جب سے 'گودهرا -پركر' چالو ہوا، گھر میں اسی 
طرح 'آج-تک' اور 'اسٹار-پلس' چینل کو باری باری چینل بدل کر گھنٹوں سے 
دیکھا جا رہا تھا. پھر بھی چین نہ پڑتا تھا تو اصغر بھائی ریڈیو-ٹرانجسٹر 
پر بی بی سی کے خبروں سے مقامی میڈیا کے خبروں کا تقابلی مطالعہ 
کرنے لگتے. 
تمام چینلوں میں ننگے-نرشس حقیقت کو ناظرین تک پہنچانے کی دوڑ سی لگی ہوئی 
تھی. 
منیرا کے ہاتھوں سے اصغر نے ریموٹ لے کر چینل بدل دیا. 
'ڈسکوری چینل' میں هرو کے جھنڈ کا شکار کرتے "کٹھور کو دکھایا جا رہا 
تھا. "کٹھور گرراتا ہوا هرو کو دوڑا رہا تھا. اپنی جانیں کی حفاظت 
کرتے ہرن اندها دهند بھاگ رہے تھے. 
اصغر بھائی سوچنے لگے کہ اسی طرح تو آج ڈرے-سھمے لوگ گجرات میں جان 
بچانے 
کے لئے بھاگ رہے ہیں. 
انہوں پھر چینل بدل دیا. ذاتی خبریں چینل کا ایک منظر کیمرے کا 
سامنا کر رہا تھا. شیشے کی بوتلوں سے پٹرول-بم کا کام لیتے احمد آباد کی 
اکثریت لوگ اور ویران ہوتی اقلیتی ابادیا. بھیڑ-نظام کی بربریت
کو بڑی ڈهیٹھتا کے ساتھ 'آرام دہ-ردعمل' 'بتاتا ایک اقتدار-پروش. ٹیلی ویژن 
پر چلتی ڈهیٹھ بحث کہ ریاستی پولیس کو اور موقع دیا جائے یا کہ فوج 
'ڈپلاي' کی جائے. 
اقتدار پارٹی اور حزب اختلاف کے درمیان میت-تعداد کے اعداد و شمار پر ابھرتا 
مزاحمت. 
اقتدار فریق کی دلیل کہ سن چوراسی کے قتل عام سے یہ تعداد کافی کم ہے. 
اس وقت آج کے اپوزیشن تب مرکز میں تھے اور کتنی معصومیت سے یہ دلیل دی 
گئی تھی - '' ایک بڑا پیر گرنے سے بھونچال آنا فطری ہے. '' 
اس بار بھونچال تو نہیں آیا لیکن نیوٹن کی رفتار کے تیسرے اصول کی 
دهجیاں ضرور اڑائی گئیں. 
'فعل کے برعکس ردعمل ...' ' 
اصغر بھائی کو ہنسی آ گئی. 
انہوں نے دیکھا ٹی وی میں وہی سی دکھائی دے رہے تھے جو کہ کچھ دنوں 
़ سابق جھلسا دینے والی گرمی میں افغانستان کی پتھریلی گفاوں، پھاڈ و 
اور جنگ کے میدانوں سے تالبانیو کو كھدےڑ کر آئے تھے، اور بمشکل تمام 
اپنے اہل خانہ کے ساتھ چار چھ دن کی چھٹیاں ہی گزار پائے ہوں گے کہ 
انہیں پنرو ایک نیا 'ٹاسک' مل گیا. 
امریکہ کا خون-رجت تماشا، لاشوں کے ڈهیر، سیاسی تبدیلی، اور اپنے 
چینل کے ناظرین کی ذہنیت کو 'کیش' کرنے کی پیشہ ورانہ مہارت ان 
نامہ نگاروں نے حاصل جو کر لی تھی. 
اصغر بھائی نے یہ المیہ بھی دےكھاي کہ کس طرح قیادت مبرا اقلیتی 
معاشرے کی ودهوسك اسامہ بن لادن کے ساتھ سھانبھوت بڑهتی جا رہی تھی. 
جبکہ 'ڈبلیو ٹی او' کی عمارت صرف امریکہ کی ترکہ نہیں تھی. وہ عمارت تو 
منشي کی میدها اور ترقی کی حالت کا جیونت علامت تھی. جس طرح سے بامیان 
کے بده ایک آثار قدیمہ ورثہ تھے. 
'ڈبلیو ٹی او' کی عمارت میں کام کرنے کا خواب صرف امریکی ہی نہیں 
بلکہ تمام ممالک کے نوجوان شہری دیکھا کرتے ہیں. بامیان کیس ہو یا 
کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ، اصغر بھائی جانتے ہیں کہ یہ سب غیر اسلامی 
كرت ہیں، جس کی دنیا بھر کے تمام امن پسند مسلمانوں نے سخت "ابدو میں 
مذمت کی تھی. 
لیکن پھر بھی اسلام کے دشمنوں کو دنیا میں بھرم پھےلانے کا موقع مل
آیا کہ اسلام دہشت گردی کا مترادف ہے. 
اصغر بھائی کو اکثریت تشدد کا یک طرفہ تاڈو اور "ااسن انتظامیہ کی 
خاموشی دیکھ اور بھی مایوسی ہوئی تھی. 
ایسا ہی تو ہوا تھا اس وقت جب اندرا گاندهی کا قتل ہوا تھا. 
اصغر تب بیس اکیس کے رہے ہوں گے. 
اس دن وہ جبل پور میں ایک لاج میں ٹھہرے تھے. 
ایک کام کے لئے انٹرویو کے سلسلے میں انہیں بلایا گیا تھا. 
وہ لاج ایک سکھ کا تھا. 
