تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
تیشے کی چوٹ چاہیے دستِ دعا کے ساتھ
ذوقِ خودی بھی چاہیے ذوقِ خدا کے ساتھ
مہندی لگا کے بیٹھیے محفل میں پھر حضور
خونِ جگر کشیدیے رنگِ حِنا کے ساتھ
حیراں ہیں اُس کو دیکھیے یا دیجیے حساب
روزِ وصال آ ملا روزِ جزا کے ساتھ
سمجھے کوئی تو راز ہیں اِس میں بھی تہ بہ تہ
بانگِ مُنیبؔ ایک ہے بانگِ درا کے ساتھ
بچنے کا اُن کی بزم میں امکاں نہ تھا مُنیبؔ
تیرِ نظر نے آ لیا دستِ قضا کے ساتھ
- ابنِ مُنیبؔ
گزشتہ برس کے دو اشعار، کچھ تازہ اضافوں کے ساتھ
زیبا ہے کب اِس کے سوا انجام کچھ دیوانے کو
بلبل کو مارا ہجر نے، اور وصل نے پروانے کو
جب لِکھ چکا ہے لکھنے والا پھر مَلَک لکھتے ہیں کیا؟
تم بیٹھ کر سوچو مِیاں ہم تو چلے میخانے کو
اچھا ہے جو کامل ہو دل اور عقل بھی بے داغ ہو
ہاں ہوشمند کو ہوش دے اور مست رکھ مستانے کو
کیسے ہو طے کیا ہے "سمجھ"؟ اور کون ہے یاں ناسمجھ؟
سمجھے ہیں کب مشکل مِری آتے ہیں جو سمجھانے کو
- ابنِ مُنیبؔ
"تلاش"
"اسلام یہ کہتا ہے"، "اسلام وہ کہتا ہے"
پر کس سے یہ کہتا ہے؟ وہ شخص نہیں ملتا
مذہب نے برا جانا جس عکس کو، مسلم میں
وہ عکس تو مِلتا ہے، برعکس نہیں مِلتا
- ابنِ مُنیبؔ
Hargiz negah harees i koh o daman nahi hai ghazalIbnay Muneeb
ایک تازہ غزل (دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)۔۔۔
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے
- ابنِ مُنیبؔ
"خوف"
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔
"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"
"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"
"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"
اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"
"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"
"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔
جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
"عدالت"
ویڈیو وائرل ہو چکی تھی۔ دنیا نے اُس کا اصل چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اب ویڈیو کو جعلی ثابت کرنا صرف اور صرف اُس کا مسئلہ تھا۔ اور شرارت کرنے والے یہ جانتے تھے۔ بے گناہی وائرل نہیں ہوتی۔
- ابنِ مُنیبؔ
(فلیش فکشن)
(ایک طرحی غزل۔ طرح مصرع واوین میں ہے۔)
"پتھروں پر چلتے چلتے کہکشاں تک آ گئے"
راندہِ درگاہ آخر آسماں تک آ گئے
الحذر اے ہم صفیرو، کچھ تو ہو تدبیرِ ضو!
پنجہ ہائے ظلمتِ شب آشیاں تک آ گئے
دیکھیے اُبھریں گے اب تازہ خدا، مذہب نئے
اہلِ دل اہلِ نظر شہرِ بُتاں تک آ گئے
اُن کی محفل سے اُٹھے ہم چار شانوں پر مُنیبؔ
پہلے دل لُوٹا کیے، پھر نقدِ جاں تک آ گئے
- ابنِ مُنیبؔ
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
The document is a poem expressing longing and devotion for a beloved. It uses rich imagery to describe the beauty and perfection of the beloved, and expresses how the beloved is the poet's companion, friend, and source of joy. It calls the beloved to come together with the poet.
Nou afsaanay aik kahani by ibnay muneebIbnay Muneeb
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دِن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے!
'بارہ افسانے' کے تقریبا چار سال بعد 'نو افسانے، ایک کہانی' کے عنوان سے میرا دوسرا نثری مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ افسانے (اور کہانی) شامل ہیں جو میں نے نومبر۲۰۱۵ سے اب تک لکھے۔ کہتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا ایک مختلف کتاب پڑھتا ہے۔ دیکھیے آپ اِس کتاب میں کیا پڑھتے ہیں۔اِس سلسلے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
بہت شکریہ،
ابنِ منیب
فروری ۲۰۲۰
(ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
- اِبنِ مُنیبؔ
"وقار"
جمعے کی شب آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر سترہ سالہ احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ کو محلے والوں کے سامنے گھونسوں، لاتوں، اور گالیوں کی مدد سے وین میں لادا گیا اور پھر اِسی اہتمام کے ساتھ تھانے میں لا کر ایک جیل سَیل میں دھکیل دیا گیا۔ رات بھر وقفے وقفے سے پَیٹ کے بل لِٹا کر اور نیم برہنہ حالت میں خصوصی چمڑے کے جوتے سے اُس کی خاطر مدارات کی گئی۔ بیچ بیچ میں تھانیدار اور سپاہی حسبِ استطاعت ٹھڈے مارتے اور فحش گالیاں دیتے رہے۔
احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ پر الزام تھا کہ اُس نے کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کی ٹیم کا جھنڈا کمرے کی کھڑکی سے لٹکا رکھا تھا۔ تھانے میں چند دن کی اچھی طبیعت صفائی کے بعد اُس سے حلفیہ بیان لکھوایا گیا
"مَیں احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ، مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی زبردستی کے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کا جھنڈا کھڑکی سے لٹکایا۔ میرے اِس فعل نے بِیس کروڑ کی اِس باعزت قوم کے وقار کو پامال کِیا۔ میں آئندہ ایسی کسی بھی حرکت سے دُور رہوں گا۔"
اِس کے بعد اُسے تھانے سے باہر دھکیل دیا گیا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
- اِبنِ مُنیبؔ
The Future of Independent Filmmaking Trends and Job OpportunitiesLetsFAME
The landscape of independent filmmaking is evolving at an unprecedented pace. Technological advancements, changing consumer preferences, and new distribution models are reshaping the industry, creating new opportunities and challenges for filmmakers and film industry jobs. This article explores the future of independent filmmaking, highlighting key trends and emerging job opportunities.
ہو نہ ہو، یہ ہے ہماری ہی "رقابت" کا ثمر
روز لِکھتے ہیں تری مدحت کراماً کاتبیں
- ابنِ مُنیبؔ
(نوٹ: عربی میں "رقیب" کہتے ہیں نگران یا نظر رکھنے والے کو، جیسے کراماََ کاتبین ہم پر نگران ہیں)
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "وَن، ٹو، تھری، فور، فائیو، وَنس آئی کاٹ آ فش الائیو" پر مبنی)
ایک، دو، تین، چار، پانچ
مچھلی پکڑی میں نے آج!
چھ ، سات، آٹھ، نو، دس
چھوڑ دیا پھر اُس کو بس!
چھوڑ دیا کیوں اُس کو جی؟
ڈر تھا مجھ کو کاٹے گی!
ڈرتے تھے تو پکڑی کیوں؟
میری مرضی، میں جانوں!
- ابنِ مُنیبؔ
"بچوں کی نظم"
(انگریزی نرسری رہائم "دیئر واز آ فارمر ہیڈ آ ڈاگ" پر مبنی)
دادو نے اک دنبہ پالا
ڈَمبَو اُس کا نام-او
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
ڈ - م - ب - و
اور ڈَمبَو اُس کا نام-او
- ابنِ مُنیبؔ
اُس کو آنا تھا نہ آیا، چل بسے نہ دن میں کیوں؟
ہائے قسمت میں ہماری رتجگا اِک اور تھا
ہم نے پایا عقْل کو بھی دائروں کی قید میں
مسئلے کی تہہ میں دیکھا، مسئلہ اِک اور تھا
پوچھتے تھے وہ، "کبھی دیکھا ہے ہم سا بے وفا؟"
ہم حریصِ صد جفا تھے، کہہ دِیا "اِک اور تھا!"