انہیں تو خبر نہ تھی کہ ملک میں کچھ خوفناک حادثہ ہوا ہے. وہ تو 
مقابلہ اور انٹرویو سے متعلق کتابوں میں الجھے ہوئے تھے. 
"اام کے پانچ بجے انہیں کمرے میں دهوم دهڑام کی آوازیں سنائی دیں. 
وہ کمرے سے باہر آئے تو دیکھا کہ لاج کے استقبال كاٹر کو لاٹھی ڈنڈے سے 
لیس ہجوم نے گھیر رکھا تھا. وہ تمام لاج کے سکھ منیجر كرنےل سنگھ سے بول رہے 
تھے کہ وہ جلد سے جلد لاج کو خالی کروائے، ورنہ انجام ٹھیک نہ ہوگا. 
منیجر كرنےل سنگھ گھگھیا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب کی یہ لاج مدتوں سے 
پردیسیوں کی مدد کرتا آ رہا ہے. 
وہ بتا رہا تھا کہ وہ سکھ ضرور ہے لیکن خالصتان کا حامی نہیں. اس نے 
یہ بھی بتایا کہ وہ ایک پرانا کانگریسی ہے. وہ ایک ذمہ دار ہندوستانی 
شہری ہے. اس کے پرکھا ضرور پاکستانی تھے، لیکن اس بات میں ان بے چاروں 
کا دوش کہاں تھا. وہ تو زمین کے اس زمین کا حصہ میں رہ رہے تھے جو کہ اكھڈ 
بھارت 
کا ایک حصہ تھا. اگر اس وقت کے آقاؤں کی سیاسی بھوک کنٹرول رہتی تو 
بٹوارا کہاں ہوتا؟ 
کتنی تکلیفیں برداشت کرکے اس کے پرکھا ہندوستان آئے. کچھ قرول باغ دہلی میں 
اور کچھ جبل پور میں آ بسے. اپنے بكھرتے وجود کو سمیٹنے کا پہاڑ-کوشش 
کیا تھا ان بزرگوں نے. "ارارتھي مرد-عورتیں اور بچے سبھی مل جل، 
تنکا-تنکا جوڑ کر آشیانہ بنا رہے تھے. 
كرنےل سنگھ رو رو کر بتا رہا تھا کہ اس کا تو پیدائش بھی اسی جبل پور کی سرزمین 
میں ہوا ہے. 
بھیڑ میں سے بہت سے چلائے - '' مارو سالے کو ... جھوٹ بول رہا ہے. یہ تو پکا 
دہشت ہے. '' 
اس کی پگڑی اچھال دی گئی. 
اسے كاٹر سے باہر کھینچ گیا.
جبل پور ویسے بھی مار دهاڑ، لوٹ پاٹ جیسے 'مارشل-آرٹ' کے لئے بدنام ہے. 
اصغر کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ سردارجي کو کاہے اس طرح سے ستایا جا رہا ہے. 
تبھی وہاں ایک نعرہ گوجا- 
'' پکڑو مارو سالوں کو 
اندرا مےیا کے قاتلوں کو! '' 
اصغر بھائی کا ماتھا ٹھنكا. 
یعنی وزیر اعظم اندرا گاندهی کے قتل ہو گئی! 
اسے تو پھجكس، كےمسٹري، مےتھ کے علاوہ اور کوئی خیر خبر نہ تھی. 
یعنی کہ لاج کا نوکر جو کہ ناشتہ-چائے دینے آیا تھا سچ کہہ رہا تھا. 
دیر کرنا مناسب نہ سمجھ، لاج سے اپنا سامان لے کر وہ فوری طور باہر نکل آئے. 
نیچے اپددری بھیڑ فعال تھی. 
سکھوں کی دکانوں کے "ایشے توڑے جا رہے تھے. سامانوں کو لوٹا جا رہا تھا. 
ان کی گاڑیوں میں، مکانوں میں آگ لگائی جا رہی تھی. 
اصغر بھائی نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے مٹھی بھر سپاہی تماشائی بنے 
نشكري کھڑے تھے. 
جلدی میں ایک ركشا پکڑ کر وہ ایک مسلم اکثریتی علاقے میں آ گئے. 
اب وہ محفوظ تھے. 
اس کے پاس پیسے زیادہ نہ تھے. 
انہیں امتحان میں بیٹھنا بھی تھا. 
پاس کی مسجد میں وہ گئے تو وہاں نمازیوں کی باتیں سن کر حیران رہ گئے. 
کچھ لوگ پیش-امام کے هجرے میں بی بی سی سن رہے تھے. 
باتیں ہو رہی تھیں کہ پاکستان کے صدر کو اس هتیاكاڈ کی خبر اسی وقت 
مل گئی، جبکہ ہندوستان میں اس بات کا پرچار کچھ دیر بعد ہوا. 
یہ بھی بحث تھی کہ پھسادات کی آندهی "اهرو سے ہوتی اب گاؤں گلی کوچوں تک 
پہنچنے جا رہی ہے. 
ان لوگوں سے جب انہوں نے دریافت کی تو یہی مشورہ ملی - '' بركھردار! اب 
پڑهائی اور امتےهانات سب بھول کر گھر کی راہ پکڑ لو، کیونکہ یہ پھسادات خدا 
جانے جب تک چلیں. 
بات ان کی سمجھ میں آئی. 
وہ اسی دن گھر کے لئے چل د. راستے بھر انہوں نے دیکھا کہ جس 
پلیٹ فارم پر گاڑی رکی سکھوں پر ظلم کے نشانات صاف نظر آ رہے 
تھے. 
ان کے اپنے شہر میں بھی حالات کہاں ٹھیک تھے.
وہاں بھی سکھوں کے جان مال کو نشانہ بنایا جا رہا تھا. 