جنگ برپا تھی محبت اور تجسّس میں منیبؔ
اُس کے گھر کے راستے میں راستہ اِک اور تھا
- ابنِ مُنیبؔ
(ایک تجرباتی شعر)
I had a dream that you were here
پر خواب تو جُھوٹے ہوتے ہیں
Our deepest thoughts they do ensnare
وہ لوگ جو رُوٹھے ہوتے ہیں
- ابنِ مُنیبؔ
“بے بی مانیٹر"
رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔ "رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔ تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟ میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ
تحریر: ابنِ مُنیب
(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔ مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔ بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
The document is a poem expressing longing and devotion for a beloved. It uses rich imagery to describe the beauty and perfection of the beloved, and expresses how the beloved is the poet's companion, friend, and source of joy. It calls the beloved to come together with the poet.
Nou afsaanay aik kahani by ibnay muneebIbnay Muneeb
صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دِن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے!
'بارہ افسانے' کے تقریبا چار سال بعد 'نو افسانے، ایک کہانی' کے عنوان سے میرا دوسرا نثری مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ افسانے (اور کہانی) شامل ہیں جو میں نے نومبر۲۰۱۵ سے اب تک لکھے۔ کہتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا ایک مختلف کتاب پڑھتا ہے۔ دیکھیے آپ اِس کتاب میں کیا پڑھتے ہیں۔اِس سلسلے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔
بہت شکریہ،
ابنِ منیب
فروری ۲۰۲۰
(ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو
- اِبنِ مُنیبؔ
"وقار"
جمعے کی شب آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر سترہ سالہ احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ کو محلے والوں کے سامنے گھونسوں، لاتوں، اور گالیوں کی مدد سے وین میں لادا گیا اور پھر اِسی اہتمام کے ساتھ تھانے میں لا کر ایک جیل سَیل میں دھکیل دیا گیا۔ رات بھر وقفے وقفے سے پَیٹ کے بل لِٹا کر اور نیم برہنہ حالت میں خصوصی چمڑے کے جوتے سے اُس کی خاطر مدارات کی گئی۔ بیچ بیچ میں تھانیدار اور سپاہی حسبِ استطاعت ٹھڈے مارتے اور فحش گالیاں دیتے رہے۔
احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ پر الزام تھا کہ اُس نے کرکٹ ورلڈ کپ کے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کی ٹیم کا جھنڈا کمرے کی کھڑکی سے لٹکا رکھا تھا۔ تھانے میں چند دن کی اچھی طبیعت صفائی کے بعد اُس سے حلفیہ بیان لکھوایا گیا
"مَیں احمد دین ولد محمد دین سکنہ پاک پورہ، مکمل ہوش و حواس میں اور بغیر کسی زبردستی کے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ایک میچ کے دوران دشمن ملک کا جھنڈا کھڑکی سے لٹکایا۔ میرے اِس فعل نے بِیس کروڑ کی اِس باعزت قوم کے وقار کو پامال کِیا۔ میں آئندہ ایسی کسی بھی حرکت سے دُور رہوں گا۔"
اِس کے بعد اُسے تھانے سے باہر دھکیل دیا گیا۔
تحریر: ابنِ مُنیب
یہ جو دو چار تِرے پیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل کے سودائی ہیں، گلزار میں آ بیٹھے ہیں
بیچ اپنوں کے ہی کرتی ہے سیاست دُنیا
ہم ہی ناداں ہیں جو اغیار میں آ بیٹھے ہیں
گُل سے مطلب نہیں، نالہ ہی خدا ہے ہم کو
چھوڑ گلزار، سخن زار میں آ بیٹھے ہیں
تُو ترنّم، تُو تغزّل، تُو سُخَن بخش مِرا!
تیرے نغمات جگر تار میں آ بیٹھے ہیں
ہم کو نفرت ہے چھپائے ہوئے چہروں سے مُنیبؔ
چھوڑ مسجد، بھرے بازار میں آ بیٹھے ہیں
- اِبنِ مُنیبؔ
The Future of Independent Filmmaking Trends and Job OpportunitiesLetsFAME
The landscape of independent filmmaking is evolving at an unprecedented pace. Technological advancements, changing consumer preferences, and new distribution models are reshaping the industry, creating new opportunities and challenges for filmmakers and film industry jobs. This article explores the future of independent filmmaking, highlighting key trends and emerging job opportunities.
The Unbelievable Tale of Dwayne Johnson Kidnapping: A Riveting Sagagreendigital
Introduction
The notion of Dwayne Johnson kidnapping seems straight out of a Hollywood thriller. Dwayne "The Rock" Johnson, known for his larger-than-life persona, immense popularity. and action-packed filmography, is the last person anyone would envision being a victim of kidnapping. Yet, the bizarre and riveting tale of such an incident, filled with twists and turns. has captured the imagination of many. In this article, we delve into the intricate details of this astonishing event. exploring every aspect, from the dramatic rescue operation to the aftermath and the lessons learned.
Follow us on: Pinterest
The Origins of the Dwayne Johnson Kidnapping Saga
Dwayne Johnson: A Brief Background
Before discussing the specifics of the kidnapping. it is crucial to understand who Dwayne Johnson is and why his kidnapping would be so significant. Born May 2, 1972, Dwayne Douglas Johnson is an American actor, producer, businessman. and former professional wrestler. Known by his ring name, "The Rock," he gained fame in the World Wrestling Federation (WWF, now WWE) before transitioning to a successful career in Hollywood.
Johnson's filmography includes blockbuster hits such as "The Fast and the Furious" series, "Jumanji," "Moana," and "San Andreas." His charismatic personality, impressive physique. and action-star status have made him a beloved figure worldwide. Thus, the news of his kidnapping would send shockwaves across the globe.
Setting the Scene: The Day of the Kidnapping
The incident of Dwayne Johnson's kidnapping began on an ordinary day. Johnson was filming his latest high-octane action film set to break box office records. The location was a remote yet scenic area. chosen for its rugged terrain and breathtaking vistas. perfect for the film's climactic scenes.
But, beneath the veneer of normalcy, a sinister plot was unfolding. Unbeknownst to Johnson and his team, a group of criminals had planned his abduction. hoping to leverage his celebrity status for a hefty ransom. The stage was set for an event that would soon dominate worldwide headlines and social media feeds.
The Abduction: Unfolding the Dwayne Johnson Kidnapping
The Moment of Capture
On the day of the kidnapping, everything seemed to be proceeding as usual on set. Johnson and his co-stars and crew were engrossed in shooting a particularly demanding scene. As the day wore on, the production team took a short break. providing the kidnappers with the perfect opportunity to strike.
The abduction was executed with military precision. A group of masked men, armed and organized, infiltrated the set. They created chaos, taking advantage of the confusion to isolate Johnson. Johnson was outnumbered and caught off guard despite his formidable strength and fighting skills. The kidnappers overpowered him, bundled him into a waiting vehicle. and sped away, leaving everyone on set in a state of shock and disbelief.
The Immediate Aftermath
The immediate aftermath of the Dwayne Johnson kidnappin
The Evolution of the Leonardo DiCaprio Haircut: A Journey Through Style and C...greendigital
Leonardo DiCaprio, a name synonymous with Hollywood stardom and acting excellence. has captivated audiences for decades with his talent and charisma. But, the Leonardo DiCaprio haircut is one aspect of his public persona that has garnered attention. From his early days as a teenage heartthrob to his current status as a seasoned actor and environmental activist. DiCaprio's hairstyles have evolved. reflecting both his personal growth and the changing trends in fashion. This article delves into the many phases of the Leonardo DiCaprio haircut. exploring its significance and impact on pop culture.
Top IPTV UK Providers of A Comprehensive Review.pdfXtreame HDTV
The television landscape in the UK has evolved significantly with the rise of Internet Protocol Television (IPTV). IPTV offers a modern alternative to traditional cable and satellite TV, allowing viewers to stream live TV, on-demand videos, and other multimedia content directly to their devices over the internet. This review provides an in-depth look at the top IPTV UK providers, their features, pricing, and what sets them apart.
From Teacher to OnlyFans: Brianna Coppage's Story at 28get joys
At 28, Brianna Coppage left her teaching career to become an OnlyFans content creator. This bold move into digital entrepreneurship allowed her to harness her creativity and build a new identity. Brianna's experience highlights the intersection of technology and personal branding in today's economy.
Orpah Winfrey Dwayne Johnson: Titans of Influence and Inspirationgreendigital
Introduction
In the realm of entertainment, few names resonate as Orpah Winfrey Dwayne Johnson. Both figures have carved unique paths in the industry. achieving unparalleled success and becoming iconic symbols of perseverance, resilience, and inspiration. This article delves into the lives, careers. and enduring legacies of Orpah Winfrey Dwayne Johnson. exploring how their journeys intersect and what we can learn from their remarkable stories.