ٹی وی اور ریڈیو سے صرف اندرا-هتیاكاڈ اور خالصتان تحریک کے 
دہشت گردوں کی ہی باتیں بتائی جا رہی تھیں. 
لوگوں کی سموےدناے بھڑک رہی تھیں. 
خبریں اٹھتي کہ گرودوارا میں سکھوں نے اندرا هتیاكاڈ کی خبر سن کر 
پٹاکھی فوڑے اور مٹھائیاں باٹي ہیں. 
افواہوں کا بازار گرم تھا. 
دگاییو-بلوایو کو ڈیڑه دو دن کی کھلی چھوٹ دینے کے بعد انتظامیہ جاگا 
اور پھر اس کے بعد شہر میں كپھریو لگایا گیا. 
اگر وہ دهنوني حرکت کہیں مسلم دہشت گردوں نے کی ہوتی تو؟ 
اس دفعہ سکھوں کو سبق سکھایا گیا تھا. 
اس بار ... 
ظفر آ جائیں تو فیصلہ کر لیا جائے گا. 
جیسے ہی اصغر بھائی کچھ قادر ہوئے، انہوں نے اپنا مکان مسلم اکثریت والے علاقوں 
میں بنوا لیا تھا. 
ظفر تو نوکری کر رہا ہے لیکن اس نے بھی کہہ رکھا ہے کہ بھایجان میرے لئے بھی 
کوئی اچھا سا سستا پلاٹ دیکھ ركھےگا. 
اب ابا کو سمجھانا ہے کہ وہ اس بھوت-بنگلے کا موہ ترک کر چلے آئیں اسی 
ابراهیمپرا میں. 
ابراهیمپرا 'منی پاکستان' کہلاتا ہے. 
اصغر بھائی کو یہ تو پسند نہیں کہ کوئی انہیں 'پاکستانی' کہے لیکن 
ابراهیمپرا میں آکر انہیں واقعی سکون حاصل ہوا تھا. یہاں اپنی حکومت 
ہے. غیر دب کے رہتے ہیں. اطمینان سے ہر ایک مذہبی افق-تہوار کا لطف 
اٹھایا جاتا ہے. رمضان کے مہینے میں کیا چھٹا نظر آتی ہے یہاں. پورے مہینے 
جشن کا ماحول رہتا ہے. چاند دکھا نہیں کہ ہنگامہ "ارو ہو جاتا ہے. 
'تراویه' کی نماز میں بھیڑ امنڈ پڑتی ہے. 
یہاں ساگ سبزی کم کھاتے ہیں لوگ کیونکہ سستے دام میں بڑے کا گوشت جو 
آسانی سے مل جاتا ہے. 
فجا میں سبھو شام اذان اور درودو-سلات کی گونج اٹھتی رہتی ہے. 
'شب برات' کے موقع پر مقامی مزار "اریپھ میں غضب کی رونق ہوتی ہے. 
میلہ، میناباجر لگتا ہے اور قوالی کے "ااندار مقابلے ہوا کرتے ہیں. 
محرم کے دس دن "اهیدانے-کربلا کے غم میں ڈوب جاتا ہے ابراهیمپرا! 
صرف میاو کی طوطی بولتی ہے یہاں. 
کس کی مجال کی آنکھ دکھا سکے. آنکھیں نکال کر ہاتھ میں دهر دی جائیں گی.
ایک سے ایک 'ہسٹری-شیٹر' ہیں یہاں. 
ارے، كھالو کا جو تیسرا بیٹا ہے یوسف وہ تو جاپھراني-جردا کین میں 
بم بنا لیتا ہے. 
بڑی بڑی سیاسی ہستیاں بھی ہیں جن کا تحفظ علاقے کے بے روزگار 
نوجوانوں کو ملا ہوا ہے. 
اصغر بھائی کو تشویش میں ڈوبا دیکھ منیرا نے ٹی وی آف کر دیا. 
اصغر بھائی نے اسے گھورا- 
'' کاہے کی تشویش کرتے ہیں آپ ... اللہ نے زندگی دی ہے تو وہی پار 
لگائے گا. آپ کے اس طرح سوچنے سے کیا فسادات فساد بند ہو جائیں گے؟ '' 
اصغر بھائی نے کہا '' وہ بات نہیں، میں تو ابا کے بارے میں ہی سوچا کرتا 
ہوں. کتنے ضدی ہیں وہ. چھوڑیں نہیں دادا-بزرگوں کی جگہ ... بھلے سے 
جان چلی جائے. '' 
'' کچھ نہیں ہوگا ان کو، آپ كھامكھا فکر کیا کرتے ہیں. سب ٹھیک ہو جائے گا. '' 
'' خاک ٹھیک ہو جائے گا. کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ بڈهے دادا سٹھیا گئے 
ہیں اور کچھ نہیں. سوچتے ہیں کہ جو لوگ انھےے سلام کیا کرتے ہیں موقع 
آنے پر ان کو بخش دیں گے. ایسا ہوا ہے کبھی. جب تک اماں تھیں تب تک ٹھیک 
تھا اب وہاں کیا رکھا ہے کہ اسے اگورے ہوئے ہیں. '' 
منیرا کیا بولتی. وہ چپ ہی رہی. 
اصغر بھائی میموری کے سمندر میں ڈوب-اترا رہے تھے. 
اماں بتایا کرتی تھیں کہ سن ستر ایک کی لڑائی میں ایسا ماحول بنا کہ لگا 
اجاڑ پھینکیں گے لوگ. آمنے سامنے کہا کرتے تھے کہ ہمارے محلے میں تو ایک 
ہی پاکستانی گھر ہے. چیونٹی کی طرح مسل دیں گے. 
'' چیونٹی کی طرح ... هه .. '' اصغر بھائی بدبداے. 