Follow us on: Pinterest
Early Life and Backgrounds
Orpah Winfrey: From Humble Beginnings to Media Mogul
Orpah Winfrey, often known as Oprah due to a misspelling on her birth certificate. was born on January 29, 1954, in Kosciusko, Mississippi. Raised in poverty by her grandmother, Winfrey's early life was marked by hardship and adversity. Despite these challenges. she demonstrated a keen intellect and an early talent for public speaking.
Winfrey's journey to success began with a scholarship to Tennessee State University. where she studied communication. Her first job in media was as a co-anchor for the local evening news in Nashville. This role paved the way for her eventual transition to talk show hosting. where she found her true calling.
Dwayne Johnson: From Wrestling Royalty to Hollywood Superstar
Dwayne Johnson, also known by his ring name "The Rock," was born on May 2, 1972, in Hayward, California. He comes from a family of professional wrestlers, with both his father, Rocky Johnson. and his grandfather, Peter Maivia, being notable figures in the wrestling world. Johnson's early life was spent moving between New Zealand and the United States. experiencing a variety of cultural influences.
Before entering the world of professional wrestling. Johnson had aspirations of becoming a professional football player. He played college football at the University of Miami. where he was part of a national championship team. But, injuries curtailed his football career, leading him to follow in his family's footsteps and enter the wrestling ring.
Career Milestones
Orpah Winfrey: The Queen of All Media
Winfrey's career breakthrough came in 1986 when she launched "The Oprah Winfrey Show." The show became a cultural phenomenon. drawing millions of viewers daily and earning many awards. Winfrey's empathetic and candid interviewing style resonated with audiences. helping her tackle diverse and often challenging topics.
Beyond her talk show, Winfrey expanded her empire to include the creation of Harpo Productions. a multimedia production company. She also launched "O, The Oprah Magazine" and OWN: Oprah Winfrey Network, further solidifying her status as a media mogul.
Dwayne Johnson: From The Ring to The Big Screen
Dwayne Johnson's wrestling career took off in the late 1990s. when he became one of the most charismatic and popular figures in WWE. His larger-than-life persona and catchphrases endeared him to fans. making him a household name. But, Johnson had ambitions beyond the wrestling ring.
In the early 20
Leonardo DiCaprio Super Bowl: Hollywood Meets America’s Favorite Gamegreendigital
Introduction
Leonardo DiCaprio is synonymous with Hollywood stardom and acclaimed performances. has a unique connection with one of America's most beloved sports events—the Super Bowl. The "Leonardo DiCaprio Super Bowl" phenomenon combines the worlds of cinema and sports. drawing attention from fans of both domains. This article delves into the multifaceted relationship between DiCaprio and the Super Bowl. exploring his appearances at the event, His involvement in Super Bowl advertisements. and his cultural impact that bridges the gap between these two massive entertainment industries.
Follow us on: Pinterest
Leonardo DiCaprio: The Hollywood Icon
Early Life and Career Beginnings
Leonardo Wilhelm DiCaprio was born in Los Angeles, California, on November 11, 1974. His journey to stardom began at a young age with roles in television commercials and educational programs. DiCaprio's breakthrough came with his portrayal of Luke Brower in the sitcom "Growing Pains" and later as Tobias Wolff in "This Boy's Life" (1993). where he starred alongside Robert De Niro.
Rise to Stardom
DiCaprio's career skyrocketed with his performance in "What's Eating Gilbert Grape" (1993). earning him his first Academy Award nomination. He continued to gain acclaim with roles in "Romeo + Juliet" (1996) and "Titanic" (1997). the latter of which cemented his status as a global superstar. Over the years, DiCaprio has showcased his versatility in films like "The Aviator" (2004). "Start" (2010), and "The Revenant" (2015), for which he finally won an Academy Award for Best Actor.
Environmental Activism
Beyond his film career, DiCaprio is also renowned for his environmental activism. He established the Leonardo DiCaprio Foundation in 1998, focusing on global conservation efforts. His commitment to ecological issues often intersects with his public appearances. including those related to the Super Bowl.