کتنا گھبرا گئی تھیں تب وہ. چار بچوں کو سینے سے چپكاے رکھا کرتی تھیں. 
اماں گھبراتی بھی کیوں نہ، ارے اسی سیاست نے تو ان کے ایک بھائی کی پارٹیشن 
کے وقت جان لے لی تھی. 
'' جانتی ہو گزشتہ ماہ جب میں گھر گیا تو وہاں دیکھا کہ ہمارے گھر کی 
چار دیواری پر سواستك کا نشان بنایا گیا ہے. بابری مسجد کے بعد ان 
لوگوں کا من بڑه گیا ہے. میں نے جب ابا سے اس بارے میں بات کی تو وہ 
زور سے ہنسے اور کہے کہ یہ سب لڑکوں کی "اوتاني ہے. ایسی ویسی کوئی بات 
نہیں. اب تم ہی بتاو کہ میں فکر کیوں نہ کروں؟ '' 
'' ابا تو ہنستے ہنستے یہ بھی بتائے کہ جب 'اےتھرےكس' کا ہلا مچا تھا تب 
چند اسکولی بچوں نے چاک مٹی کو لفافے میں بھر کر پرنسپل کے پاس
بھیج دیا تھا. بڑا باوےلا مچا تھا. ابا ہر بات کو 'نارمل' سمجھتے ہیں. '' 
'' ابا تو وہاں کے سب سے پرانے باشندو ں میں سے ہیں. صبح شام اپنے 
بچوں کو 'دم-کروانے' سےٹھانے آیا کرتی ہیں. عبا کے ساتھ کہیں جاؤ تو 
انہیں کتنے غیر لوگ سلام-آداب کیا کرتے ہیں. انہیں تو تمام 
جانتے-مانتے ہیں. '' منیرا نے ابا کی حمایت کی. 
'' خاک جانتے-مانتے ہیں. آج نوجوان تو انہیں جانتے بھی نہیں اور پرانے 
لوگوں کی آج کل چلتی کہاں ہے؟ تم بھی اچھا بتاتی ہو. سن چوراسی کے 
فساد میں کہاں تھے پرانے لوگ؟ سب من کا بھاكاوا ہے. بھیڑ کے ہاتھ میں جب 
حکومت آ جاتی ہے تب قانون گونگا-بہرے ہو جاتا ہے. '' 
منیرا کو لگا کہ وہ بحث میں ٹک نہیں پائے گی اس لئے اس نے وشي-تبدیلی کرنا چاها- 
'' چھوٹو کی 'مےتھس' میں ٹیوشن لگانی ہوگی. آپ اسے لے کر بیٹھتے نہیں اور 
'مےتھس' میرے بس کا نہیں. '' 
'' وہ سب تم سوچو. جس سے پڑهوانا ہو پڑهواو. میرا دماغ ٹھیک نہیں. ظفر آ 
جائے تو ابا سے آر پار کی بات کر ہی لینی ہے. '' 
تبھی فون کی گھنٹی گھنگھناي. 
منیرا فون کی طرف جھپٹی. وہ فون گھنگھنانے پر اسی طرح هڑبڑا جاتی ہے. 
فون ظفر کا تھا، منیرا نے رسیور اصغر بھائی کی طرف بڑها دیا. 
اصغر بھائی رسیور لے لیا- 
'' و علیکم اسسلام! ظفر ...! کہاں سے؟ یہاں میں تمہارا انتےجار کر 
رہا ہوں. '' 
....... 
'' ابا پاس میں ہی ہیں کیا؟ ذرا بات تو کراؤ. '' 
منیرا کی طرف مخاطب ہو کر بولے - '' ظفر بھائی کا فون ہے. یہاں نہ آ کر وہ 
براہ راست ابا کے پاس سے چلا گیا هےے. '' 
'' سلام والےكم ابا ... میں آپ کی ایک نہ سنوگا. آپ چھوڑیئے وہ سب اور 
ظفر کو لے کر براہ راست میرے پاس چلے آئیے. '' 
پتہ نہیں ادهر سے کیا جواب ملا کہ اصغر بھائی نے رسیور پٹک دیا. 
منیرا چڑچڑا اٹھي- 
'' اسی لیے کہتی ہوں کہ آپ سے زیادہ ہوشیار تو ظفر بھائی ہیں. آپ كھامكھا 
'ٹینشن' میں آ جاتے ہے. ڈاکٹر نے ویسے بھی آپ کو فالتو کی تشویش سے منع 
کیا ہے. ''
بس اتنا سننا تھا کہ اصغر بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے. 
'' تمہاری اسی سوچ پر میری - سلگ جاتی ہے. میرے والد آپ کے لئے 
'فالتو کی تشویش' بن گئے. اپنے ابا کے بارے میں فکر نہیں کروں گا تو 
کیا تمہارا بھائی کرے گا؟ '' 
ایسے موقعوں پر منیرا چپ مار لے تو بات بڑهے. اپنے واحد بھائی کے بارے 
میں برا بھلا وہ بداشت نہیں کر پاتی ہے، لیکن جانے کیوں منیرا نے آج 
جواب نہ دیا. 