The Super Bowl: An American Institution
History and Significance
The Super Bowl is the National Football League (NFL) championship game. is one of the most-watched sporting events in the world. First played in 1967, the Super Bowl has evolved into a cultural phenomenon. featuring high-profile halftime shows, memorable advertisements, and significant media coverage. The event attracts a diverse audience, from avid sports fans to casual viewers. making it a prime platform for celebrities to appear.
Entertainment and Advertisements
The Super Bowl is not only about football but also about entertainment. The halftime show features performances by some of the biggest names in the music industry. while the commercials are often as anticipated as the game itself. Companies invest millions in Super Bowl ads. creating iconic and sometimes controversial commercials that capture public attention.
Leonardo DiCaprio's Super Bowl Appearances
A Celebrity Among the Fans
Leonardo DiCaprio's presence at the Super Bowl has noted several times. As a high-profile celebrity. DiCaprio attracts
Sara Saffari: Turning Underweight into Fitness Success at 23get joys
Uncover the remarkable journey of Sara Saffari, whose transformation from underweight struggles to being recognized as a fitness icon at 23 underscores the importance of perseverance, discipline, and embracing a healthy lifestyle.
Odia New Web Series at your fingerprint.mikedanoffice
Stay ahead of the curve with the latest in Odia entertainment! Our Odia new web series promise an exciting blend of fresh narratives, talented performances, and engaging plots. Immerse yourself in the evolving world of Odia storytelling with our curated selection of cutting-edge web content. for more visit: https://aaonxt.com/series
Leonardo DiCaprio House: A Journey Through His Extravagant Real Estate Portfoliogreendigital
Introduction
Leonardo DiCaprio, A name synonymous with Hollywood excellence. is not only known for his stellar acting career but also for his impressive real estate investments. The "Leonardo DiCaprio house" is a topic that piques the interest of many. as the Oscar-winning actor has amassed a diverse portfolio of luxurious properties. DiCaprio's homes reflect his varied tastes and commitment to sustainability. from retreats to historic mansions. This article will delve into the fascinating world of Leonardo DiCaprio's real estate. Exploring the details of his most notable residences. and the unique aspects that make them stand out.
Follow us on: Pinterest
Leonardo DiCaprio House: Malibu Beachfront Retreat
A Prime Location
His Malibu beachfront house is one of the most famous properties in Leonardo DiCaprio's real estate portfolio. Situated in the exclusive Carbon Beach. also known as "Billionaire's Beach," this property boasts stunning ocean views and private beach access. The "Leonardo DiCaprio house" in Malibu is a testament to the actor's love for the sea and his penchant for luxurious living.
Architectural Highlights
The Malibu house features a modern design with clean lines, large windows. and open spaces blending indoor and outdoor living. The expansive deck and patio areas provide ample space for entertaining guests or enjoying a quiet sunset. The house has state-of-the-art amenities. including a gourmet kitchen, a home theatre, and many guest suites.
Sustainable Features
Leonardo DiCaprio is a well-known environmental activist. whose Malibu house reflects his commitment to sustainability. The property incorporates solar panels, energy-efficient appliances, and sustainable building materials. The landscaping around the house is also designed to be water-efficient. featuring drought-resistant plants and intelligent irrigation systems.
Leonardo DiCaprio House: Hollywood Hills Hideaway
Privacy and Seclusion
Another remarkable property in Leonardo DiCaprio's collection is his Hollywood Hills house. This secluded retreat offers privacy and tranquility. making it an ideal escape from the hustle and bustle of Los Angeles. The "Leonardo DiCaprio house" in Hollywood Hills nestled among lush greenery. and offers panoramic views of the city and surrounding landscapes.
Design and Amenities
The Hollywood Hills house is a mid-century modern gem characterized by its sleek design and floor-to-ceiling windows. The open-concept living space is perfect for entertaining. while the cozy bedrooms provide a comfortable retreat. The property also features a swimming pool, and outdoor dining area. and a spacious deck that overlooks the cityscape.
Environmental Initiatives
The Hollywood Hills house incorporates several green features that are in line with DiCaprio's environmental values. The home has solar panels, energy-efficient lighting, and a rainwater harvesting system. Additionally, the landscaping designed to support local wildlife and promote