اصغر بھائی نے چھیڑا تو تھا لیکن منیرا کو خاموش پاکر ان کا ماتھا ٹھنكا، 
اس لئے سلھكن آواز میں وہ بولے- 
'' لگتا ہے کہ ابا نہیں مانیں گے، وہیں رہیں گے ...! ''

More Related Content

More from ANWAR SUHAIL

More from ANWAR SUHAIL (6)

पीरु हज्जाम उर्फ़ हज़रत जी
पीरु हज्जाम उर्फ़ हज़रत जी पीरु हज्जाम उर्फ़ हज़रत जी
पीरु हज्जाम उर्फ़ हज़रत जी
 
सलीमा
सलीमा सलीमा
सलीमा
 
Prem
PremPrem
Prem
 
Pehchan
Pehchan Pehchan
Pehchan
 
Salima
SalimaSalima
Salima
 
Bilauti
Bilauti Bilauti
Bilauti
 

گہری جڑیں : انور سہیل

  • 1. گہری جڑیں )wiawu rawna( اصغر بھائی بڑی بے چینی سے ظفر کا انتظار کر رہے ہیں. ظفر ان کا چھوٹا بھائی ہے. انہوں سوچ رکھا ہے کہ وہ آ جائے تو پھر فیصلہ لے ہی لیا جائے، یہ روز روز کی خوف-تشویش سے چھٹکارا تو ملے! اس معاملے کو زیادہ دن ٹالنا اب ٹھیک نہیں. کل فون پر ظفر سے بہت دیر تک باتیں تو ہوئی تھیں. اس نے کہا تھا کہ -'بھایجان آپ پریشان نہ ہوں، میں آ رہا ہوں. " اصغر بھائی 'هایپر-ٹینشن' اور 'ڈایبٹیج' کے مریض ٹھہرے. چھوٹی چھوٹی بات سے پریشان ہو جاتے ہیں. من بہلانے کے لیے ظفر میٹنگ میں آئے. منیرا ٹی وی دیکھ رہی تھی. جب سے 'گودهرا -پركر' چالو ہوا، گھر میں اسی طرح 'آج-تک' اور 'اسٹار-پلس' چینل کو باری باری چینل بدل کر گھنٹوں سے دیکھا جا رہا تھا. پھر بھی چین نہ پڑتا تھا تو اصغر بھائی ریڈیو-ٹرانجسٹر پر بی بی سی کے خبروں سے مقامی میڈیا کے خبروں کا تقابلی مطالعہ کرنے لگتے. تمام چینلوں میں ننگے-نرشس حقیقت کو ناظرین تک پہنچانے کی دوڑ سی لگی ہوئی تھی. منیرا کے ہاتھوں سے اصغر نے ریموٹ لے کر چینل بدل دیا. 'ڈسکوری چینل' میں هرو کے جھنڈ کا شکار کرتے "کٹھور کو دکھایا جا رہا تھا. "کٹھور گرراتا ہوا هرو کو دوڑا رہا تھا. اپنی جانیں کی حفاظت کرتے ہرن اندها دهند بھاگ رہے تھے. اصغر بھائی سوچنے لگے کہ اسی طرح تو آج ڈرے-سھمے لوگ گجرات میں جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیں. انہوں پھر چینل بدل دیا. ذاتی خبریں چینل کا ایک منظر کیمرے کا سامنا کر رہا تھا. شیشے کی بوتلوں سے پٹرول-بم کا کام لیتے احمد آباد کی اکثریت لوگ اور ویران ہوتی اقلیتی ابادیا. بھیڑ-نظام کی بربریت
  • 2. کو بڑی ڈهیٹھتا کے ساتھ 'آرام دہ-ردعمل' 'بتاتا ایک اقتدار-پروش. ٹیلی ویژن پر چلتی ڈهیٹھ بحث کہ ریاستی پولیس کو اور موقع دیا جائے یا کہ فوج 'ڈپلاي' کی جائے. اقتدار پارٹی اور حزب اختلاف کے درمیان میت-تعداد کے اعداد و شمار پر ابھرتا مزاحمت. اقتدار فریق کی دلیل کہ سن چوراسی کے قتل عام سے یہ تعداد کافی کم ہے. اس وقت آج کے اپوزیشن تب مرکز میں تھے اور کتنی معصومیت سے یہ دلیل دی گئی تھی - '' ایک بڑا پیر گرنے سے بھونچال آنا فطری ہے. '' اس بار بھونچال تو نہیں آیا لیکن نیوٹن کی رفتار کے تیسرے اصول کی دهجیاں ضرور اڑائی گئیں. 'فعل کے برعکس ردعمل ...' ' اصغر بھائی کو ہنسی آ گئی. انہوں نے دیکھا ٹی وی میں وہی سی دکھائی دے رہے تھے جو کہ کچھ دنوں ़ سابق جھلسا دینے والی گرمی میں افغانستان کی پتھریلی گفاوں، پھاڈ و اور جنگ کے میدانوں سے تالبانیو کو كھدےڑ کر آئے تھے، اور بمشکل تمام اپنے اہل خانہ کے ساتھ چار چھ دن کی چھٹیاں ہی گزار پائے ہوں گے کہ انہیں پنرو ایک نیا 'ٹاسک' مل گیا. امریکہ کا خون-رجت تماشا، لاشوں کے ڈهیر، سیاسی تبدیلی، اور اپنے چینل کے ناظرین کی ذہنیت کو 'کیش' کرنے کی پیشہ ورانہ مہارت ان نامہ نگاروں نے حاصل جو کر لی تھی. اصغر بھائی نے یہ المیہ بھی دےكھاي کہ کس طرح قیادت مبرا اقلیتی معاشرے کی ودهوسك اسامہ بن لادن کے ساتھ سھانبھوت بڑهتی جا رہی تھی. جبکہ 'ڈبلیو ٹی او' کی عمارت صرف امریکہ کی ترکہ نہیں تھی. وہ عمارت تو منشي کی میدها اور ترقی کی حالت کا جیونت علامت تھی. جس طرح سے بامیان کے بده ایک آثار قدیمہ ورثہ تھے. 'ڈبلیو ٹی او' کی عمارت میں کام کرنے کا خواب صرف امریکی ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کے نوجوان شہری دیکھا کرتے ہیں. بامیان کیس ہو یا کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ، اصغر بھائی جانتے ہیں کہ یہ سب غیر اسلامی كرت ہیں، جس کی دنیا بھر کے تمام امن پسند مسلمانوں نے سخت "ابدو میں مذمت کی تھی. لیکن پھر بھی اسلام کے دشمنوں کو دنیا میں بھرم پھےلانے کا موقع مل
  • 3. آیا کہ اسلام دہشت گردی کا مترادف ہے. اصغر بھائی کو اکثریت تشدد کا یک طرفہ تاڈو اور "ااسن انتظامیہ کی خاموشی دیکھ اور بھی مایوسی ہوئی تھی. ایسا ہی تو ہوا تھا اس وقت جب اندرا گاندهی کا قتل ہوا تھا. اصغر تب بیس اکیس کے رہے ہوں گے. اس دن وہ جبل پور میں ایک لاج میں ٹھہرے تھے. ایک کام کے لئے انٹرویو کے سلسلے میں انہیں بلایا گیا تھا. وہ لاج ایک سکھ کا تھا. انہیں تو خبر نہ تھی کہ ملک میں کچھ خوفناک حادثہ ہوا ہے. وہ تو مقابلہ اور انٹرویو سے متعلق کتابوں میں الجھے ہوئے تھے. "اام کے پانچ بجے انہیں کمرے میں دهوم دهڑام کی آوازیں سنائی دیں. وہ کمرے سے باہر آئے تو دیکھا کہ لاج کے استقبال كاٹر کو لاٹھی ڈنڈے سے لیس ہجوم نے گھیر رکھا تھا. وہ تمام لاج کے سکھ منیجر كرنےل سنگھ سے بول رہے تھے کہ وہ جلد سے جلد لاج کو خالی کروائے، ورنہ انجام ٹھیک نہ ہوگا. منیجر كرنےل سنگھ گھگھیا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب کی یہ لاج مدتوں سے پردیسیوں کی مدد کرتا آ رہا ہے. وہ بتا رہا تھا کہ وہ سکھ ضرور ہے لیکن خالصتان کا حامی نہیں. اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک پرانا کانگریسی ہے. وہ ایک ذمہ دار ہندوستانی شہری ہے. اس کے پرکھا ضرور پاکستانی تھے، لیکن اس بات میں ان بے چاروں کا دوش کہاں تھا. وہ تو زمین کے اس زمین کا حصہ میں رہ رہے تھے جو کہ اكھڈ بھارت کا ایک حصہ تھا. اگر اس وقت کے آقاؤں کی سیاسی بھوک کنٹرول رہتی تو بٹوارا کہاں ہوتا؟ کتنی تکلیفیں برداشت کرکے اس کے پرکھا ہندوستان آئے. کچھ قرول باغ دہلی میں اور کچھ جبل پور میں آ بسے. اپنے بكھرتے وجود کو سمیٹنے کا پہاڑ-کوشش کیا تھا ان بزرگوں نے. "ارارتھي مرد-عورتیں اور بچے سبھی مل جل، تنکا-تنکا جوڑ کر آشیانہ بنا رہے تھے. كرنےل سنگھ رو رو کر بتا رہا تھا کہ اس کا تو پیدائش بھی اسی جبل پور کی سرزمین میں ہوا ہے. بھیڑ میں سے بہت سے چلائے - '' مارو سالے کو ... جھوٹ بول رہا ہے. یہ تو پکا دہشت ہے. '' اس کی پگڑی اچھال دی گئی. اسے كاٹر سے باہر کھینچ گیا.
  • 4. جبل پور ویسے بھی مار دهاڑ، لوٹ پاٹ جیسے 'مارشل-آرٹ' کے لئے بدنام ہے. اصغر کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ سردارجي کو کاہے اس طرح سے ستایا جا رہا ہے. تبھی وہاں ایک نعرہ گوجا- '' پکڑو مارو سالوں کو اندرا مےیا کے قاتلوں کو! '' اصغر بھائی کا ماتھا ٹھنكا. یعنی وزیر اعظم اندرا گاندهی کے قتل ہو گئی! اسے تو پھجكس، كےمسٹري، مےتھ کے علاوہ اور کوئی خیر خبر نہ تھی. یعنی کہ لاج کا نوکر جو کہ ناشتہ-چائے دینے آیا تھا سچ کہہ رہا تھا. دیر کرنا مناسب نہ سمجھ، لاج سے اپنا سامان لے کر وہ فوری طور باہر نکل آئے. نیچے اپددری بھیڑ فعال تھی. سکھوں کی دکانوں کے "ایشے توڑے جا رہے تھے. سامانوں کو لوٹا جا رہا تھا. ان کی گاڑیوں میں، مکانوں میں آگ لگائی جا رہی تھی. اصغر بھائی نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے مٹھی بھر سپاہی تماشائی بنے نشكري کھڑے تھے. جلدی میں ایک ركشا پکڑ کر وہ ایک مسلم اکثریتی علاقے میں آ گئے. اب وہ محفوظ تھے. اس کے پاس پیسے زیادہ نہ تھے. انہیں امتحان میں بیٹھنا بھی تھا. پاس کی مسجد میں وہ گئے تو وہاں نمازیوں کی باتیں سن کر حیران رہ گئے. کچھ لوگ پیش-امام کے هجرے میں بی بی سی سن رہے تھے. باتیں ہو رہی تھیں کہ پاکستان کے صدر کو اس هتیاكاڈ کی خبر اسی وقت مل گئی، جبکہ ہندوستان میں اس بات کا پرچار کچھ دیر بعد ہوا. یہ بھی بحث تھی کہ پھسادات کی آندهی "اهرو سے ہوتی اب گاؤں گلی کوچوں تک پہنچنے جا رہی ہے. ان لوگوں سے جب انہوں نے دریافت کی تو یہی مشورہ ملی - '' بركھردار! اب پڑهائی اور امتےهانات سب بھول کر گھر کی راہ پکڑ لو، کیونکہ یہ پھسادات خدا جانے جب تک چلیں. بات ان کی سمجھ میں آئی. وہ اسی دن گھر کے لئے چل د. راستے بھر انہوں نے دیکھا کہ جس پلیٹ فارم پر گاڑی رکی سکھوں پر ظلم کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے. ان کے اپنے شہر میں بھی حالات کہاں ٹھیک تھے.
  • 5. وہاں بھی سکھوں کے جان مال کو نشانہ بنایا جا رہا تھا. ٹی وی اور ریڈیو سے صرف اندرا-هتیاكاڈ اور خالصتان تحریک کے دہشت گردوں کی ہی باتیں بتائی جا رہی تھیں. لوگوں کی سموےدناے بھڑک رہی تھیں. خبریں اٹھتي کہ گرودوارا میں سکھوں نے اندرا هتیاكاڈ کی خبر سن کر پٹاکھی فوڑے اور مٹھائیاں باٹي ہیں. افواہوں کا بازار گرم تھا. دگاییو-بلوایو کو ڈیڑه دو دن کی کھلی چھوٹ دینے کے بعد انتظامیہ جاگا اور پھر اس کے بعد شہر میں كپھریو لگایا گیا. اگر وہ دهنوني حرکت کہیں مسلم دہشت گردوں نے کی ہوتی تو؟ اس دفعہ سکھوں کو سبق سکھایا گیا تھا. اس بار ... ظفر آ جائیں تو فیصلہ کر لیا جائے گا. جیسے ہی اصغر بھائی کچھ قادر ہوئے، انہوں نے اپنا مکان مسلم اکثریت والے علاقوں میں بنوا لیا تھا. ظفر تو نوکری کر رہا ہے لیکن اس نے بھی کہہ رکھا ہے کہ بھایجان میرے لئے بھی کوئی اچھا سا سستا پلاٹ دیکھ ركھےگا. اب ابا کو سمجھانا ہے کہ وہ اس بھوت-بنگلے کا موہ ترک کر چلے آئیں اسی ابراهیمپرا میں. ابراهیمپرا 'منی پاکستان' کہلاتا ہے. اصغر بھائی کو یہ تو پسند نہیں کہ کوئی انہیں 'پاکستانی' کہے لیکن ابراهیمپرا میں آکر انہیں واقعی سکون حاصل ہوا تھا. یہاں اپنی حکومت ہے. غیر دب کے رہتے ہیں. اطمینان سے ہر ایک مذہبی افق-تہوار کا لطف اٹھایا جاتا ہے. رمضان کے مہینے میں کیا چھٹا نظر آتی ہے یہاں. پورے مہینے جشن کا ماحول رہتا ہے. چاند دکھا نہیں کہ ہنگامہ "ارو ہو جاتا ہے. 'تراویه' کی نماز میں بھیڑ امنڈ پڑتی ہے. یہاں ساگ سبزی کم کھاتے ہیں لوگ کیونکہ سستے دام میں بڑے کا گوشت جو آسانی سے مل جاتا ہے. فجا میں سبھو شام اذان اور درودو-سلات کی گونج اٹھتی رہتی ہے. 'شب برات' کے موقع پر مقامی مزار "اریپھ میں غضب کی رونق ہوتی ہے. میلہ، میناباجر لگتا ہے اور قوالی کے "ااندار مقابلے ہوا کرتے ہیں. محرم کے دس دن "اهیدانے-کربلا کے غم میں ڈوب جاتا ہے ابراهیمپرا! صرف میاو کی طوطی بولتی ہے یہاں. کس کی مجال کی آنکھ دکھا سکے. آنکھیں نکال کر ہاتھ میں دهر دی جائیں گی.
  • 6. ایک سے ایک 'ہسٹری-شیٹر' ہیں یہاں. ارے، كھالو کا جو تیسرا بیٹا ہے یوسف وہ تو جاپھراني-جردا کین میں بم بنا لیتا ہے. بڑی بڑی سیاسی ہستیاں بھی ہیں جن کا تحفظ علاقے کے بے روزگار نوجوانوں کو ملا ہوا ہے. اصغر بھائی کو تشویش میں ڈوبا دیکھ منیرا نے ٹی وی آف کر دیا. اصغر بھائی نے اسے گھورا- '' کاہے کی تشویش کرتے ہیں آپ ... اللہ نے زندگی دی ہے تو وہی پار لگائے گا. آپ کے اس طرح سوچنے سے کیا فسادات فساد بند ہو جائیں گے؟ '' اصغر بھائی نے کہا '' وہ بات نہیں، میں تو ابا کے بارے میں ہی سوچا کرتا ہوں. کتنے ضدی ہیں وہ. چھوڑیں نہیں دادا-بزرگوں کی جگہ ... بھلے سے جان چلی جائے. '' '' کچھ نہیں ہوگا ان کو، آپ كھامكھا فکر کیا کرتے ہیں. سب ٹھیک ہو جائے گا. '' '' خاک ٹھیک ہو جائے گا. کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ بڈهے دادا سٹھیا گئے ہیں اور کچھ نہیں. سوچتے ہیں کہ جو لوگ انھےے سلام کیا کرتے ہیں موقع آنے پر ان کو بخش دیں گے. ایسا ہوا ہے کبھی. جب تک اماں تھیں تب تک ٹھیک تھا اب وہاں کیا رکھا ہے کہ اسے اگورے ہوئے ہیں. '' منیرا کیا بولتی. وہ چپ ہی رہی. اصغر بھائی میموری کے سمندر میں ڈوب-اترا رہے تھے. اماں بتایا کرتی تھیں کہ سن ستر ایک کی لڑائی میں ایسا ماحول بنا کہ لگا اجاڑ پھینکیں گے لوگ. آمنے سامنے کہا کرتے تھے کہ ہمارے محلے میں تو ایک ہی پاکستانی گھر ہے. چیونٹی کی طرح مسل دیں گے. '' چیونٹی کی طرح ... هه .. '' اصغر بھائی بدبداے. کتنا گھبرا گئی تھیں تب وہ. چار بچوں کو سینے سے چپكاے رکھا کرتی تھیں. اماں گھبراتی بھی کیوں نہ، ارے اسی سیاست نے تو ان کے ایک بھائی کی پارٹیشن کے وقت جان لے لی تھی. '' جانتی ہو گزشتہ ماہ جب میں گھر گیا تو وہاں دیکھا کہ ہمارے گھر کی چار دیواری پر سواستك کا نشان بنایا گیا ہے. بابری مسجد کے بعد ان لوگوں کا من بڑه گیا ہے. میں نے جب ابا سے اس بارے میں بات کی تو وہ زور سے ہنسے اور کہے کہ یہ سب لڑکوں کی "اوتاني ہے. ایسی ویسی کوئی بات نہیں. اب تم ہی بتاو کہ میں فکر کیوں نہ کروں؟ '' '' ابا تو ہنستے ہنستے یہ بھی بتائے کہ جب 'اےتھرےكس' کا ہلا مچا تھا تب چند اسکولی بچوں نے چاک مٹی کو لفافے میں بھر کر پرنسپل کے پاس
  • 7. بھیج دیا تھا. بڑا باوےلا مچا تھا. ابا ہر بات کو 'نارمل' سمجھتے ہیں. '' '' ابا تو وہاں کے سب سے پرانے باشندو ں میں سے ہیں. صبح شام اپنے بچوں کو 'دم-کروانے' سےٹھانے آیا کرتی ہیں. عبا کے ساتھ کہیں جاؤ تو انہیں کتنے غیر لوگ سلام-آداب کیا کرتے ہیں. انہیں تو تمام جانتے-مانتے ہیں. '' منیرا نے ابا کی حمایت کی. '' خاک جانتے-مانتے ہیں. آج نوجوان تو انہیں جانتے بھی نہیں اور پرانے لوگوں کی آج کل چلتی کہاں ہے؟ تم بھی اچھا بتاتی ہو. سن چوراسی کے فساد میں کہاں تھے پرانے لوگ؟ سب من کا بھاكاوا ہے. بھیڑ کے ہاتھ میں جب حکومت آ جاتی ہے تب قانون گونگا-بہرے ہو جاتا ہے. '' منیرا کو لگا کہ وہ بحث میں ٹک نہیں پائے گی اس لئے اس نے وشي-تبدیلی کرنا چاها- '' چھوٹو کی 'مےتھس' میں ٹیوشن لگانی ہوگی. آپ اسے لے کر بیٹھتے نہیں اور 'مےتھس' میرے بس کا نہیں. '' '' وہ سب تم سوچو. جس سے پڑهوانا ہو پڑهواو. میرا دماغ ٹھیک نہیں. ظفر آ جائے تو ابا سے آر پار کی بات کر ہی لینی ہے. '' تبھی فون کی گھنٹی گھنگھناي. منیرا فون کی طرف جھپٹی. وہ فون گھنگھنانے پر اسی طرح هڑبڑا جاتی ہے. فون ظفر کا تھا، منیرا نے رسیور اصغر بھائی کی طرف بڑها دیا. اصغر بھائی رسیور لے لیا- '' و علیکم اسسلام! ظفر ...! کہاں سے؟ یہاں میں تمہارا انتےجار کر رہا ہوں. '' ....... '' ابا پاس میں ہی ہیں کیا؟ ذرا بات تو کراؤ. '' منیرا کی طرف مخاطب ہو کر بولے - '' ظفر بھائی کا فون ہے. یہاں نہ آ کر وہ براہ راست ابا کے پاس سے چلا گیا هےے. '' '' سلام والےكم ابا ... میں آپ کی ایک نہ سنوگا. آپ چھوڑیئے وہ سب اور ظفر کو لے کر براہ راست میرے پاس چلے آئیے. '' پتہ نہیں ادهر سے کیا جواب ملا کہ اصغر بھائی نے رسیور پٹک دیا. منیرا چڑچڑا اٹھي- '' اسی لیے کہتی ہوں کہ آپ سے زیادہ ہوشیار تو ظفر بھائی ہیں. آپ كھامكھا 'ٹینشن' میں آ جاتے ہے. ڈاکٹر نے ویسے بھی آپ کو فالتو کی تشویش سے منع کیا ہے. ''
  • 8. بس اتنا سننا تھا کہ اصغر بھائی ہتھے سے اکھڑ گئے. '' تمہاری اسی سوچ پر میری - سلگ جاتی ہے. میرے والد آپ کے لئے 'فالتو کی تشویش' بن گئے. اپنے ابا کے بارے میں فکر نہیں کروں گا تو کیا تمہارا بھائی کرے گا؟ '' ایسے موقعوں پر منیرا چپ مار لے تو بات بڑهے. اپنے واحد بھائی کے بارے میں برا بھلا وہ بداشت نہیں کر پاتی ہے، لیکن جانے کیوں منیرا نے آج جواب نہ دیا. اصغر بھائی نے چھیڑا تو تھا لیکن منیرا کو خاموش پاکر ان کا ماتھا ٹھنكا، اس لئے سلھكن آواز میں وہ بولے- '' لگتا ہے کہ ابا نہیں مانیں گے، وہیں رہیں گے ...! ''